آج کل دنیا بھر کی خواتین اپنی بے حجابی یا حجاب کے باعث حضرات کی نظروں میں ہیں۔ وہ لوگ جو بے پردگی کو ناپسند کرتے ہیں وہ بھی اکثر بے پردہ اور بے حجاب خواتین کو اور کچھ نہیں تو نفرت / حسرت / مسرت بھری نگاہ سے دیکھے بنا نہیں رہ پاتے۔ انہی کالموں میں ہم ”مانی، حرا اور عرفان حسن“ کے عنوان سے اپنی تحریر میں یہ بھی عرض کر چکے ہیں کہ: ”جب کہ بخشتے تو وہ برقعے والیوں کو بھی نہیں :

جو ”برقعوں“ میں خود کو چھپائے ہوئے ہیں
قیامت وہی تو اٹھائے ہوئے ہیں ”

کہتے ہیں کہ کسی نے کسی شریف آدمی کو کوئی غلط چیز دیکھتے ہوئے دیکھ کر استفسار کیا کہ، ”شریف آدمی یہ آپ کیا دیکھ رہے ہیں؟“ انہوں نے جواب دیا، ”میں اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھ رہا ہوں۔“

اگر آپ ہماری بات کریں تو ہم نے آج تک کسی بھی بے پردہ یا باپردہ خاتون کو نفرت کی نگاہ سے نہیں دیکھا۔ اک نگاہ غلط انداز ہی ڈالی یا پھر پا لی:

اک نگاہ غلط انداز سہی
دل کی آخر کوئی قیمت ہوگی

جو صاحبان نگاہ غلط انداز کے بارے میں غلط سلط اندازے لگا رہے ہیں ان کو ہم بتا دیں کہ ”نگاہ غلط انداز“ کا مطلب ”اچٹتی نظر سے دیکھنا“ ہے۔ البتہ ہم  نے دیکھا ہے کہ دیکھنے والے اپنی یا ”اچٹتی“ کے ”الف“ کی جگہ بدل بدل کر بھی خواتین کو دیکھتے ہیں۔

اور کچھ صاحبان خواتین پر صرف ”پہلی نظر“ ہی ڈالتے ہیں کہ اسلام میں معاف ہے۔ اور اس پہلی نظر کا دورانیہ /طولانیہ بعض اوقات تا حد نظر ہوتا ہے۔ اور اتنی دور تک مار کرنے والی نظر کو صاحبان نظر پہلی کے بجائے میلی نظر سمجھتے ہیں۔

اور ایسے شریف لوگ بھی ہیں کہ ان کے بچے اپنی والدہ کے سامنے والد صاحب کے بلند کردار کی گواہی کچھ اس طرح سے دیتے ہیں کہ، ”اماں ابا تو کسی عورت کو بھی نہیں دیکھتے۔ بلکہ جس طرف سے کوئی عورت گزر جاتی ہے اس طرف والی آنکھ ہی بند کر لیتے ہیں۔“

جب کہ ان ساری اخلاقی پابندیوں اور مذہبی بندشوں کے باوجود بقول حکیم الامت علامہ اقبال:
ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویس
آہ! بیچاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار!

ایک بدھ حکایت کے مطابق: ’دو بھکشو کسی جنگل سے گزر رہے تھے‘ ان کے راستے میں ایک ندی آ گئی ’یہ لوگ جب ندی عبور کرنے لگے تو انھوں نے وہاں ایک چھ سات سال کی بچی دیکھی‘ (کسی جگہ بچی کے بجائے لڑکی کا ذکر کیا گیا ہے ) بچی بھی ندی پار کرنا چاہتی تھی لیکن ندی کا پانی تیز تھا لہٰذا وہ ڈر رہی تھی ’ایک بھکشو کو بچی پر رحم آ گیا‘ اس نے بچی کو کندھے پر اٹھایا ’ندی کے دوسرے کنارے پر پہنچا اور اسے اتار کر سفر شروع کر دیا۔

چار پانچ میل کے سفر کے بعد اچانک دوسرے بھکشو نے سر اٹھایا اور پہلے سے کہا ”تمہارا دھرم بھرشٹ ہو چکا ہے“ پہلے بھکشو نے پوچھا ”وہ کیسے؟“ دوسرا بولا ”تم نے نہ صرف ناری کو چھوا تھا بلکہ اسے کندھے پر اٹھا کر ندی کے دوسرے کنارے پر بھی پہنچایا“ ۔ پہلے بھکشو نے حیرت سے پوچھا ”میں نے یہ کام کب کیا تھا“ دوسرے بھکشو نے جواب دیا ”آج صبح“ پہلے بھکشو نے قہقہہ لگایا اور جواب دیا ”میں نے تو اس بچی کو ندی کے کنارے اتار دیا تھا، لیکن وہ ابھی تک تمہارے ذہن پر سوار ہے“ ۔

اسلامی دنیا میں غالباً برصغیر ہند و پاک اور بنگلا دیش یا پھر افغانستان جیسے چند ملک ہوں گے کہ جہاں خواتین حجاب کے ساتھ ساتھ نقاب اور مختلف قسم کے برقعے استعمال کرتی ہیں۔ ان میں سے کچھ بہ رضا و رغبت اور کئی سماجی اور رواجی دباؤ کے تحت ایسا کرتی ہیں تاہم باقی اسلامی دنیا میں چہرہ ڈھانپنا لازم نہیں۔

کچھ محققین کا خیال ہے کہ چہرے کو ڈھانپنا اصل میں بازنطینی سلطنت میں بعض گروہوں میں خواتین کے لباس کا حصہ تھا اور مشرق وسطیٰ پر عربوں کی فتح کے دوران اسلامی ثقافت میں اسے اپنایا گیا تھا۔

اسی طرح کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اصل میں نقاب یہودیت کا حصہ ہے۔

ان میں سے ایک مصر کی سابقہ رکن پارلیمنٹ آمنہ نصیر ہیں، جو الازہر یونیورسٹی میں اسلامی عقیدہ اور فلسفہ کی پروفیسر بھی ہیں۔ انہوں نے اخبار المصری الیوم کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ: نقاب اسلام میں نہیں ہے، بلکہ یہ ایک یہودی قانون ہے۔ اور یہ کہ زمانہ جاہلیت میں یہودی قبائل اور عرب ایک ہی علاقے میں مشترک طور پر رہتے تھے، اور یہودی قبائل سے نقاب میں سختی عرب قبائل میں منتقل ہوئی۔ ان کا خیال ہے کہ اسے مسلط نہ کریں اور نہ ہی رد کریں۔

جبکہ اخبار ”ٹائمز آف اسرائیل“ نے ان کے بیانات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کا بیان ”غلط ہے اور اس بات کا کوئی تاریخی یا ثقافتی ثبوت نہیں ہے کہ نقاب کی یہودی جڑیں ہیں۔“ عبرانی اخبار نے دعویٰ کیا کہ حجاب سے زیادہ سخت سر ڈھانپنے والے نقاب کا یہودی برادریوں سے کوئی تعلق نہیں، اس بات کا کوئی تاریخی ثبوت نہیں ہے کہ اس کی یہودی جڑیں ہیں، اور یہ کہ یہ یہودیوں سے مسلم اور عرب معاشروں میں منتقل نہیں ہوا۔ جامعہ الازہر میں اسرائیلی اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ کے سابق سربراہ محمد ابو غدیر نے اصرار کیا کہ پرانے عہد نامے میں نقاب کا ایک سے زیادہ مرتبہ ذکر آیا ہے اور یہ کہ اس کی ابتدا جزیرہ نما عرب میں ایک سماجی رسم کے طور پر ہوئی ہے نہ کہ مذہبی بنیاد پر ۔

اور الازہر یونیورسٹی کی پروفیسر نے انکشاف کیا کہ کچھ انتہا پسند یہودی قبائل اب بھی اپنی خواتین کو نقاب پہناتے ہیں۔ واضح رہے کہ آمنہ نصیر غض بصر پر اصرار کرتی ہیں۔

سورہ نور کی تیسویں آیت میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ: ”اے نبی ﷺ ! مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے، جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اس سے باخبر ہے۔“

غض کے معنی ہیں کسی چیز کو کم کرنے، گھٹانے اور پست کرنے کے۔ غض بصر کا ترجمہ عام طور پر ”نگاہ نیچی کرنا یا رکھنا“ کیا جاتا ہے۔ لیکن دراصل اس حکم کا مطلب ہر وقت نیچے ہی دیکھتے رہنا نہیں ہے، بلکہ پوری طرح نگاہ بھر کر نہ دیکھنا اور نگاہوں کو دیکھنے کے لیے بالکل آزاد نہ چھوڑ دینا ہے۔ یہ مفہوم ”نظر بچانے“ سے ٹھیک ادا ہوتا ہے، یعنی جس چیز کو دیکھنا مناسب نہ ہو اس سے نظر ہٹا لی جائے، قطع نظر اس سے کہ آدمی نگاہ نیچے کرے یا کسی اور طرف اسے بچا لے جائے۔

”بعض مواقع ایسے بھی آتے ہیں جن میں اجنبی کو دیکھنا ضروری ہوجاتا ہے۔ مثلاً کوئی مریضہ کسی طبیب کے زیرعلاج ہو، یا کوئی عورت کسی مقدمہ میں قاضی کے سامنے بحیثیت گواہ یا فریق پیش ہو، یا کسی آتش زدہ مقام میں کوئی عورت گھر گئی ہو، یا پانی میں ڈوب رہی ہو، یا اس کی جان یا آبرو کسی خطرے میں مبتلا ہو۔ ایسی صورتوں میں چہرہ تو درکنار حسب ضرورت ستر کو بھی دیکھا جا سکتا ہے، جسم کو ہاتھ بھی لگایا جا سکتا ہے، بلکہ ڈوبتی ہوئی یا جلتی ہوئی عورت کو گود میں اٹھا کر لانا بھی صرف جائز ہی نہیں، فرض ہے۔ شارع کا حکم یہ ہے کہ ایسی صورتوں میں جہاں تک ممکن ہو اپنی نیت پاک رکھو، لیکن اقتضائے بشریت سے اگر جذبات میں کوئی خفیف سی تحریک پیدا ہو جائے تب بھی کوئی گناہ نہیں۔ کیونکہ ایسی نظر اور ایسے لمس کے لیے ضرورت داعی ہوئی ہے اور فطرت کے مقتضیات کو بالکل روک دینے پر انسان قادر نہیں ہے۔

تاہم عام طور کئی لوگ غض بصر کے بجائے غیظ بصر یعنی غصہ کی نظر سے کام لینا زیادہ پسند کرتے ہیں۔

ایران میں سر نہ ڈھانپنے کے جرم میں ایک کرد خاتون مہسا امینی کی گرفتاری اور ان کا پولیس حراست میں ہلاکت کا تازہ واقعہ المناک ہے۔