”امراؤ جان“ کے کردار کا نفسیاتی مطالعہ


کہانی کے بیج کی تخلیق اسی روز ہی ہوئی تھی جس روز خدائے واحد نے کائنات کو وجود بخشا تھا۔ مگر کہانی کے اس بیج کو جڑ تب نصیب ہوئی جب خدا کے حکم سے عزرائیل نے آدم کی تخلیق کی خاطر مٹی سے مٹی کو جدا کیا۔ کہانی کو وجود کا پیرہن تب نصیب ہوا، جب آدم کو مسجود ملائک دیکھ کر عزازیل نے تکبر کا قصد کیا۔ کہانی کو بیان کرنے کے مختلف ڈھنگ اپنائے جاتے رہے۔ کسی نے داستان کی آغوش میں کہانی کے رموز پر گفتگو کی تو کسی نے ناول کے کینوس کو بیان کا ذریعہ بنایا۔

زندگی کے متنوع پہلوؤں کو کثیر جہات کے لفافہ میں بند کر کے پیش کرنے کا نام ناول ہے۔ ناول کی کئی اقسام ہیں اور ہر قسم اپنی نوعیت کے لحاظ سے زندگی کو بیان کرتی ہے۔ ناول کے لکھاریوں میں ایک نام مرزا ہادی رسواء کا ہے، جو ایک ایسے لکھاری ہیں جنہوں نے لکھنؤی تہذیب میں طوائف کے مقام و مرتبہ کو زیر بحث لاتے ہوئے اردو ادب کو نہ صرف ایک نئے موضوع سے متعلق کروایا بلکہ ادب کو نفسیاتی ناول سے متعارف کروانے کا سہرا بھی انہی کے سر ہے۔ میرا اشارہ مزا ہادی رسواء کے ناول ”امراؤ جان ادا“ کی طرف ہے۔ مرزا ہادی رسواء نے ناول ”امراؤ جان ادا“ کے مرکزی کردار ”امراؤ جان ادا“ کی زندگی کو چار مراحل میں تقسیم کر کے معاشرے کے سامنے پیش کیا ہے۔

1۔ امیرن
2۔ امراؤ
3۔ امراؤ جان
4۔ امراؤ جان ادا
اس مضمون میں کردار امراؤ جان ادا کی زندگی کے تیسرے مرحلے ”امراؤ جان“ کو زیر بحث لایا گیا ہے۔
چند جملے پہلے دو مراحل کے متعلق بیان کرنے کے بعد اصل موضوع کی جانب بڑھتے ہیں۔

امیرن آنگن میں کھلے ہوئے ایسے پھول کی مانند تھی جو باد خزاں سے نا آشنا تھا۔ مگر جب اسے چمن سے توڑ کر قفس میں ڈال دیا گیا، اسے حوادث زمانہ سے واقفیت ہوئی اور قیامت یہ ٹوٹی کہ وہ اپنا نام اور اپنی پہچان تک نہ بچا سکی۔ امیرن کو جب امراؤ کا روپ ملا، اس کی زندگی میں رعنائی شامل ہوئی اور وہ بسم اللہ، خورشید اور گوہر مرزا کے گروہ میں شامل ہو کر امیرن کو بھولنے کی سعی میں سرگرداں ہوئی۔ مگر اداسیوں نے اس کا پیچھا نہ چھوڑا۔ خانم کے کوٹھے پر امراؤ نامی پھول پل بھر میں کھل اٹھتا اور پل بھر میں اداسی کی یلغار سے مرجھا جاتا۔

امراؤ کو امراؤ جان کا روپ ملتے ہی اسے انتخاب اور اختیار کا حق تو مل گیا۔ مگر جب وہ نئی دنیا کی خواہش میں کوٹھے سے چھٹکارا پانے کی کوشش کرتی، اس کا سر قفس کی دیواروں سے ٹکرا جاتا اور قید کی داستان ہنٹر بن کر اس پر برستی۔

امراؤ جان کی زندگی کا المیہ یہ ہے کہ وہ حقیقی معنوں میں کبھی طوائف نہ بن پائی اور اس میں وہ ناز و ادا نہ چمکی جو رنڈیوں کا خاصہ ہوتی ہے۔ اس کے پیچھے اس لا شعور کی کار فرمائی معلوم پڑتی ہے، جس کے خمیر میں گھریلو عورت کے صدیوں پرانے جذبات شامل تھے۔ وہ حقیقی معنوں میں کبھی طوائف نہ بن پائی مگر فلسفہ تربیت کے تحت وہ چند لوگوں سے جھوٹی سچی محبت کا اظہار ضرور کرتی ہے۔

امراؤ جان کی زندگی حوادث زمانہ کا شکار ہے۔ ایک لمحے اس کی زندگی میں نواب سلطان ایسی خوشی کی شمع روشن ہوتی ہے، تو دوسرے لمحے اداسیوں کا خیال، محرومیوں کا احساس اور پناہ گاہ نہ ہونے کا غم، خوشی کی شمع کو گل کر دیتے ہیں۔ پناہ گاہ نہ ہونے کا غم اس کے اندر گھر بسانے کی تمنا پروان چڑھاتا ہے۔ اس تمنا کی تکمیل کی خاطر وہ کبھی نواب سلطان سے تو کبھی فیض علی ڈاکو سے محبت کا اظہار کرتی ہے۔ اسی کوشش میں وہ اکبر علی خاں کے گھر بیٹھ بھی جاتی ہے، مگر اس کی آرزو تکمیل نہیں ہوتی۔ وہ خواب سجاتی ہے مگر فیض علی ڈاکو کی دھوکہ دہی، خانم کی قید، بے بسی کا غم اور معاشرتی پابندیاں اس کی خوابوں کی تجوری کو درہم برہم کرتے ہوئے اس کے خوابوں کو سولی پر لٹکا دیتے ہیں۔

زندانی تقدیر جب اسے فیض آباد کے اس گھر کے سامنے لا کھڑا کرتی ہے جس کے آنگن کا وہ کبھی پھول تھی، وہ اندر جانے کی آرزو کرتی ہے تاکہ امیرن کو تلاش کر سکے۔ مگر درمیان میں سالوں کی دوری کی ایسی دیوار حائل ہوتی ہے جس پر خاندانی روایات اور معاشرتی پابندیوں کا پہرہ ہوتا ہے۔ سگے رشتے اسے ٹھکرا دیتے ہیں اور اس کا بھائی نادیدہ دباؤ کے باعث اسے اپنانے سے انکار کر دیتا ہے۔ اس وقت امراؤ جان کو دوسری بار جلاوطنی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

پہلی جلاوطنی جسمانی تھی اور اس میں امراؤ جان کا قصور نہیں تھا۔ مگر دوسری جلاوطنی روحانی جلاوطنی ہے جس کا محرک معاشرتی روایات اور نادیدہ دباؤ ہے۔ روحانی جلاوطنی سے دوچار ہونے کے باعث وہ مرہم، جو فیض علی ڈاکو نے امید کی کرن دکھا کر امراؤ جان کے زخم پر رکھا تھا، زہر بن جاتا ہے اور امراؤ جان کے گھاؤ کو سدا بہار بنانے کی وجہ ثابت ہوتا ہے۔

امراؤ جان کی زندگی متضاد جذبات کی کشمکش میں گھری ہوئی ہے۔ ایک طرف وہ گھر بسانے کی تمنا کرتی ہے، دوسری جانب خانم کو اپنی زندگی کا واحد وارث سمجھتی ہے۔ کبھی خانم کی قید سے چھٹکارا چاہتی ہے تو کبھی کوٹھے میں خود کو محفوظ سمجھتی ہے۔ نفسیات میں اس کے لئے ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے جسے جاذبیت (Ambivalence) کہتے ہیں۔

امراؤ جان ادا کی نفسیاتی کیفیت کے متعلق ڈاکٹر غلام حسین اظہر تحریر کرتے ہیں :

”طوائف زادی کے اندر ہمیشہ ایک شریف عورت زندہ رہتی ہے، کیونکہ عورت کی فطرت کا خاصہ ہے کہ وہ چار دیواری کے اندر ہی تحفظ محسوس کرتی ہے اور پیار سے بھری فضا اس کے لئے باعث سکون ہے۔“

المختصر امراؤ جان کی زندگی اداسیوں، محرومیوں، خوابوں کے خساروں، تشنہ تمناؤں اور جھوٹی سچی محبتوں ایک ایسا مجموعہ ہے جو اسے کبھی زندگی کی رعنائی سے متعارف کرواتا ہے تو کبھی معاشرتی پابندیوں کے ستم اور روایاتی جبر سے۔

(جناب ڈاکٹر سفیر حیدر کی طلباء سے محبت کے نام)

علی حسن اویس

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی حسن اویس

علی حسن اُویس جی سی یونی ورسٹی، لاہور میں اُردو ادب کے طالب علم ہیں۔ ان کا تعلق پنجاب کے ضلع حافظ آباد سے ہے۔ مزاح نگاری، مضمون نویسی اور افسانہ نگاری کے ساتھ ساتھ تحقیقی آرٹیکل بھی لکھتے ہیں۔

ali-hassan-awais has 66 posts and counting.See all posts by ali-hassan-awais

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments