مائتھالوجیکل اسٹوریز۔ ایک جہان حیرت۔ قسط نمبر 2


دوستو مائتھالوجیکل اسٹوریز کے دوسرے حصے کے ساتھ ہم حاضر خدمت ہیں۔

ہم گنیش جی کی بات کر رہے تھے۔ قرآن فرماتا ہے کہ دوسروں کے جھوٹے خداؤں کو بھی برا نہ کہو۔ تو اب چاہے کوئی بت ہے یا جو بھی ہے ہمیں دوسروں کے مذہبی جذبات کا خیال کرتے ہوئے انھیں اچھی طرح مخاطب کرنا چاہیے۔ صرف ایک یہی عمل ہے جو دوسروں کے لیے ہمارے دل میں نرم گوشہ پیدا کر سکتا ہے۔

گنیش جی اپنے پریوار میں اکیلے نہیں ہیں۔ وہ پورا خاندان ہے۔ شیو شنکر، ماتا پاروتی ان کا بیٹا کارتک یا کارتکیہ (یہ ستاروں کے ایک نکھشتر اور دیسی مہینوں میں سے ایک نام ہے جو انہی سے منسوب ہے ) اور گنیش۔ یہ پریوار سچ تھا یا نہیں لیکن شیو جی تاریخی سچ ہیں۔ خیر یہ کوئی فیصلہ کن رائے نہیں ہے محققین کو اس پر مزید ریسرچ کرنے کی ضرورت ہے۔

اب ہم اس پورے خاندان کو مائتھالوجی میں تلاش کرتے ہیں یعنی یہ دیکھتے ہیں کہ ان کے خاندان کی کہانی کیوں گھڑی گئی۔ یہ جاننے کے لیے تو سب سے پہلے آپ کو شنکر جی کی پوری تاریخ اور مکمل تعارف سے واقفیت کی ضرورت ہے۔ شنکر جی کو مہا کال اور آدی پرش بھی کہا جاتا ہے۔ یعنی کال بعمنی وقت اور مہا کال جو وقت کے ساتھ بھی ہیں اور کال بھی یعنی موت بھی یا موت دینے والے دیوتا بھی۔

اب ہم نے آپ کو پربرہم کا تعارف تو کرایا ہی نہیں جوش تحریر میں سیدھے گنیش سے ہی شروع ہو گئے۔ تو پربرہم کا تعارف کروانے کے لیے ہم آپ کو ٹائم مشین کے ذریعے کچھ پیچھے کے زمانوں کی سیر کرواتے ہیں۔

ہم نے اس تحریر کا کچھ حصہ سر ادریس آزاد صاحب کے لیکچرز سے مستعار لیا ہے بلکہ من و عن کاپی کیا ہے۔ اور جو سنسکرت بھاشا میں لکھا ہے وہ ہماری تحریر ہے۔ لہذا شیو کو سمجھنے سے پہلے آپ ویدک دھرم میں پربرہم کو سمجھ لیجیے۔

ویدگیان
ناتھ چتر ببجھ انتریامی
رگھو ویراٹ روپوں کے سوامی۔
(اس موضوع میں فزکس اور کوانٹم فزکس کا در آنا ناگزیر ہے، آگے چل کر آپ اس کا مقصد سمجھ جائیں گے )
جس کی چار سمتیں ہیں اور جو ایٹم سے لے کر کوہ ہمالیہ تک ہر روپ کا سوامی ہے۔

برہمانڈ /یونیورس میں الگ الگ لوک (رہائشی مقامات) ہیں۔ یوں تو ہزاروں لوک ہیں جن میں ہزارہا مخلوقات رہتی ہیں جیسے کہ پرتھوی لوک ہے یعنی یہ زمین جس کے واسی منشیہ (انسان) ہیں۔ ایسے ہی برہم لوک (جہاں جد اعلی رہتے ہیں ) ہے، پر برہم لوک ہے ( یہ مقام سدرۃ المنتہی سے آگے والا ہے جہاں اللہ اپنے علوم و صفات سمیت اس پوری کائنات کو گھیرے ہوئے ہیں ) دیو لوک ( وہ مقام جہاں فرشتے رہتے ہیں ) ہے، گاندھروا لوک ہے (یہ بھی ایک نوری مخلوق ہے ) پھر ویکنٹھ لوک ہے (یہ وہ جگہ ہے جس کے قریب الگ الگ درجات کی جنت ہے ) ویکنٹھ لوک دراصل سناتن پرش (یا وشنو جی یا کرشن جی یا آپ کوئی اوتار کہہ لیں ان کا دائمی گھر ہے ) ویکنٹھ لوک دراصل مختلف درجات کی حامل جگہ ہے جہاں اس دنیا سے انسان کے روپ میں مکتی پانے والی ارواح دائمی واس کرتی ہیں۔ ایسے ہی کوٹی کوٹی برہمانڈ ہیں۔ یعنی کروڑوں یونیورسز ہیں۔

ہر یونیورس کا برہما الگ ہوتا ہے برہما وہ دیو یا فرشتہ ہے جو اپنی کائنات کی تخلیق کرتا۔ ہے یعنی جب خدا نے کن کہا اور فرشتے یا دیو اس کائنات کو بنانے لگے تو ہر فرشتے کی الگ ڈیوٹی تھی ایک ایک کائنات بنانے کی (یہ۔ وہی۔ گلیکسیز ہیں جن کو کل رات جیمز ویب ٹیلی سکوپ کی مدد سے دیکھا گیا)

اور اتنی سب مخلوقات کا رچیئتا (خالق و مالک) اجنما، اویناشی، اکال، ( زمان و مکان سے پرے، لافانی، جو نہ پیدا ہوا نہ مرے گا) پربرہم ہے۔ یعنی وہ جو اس برہم سے پرے ہے۔ جس نے یہ برہم اور برہم لوک بنائے ہیں جو (حواس) سے پرے ہے نہ وہ مرتا ہے نہ جنم لیتا ہے نہ کھاتا ہے نہ پیتا ہے۔

البتہ وہ اس کائنات کے کنڑ کنڑ ( ایک ایک ایٹم میں ) موجود ہے۔ اب ذرا سی دیر کے لیے اس گفتگو کو یہیں روکتے ہیں۔ آپ سب کوانٹم فیلڈ تھیوری کے بارے میں کم یا زیادہ جانتے ہی ہوں گے۔

۔

کوانٹم فیلڈ تھیوری کے مطابق یہ کائنات ذرات سے نہیں بلکہ مختلف فیلڈوں سے بنی ہوئی ہے۔ ایک ذرہ مثلاً الیکٹران یا کوارک دراصل کسی بھی فیلڈ میں پیدا ہونے والے اشتعال ( ایکسائٹیشن) کا نام ہے۔ یہ بات سمجھنا بظاہر مشکل ہے لیکن فی الحقیقت یہ نہایت دلچسپ اور آسان تصور ہے۔ کوانٹم فیلڈ دراصل ایک ریاضیاتی سیال (mathematical fluid) ہے۔ تصور کریں کہ ایک ٹب میں پانی بھرا ہوا ہے اور پانی بالکل ساکن ہے۔ ایسی صورت میں ہم کہیں گے کہ فیلڈ میں کوئی اشتعال یعنی ایکسائٹیشن (excitation) نہیں ہے۔

لیکن اگر آپ کسی پنسل کی نوک سے ٹھہرے ہوئے پانی کی سطح کو چھوئیں تو عین اس جگہ جہاں آپ کی پنسل کی نوک نے پانی کو چھوا، ایک بہت ہی ہلکا سا ابھار پیدا ہو گا۔ یہ ابھار بہت ہی مختصر وقت کے لیے پیدا ہو گا اور پھر نیچے گر جائے گا۔ عام طور پر بارش میں ہم یہ منظر دیکھتے ہیں۔ جب فرش پر اتھلا پانی ہوتا ہے اور اس پر بارش کے قطرے گرتے ہیں تو ہر قطرے سے ایسے ہی ابھار پیدا ہوتے ہیں۔ اگر قطرہ بہت زور سے گر رہا ہو تو بلبلے بھی بنتے ہیں۔ لیکن ہمیں فیلڈ میں ایکسائٹیشن کی تفہیم کے لیے صرف ابھاروں کی ہی ضرورت ہے۔

خیر! تو یہ ہے ذرہ۔ ہر ذرے کی اپنی فیلڈ ہوتی ہے۔ فیلڈ کا تصور الیکٹرانوں، کوارکوں اور بوزانوں کی فیلڈوں تک ہی محدود نہیں۔ بلکہ ہر ایک پارٹیکل کی اپنی الگ فیلڈ ہوتی ہے۔ الیکٹرانوں کی فیلڈ کو الیکٹران فیلڈ کہتے ہیں۔ فوٹانوں کی فیلڈ کو الیکٹرو میگنیٹک فیلڈ کہتے ہیں۔ ہگزبوزانوں کی فیلڈ کو ہگز فیلڈ کہتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ ہماری کائنات ان فیلڈوں سے بھری ہوئی ہے۔ ہر ذرے کی اپنی الگ فیلڈ ہونے کے باوجود یہ تمام کی تمام فیلڈیں آپس میں ایک دوسرے کے اندر کچھ اس طرح سے پیوست ہیں کہ ایک دوسرے کے ساتھ تعامل بھی کرتی رہتی ہیں اور جدا جدا بھی رہتی ہیں۔ یوں سمجھ لیں کہ کائنات کے گلاس میں کسی نے مختلف رنگوں کے محلول کچھ اس طرح سے ڈالے ہیں کہ ایک مشترکہ محلول وجود میں آ جانے کے باوجود سب رنگ ایک دوسرے سے جدا جدا بھی رہتے ہیں۔

یہ کائنات انہی فیلڈوں سے بنی ہوئی ہے۔ ذرات اپنی فیلڈ سے باہر وجود نہیں رکھ سکتے کیونکہ ذرات فقط کسی فیلڈ میں وقتی اشتعال (ایکسائٹیشن) کا نام ہیں۔ فیلڈ ساکت و ساکن ہو تو اس وقت کوئی ذرہ موجود نہیں ہوتا۔ مثلاً خلا (سپیس) میں الیکٹران فیلڈ تو موجود ہے لیکن وہاں الیکٹران نہیں ہیں کیونکہ خلا میں موجود الیکٹران فیلڈ میں کوئی ایکسائٹیشن نہیں ہے۔ بالکل ویسے جیسے پرشور موجوں (waves) کے مقابلے میں پر سکوت سمندر۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر کوانٹم فیلڈ تھیوری کا وجود نہ ہوتا تو ہم ڈبل سلٹ ایکسپیری منٹ کے معمے کو کبھی حل نہیں کر سکتے تھے۔ ڈبل سلٹ ایکسپیری منٹ کیا ہے؟

ڈبل سلٹ کا مطلب ہے دو جھریوں والی پلیٹ ۔ جب ڈبل سلٹ میں سے الیکٹران گزارے جاتے ہیں تو بجائے اس کے کہ وہ مادے کے ذرات جیسے طرزعمل کا مظاہرہ کریں، وہ موجوں (waves) جیسا طرزعمل کرنے لگتے ہیں۔ یعنی جونہی وہ ڈبل جھریوں میں سے گزرتے ہیں وہ سمندر کی موجیں بن جاتے ہیں۔ اور جیسے ایک موج اپنے ساتھ والی دوسری موج پر اثر انداز ہوتی ہے، اس کی شکل (شیپ) بدل دیتی یا اسے تیز یا سست کر دیتی ہے، بالکل ویسے ہی الیکٹرانوں کی موجیں بھی ایک دوسرے پر اثرانداز ہوتی اور انٹرفیئرنس پیٹرن بناتی یا ایک دوسرے کے اثر کو کینسل کرتی ہیں۔

جس کی وجہ سے ڈبل سلٹ ایکسپیری منٹ کی عقبی دیوار (سکرین) پر موجی پیٹرن وجود میں آتا ہے۔ اگر ایک ایک الیکٹران کو وقفے وقفے سے بھی فائر کیا جائے تب بھی وہ موجی پیٹرن ہی بناتے ہیں۔ اگر الیکٹران مادے کے ذرات ہیں تو پھر انہیں مادے کے ذرات جیسا ہی طرزعمل پیش کرنا چاہیے تھا۔ لیکن سچ یہ ہے کہ الیکٹران فقط اپنی فیلڈ (سمندر) میں پیدا ہونے والا اشتعال یا ایکسائٹیشن ہیں، کسی سمندری موج (ٹائیڈ) کی طرح۔ جیسے پانی کی سطح پر پیدا ہونے والے دو ابھار آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ مدغم بھی ہوسکتے ہیں یا ایک دوسرے کی شکل بدل سکتے ہیں یا ایک دوسرے کی رفتار کو تیز یا سست کر سکتے ہیں بعینہ اور بالکل اسی اصول کی بنا پر دو ذرات بھی ایک دوسرے کے ساتھ تعامل کرتے ہیں۔ کیونکہ ذرات بذات خود کچھ نہیں ہیں وہ فقط ایک فیلڈ میں پیدا ہو جانے والا وقتی اشتعال ہیں۔

جس طرح پانی کی سطح پر ابھار سا پیدا ہو جائے تو ہم اسے موج کہہ کر پکارتے ہیں اور پانی کی سطح میں سوراخ سا پیدا ہو جائے تو ہم اسے بھنور کہہ کر پکارتے ہیں۔ بعینہ اسی طرح الیکٹران فیلڈ میں ابھار پیدا ہو جائے تو ہم اسے ایک الیکٹران کہہ کر پکارتے ہیں اور اگر الیکٹران فیلڈ میں سوراخ سا پیدا ہو جائے تو ہم اسے پازیٹران (اینٹی الیکٹران) کہہ کر پکارتے ہیں۔ یعنی ہرفیلڈ کے ہر ذرے کا ایک اینٹی ذرہ بھی ہوتا ہے۔ جو اس فیلڈ کا موجی ابھار نہیں بلکہ بھنور ہے۔ الیکٹرانوں کا الٹ (ضد مادہ) پازیٹران ہے۔ ایک پازیٹران ہوتا الیکٹران ہی ہے لیکن اس کا چارج منفی کی بجائے مثبت ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک کوارک کا اینٹی کوارک بھی ہوتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ یہی وجہ ہے کہ مادہ اور ضد مادہ ( matter and antimatter) دونوں ہی مادے کی قسمیں ہیں۔ اور دونوں کا وجود واقعی ہے۔

ہگز فیلڈ چونکہ فقط ایک سکیلر فیلڈ ہے، اس لیے یہ صرف اعداد سے بنی ہوئی فیلڈ ہے۔ باقی بوزانوں، مثلاً گلیوآن، فوٹان، ڈبلیو بوزان اور زیڈ بوزانوں کی فیلڈیں ویکٹروں سے بنی ہوئی فیلڈیں ہیں، جبکہ فرمیانوں کی فیلڈیں سپنروں (spinners) سے بنی ہوئی ہیں۔ یہ تینوں قسمیں سٹینڈرڈ ماڈل کے تین اہم اجزا ہیں۔ یاد رہے کہ سٹینڈرڈ ماڈل مرتب کرنے کا سہرا جن تین نوبل انعام یافتہ سائنسدانوں کے سر ہے، ڈاکٹر عبدالسلام ان میں سے ایک ہیں۔ ایک غیر سائنسی قاری کو بوزانوں اور فرمیانوں کا فرق سمجھانا اگرچہ مشکل ہے لیکن اتنا ضرور بتایا جاسکتا ہے کہ روشنی کا ذرہ فوٹان ایک بوزان ہے جبکہ مادے کا ذرہ الیکٹران ایک فرمیان ہے۔

فزکس میں فیلڈوں کی ان تینوں قسموں کو ایک دوسرے سے جدا کرنے والی خصوصیت کو سپن (spin) کہتے ہیں۔ سپن زیرو، ہگز بوزانوں کا سپن ہے، سپن ایک (ون) باقی بوزانوں یعنی فوٹانوں، گلیوآنوں وغیرہ کا سپن ہے اور سپن ہاف (آدھا) فرمیانوں کا سپن ہے۔ یہ سپن، ایک ایسی خصوصیت ہے جو ہم پر ذرات (پارٹیکل) کی ریاضیاتی شکلیں واضح کرتی ہے۔ ان ریاضیاتی شکلوں کی وجہ سے ہم اس ریاضیاتی سیال (mathematical fluid) کو تصور میں لا سکتے ہیں جس کے وجود کو ہی فیلڈ کہا جا رہا ہے۔

بوزانوں کی کوانٹم فیلڈ کو صرف اعداد کی مدد سے ظاہر کیا جاسکتا ہے۔ جیسے مثلاً ہگزفیلڈ کو ہم سکیلر قیمتوں کی صورت ظاہر کرتے ہیں۔ اسی طرح باقی بوزانوں یعنی فوٹانوں وغیرہ کو ہم ویکٹروں کی قیمتوں کی صورت ظاہر کرتے ہیں۔ ان دونوں قسموں میں بہرحال ہم نے قیمتوں کو اعداد (numbers) سے ظاہر کیا ہے۔ اور ہم جانتے ہیں کہ اعداد کی دنیا میں ضرب کا عمل استبدالی (commutative) ہے۔ استبدالی سے مراد یہ ہے کہ اگر ہم دو نمبروں کو آپس میں ضرب دینے کے لیے ان کے مقامات میں ادلہ بدلی کر دیں تو حاصل ضرب کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ مثلاً اگر ہم پانچ ضرب سات لکھیں، یا سات ضرب پانچ، ہر دوصورتوں میں جواب ایک ہی آئے گا، یعنی پینتیس۔ چنانچہ ہم جانتے ہیں کہ ایکس ضرب وائی برابر ہوتا ہے، وائی ضرب ایکس کے۔

x×y=y×x

چنانچہ بوزانوں کی فیلڈوں کو اعداد سے ظاہر کیا جاسکتا ہے لیکن فرمیانوں کی فیلڈوں کو ان عام اعداد سے ظاہر کرنا ممکن نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فرمیانوں کو اعداد کی ایک نئی قسم یعنی گراس مین (Grassmann numbers) نمبروں سے ظاہر کیا جاتا ہے ۔ گراس مین نمبروں کے نام میں بے شک نمبر (عدد) کا لفظ موجود ہے لیکن فی الحقیقت یہ نمبر نہیں ہیں۔ یہ فقط مجرد ریاضیاتی اصول ہیں۔ گراس مین نمبروں کی دنیا میں اعداد کی استبدالی خصوصیت فنا ہوجاتی ہے۔ یہاں پانچ ضرب سات اور سات ضرب پانچ میں فرق ہے۔ یہاں دونوں کا جواب پینتیس نہیں آتا۔ یعنی یہاں ایکس ضرب وائی برابر نہیں ہے وائی ضرب ایکس کے۔ بلکہ یہاں ایکس ضرب وائی برابر ہے مائنس وائی ضرب ایکس کے۔

x×y=-y×x
یہی وجہ ہے کہ گراسمین نمبروں کا مربع (سکوئر) ہمیشہ صفر ہوتا ہے۔
θa×θb=۔ θb×θa
θ^ 2 = 0

ہم گراس مین نمبروں کو ضد استبدال (anti commutative) کہہ سکتے ہیں۔ عام اعداد کے اعتبار سے یہ ایک نہایت حیران کن خصوصیت ہے۔ کیونکہ اس طریقے پر ہم عام اعداد کی ریاضی حل نہیں کر سکتے۔ مثلاً ہم یوں نہیں لکھ سکتے کہ،

5×5=0
5^2=0

لیکن مادے کے ذرات یعنی فرمیانوں کو آپس میں جمع یا ضرب کرنے کے لیے ہم ایسا کر سکتے ہیں۔

چونکہ بوزانوں کو عام اعداد کی مدد سے ظاہر کیا جاسکتا ہے اس لیے جب ہم دو بوزانوں کا مربع (سکوئر) لیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ دونوں ذرات ایک دوسرے میں مدغم ہوچکے ہیں۔ لیکن ہم دو فرمیانوں کو ایک دوسرے میں مدغم نہیں کر سکتے۔ کیونکہ گراس مین نمبروں کا مربع لینا ناممکن ہے۔ گراس مین نمبروں کا مربع ہمیں ہمیشہ صفر جواب دیتا ہے۔ فزکس کے اسی اصول کو پاؤلی ایکسکلیوژن پرنسپل بھی کہتے ہیں۔ پاؤلی ایکسلیوژن پرنسپل یہ ہے کہ دو فرمیان بیک وقت ایک جگہ ایک ہی حالت میں اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ یہ اصول اس سوال کا جواب بھی فراہم کرتا ہے کہ ہم زمین میں دھنس کیوں نہیں جاتے یا اشیا ایک دوسرے میں ضم کیوں نہیں ہو جاتیں۔ اس لیے کیونکہ الیکٹران ایک دوسرے کے اندر سے نہیں گزر سکتے۔

ہگز فیلڈ کی وجہ سے مادہ، مادہ کہلاتا ہے۔ یہ فیلڈ مادے کی خالق ہے۔ (اس پر میرا ایک پرانا مضمون پہلے سے فیس بک پر موجود ہے ) ۔ ہگز فیلڈ سکیلروں کا مجموعہ ہے۔ بوزانوں کی فیلڈیں ویکٹروں سے بنتی ہیں اور فرمیانوں کی فیلڈیں سپنروں (spinners) سے بنتی ہیں۔ آپ یوں سمجھ لیں کہ کائنات کے سمندر میں مادے کے ذرات دراصل وہ ہلکی یا بھاری ہلچل ہے جو سمندر کی سطح پر یا سمندر کی تہہ میں ہمہ وقت جاری ہے۔ کبھی تو وہ کسی گردباد (tornado) کی سی شکل میں ہوتی ہے تو کبھی کسی بھنور کی شکل میں۔

کبھی لمبی لیٹی ہوئی موج تو کبھی اوپر کو اٹھتی ہوئی لہر۔ یہ ساری ہلچلیں یہ سارا اشتعال ذرات (پارٹیکلز) ہیں۔ جبکہ جس وقت ایسا کوئی اشتعال نہیں ہوتا تو کائنات کے سمندر میں بھی سکوت کا عالم ہوتا ہے۔ ہر فیلڈ کائنات میں ہر جگہ موجود ہے لیکن بیرونی خلا میں مادے کی زیادہ تر فیلڈوں کی ویلیو زیرو ہے اور ستاروں سیاروں پر مادے کی فیلڈیں گویا بڑی بڑی موجوں کی صورت موجود ہے۔

نمبر دو یہ کہ

گیلیلیو نے بتایا کہ ہر حرکت کرتی ہوئی شے کسی دوسری متحرک یا ساکن شے کے حوالے (ریفرنس) سے ہی حرکت کرتی ہے۔ اگر حوالہ موجود نہ ہو تو کسی حرکت کرتی ہوئی شے کے حرکت کرنے کی خبر ہی ناممکن ہے۔

پھر میکس ویل نے جب اپنی چار مشہور مساواتوں کو ملا کر یہ ثابت کر دیا کہ روشنی کی شعاع اصل میں ایک الیکٹرومیگنیٹک ویو (EM Wave) ہے اور یہ ”سی“ کی رفتار سے ویکیوم (vacuum) میں حرکت کرتی ہے، تو سوال اٹھایا گیا کہ پھر یہ شعاع کس کے حوالے سے حرکت میں ہے؟ کیونکہ ویکیوم تو کوئی شے نہیں، یعنی ہم ویکیوم کو بطور حوالہ تو نہیں لے سکتے۔ آواز کی موج ہوا کے ذرات کے حوالے سے حرکت کرتی ہے۔ پانی میں موج پانی کے مالیکیولوں کے حوالے سے حرکت کرتی ہے۔ تو پھر روشنی کی موج کا حوالہ (ریفرنس) کیا ہے؟

سائنس کمیونٹی کا یہ سوال اس لیے جائز اور ضروری تھا کیونکہ گیلیلیو نے اپنے تجربات اور ریاضی کے ذریعے حرکت کرتی ہوئی شے کے لیے حوالے کی موجودگی کو لازمی قرار دے دیا تھا۔ نیوٹن نے بھی گیلیلیو کا راستہ اپنایا اور حوالے کی موجودگی کا قائل رہا۔ نیوٹن کا مشہور تھاٹ ایکسپیری منٹ یعنی بالٹی والا تجربہ اسی موضوع کی وضاحت پر مشتمل ہے۔ میں اس پر بہت پہلے ایک پوسٹ لکھ چکا ہوں۔

چونکہ گیلیلیو ثابت کرچکا تھا کہ ہر حرکت کرتی ہوئی شے کی حرکت کو کسی نہ کسی حوالے سے ہی پہچانا جاسکتا ہے۔ اور روشنی تین لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے حرکت کر رہی ہے، تو پھر روشنی کی شعاع کی حرکت کا علم حاصل ہونا کیونکر ممکن ہے؟ کیونکہ روشنی کی شعاع تو ویکیوم میں حرکت کر رہی ہے جو فی الحقیقت کوئی شے ہی نہیں۔

تب سائنسدانوں نے ارسطو کے نظریۂ ایتھر کی طرف رجوع کیا۔ ماضی بعید میں یونانیوں نے جب چار عناصر، مٹی، پانی، ہوا اور آگ، طے کر لیے تو ارسطو نے ان میں ایک پانچویں عنصر کا اضافہ کر دیا تھا۔ ارسطو نے اسے ایتھر (Aether) کا نام دیا۔ دراصل ارسطو نے یہ اضافہ کلیۃً اپنے اختیار سے نہ کیا، بلکہ اس کے استاد افلاطون نے ہی سب سے پہلے پانچویں عنصر ایتھر کا ذکر کیا تھا۔ فکشن کی دنیا اور ادب میں، اسے صرف ”ففتھ ایلیمنٹ“ بھی کہا جاتا ہے ۔ ارسطو نے تجویز کیا کہ ایتھر کوئی فزیکل شے نہیں ہے۔ یہ ستاروں اور سیاروں کے درمیان پائی جاتی ہے اور اس نے ہماری زمین کو چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے۔ سترہویں صدی میں ڈیکارٹ نے اس تصور کو دوبارہ سے قدرے تفصیلی وضاحت کے ساتھ پیش کیا۔ اس نے اسے خلا کے درمیان موجود واسطہ (میڈیم) قرار دیا۔

چنانچہ انیسویں صدی کے سائنسدانوں نے وقتی طور پر اس مفروضے کو تسلیم کر لیا۔ لیکن انہوں نے جستجو کی کہ اگر خلا میں ایتھر موجود ہے اور وہی روشنی کی حرکت کا حوالہ ہے تو پھر اسے شناخت بھی کیا جاسکتا ہو گا۔ ایتھر کو دریافت کرنے کی جستجو سائنسدانوں میں شدت سے پیدا ہوئی تو مائیکلسن اور مورلے نے ایک تجربہ کر ڈالا۔ وہ بہت خوش تھے کہ وہ ایتھر کو دریافت کر لیں گے۔ انہوں نے کئی سال کی محنت شاقہ سے ایتھر کی ٹھیک ٹھیک دریافت کرنے کے لیے ایک آلہ تیار کر لیا تھا۔

لیکن انہوں نے یہ دریافت کیا کہ ایتھر کا کوئی وجود نہیں ہے۔ اور یہ بات بڑی عجیب تھی۔ یعنی روشنی حرکت کر رہی ہے، ہمیں معلوم ہے۔ یہ بھی ہمیں معلوم ہے کہ کسی بھی شے کی حرکت کا پتہ کسی اور شے کے حوالے (reference) سے ہی چلتاہے۔ اگر کوئی حوالہ نہ ہو تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ شے حرکت ہی نہیں کر رہی۔ ایتھر دریافت نہ ہو سکی تو وہ مفروضہ بھی ختم ہو گیا جو بظاہر روشنی کی حرکت کو ایک حوالہ مہیا کر رہا تھا۔

پھر آئن سٹائن آ گیا۔ 1905 میں مائیکلسن اور مورلے کے تجربے کو ابھی اٹھارہ سال ہوئے تھے، جب آئن سٹائن نے اس معمے کو یوں حل کیا کہ اس نے کہا،

روشنی کو کسی حوالے کی ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ روشنی ہر فریم آف ریفرنس سے ایک ہی رفتار کے ساتھ حرکت میں ہے۔ فریم آف ریفرنس کا مطلب ہے آپ جہاں پر ہیں وہی آپ کا فریم ہے۔ آپ گاڑی میں ہیں تو گاڑی آپ کا فریم ہے اور آپ باغ میں کرسی پر بیٹھے ہوئے ہیں تو کرسی آپ کا فریم ہے۔ فریم ایک چھوٹے سے چھوٹے پارٹیکل کا بھی اپنا الگ ہوتا ہے۔ ایک کارتیسی فریم فریم آف ریفرنس سے ایک ہی رفتار کے ساتھ حرکت میں ہے۔ فریم آف ریفرنس کا مطلب ہے آپ جہاں پر ہیں وہی آپ کا فریم ہے۔ آپ گاڑی میں ہیں تو گاڑی آپ کا فریم ہے اور آپ باغ میں کرسی پر بیٹھے ہوئے ہیں تو کرسی آپ کا فریم ہے۔ فریم ایک چھوٹے سے چھوٹے پارٹیکل کا بھی اپنا الگ ہوتا ہے۔ ایک کارتیسی فریم ایکس وائی اور زیڈ کوآرڈی نیٹوں پر مشتمل ہوتا ہے۔

روشنی ہر فریم آف ریفرنس سے ایک ہی رفتار کے ساتھ حرکت میں ہے۔ یعنی کل کائنات میں روشنی کی حرکت ہی واحد حرکت ہے جو کسی حوالے کی محتاج نہیں ہے۔ فریم متحرک ہو تب بھی روشنی اسی رفتار سے اس میں سے سفر کرتی ہے اور فریم ساکن ہو تب بھی روشنی اسی رفتار سے اس میں حرکت کرتی ہے۔ آئن سٹائن نے کہا کہ روشنی کی شعاع کی حرکت آواز یا پانی کی موج جیسی حرکت نہیں ہے۔ اس نے کہا کہ روشنی کی حرکت کو ایک نئے قانون طبیعات کا درجہ دیا جانا چاہیے اور جس طرح نیوٹن کے قوانین ہرانرشیل فریم پر لاگو ہوتے ہیں، روشنی کی رفتار کو بھی ہر فریم میں ویسے ہی لاگو سمجھا جائے۔

روشنی ہر ساکن و متحرک فریم میں ایک جیسی رفتار (C) یعنی ویکیوم میں تین لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے حرکت کرتی ہے۔ اگر ہم روشنی کو ہر فریم میں ”سی“ مان لیں تو پھر لازم ہوجاتا ہے کہ ہم ”سی ولاسٹی“ کو فاصلہ ماپنے کی مشہور مساوات میں بھی استعمال کریں۔

s=vt
یا
d=vt
یا
x=vt

تینوں طرح سے لکھنا ایک ہی بات ہے۔ یعنی ایس، ڈی اور ایکس تینوں ہی فاصلے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ اب اگر ہم ”سی ولاسٹی“ کو ”وی ولاسٹی“ کی جگہ استعمال کریں تو مساوات کی شکل کچھ یوں ہوجاتی ہے۔

x=ct

اور یہ بہت ہی حیران کردینے والی صورت ہے۔ کیونکہ واحد متغیر (variable) وی (v) ہی تھا جسے ہم بدلا کرتے تھے اور میٹر کی لمبائی یعنی ایکس اور سیکنڈ کی لمبائی یعنی ٹی کو ہم نہیں بدل سکتے تھے۔ وی (v) کو بدلنے سے یہ مساوات ہمیں بتایا کرتی تھی کہ کتنے وقت میں کتنا سفر طے ہوا۔ اب صورتحال کچھ یوں ہو چکی ہے کہ وہی واحد متغیر (ویری ایبل) ہی غیر متغیر ہو گیا ہے ۔ یعنی سی کو بدلا نہیں جاسکتا کیونکہ وہ ہر فریم میں ایک جیسی ہے۔ اگر سی کو نہیں بدلنا تو پھر لازمی ہو جائے گا کہ ایکس اور ٹی تبدیل ہوں۔ میٹر کی لمبائی اور سیکنڈ کی لمبائی بدلے جائیں۔ اور یوں ٹائم ڈائلیشن اور لینتھ کنٹریکشن کی فزکس شروع ہوئی۔

چنانچہ ہم بہت ہی محتاط اور محفوظ الفاظ میں یوں بھی کہنا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ دراصل روشنی حرکت میں نہیں ہے۔ روشنی ایک غیر متحرک غیر مادی عنصر ہے جو ہر جگہ موجود ہے۔ حرکت میں فقط مادہ ہے۔ مادہ جہاں کہیں بھی، جس قسم کے بھی فریم کی صورت موجود ہے، وہ چونکہ خود حرکت میں ہے اس لیے یہ غیر متحرک اور غیر مادی عنصر اسے اپنے اپنے لحاظ اور اعتبار سے متحرک محسوس ہوتا ہے۔ اس اخری بات میں اگر قارئین کی مزید دلچسپی ہو تو ہگز بوزانوں کے بارے میں پڑھیں۔

ادریس آزاد

اوپر کی دونوں سائنسی ابحاث ادریس آزاد صاحب کے لیکچرز ہیں۔ میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ ایتھر یا آکاش ویدک ایسٹرولوجی کا اہم اور لازمی رکن ہے۔

پربرہم جسے کائناتوں کے اس لامتناہی سلسلے میں ویدوں نے پرم پرکاش کہہ کر پکارا ہے وہ اپنے علم اور صفات سے اس کائنات کو گھیرے ہوئے ہے۔

میں امید کرتی ہوں کہ کچھ کہے بغیر میرا مقصد ذہین دماغ سمجھ جائیں گے ۔
اس سلسلے میں اصلی گفتگو آگے آئے گی اس فقط تمہید سمجھا جائے۔
ایسٹرو ہربلسٹ
سائرہ ممتاز


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments