موم بتی کی لو


میں آرڈر کا انتظار کر رہا تھا۔ وقت گزاری کے لیے ریسٹورانٹ میں بیٹھے ہوئے افراد کا جائزہ لینے لگا۔ یہ اسلام آباد کے بلیو ایریا کا ریسٹورنٹ تھا اور اس وقت کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ میری خوش قسمتی تھی کہ مجھے آتے ہی ایک میز مل گئی۔ اس میز کے گرد چار کرسیاں تھیں۔ یوں تو کئی لوگ میز خالی ہونے کے منتظر تھے لیکن مجھے جگہ مل گئی تھی۔ دراصل یہاں ایک جوڑا بیٹھا تھا جیسے ہی میں اندر داخل ہوا میں نے انہیں اٹھتے ہوئے دیکھا تو فوراً یہاں بیٹھ گیا۔

اتفاق سے انتظار کرنے والی فیملیز پانچ سے سات افراد پر مشتمل تھیں اور ان کی نظریں بڑی میزوں پر جمی تھیں۔ ڈنر کے لیے آنے والے بیشتر افراد کے چہروں سے آسودگی جھلکتی تھی۔ میرے سامنے ایک بڑی میز کے گرد آٹھ افراد بیٹھے تھے ان میں بھاری بھرکم خواتین اور بڑی توندوں والے مرد بڑی رغبت سے کھانے میں مصروف تھے۔ اس سے اگلی میز پر ایک چار افراد پر مشتمل فیملی بیٹھی تھی۔ مرد گنجا تھا اور اس کے چہرے پر گھنی سیاہ داڑھی تھی جبکہ اس کی بیوی دبلی پتلی سی عورت تھی اور خاصی دلکش لگ رہی تھی۔

گیارہ بارہ سال کے دو لڑکے ان کے ساتھ تھے، غالباً ان کے بچے ہوں گے۔ عورت بار بار لڑکوں کو آرام سے کھانے کا مشورہ دے رہی تھی جب کہ گنجا مرد ان سے بے نیاز مرغ کڑاہی پر ہاتھ صاف کر رہا تھا۔ ایک میز پر نوجوان جوڑا تھا۔ میز پر خالی پلیٹیں موجود تھیں مگر وہ ایک ہی پلیٹ میں کھا رہے تھے۔ کھانے سے زیادہ وہ خوش گپیوں اور ایک دوسرے کو پیار بھری نظروں سے دیکھنے میں مگن تھے۔

”ایکسکیوز می“

مجھے ایک مترنم آواز سنائی دی۔ میں نے چونک کر دائیں طرف دیکھا۔ مغربی لباس میں ملبوس ایک چوبیس پچیس برس کی لڑکی سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھ رہی تھی۔ اس کی رنگت اتنی سفید تھی جیسے کسی نے اس کے جسم کا سارا خون نچوڑ لیا ہو اور بال اتنے سیاہ تھے جیسے اماوس کی رات ہو۔ اس کے بالوں کی آوارہ لٹیں اس کے شفاف گالوں کو چومتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔ اس کے ساتھ ذرا بھاری بدن کی ایک عورت تھی جو غالباً چالیس کے لگ بھگ ہو گی۔

”جی فرمائیے“ میں نے کہا۔
”اگر آپ ڈنر کر چکے ہیں تو ہم یہاں بیٹھ جائیں۔“ لڑکی نے پوچھا۔
”میں آرڈر کا انتظار کر رہا ہوں۔“ میں نے سر ہلایا۔

”اوہ! خیر کوئی بات نہیں، اگر آپ کو اعتراض نہ ہو تو ہم بھی یہاں بیٹھ جائیں۔“ اس نے ایسے لہجے میں کہا کہ میں انکار نہ کر سکا اور سر جھکا دیا۔ شکریہ ادا کرتے ہوئے وہ میرے سامنے بیٹھ گئیں۔ عورت کے چہرے پر مجھے ناپسندیدگی کا ہلکا سا تاثر نظر آیا جب کہ لڑکی کا موڈ خوشگوار لگ رہا تھا۔

”ہم آج پہلی بار اس ریسٹورانٹ میں آئے ہیں اگر آپ پہلے بھی آتے رہے ہیں تو رہنمائی فرمائیں یہاں کی خاص ڈش کون سی ہے؟“ لڑکی مجھ سے مخاطب تھی۔

”میں بھی دو تین بار ہی آیا ہوں بہر حال میں نے افغانی پلاؤ منگایا ہے، آپ چاہیں تو آپ بھی منگا سکتی ہیں اس کا فائدہ یہ ہے کہ جلدی سرو کر دیا جائے گا اور ذائقے میں لاجواب ہے۔“ میں نے خوشگوار لہجے میں کہا۔

” او کے“ اس نے فوراً ویٹر کو بلایا اور پلاؤ آرڈر کر دیا۔ وہ دونوں آہستہ آواز میں باتیں کرنے لگیں۔ مجھے ان کی گفتگو سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ میں فون کے ساتھ مصروف تھا۔ ویٹر آرڈر لے کر آ گیا۔ لڑکی نے پلاؤ چکھا تو اس کے چہرے پر پسندیدگی کے تاثرات ابھر آئے۔

”واقعی یہ پلاؤ بہت عمدہ ہے۔“ اس طرح گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا مگر یہ عام سی باتیں تھیں۔ نہ اس نے اپنی شناخت ظاہر کی نہ میں نے اور پھر کھانے کے بعد ہم باہر نکلے اور اپنے اپنے راستے پر چلے گئے۔ مجھے اسلام آباد میں آئے ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا۔ مجھے کمپیوٹر سائنس کی ایک کمپنی میں جاب ملی تھی۔ تنخواہ پرکشش تھی اور رہنے کے لیے فلیٹ بھی ملا تھا۔ اسی لیے میں لاہور سے اسلام آباد آ گیا تھا۔ میں نو بجے آفس جاتا تھا اور شام سات بجے سے پہلے واپسی نہیں ہوتی تھی۔

اکثر میں رات کا کھانا کھا کر ہی گھر جاتا تھا۔ اگلے روز آفس کے بعد جب کھانے کا سوچا تو غیر ارادی طور پر میں نے کار اسی ریسٹورانٹ کی طرف موڑ دی۔ کار پارک کر رہا تھا تو میرے ساتھ والی جگہ پر سیاہ رنگ کی ہونڈا سوک آ کر رکی۔ کار بالکل نئے ماڈل کی تھی۔ میں نے کئی بار سوچا تھا کہ اسی طرح کی گاڑی خریدوں مگر بجٹ اجازت نہیں دیتا تھا اسی لیے سوزوکی مہران کے ساتھ گزارا کر رہا تھا۔ ہونڈا سوک کا دروازہ کھلا اور وہی لڑکی دکھائی دی جو گزشتہ روز ملی تھی۔ عین اسی وقت اس کی نظر بھی مجھ پر پڑی، بے اختیار اس کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔

”گڈ ایوننگ“ وہ مسکراتے ہوئے آگے بڑھی۔
”گڈ ایوننگ، کیا اتفاق ہے میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ ہم دوبارہ ملیں گے۔“ میں نے کہا۔

”حسین اتفاق ہے“ لڑکی نے بے باک لہجے میں کہا۔ اسی دوران دوسرے دروازے سے نکل کر اس کی ساتھی عورت بھی قریب آ چکی تھی۔

”آئیں پہلے کہیں بیٹھ جاتے ہیں باقی باتیں بھی ہوتی رہیں گی۔“ لڑکی نے کہا۔ ریسٹورانٹ کے فرسٹ فلور پر ہمیں ایک کونے والی میز مل گئی جہاں کھڑکی سے شیشے سے باہر کا منظر دکھائی دیتا تھا۔ باہر سڑک پر پارک کی گئیں گاڑیاں نظر آ رہی تھیں ان میں میری سفید سوزوکی اور اس لڑکی کی سیاہ ہونڈا سوک بھی نظر آ رہی تھی۔ ریسٹورانٹ کا فرنیچر بہت عمدہ تھا۔ فرش چمک رہا تھا، جدید طرز کی سیلنگ میں اورنج اور نیلی لائٹس لگی تھیں۔ روشنیاں مدھم تھیں، بہت خوابناک سا ماحول تھا۔ لڑکی نے مینو میری طرف بڑھا دیا۔

”آرڈر کیجیے۔“ میں نے مینو واپس اس کی طرف بڑھایا اور کہا۔
”آپ آرڈر کیجیے، بل میں دے دوں گا۔“ وہ مسکرا اٹھی۔

”چلیں یوں ہی سہی، میں آرڈر کرتی ہوں بل اپنا اپنا۔“ سفید کپڑوں میں ملبوس ایک ویٹر پاس ہی گردن جھکائے کھڑا تھا۔

”جی جناب! اب بتائیے کچھ اپنے بارے میں۔ کل تو تعارف بھی نہیں ہو سکا۔“ ویٹر کے جانے کے بعد وہ میری طرف متوجہ ہوئی۔

”میرا تعلق لاہور سے ہے، یہاں جاب کے سلسلے میں آیا ہوں اور میرا نام عاشق ہے۔“
”کہیں آپ مذاق تو نہیں کر رہے؟“ اس نے بھنویں اچکائیں۔
”جی نہیں یہی میرا نام ہے، پورا نام عاشق حسین ہے۔“ میں نے وضاحت کی۔

”او کے، میں شمع ہوں اور یہ مصباح ہے۔ شمع اور مصباح کا بہت گہرا رشتہ ہے۔ “ اس نے عورت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

”واقعی میں سمجھ سکتا ہوں، مصباح، شمع کے لیے اہم ہے۔ مصباح شمع کو ہوا کے تھپیڑوں سے بچاتی ہے جیسے لالٹین کے شیشے میں بتی کی لو محفوظ ہوتی ہے۔“ میں نے سر ہلایا۔

”اوہو! آپ تو اس کے لغوی معنی تک پہنچ گئے، میں نے کسی اور حوالے سے بات کی تھی۔“
”شمع تو جلتی رہتی ہے، مجھے امید ہے کہ آپ کے ساتھ ایسا نہیں ہو گا۔“
”لمبی بات ہے کبھی فرصت میں بتاؤں گی۔“ اس نے پرخیال انداز میں کہا۔
”اس کا مطلب ہے کہ ہم ملتے رہیں گے۔“ میں نے اس کی آنکھوں میں جھانکا۔
”شاید ہاں شاید نہیں، ابھی یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ آپ رہتے کہاں ہیں؟“
”یہاں قریب ہی ایک فلیٹ میں، واک کرنے کا موڈ ہو تو پیدل بھی یہاں آ جاتا ہوں۔“

ویٹر کھانا لے کر آ گیا اور سرو کرنے لگا۔ کھانے میں چکن منچورین، ابلے ہوئے چاول، چکن جلفریزی، ماش کی دال اور گرم گرم روٹیاں تھیں۔ اشتہا انگیز خوشبو نے ہمیں کھانے کی طرف متوجہ کر دیا۔ کھانے کے دوران ہلکی پھلکی گفتگو جاری رہی تاہم مصباح کا گفتگو میں حصہ محض ہوں ہاں تک محدود تھا۔ کھانے کے بعد ہم پارکنگ میں آئے تو رخصت ہوتے وقت شمع نے مجھے اپنے گھر کے بارے میں بتایا۔

”کیا خیال ہے کل کا ڈنر آپ میرے گھر پر کریں، میری طرف سے دعوت ہے۔“ میں یہ آفر سن کر دل ہی دل میں اچھل پڑا، میں اس سے رابطے بڑھانے کا سوچ رہا تھا اس نے میری مشکل آسان کر دی تھی۔ تاہم میں نے بظاہر تامل سے کام لیتے ہوئے کہا۔

”کوئی حرج تو نہیں مگر آپ کو زحمت ہو گی۔“
”اس کی آپ فکر نہ کیجیے، مجھے کوئی زحمت نہیں ہوگی۔“
”ایکسکیوزمی میم! کل شام تو آپ کو کہیں جانا بھی ہے۔“ مصباح نے مداخلت کی۔

”ہاں جانا تو تھا مگر وہ پارٹی کینسل ہو گئی تھی۔ تو پھر یہ طے ہوا کہ کل آپ آ رہے ہیں“ اس نے میری طرف دیکھا۔

”بسر و چشم“ میں نے گردن کو خم دیتے ہوئے ہوئے کہا۔

” او کے“ اس نے ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔ میں نے ہاتھ ملایا تو یوں لگا جیسے گلاب کی پتیوں کو چھو لیا ہو۔ وہ جا چکی تھی میں اپنے فلیٹ کی طرف رواں دواں تھا لیکن اس کے ہاتھ کی نرمی اور حدت مجھے اب بھی محسوس رہی تھی۔ اس رات مجھے دیر تک نیند نہ آئی، بار بار اس کا چہرہ میری آنکھوں کے سامنا آتا رہا۔ اس کی آواز میرے کانوں میں گونجتی رہی۔ پہلی ملاقات کو میں ایک اتفاق سمجھ کر بھلا دینا چاہتا تھا مگر اب اس کی طرف کھنچتا جا رہا تھا۔ میں نے فیصلہ کر لیا کہ کل ضرور اس کے ہاں جاؤں گا۔

گھروں کے نمبر دیکھتے ہوئے جب میں ایک خوب صورت کوٹھی کے گیٹ تک جا پہنچا تھا۔ گاڑی سے اتر کر بیل بجائی تو فوراً دروازہ کھل گیا۔ ادھیڑ عمر گیٹ کیپر نے دروازہ کھولا اور بولا۔ ”صاحب گاڑی اندر لے آئیے۔“

لگتا تھا کہ اسے میرے بارے میں پہلے سے بتا دیا گیا ہے۔ گاڑی پارک کی تو گیٹ کیپر نے مجھے اندرونی دروازے تک پہنچا دیا۔ دروازہ کھلا تو شمع کا مسکراتا ہوا چہرہ دکھائی دیا۔ وہ جدید تراش کے لباس میں ملبوس تھی جس میں سرخ رنگ نمایاں تھا۔ کالے بال شانوں پر لہرا رہے تھے۔ سفید رنگت کچھ زیادہ ہی سفید لگ رہی تھی۔ سرخ لپ اسٹک سے سجے ہوئے بھرے بھرے ہونٹ گلاب کی پنکھڑیوں کو شرماتے تھے۔ ”آئیے ناں“ اس نے ہاتھ آ گے بڑھاتے ہوئے کہا۔ پھر میرا ہاتھ تھام کر لاؤنج تک لے گئی۔

”آپ بیٹھیں میں ابھی آتی ہوں“ میں صوفے پر بیٹھ گیا اور وہ کچن میں چلی گئی۔ میں کمرے کا جائزہ لینے لگا۔ کمرہ بہترین سامان سے سجا تھا۔ میڈیا وال پر پچاس انچ کا ایل ای ڈی ٹی وی موجود تھا۔ ایک طرف ڈائننگ ٹیبل تھا۔ دیواروں پر مختلف جگہوں پر پینٹنگز تھیں مگر ایک تصویر نے خاص طور پر مجھے متوجہ کر لیا۔ اس تصویر میں چوبیس پچیس برس کا ایک نوجوان کرسی پر بیٹھا تھا اور اس کے سامنے میز پر موم بتی روشن تھی۔ اس کی نگاہیں موم بتی پر جمی تھیں۔

تصویر قریب سے لی گئی تھی۔ تصویر سامنے کے رخ سے تھی۔ موم بتی کے پیچھے نوجوان کا آدھا دھڑ اور میز پر ٹکے ہوئے ہاتھ دکھائی دیتے تھے۔ مجھے ایسا لگا جیسے وہ تصویر اسی کمرے میں لی گئی ہے۔ شاید کینڈل لائٹ ڈنر کی ہے۔ آہٹ ہوئی تو میں نے دروازے کی طرف دیکھا۔ شمع اور مصباح آ رہی تھیں۔ مصباح ایک ٹرالی دھکیل رہی تھی۔ کمرے میں چکن سوپ کی خوشبو پھیلنے لگی۔

”آج میری ملازمہ کو اچانک کہیں جانا پڑا چناں چہ سارا کام مجھے اور مصباح ہی کو کرنا پڑا ہے۔“ شمع نے بتایا۔

”اوہ! ایسا تھا تو آپ مجھے فون کر دیتیں میں کسی اور دن آ جاتا۔“

”ایسا تو ہو نہیں سکتا تھا، میں ایک بار جو بات کہہ دوں پھر اس پر قائم رہتی ہوں۔ خیر آپ یہاں ڈائننگ ٹیبل پر آ جائیں۔“

”آپ نے تو آتے ہی مدارات شروع کر دیں، میں تو سوچ رہا تھا باتیں کریں گے۔“

”باتیں تو ساتھ ساتھ چلتی رہیں گی۔“ سوپ بہت عمدہ تھا، اس کے بعد کھانا کھایا گیا۔ کھانے کے بعد ہم صوفوں پر آ بیٹھے۔ گپ شپ ہونے لگی۔ شمع مجھ سے ایسے باتیں کر رہی تھی جیسے برسوں کی شناسائی ہو۔ کچھ دیر کے بعد میں نے جانے کی اجازت طلب کی تو اس نے آنکھیں نکالتے ہوئے کہا۔

”ہرگز نہیں، ابھی تو بہت سی باتیں باقی ہیں، اچھا آپ چائے پئیں گے؟“
”یس پلیز“

”مصباح پلیز چائے بنا دو۔“ اس نے کہا اور مصباح مشینی انداز میں اٹھ کر کچن میں چلی گئی۔ شمع میرے ساتھ والے صوفے پر یوں بیٹھی تھی کہ اس کا چہرہ میری طرف تھا اور میں اس کے پیچھے دیوار پر لگی اس تصویر کو دیکھ سکتا تھا جس نے میری توجہ حاصل کی تھی۔ میری نگاہ تصویر پر پڑی تو چونک اٹھا۔ مجھے اچھی طرح یاد تھا کہ تصویر میں وہ نوجوان موم بتی پر نگاہیں جمائے ہوئے تھا مگر اب ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ موم بتی نے نگاہیں ہٹا کر مجھے گھور رہا ہے۔

”کچھ اور بتاؤ ناں اپنے بارے میں۔“ شمع نے مجھے اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا۔
”میں تمہارے سامنے ہوں، بتاؤ کیا جاننا چاہتی ہو؟“ میں نے بے تکلفی سے کہا۔

”کیا تمہیں کسی سے محبت ہوئی ہے؟“ وہ میری آنکھوں میں جھانک رہی تھی۔ مشکل سوال تھا میں نے چند لمحے سوچا پھر کہا۔

”زندگی میں بہت سے لوگ ملتے ہیں، اچھے بھی لگتے ہیں مگر ضروری تو نہیں کہ ان کا ساتھ بھی مل جائے، میں آج بھی اکیلا ہوں۔“

”ہوں۔ اس کا مطلب ہے کوئی تھی ضرور۔“ اس نے سر ہلایا۔

”شاید تھی یا پھر وہ کبھی تھی ہی نہیں۔ ہم نے مل کر کچھ خواب دیکھے تھے مگر تعبیر نہیں ملی۔ میرے والد اس کی کاسٹ میں رشتہ کرنا تو دور کی بات ہے ان کا نام بھی سننا پسند نہیں کرتے تھے۔“

”مگر تم نے ان کو منانے کی کوشش نہیں کی؟“
”کی تھی مگر انہوں نے ایک نہ سنی“
”اگر ایسی بات تھی تو تمہیں یہ بات محبت کرنے سے پہلے سوچنا چاہیے تھی۔“
”بس یہی تو میری غلطی تھی میں نے سوچا کچھ نہیں۔“
”خیر جو ہوا سو ہوا اب ایسی غلطی مت کرنا، محبت کرنے سے پہلے لڑکی سے اس کی کاسٹ ضرور پوچھ لینا۔“

میں سمجھ نہ سکا کہ وہ مجھے مشورہ دے رہی ہے یا طنز کر رہی ہے۔ ”ٹھیک ہے آئندہ خیال رکھوں گا، ویسے تمہاری کاسٹ کیا ہے؟“

”کیوں کیا تمہیں مجھ سے محبت ہو گئی ہے؟“ اس نے بھنویں اچکائیں۔

”پوچھنے میں کیا حرج ہے؟“ میں نے مسکرا کر کہا۔ عین اسی وقت میری نگاہ تصویر پر پڑی۔ تصویر میں نوجوان کا رخ واضح طور پر بدل چکا تھا اور اب وہ مجھے خونخوار نظروں سے گھور رہا تھا۔ میرے رگ و پے میں ایک سرد لہر دوڑ گئی۔ میرے چہرے کے تاثرات دیکھ کر شمع بھی چونک اٹھی۔

”یہ اچانک تمہیں کیا ہوا ہے، کیا پریشانی ہے؟“ اس نے پوچھا۔
”وہ تصویر۔ وہ تصویر بدل رہی ہے۔“ میں نے اشارہ کیا۔
”کیا مطلب؟ تصویر کیسے بدل سکتی ہے؟“ اس نے مڑ کر تصویر کی طرف دیکھا۔ ”دیکھو کچھ بھی تو نہیں ہے۔“

میں نے دیکھا تو تصویر اپنی پہلی حالت میں نظر آئی جس میں نوجوان موم بتی پر گاہیں جمائے ہوئے تھا۔ ایک لمحے کے لیے تو مجھے یقین نہ آیا۔ میں نے آنکھیں مل کر دیکھا۔ تصویر ویسی ہی تھی۔ نہ جانے یہ کیا اسرار تھا۔

”یہ کس کی تصویر ہے؟“ یہ سوال پوچھنا لازم تھا۔ اس نے ایک گہری سانس لی اور سر جھکا لیا۔ کچھ دیر خاموشی رہی جیسے وہ کچھ کہنے کے لیے لفظ ڈھونڈ رہی ہو پھر اس کے لب ہلے۔

”یہ تصویر اس کی ہے جس سے میں نے ٹوٹ کر محبت کی تھی مگر اس نے مجھے دھوکا دیا۔“

”حیرت ہے اس نے تمہیں دھوکا دیا اور تم نے اس کی تصویر یہاں لگا رکھی ہے، بہتر تو یہ تھا کہ تم اس کی تصویر کو آگ لگا دیتیں۔“

”میں نے اس کی تصویر اس لیے لگا رکھی ہے کہ میرے دل میں جلتی ہوئی آگ ٹھنڈی نہ پڑ جائے۔ میں جب بھی اس تصویر کو دیکھتی ہوں تو میری نفرت بڑھ جاتی ہے۔ میں اسے بھلانا نہیں چاہتی، میں نے جس شدت سے محبت کی تھی اسی شدت سے نفرت کرنا چاہتی ہوں۔“ شمع بہت سنجیدہ لگ رہی تھی۔

”نہیں۔ تم ایسا مت کرو، اس نفرت کو اپنے دل میں جگہ مت دو، تم بہت پیاری لڑکی ہو۔ مجھے حیرت ہے کہ اس نے تمہیں دھوکا کیوں دیا۔“

ایسا لگا جیسے اس کے ضبط کا بند ٹوٹ گیا ہو۔ وہ یک دم میرے قریب آ گئی۔ میرے ساتھ بیٹھتے ہوئے اس نے میرا بازو تھاما اور میرے کندھے پر سر رکھ کر سسکنے لگی۔ میں نے اس کے بالوں پر ہاتھ رکھا تو جیسے ریشم کو چھو لیا۔ اس کے بالوں سے اٹھتی ہوئی مسحور کن خوشبو انتہائی خمار آلود تھی۔ میرا دل دھک دھک کرنے لگا۔ میں اپنے سینے میں دھڑکتے ہوئے دل کو واضح طور پر محسوس کر رہا تھا۔

مصباح چائے لے کر آئی تو میں چونک اٹھا مگر مصباح کے تاثرات میں کوئی تبدیلی نہ آئی تھی۔ وہ مشینی انداز میں آگے بڑھتی چلی آئی۔ شمع کی سسکیاں رک چکی تھیں۔ اس کے بال میرے شانے پر بکھرے ہوئے تھے مگر اس نے انہیں ہٹانے کی کوشش نہیں کی تھی۔

”میم چائے پی لیں۔“ اس نے چائے کے کپ میز پر رکھتے ہوئے کہا۔ شمع نے سر اٹھایا اور مسکرا اٹھی۔

”مصباح میری دوست بھی ہے اور رازدار بھی، اس سے کچھ بھی چھپا نہیں۔ میری ماں برسوں پہلے ہی دنیا چھوڑ گئی تھی۔ میرے والد بہت بڑے بزنس مین ہیں۔ ان کا کاروبار بیرون ملک تک پھیلا ہوا ہے۔ اکثر وہ ملک سے باہر ہی ہوتے ہیں۔ میں نے تنہا زندگی گزاری ہے۔ دو سال قبل میں نے مصباح کو اپنی تنہائی دور کرنے کے لیے معقول تنخواہ پر رکھا تھا پھر جلد ہی اپنی دوست بنا لیا، میں نے کئی بار کہا ہے کہ میرا نام لیا کرو مگر یہ پگلی اب بھی مجھے میم کہتی ہے۔“ شمع بولتی چلی گئی۔

”بہت خوب، چائے لاجواب ہے۔“ میں نے چائے کا سپ لیتے ہوئے کہا۔ مصباح نے شکریہ کے انداز میں سر جھکایا مگر اس کا چہرہ پہلے کی طرح سپاٹ ہی رہا۔ اس رات جب میں شمع کی کوٹھی سے باہر نکلا تو جیسے دنیا میرے لیے بدل چکی تھی۔ مجھے ہر چیز اچھی لگ رہی تھی۔ باہر سٹریٹ لائٹس روشن تھیں۔ آسمان پر ستارے چمک رہے تھے۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے میرے کانوں میں سرگوشیاں کر رہے تھے۔ میری کار سڑک پر رواں ہوئی تو ونڈ سکرین سے دور چمکتا ہوا چاند دکھائی دینے لگا۔

میں جب اپنے فلیٹ میں جا کر بستر پر لیٹا تو مجھے شمع کے بالوں سے اٹھتی ہوئی مہک کمرے میں پھیلی ہوئی لگ رہی تھی۔ دیر تک مجھے نیند نہ آئی۔ اگلے روز دفتر میں بھی دل نہیں لگ رہا تھا۔ جی چاہتا تھا کہ جلدی سے سات بج جائیں اور میں شمع کے گھر پہنچ جاؤں۔ خدا خدا کر کے دفتر کا وقت ختم ہوا اور میں اس کے گھر پہنچا۔ گیٹ کیپر نے دروازہ کھولا اور میری طرف عجیب سی نظروں سے دیکھا۔ میں نے اسے نظر انداز کرتے ہوئے کار پارک کی اور اندرونی دروازے کی طرف بڑھا۔ قریب جاتے ہی دروازہ کھل گیا۔ وہ میرے سامنے تھی۔ اس نے جلدی سے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اندر کھینچ لیا اور میرے ساتھ لگ گئی جیسے میں برسوں بعد آیا ہوں۔ نہ جانے کتنے پل گزر گئے۔

”شمع! کیا ہوا؟“
”پتا نہیں مجھے کیا ہو گیا ہے ایک پل بھی تمہارے بغیر رہا نہیں جاتا۔“

ہم اندر آ گئے۔ مصباح بھی آ گئی۔ اس نے سلام کیا تو شمع نے اسے اشارے سے جانے کا اشارہ کیا وہ چپ چاپ اپنے کمرے میں چلی گئی۔ شمع کی باتیں شروع ہو گئیں۔ جب وہ بولتی تھی تو پھر بولتی ہی چلی جاتی تھی۔ نہ جانے کتنی دیر گزر گئی۔ مصباح نے پھر آ کر کھانے کی بات کی تو ہم چونک اٹھے۔

”اف! مجھے بھی کھانے کا ہوش نہیں رہا۔ میں ابھی کھانا لاتی ہوں۔“ شمع بھی اس کے ساتھ کچن میں چلی گئی۔ میں کمرے کا جائزہ لینے لگا۔ میری نظر تصویر پر پڑی تو دل بری طرح دھڑکنے لگا۔ آج تصویر کچھ زیادہ ہی بدلی ہوئی تھی۔ میں نے قریب جا کر دیکھا۔ نوجوان کے چہرے پر شدید پریشانی اور دہشت کے آثار تھے۔ اس کے ہاتھ اس طرح پھیلے ہوئے تھے جیسے کسی کو موم بتی کی لو سے دور جانے کا اشارہ کر رہے ہوں۔ میں نے غور سے دیکھا تو ایکا ایکی تصویر میں حرکت کے آثار پیدا ہوئے۔ میرا دل اچھل کر حلق میں آ گیا۔ تصویر نہایت غصے سے مجھے گھو ر رہی تھی۔

”کیا دیکھ رہے ہو؟“ مجھے شمع کی آواز سنائی دی۔ وہ کمرے میں آ رہی تھی۔
”یہ تصویر۔ یہ بدل گئی ہے۔“

”کیسے بدل گئی، ٹھیک تو ہے۔ ’اس نے حیرت سے کہا۔ میں نے پلٹ کر دیکھا تصویر اپنی پہلے والی حالت میں تھی۔ میں الجھ کر رہ گیا۔

”اچھا یہ سب چھوڑو آؤ کھانا کھاتے ہیں۔“

خوشگوار ماحول میں کھانا کھایا گیا۔ میں تصویر کی طرف دیکھنے سے گریز کرتا رہا۔ بہر حال اس کے بعد میں ہر شام اس کے گھر جانے لگا۔ اب شمع مجھ سے مسلسل رابطے میں رہتی تھی۔ میسیجز چلتے رہتے تھے۔ کالز بھی آتی رہتی تھیں۔ اب تو دفتر کے اوقات میں بھی یہ سلسلہ جاری رہتا۔ کبھی کبھی تو صورت حال بہت پیچیدہ ہو جاتی تھی۔ میں نے محسوس کیا کہ شمع کے رویے میں کچھ ایسے پہلو ہیں جو میرے لیے مشکل کا سبب بن جاتے تھے۔ جب تک سب کچھ اس کی مرضی کے مطابق چلتا رہتا سب ٹھیک رہتا لیکن اگر اس کی مرضی کے خلاف کوئی بات ہوتی تو وہ شدید ناراض ہو جاتی اور پھر اسے منانا بہت مشکل ہو جاتا لیکن میں اس کے باوجود اس کی طرف کھنچتا چلا جاتا تھا۔ نہ جانے وہ کیسی نا معلوم کشش تھی جو مجھے اس سے دور رہنے نہیں دیتی تھی۔

ایک روز میں باس کے ساتھ میٹنگ میں تھا۔ اچانک شمع کی کالز آنے لگیں۔ فون وائبریشن پر تھا۔ میں نے کئی بار اس کی کال کاٹی وہ مسلسل کالز کر رہی تھی۔ آخر میٹنگ کے بعد میں نے اس سے رابطے کی کوشش کی مگر اب اس کا فون بند جا رہا تھا۔ میں دفتر سے سیدھا اس کے گھر پہنچا۔ پتا چلا کہ حالات کافی خراب ہیں۔ شمع کا موڈ بگڑا ہوا تھا۔ اس نے سب نوکروں کو بری طرح ڈانٹا تھا۔ ایک ملازمہ سے ذرا سی غلطی ہوئی تو اس نے اٹھا اٹھا کر شیشے کے برتن پھینکے اور بہت سے برتن توڑ ڈالے تھے۔ جب میں وہاں پہنچا تو ملازمہ کانچ کے ٹکڑے اکٹھے کر رہی تھی۔ شمع صوفے پر نیم دراز تھی اور مصباح اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے اس کی دلجوئی کر رہی تھی۔ مجھے دیکھ کر شمع نے سر اٹھایا تو مجھے اس کی آنکھیں خون کی طرح سرخ نظر آئیں۔ شاید وہ بہت زیادہ روتی رہی تھی۔

”شمع! کیا ہوا میری جان“
”مصباح ان سے کہو چلے جائیں، میں ان سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتی۔“ اس نے چیخ کر کہا اور سسکنے لگی۔

میں آگے بڑھا تو مصباح نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے جانے کے لیے کہا لیکن میں نے اس کے اشارے کو نظرانداز کر دیا۔ میں نے آگے بڑھ کر اسے بازوؤں کے حلقے میں لے لیا۔

”میں باس کے ساتھ میٹنگ میں تھا، فون اٹھاتا تو وہ مجھے فائر کر دیتے۔“ میں عذر پیش کیا۔

”جاؤ اپنی نوکری کرو، مجھ سے تمہارا کیا واسطہ“ وہ بدستور ناراض تھی۔ بری مشکل سے میں نے اسے منایا۔ اب میں اتنا تو سمجھ گیا تھا کہ غصے میں وہ کچھ بھی کر سکتی ہے۔ اس دن ہم باہر کھانے کے لیے چلے گئے۔ واپسی تک شمع کا موڈ ٹھیک ہو چکا تھا۔ وہ ہنس ہنس کر پیار بھری باتیں کر رہی تھی۔ ایسا لگتا ہی نہیں تھا کہ کچھ دیر پہلے کس قدر ناراض تھی۔ جب میں واپس آنے لگا تو مصباح کی موجودگی کی پرواہ کیے بغیر وہ مجھ سے لپٹ گئی۔

”آج ناں جاؤ نا، رک جاؤ میرے پاس۔“
”تم جانتی ہو مجھے جانا ہو گا۔“ میں نے اس کے بالوں کو سہلاتے ہوئے کہا۔
”ٹھیک ہے جاؤ“ اس نے ایک جھٹکے سے خود کو علیحدہ کیا۔
”ناراض ہو؟“
”نہیں تو۔“

”اب تو تم سے ڈر لگنے لگا ہے۔“ میں نے کہا اور وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ ”تم مجھے کیا نفسیاتی مریض سمجھتے ہو؟“

”نہیں نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔“ میں نے فوراً کہا۔
”تو پھر جاؤ ناں“

میں گھر آ کر دیر تک اس کے بارے میں سوچتا رہا۔ اس کی محبت روز بروز شدت اختیار کرتی جا رہی تھی اور میں اس کی محبت کے دریا میں ڈوبتا چلا جاتا تھا۔ پھر ایک دن ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے سب کچھ بدل دیا۔

اس دن میں ابھی دفتر میں تھا۔ باس کسی کام سے جا چکے تھے۔ اچانک میرے دفتر کا ایک ساتھی قادر دوڑتے ہوئے میرے کمرے میں آیا۔

”عاشق! ایک بری خبر ہے باس کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے۔ وہ پمز ہاسپٹل میں ہیں۔“

”کیا؟“ میں چونک اٹھا۔ افراتفری کے عالم میں ہم ہاسپٹل پہنچے۔ باس کی حالت بہت نازک تھی۔ ان کی گاڑی تیز رفتاری کے باعث ایک ٹرالر سے ٹکرا گئی تھی وہ شدید زخمی تھے۔ خون بہت زیادہ بہہ گیا تھا۔ ایک بازو اور ایک ٹانگ ٹوٹ چکی تھی۔ سر پر بھی چوٹیں آئیں تھیں اندرونی چوٹوں کا کوئی اندازہ نہیں تھا۔ وہ ہوش میں نہیں تھے۔ باس کا تعلق کراچی سے تھا، ان کے رشتہ بھی سب کراچی میں تھے۔ بیوی کا عرصہ پہلے انتقال ہو چکا تھا اور ان کی اکلوتی جواں سال بیٹی فاطمہ اس وقت اس کے بیڈ کے پاس کھڑی آنسو بہا رہی تھی۔

”فکر نہ کرو سب ٹھیک ہو جائے گا۔“ میں نے اسے تسلی دی۔

”کیسے ٹھیک ہو جائے گا۔ ابو کو او نیگٹو خون کی اشد ضرورت ہے۔ ڈاکٹر نے کہا ہے کم از کم دو بوتلیں لگیں گی اور ہسپتال میں خون دستیاب نہیں ہے۔“ وہ سسکنے لگی۔ دفتر لے لوگ اب آنے لگے تھے۔ میں نے فون پر جہاں جہاں سے خون ملنے کی امید تھی رابطے کرنے شروع کیے مگر کوئی انتظام نہیں ہو پا رہا تھا۔ باس کی بیٹی کسی کو فون کر رہی تھی۔

بات ختم کر کے وہ میری طرف بڑھی۔ ”پلیز میرے ساتھ چلیے، میری سہیلی یہیں اسلام آباد میں رہتی ہے۔ اس کا بلڈ گروپ میچ کر گیا ہے، اسے یہاں لانا ہے۔“

”ضرور“ میں نے قادر کو وہیں چھوڑا اور فاطمہ کو لے کر باہر نکل گیا۔ اس کی سہیلی کو لے کر واپس آئے تو دفتر کے لوگ ایک بوتل خون کا انتظام کر چکے تھے۔ اب تو دوسری بوتل کا انتظام بھی ہو چکا تھا۔ اسی دوران شمع کی کالز آنے لگیں۔ آج اس کے ساتھ باہر ڈنر کا پروگرام تھا۔ میں نے مختصراً اسے حالات بتائے مگر وہ سننے پر آمادہ نہیں تھی شاید اسے صورت حال کی سنگینی کا اندازہ نہیں تھا۔ رات کے دس بج رہے تھے۔ باس کی حالت کافی حد تک سنبھل چکی تھی۔

فاطمہ نے کہا کہ اس کی سہیلی کو گھر چھوڑ آتے ہیں۔ اچانک فاطمہ کو چکر سا آ گیا۔ وہ گرتے گرتے بچی۔ استفسار پر پتا چلا کہ اس نے صبح ناشتے کے بعد سے ابھی تک کچھ نہیں کھایا۔ کئی گھنٹوں سے پانی بھی نہیں پیا تھا۔ دوپہر کو یہ حادثہ پیش آیا تھا تب سے لے کر اب تک وہ ہاسپٹل میں تھی۔ میں نے ان دونوں کو گاڑی میں بٹھایا اور بلیو ایریا لے گیا۔ سب سے پہلے جو ریسٹورانٹ نظر آیا وہاں گاڑی روک دی۔

”رک کیوں گئے؟“ فاطمہ نے پوچھا۔

”پہلے کچھ کھا لیتے ہیں۔ میں نے دوپہر سے کچھ نہیں کھایا بہت بھوک لگی ہے اور آپ کی سہیلی نے تو بلڈ بھی دیا ہے۔“ وہ دونوں چپ چاپ گاڑی سے اتر آئیں۔ کھانے کے دوران زیادہ تر خاموشی رہی۔ فاطمہ سے کھانا کھایا بھی نہیں جا رہا تھا۔ اس نے سہیلی کے اصرار پر کھایا۔

کھانے کے بعد ہم باہر نکلے۔ بلیو ایریا میں رش تھا۔ ریسٹورانٹ کھلے تھے۔ گاڑیاں آ جا رہی تھیں۔ گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے فاطمہ نے میری طرف دیکھا اور گلوگیر لہجے میں بولی۔

”میرے ابو بچ جائیں گے ناں“ اس کا بدن کپکپا رہا تھا۔ وہ میرے بالکل قریب کھڑی تھی۔ ”خدا پر بھروسا رکھو، دعا کرو وہ بالکل ٹھیک ہو جائیں گے۔“ میں نے ہمدردی سے کہا۔ اس کی آنکھوں میں نمی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ میرے کندھے سے لگ کر رو پرے گی۔ میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔

”اب گاڑی میں بیٹھیں، پہلے آپ کی سہیلی کو گھر چھوڑنا ہے پھر میں آپ کو ہاسپٹل چھوڑ دوں گا“ وہ دونوں چپ چاپ گاڑی میں گئیں۔ میں نے گاڑی آگے بڑھا دی مگر میں یہ نہ دیکھ سکا کے میرے پیچھے شمع کی گاڑی تھی۔

فاطمہ کو ہاسپٹل چھوڑ کر جب میں گھر پہنچا تو رات کے بارہ بج رہے تھے۔ میں نے شمع کو کال کی۔ اس کا نمبر بند تھا۔ میں نے سوچا شاید وہ سو گئی ہو لیکن اندر ہی اندر دل کسی انجانے خوف کی لپیٹ میں تھا۔ دوسرے دن میں دفتر پہنچا۔ حاضری کے بعد طے ہوا کہ دفتر کے لوگ باری باری باس کی عیادت کے لیے جائیں گے۔ میں پہلے گروپ میں تھا۔

ہاسپٹل میں فاطمہ موجود تھی۔ باس کی حالت کافی بہتر تھی۔ وہ ہوش میں آ چکے تھے۔ ڈاکٹر کے مطابق اب وہ خطرے سے باہر تھے۔ واپس آ کر میں نے شمع سے رابطے کی کوشش کی اس کا فون آن تھا مگر وہ کال اٹینڈ نہیں کر رہی تھی۔ میں نے اسے کئی میسج کیے مگر جواب نہ ملا۔ میں نے اسے میسیج کیا کہ میں دفتر سے چھٹی لے کر چار بجے آؤں گا۔ اس نے پھر بھی جواب نہ دیا۔

چار بجے جب میری گاڑی اس کے گھر کے گیٹ پر رکی تو میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ ادھیڑ عمر گیٹ کیپر نے گیٹ کھولا۔ وہ عجیب نظروں سے مجھے دیکھ رہا تھا۔ میں نے گاڑی پارک کی۔ باہر نکلا تو دیکھا گیٹ کیپر پاس ہی کھڑا تھا۔ اس کے ساتھ ایک تنومند نوجوان بھی تھا۔

”خیریت؟ کیا مجھ سے کچھ کہنا چاہتے ہو؟“ میں نے خوشگوار لہجے میں کہا۔
”جی صاحب!“ گیٹ کیپر نے ادھر ادھر دیکھا اور بولا۔

”صاحب! یہ میرا بھتیجا ہے۔ یہ رات کو گیٹ پر ہوتا ہے لیکن کبھی کبھی شمع بی بی اس کو پہلے بھی بلا لیتی ہیں جب کوئی خاص کام ہو۔“

میں نے تنو مند نوجوان کی طرف دیکھا اس کا چہرہ سپاٹ تھا۔
”تم بہت الجھی ہوئی باتیں کر رہے ہو۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ صاف صاف کہو کیا بات ہے“ میں نے کہا۔
”صاحب! آپ واپس چلے جائیں، اس وقت شمع بی بی کا موڈ اچھا نہیں ہے۔“

میں اس کی بات سن کر ہنس پڑا۔ ”کوئی بات نہیں، شمع بی بی کا موڈ اچھا کرنا مجھے آتا ہے۔“ میں اندر کی طرف بڑھ گیا۔ دروازہ کھلا تھا میں لاؤنج میں داخل ہوا۔ سامنے دیوار پر نوجوان کی تصویر اپنے اصل انداز میں تھی۔ کمرہ خالی تھی۔ میں نے شمع کو آواز دی تو وہ دروازے سے نمودار ہوئی۔ خلاف توقع وہ خوشگوار موڈ میں لگ رہی تھی۔ اس کے پیچھے مصباح بھی تھی۔

”شکر ہے تم نظر آئیں، میں تو سوچ رہا تھا کہ جیسے ہی میں اندر آؤں گا تم ملنے سے ہی انکار کر دو گی۔“

”ایسا کیوں سوچا؟ میں تم سے بہت بہت پیار کرتی ہوں اور مجھے یقین تھا کہ تم بھی ضرور آؤ گے کیونکہ تم میرے ہو صرف میرے۔“ اس نے آگے بڑھ کر گلے لگتے ہوئے کہا۔

”میں تمہیں کل کے بارے میں بتانا چاہتا تھا در اصل کل۔“

اس نے میرے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ دیا۔ ”کچھ نہ کہو، مجھے سب معلوم ہے۔ آج صرف اچھی باتیں ہوں گی، پیار کی باتیں۔“

میں اس کے خدشات دور کرنا چاہتا تھا مگر وہ کچھ سننا ہی نہیں چاہتی تھی۔ وہ مجھ سے بہت پیار جتا رہی تھی۔ کھانے کے دوران بھی اس کا لگاؤ پہلے سے کہیں زیادہ تھی۔ اپنے ہاتھ سے نوالے کھلا رہی تھی۔ آج کمرے میں روشنی مدھم تھی۔ ڈائننگ ٹیبل پر موم بتیاں روشن کی گئی تھیں، خوابناک سا ماحول تھا۔ شمع نے مصباح کو اشارہ کیا تو وہ کیمرہ لے کر آ گئی اور وہیں بیٹھے بیٹھے میری دو تین تصویریں بنائیں۔ میں سوچ رہا تھا کہ ان تصویروں کی کیا ضرورت تھی۔

اچانک میری نظر دیوار پر پڑی۔ تصویر والا نوجوان پھر انداز بدل چکا تھا۔ اس کے ہاتھ پر میز تھے اور چہرہ جھکا ہوا تھا جیسے وہ بہت غمگین ہو۔ اس بار میں نے تصویر کو یکسر نظرانداز کر دیا۔ کھانے کے بعد شمع نے میرا ہاتھ پکڑا اور بیڈ روم میں لے گئی۔ بیڈ روم اچھا خاصا بڑا تھا۔ ایک طرف ڈبل بیڈ تھا جبکہ دوسری طرف صوفہ تھا۔ فرش پر قالین بچھا تھا۔ کھڑکیوں پر نفیس پردے لگے تھے۔ میں صوفے کی طرف بڑھا تو اس نے پیار سے کھینچتے ہوئے مجھے بیڈ کی طرف دھکیل دیا۔

”کیا ارادے ہیں؟“ میں نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔ اس کی آنکھوں میں سرخ ڈورے تھے۔
”بہت جلد تمہیں نیند آ جائے گی، اس لیے بیڈ پر لائی ہوں۔“ اس نے خمار آلود لہجے میں کہا۔
”نہیں میں واپس جاؤں گا۔“
”مجھے چھوڑ کر جا سکتے ہو تو چلے جاؤ“ اس نے بے نیازی سے کہا۔

میں اٹھ کھڑا ہوا مگر یکا یک میری آنکھوں کے آگے اندھیرا سا آ گیا۔ میں نے سر جھٹکا اور لڑکھڑا کر پھر بیڈ پر بیٹھ گیا۔ عین اسی وقت مصباح بھی اندر آ گئی۔

”میم! تھوڑا انتظار کر لیں، ابھی اثر نہیں ہوا۔“ مصباح بولی۔
مجھے سب کچھ سمجھ میں آ رہا تھا۔ میں تیزی سے سوچنے لگا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے۔
”شمع تم مجھ سے محبت کرتی ہو۔ تم یہ کیا کر رہی ہو۔“
”تم بتاؤ کیا تم شمع سے پیار کرتے ہو؟“
”دل و جان سے کرتا ہوں، کیا تمہیں کوئی شک ہے؟“

”شک نہیں یقین ہے، تم سب ایک جیسے ہوتے ہو۔ کل رات میں نے اس لڑکی کو تمہارے ساتھ دیکھا تھا۔ خیر کوئی بات نہیں تم ہمیشہ میرے دل میں رہو گے“ شمع کا لہجہ بہت عجیب تھا۔

”پروانہ تو شمع سے پیار کرتا ہے لیکن یہ نہیں جانتا کہ شمع سے پیار کا انجام کیا ہے۔“ مصباح پہلی بار مسکرائی۔

”کیا انجام ہو گا؟“ میرا سوال مصباح سے تھا۔

”جو اس سے پہلے دو پروانوں کا ہو چکا ہے۔ شمع جب فیصلہ کرتی ہے تو پھر تبدیل نہیں کرتی۔ ویسے بھی شمع کا کیا قصور؟ پروانہ خود ہی شمع کی طرف بڑھتا ہے، لو سے لپٹتا ہے تو راکھ ہو جاتا ہے۔“

میری آنکھوں میں اندھیرا اتر رہا تھا۔ سر چکرا رہا تھا۔ میں بیڈ پر جھولنے لگا تھا۔ ”پہلے دو پروانے کہاں ہیں؟“

”اسی کوٹھی کے تہہ خانے میں۔ بہت جلد زمین کے نیچے تمہاری ان سے ملاقات ہو جائے گی اور تمہاری تصویر لاؤنج میں سج جائے گی“ مصباح کا لہجہ سفاک تھا۔

”تم نے مجھے کیا دیا ہے، کیا زہر دیا ہے؟“ میں چیخ اٹھا۔

جواب میں مجھے ہنسی کی آوازیں سنائی دیں۔ میں بیڈ پر گر گیا تھا۔ شمع اور مصباح کے چہرے مجھے اپنے بہت قریب دکھائی دے رہے تھے۔ غنودگی بڑھ رہی تھی میں نے بہت سر جھٹک کر ہوش میں رہنے کی کوشش کی مگر میرے ذہن پر اندھیرے چھاتے چلے گئے۔

نہ جانے یہ اندھیرا کتنی دیر طاری رہا۔ پھر میرے کانوں میں کچھ آوازیں آنے لگیں جیسے کچھ لوگ چل پھر رہے ہوں۔ وہ کچھ بول بھی رہے تھے مگر مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ میرے ذہن میں پہلا خیال یہ آیا کہ شاید میں مر چکا ہوں۔ میں نے آنکھیں کھولنے کی کوشش کی۔ آنکھیں کھلیں تو چھت دکھائی دی۔ میں نے ہلنے کی کوشش کی۔

”شکر ہے آپ کو ہوش آ گیا۔“ مجھے ایک آواز واضح طور پر سنائی دی۔ اس کے ساتھ ہی ایک چہرہ مجھ پر جھکا۔ وہ فاطمہ تھی۔ اب مجھے یاد آیا کہ شمع کے بیڈ پر جب پہلی بار میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا آیا تھا تو مجھے حالات کی سنگینی کا اندازہ ہو گیا تھا۔ میرے پاس فاطمہ کا نمبر تھا۔ میں نے ہیلپ لکھ کر دو تین نمبروں پر سینڈ کر دیا تھا جس میں سے ایک نمبر فاطمہ کا تھا۔ اس نے فوری طور پر دفتر کے ساتھیوں اور پولیس سے رابطہ کیا۔ آج احتیاطاً میں نے قادر کو بتا دیا تھا کہ شمع کے گھر جا رہا ہوں۔ خوش قسمتی سے پولیس وقت پر پہنچ گئی اور مجھے ہسپتال پہنچایا بصورت دیگر میں گمنامی کی دھند میں ہمیشہ کے لیے گم ہو جاتا۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ شمع کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments