آرمی چیف تقرری کا پل صراط پار کرنے کے لیے تجویز


پاکستان میں ہر تین سال بعد آرمی چیف کی تقرری کا معاملہ تمام معاملات پر بازی لے جاتا ہے، اس وقت بھی جبکہ پاکستان تاریخ کے بدترین سیلاب کا سامنا کر رہا ہے، سینکڑوں لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، لاکھوں مکانات تباہ ہوچکے اور لاکھوں لوگ بے گھر ہوچکے ہیں، ایسے میں پاکستانی میڈیا میں جس مسئلے کا سب سے زیادہ چرچا ہے، وہ آرمی چیف کی تقرری ہے۔ یعنی آرمی چیف کی تقرری ایک ایسا مسئلہ بن چکا ہے، کہ جس نے پوری ریاست کو یرغمال بنا کر رکھ دیا ہے۔ اپوزیشن لیڈر عمران خان نے اس معاملے کو چھیڑ کر رنگ مزید گہرا کر دیا ہے۔

ایسے میں کچھ دانشمند دبی دبی آواز میں یہ رائے دیتے نظر آتے ہیں کہ آئین میں ایک ترمیم کی جائے اور سب سے سینیئر جنرل کو آرمی چیف بنانے کا قانون بنا دیا جائے، تاکہ ہر تین سال بعد ریاست کے یرغمال بننے کا سلسلہ ختم ہو اور آرمی چیف کی تقرری کسی بھی ہیجانی کیفیت کو برپا کیے بغیر ایک معمول کی کارروائی کی طرح گزر جائے، لیکن کیا کیا جائے، اس قسمت کا، جس کے نتیجے میں وہ سیاستدان میسر ہیں، جو اپنی مرضی کا آرمی چیف لانے کے لیے اور حاضر سروس آرمی چیف کی ناراضی سے بچنے کے لیے یہ بھاری پتھر چومنے کو تیار نظر نہیں آتے۔ حالانکہ اگر دیکھا جائے تو ذاتی پسند یا ناپسند کی بنیاد پر لایا گیا کوئی بھی آرمی چیف لانے والے کے لیے سود مند ثابت نہیں ہوسکا ہے۔

پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے جس ضیا الحق کو آٹھویں نمبر سے اٹھا کر آرمی چیف بنایا، اسی نے بھٹو کو پھانسی کے تخت پر جھلایا، نواز شریف نے جس پرویز مشرف کو اچھا بچہ سمجھ کر آگے کیا، اسی نے پھر شریف فیملی کو جدہ کا ٹکٹ کرایا۔ جس جنرل قمر جاوید باجوہ کو نواز شریف نے آرمی چیف لگا کر اس کے سسر کو خوشخبری دی، اسی نے پھر نواز شریف کی سیاست کا کریا کرم کیا۔ عمران خان جنرل باجوہ کو توسیع دینے کے باوجود بھی اپنا اقتدار نہ بچا سکے۔ لیکن سیاستدان ہیں کہ کچھ خوف کی وجہ سے اور کچھ لالچ کی وجہ سے اس ہیجان کو ختم کرنے کو تیار نہیں۔

سابق ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کی اقتدار سے رخصتی کے بعد کے چند سالوں کو بھٹو دور کے بعد دوسرا دور کہا جاسکتا ہے کہ جب سیاستدان کافی سے زیادہ طاقتور تھے اور اپنی مرضی کی ترامیم بھی کرتے رہے۔ اٹھارہویں ترمیم بھی اسی دور کا تحفہ ہے، جس کو پہلے دن سے رول بیک کرنے کی کوششیں کی جاتی رہیں۔ لیکن کیا وجہ تھی کہ جب سیاستدان اٹھارہویں ترمیم کر رہے تھے، تو اس وقت انہیں اس سوراخ کو بند کرنے کا خیال کیوں نہ آیا، جس سے وہ بار بار ڈسے جا چکے تھے۔ خوف تو نہیں ہو سکتا ، اگر خوف ہوتا تو اٹھارہویں ترمیم بھی نہ ہو پاتی، البتہ لالچ ضرور کارفرما ہو سکتا ہے۔ اب یہ لالچ آصف زرداری کو تھا، یا پھر نواز شریف کو تو یہ راز یا تو یہ شخصیات خود کھول سکتی ہیں، یا پھر ان کے کوئی قریبی رازدان۔

اس کے بعد ایک بار پھر قدرت نے سوراخ کو پاٹنے کا موقع دیا، جب جنرل باجوہ کی توسیع پر سنگین اعتراض اٹھا کر سپریم کورٹ نے آئین میں ترمیم کے لیے گیند سیاستدانوں کی کورٹ میں پھینک دی اور پھر جس طرح تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون نے یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سوراخ کھلا رکھنے کا فیصلہ کیا، ایسے اتحاد اور یکجہتی کی تصویر پیش کرنے سے پاکستان کی تاریخ قاصر ہے۔ البتہ، یہاں تذبذب کی کوئی بات نہیں، کیوں کہ تینوں پارٹیوں کا لاحق خوف واضح چھلک رہا تھا۔

قصہ مختصر، جب تک آرمی چیف کی تعیناتی کو ایک معمول کی کارروائی نہیں بنا دیا جاتا، تب تک سیاست میں مداخلت کا سلسلہ ختم نہیں ہو سکتا ۔ اگر ایک آئینی ترمیم کے ذریعے یہ طے کر دیا جائے کہ آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ پر سینیئر ترین جنرل ازخود آرمی چیف بن جائے گا اور کسی گڑ بڑ کی صورت میں وزیراعظم آرمی چیف کو برطرف کر سکتا ہے تو یقیناً سیاست میں ہونے والی مداخلت نصف ہو کر رہ جائے گی۔

ادارہ جاتی مداخلت کو روکنے کے لیے ابھی بہت سا سفر طے کرنے کی ضرورت ہے، البتہ شخصی مداخلت کو صرف ایک آئینی ترمیم کر کے روکا جاسکتا ہے۔ البتہ آئینی ترمیم کا یہ پتھر کتنا بھاری ہے؟ اور سیاستدان کب اسے سرکائیں گے، یہ جاننے کے لیے سفر ہنوز جاری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments