عاشور: روحانی اہمیت کی حامل دنیا کی سب سے قدیم سویٹ ڈش کا مذہب سے کیا تعلق ہے؟

پال بینجمن آوسٹر لینڈ - بی بی سی ٹریول


اگرچہ چنے اور پھلیوں سے عموماً کھیر نہیں بنائی جاتی لیکن شاید آپ کو جان کر حیرانی ہو گی کہ یہ دنیا کی ’سب سے پرانی‘ اور کچھ کے مطابق دنیا کی سب سے ’لذیذ میٹھی ڈش‘ میں سے ایک کے بنیادی اجزا ہیں۔

یہ استنبول میں جنوری کا ایک سرد دن تھا اور باہر بوندا باندی ہو رہی تھی۔ میں کورتولوش میں قدیمی زمانے کے میٹھے بنانے والی ایک دکان پر پہنچا۔ یہ دُکان تندور میں کاڑھے ہوئے دودھ سے تیار کی جانے والی بہترین سویٹ ڈشز کے لیے مشہور ہے۔ وہ ایک ایسی سویٹ ڈش، عاشور، بھی تیار کرتے ہیں جسے بنی نوع انسان کے لیے بنایا جانے والا سب سے قدیم میٹھا سمجھا جاتا ہے۔

عاشور کو ’نوح کی کھیر‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اسلامی روایت کے مطابق جب حضرت نوح کا خاندان بڑے سیلاب سے بچ کر کوہ ارارات پہنچا تو جشن کے پکوان کے طور پر عاشور نامی سویٹ ڈش تیار کی گئی۔ کوہ ارارات کا علاقہ اب جدید ترکی کی شمال مشرقی سرحدوں کے کنارے پر ہے۔

یہ میٹھا جس میں عام طور پر تقریباً ایک درجن مختلف اناج، پھل، گری دار میوے اور پھلیاں شامل ہوتی ہیں، شاید اُن تمام چیزوں اور اجزا کو ملا کر بنایا گیا تھا جو اُس وقت دستیاب تھیں۔

نتیجے میں جو ڈش تیار ہوئی وہ ہلکی میٹھی، کچھ نمکین مگر انتہائی لذیذ تھی جس میں پھل بھی شامل تھے۔ اگر اس ڈش کو گرم پیش کیا جائے تو یہ پورِج یا دلیے کی طرح لگتی ہے، جب ٹھنڈی پیش کی جاتی ہے تو یہ جم کر کسٹرڈ جیسی ساخت کی نظر آتی ہے۔

دنیا کے قدیم ترین میٹھے کے طور پر پیش کیے جانے کے علاوہ عاشور کو آج اناطولیہ میں روحانی اہمیت کا حامل بھی سمجھا جاتا ہے۔ اناطولیہ جدید ترکی کا علاقہ ہے۔

’ووگ اور جی کیو ترکی‘ کی فوڈ ایڈیٹر کیمر توران نے اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ دنیا کے اس خطے میں عاشور شاید سب سے زیادہ بڑی علامتی ڈش ہے۔ ’عاشور کا مطلب عربی میں 10 ہے اور اس سے مراد اسلامی کیلنڈر کے پہلے مہینے محرم کا 10واں دن ہے۔ اس ہفتے کے دوران گھروں میں میٹھا پکایا جاتا ہے اور دوست و احباب میں تقسیم کیا جاتا ہے، جو اتحاد اور محبت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔‘

توران کا کہنا ہے کہ ’یہ تاریخ شیعہ مسلمانوں کے لیے خاص اہمیت کی حامل ہے اور علوی اور بکتاشیوں کے لیے بھی اس کی خاصی اہمیت ہے، کیونکہ یہ پیغمبر اسلام کے نواسے حضرت حسین کی شہادت کا دن ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

کیا ہمیں دن میں تین بار کھانا کھانا چاہیے؟

طویل عمر کا راز کیا ہے، خوراک، عبادت یا اعتدال؟

وہ ڈائٹ پلان جس کے ذریعے بھارتی سنگھ نے اپنا وزن کم کیا

کھانوں میں طویل وقفہ آپ کا وزن کم کرنے اور بہتر صحت کے لیے اچھا کیوں ہے؟

توران نے اپنے آرٹیکل میں اپنے مرحوم دادا کی ثقافتی اور پکوان بنانے کی عادات کی کھوج کی، جو بکتاشی عقیدے کے روحانی پیشوا اور شیعہ روایات سے متاثر ایک صوفی تھے۔ اگرچہ بکتاشیوں کو اپنی جڑیں اناطولیہ میں ملی ہیں لیکن سنہ 1925 میں ترک جمہوریہ کے بانی مصطفی کمال اتاترک کی جانب سے صوفی احکامات پر پابندی کے بعد ان کا صدر دفتر البانیہ منتقل ہو گیا تھا۔

اُن کا عقیدہ نظام ’علوی ازم‘ کے قریب تر ہے جو خود ایک متضاد، غیر سنی مذہب ہے۔ اگرچہ علوی ترک آبادی کا 20 سے 25 فیصد ہیں لیکن اُن کے عقیدے کو حکومت قانونی طور پر تسلیم نہیں کرتی۔

مذہب اور تاریخ کو ایک طرف رکھتے ہوئے، توران نے مجھے بتایا کہ ’اِس ڈش میں چنے اور پھلیوں جیسے اجزا کی موجودگی خوراک کو توازن اور ذائقوں کو دی جانے والی اہمیت کو ظاہر کرتی ہے جو کثرت اور خوشحالی کی غماز ہے۔ اس خطے میں کھانے کتنے غذائیت سے بھرپور ہیں اور یہ کہ ہمارے کچن میں پینٹری کتنی اہم ہے۔ ہمارے باورچی خانے ہمیشہ ہر قسم کے کھانوں سے بھرے ہوتے ہیں جن میں پھلیاں، دال، اناج اور بیج شامل ہیں۔‘

ترکی اور اس سے بھی آگے عاشور کی بے شمار اقسام اور ترکیبیں موجود ہیں خاص طور پر بغیر گوشت سے بنا عاشور جو غذائیت سے بھرپور ہوتا ہے اور موسم سرما کا ایک مثالی میٹھا ہے، کیونکہ یہ صحت بخش اور پیٹ بھرنے والا ہوتا ہے۔

فائل فوٹو

محرم کے مہینے میں عاشور گھروں میں پکایا جاتا ہے اور دوستوں اور پڑوسیوں میں تقسیم کیا جاتا ہے

استنبول یونیورسٹی میں تعمیراتی تاریخ اور آثار قدیمہ کی پروفیسر سنا کگاپتے ’نیو لائنز میگزین‘ کے لیے لکھے گئے اپنے مضمون میں بیان کرتی ہیں کہ بچپن میں وہ سمجھتی تھیں کہ یہ ڈش جنوب مشرقی ترکی کے شہر ملاتیا کی ہے جہاں ان کی پرورش ہوئی تھی اور جہاں سنی اور علوی دونوں آباد ہیں۔

سنا کگاپتے نے لکھا ’جب میں سات سال کی تھی تو میں سمجھتی تھی کہ یہ کھیر علویوں کا مخصوص میٹھا ہے۔ جب میں اور بڑی ہوئی تو میں نے محسوس کیا کہ سنی بھی یہ ڈش بناتے ہیں۔‘

میں نے سنا کگاپتے سے کہا کہ وہ اپنے اور اپنے خاندان کے عاشور سے متعلق روایات اور تجربات کے بارے میں مزید بتائیں۔

انھوں نے بتایا کہ کس طرح اُن کی والدہ یہ ڈش صرف آٹھ اجزا یعنی گندم، چینی، کشمش، چنے، سفید پھلیاں، پانی، دار چینی اور اخروٹ کا استعمال کرتے ہوئے بنا کر گرم گرم پیش کیا کرتی تھیں۔

’عاشور بنانے کے بارے میں میری ابتدائی دو یادیں ہیں۔ پہلی یاد مجھے اس لمحے میں واپس لے جاتی ہے جب میں دار چینی اور اخروٹ کے مکس سے بھری ہوئی تانبے کی ایک چھوٹی سی بالٹی پکڑے اپنی والدہ کے ساتھ ہوتی تھی، جن کے پاس کھیر سے بھری تانبے کی ایک بڑی بالٹی ہوتی تھی اور وہ ہمارے پڑوسیوں کے دروازے کھٹکھٹاتی تھی۔ جب میری والدہ پڑوسی کے پیالے میں کھیر ڈالتی تو میں دال چینی اور اخروٹ کے مکسچر اس کھیر پر ڈال کر کھیر کو گارنش کرتی۔ یہ کھیر تقسیم کرنے کا دیہی طریقہ ہوا کرتا تھا۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’استنبول یا دوسرے شہری علاقوں میں آپ اپنے پیالوں میں عاشور نکال کر اسے گارنش کرتے ہیں اور پھر ہمسائے کو دینے جاتے ہیں۔‘

ایک قدیم تاریخی اور ثقافتی اہمیت کے حامل میٹھے نے جس نے زیادہ تر مٹھائیوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہو اسے بنانا کافی مشکل لگتا ہے۔ اس لیے میں نے کورتولوش کی اس پرانی دکان میں جا کر اسے کھانے کا فیصلہ کیا۔

یہ تاریخی طور پر ایک یونانی محلہ ہے جو ایک کثیرالثقافتی احساس کو بھی برقرار رکھتا ہے اور یہاں اب بھی ایک قابل ذکر آرمینیائی، یونانی اور یہودی آبادی ہے۔

دکان کے مالک الہان یالسن نے کہا کہ عاشور کی ترکیب اس ڈش کے ثقافتی اثر و رسوخ کے عین مطابق اُن کے دادا نے تیار کی تھی جو ایک آرمینیائی ٹھنڈے سوپ پر مبنی تھی جسے عاشور کی مختلف قسم کہا جا سکتا ہے۔

اس کا ورژن بہت سادہ تھا لیکن پھر بھی اجزا کی بہتات ہے جس میں خشک انجیر، خشک خوبانی، کشمش، چنے، سفید پھلیاں، نمک، چاول کا نشاستہ، پسے ہوئے ہیزل نٹس اور ہلدی کی تھوڑی سی مقدار شامل تھی جو اس ڈش کو ایک خوشگوار پیلا رنگ دیتی ہے۔

اس میں سوکھے میووں کی قدرتی مٹھاس تھی جبکہ خوبانی کے باعث معمولی سا ترش پن ہوتا ہے۔

توران نے کہا کہ سال بھر آنے والے سیاحوں کے لیے عاشور کھانے کے لیے میٹھے کی دکانیں بہترین جگہ ہیں۔ یہ جانتے ہی میں مشہور عثمانی ریستوراں ہنکار گئی جہاں مجھے معلوم ہوا کہ وہاں اس دن عاشور نہیں تھا بلکہ اس سے ایک دن پہلے تک دستیاب تھا۔

میں نے عثمانی کھانوں سے متاثر ایک شخص ہاسی عبداللہ کو فون کیا۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ وہ فی الحال وہاں عاشور پیش نہیں کر رہے حالانکہ یہ ان کی ویب سائٹ کے مینو میں درج ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کچھ ریسٹوراں صرف محرم کے مہینے میں عاشور پیش کرتے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ دیگر اوقات میں اس کی زیادہ مانگ نہ ہو۔

لہذا میں استنبول کی کھیر کی دکانوں کی ایک چین ’سرائے‘ کی جانب روانہ ہوئی جس میں مینو میں عاشورہ موجود تھا۔ سرائے کا عاشور تقریباً ویسا ہی تھا جیسا میں نے کچھ دن پہلے گوریمے میں کھایا تھا، لیکن اس میں گِھسا ہوا ناریل اور انار کے دانے بھی شامل تھے۔

اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ اس ڈش میں کون سے اجزا استعمال کیے گئے ہیں، یہ ایک ایسی ڈش ہے جو اسے تیار کرنے والوں میں سے بہت سے لوگوں کے لیے پرانی یادوں کے جھروکے کھول دیتی ہے۔

سنہ 2000 میں کگتاپے کی والدہ کی وفات کے بعد انھوں نے عاشور کو اپنی والدہ کی یادوں سے وابستہ کر دیا اور وہ گذشتہ 22 سال سے اسے ہر سال محرم کے مہینے میں بناتی ہیں۔ اس دوران انھوں نے اس کی اپنی ترکیب تیار کی ہے۔ وہ گری دار میوے اور پھل ڈالتی ہیں اور اسے ٹھنڈا پیش کرتی ہیں۔

کگاپتے کا کہنا ہے کہ ’میرا خیال ہے کہ جب اسے ٹھنڈا کھایا جاتا ہے، تو اس کا ذائقہ بہت اچھا لگتا ہے کیونکہ گندم گاڑھی ہو جاتی ہے اور تمام اجزا آپس میں اچھی طرح سے گھل مل جاتے ہیں۔ جب میں نے پہلی بار کھانا پکانا شروع کیا تو میں نے اس میں کٹے ہوئے تازہ ناشپاتی اور سیب، خشک انجیر اور خوبانی شامل کرتے ہوئے پایا، اور اس میں دارچینی کا ٹکڑا، لونگ اور چھلے ہوئے بادام ڈالے اور مٹھی بھر چاول ڈال کر شوربے کو مزید سفید کیا۔‘

’اس کے علاوہ، میں اپنی والدہ سے سیکھی ہوئی ترکیبوں کو ہمیشہ بہتر بنانا پسند کرتی ہوں۔ میں سوچتی ہوں کہ اگر وہ ہوتیں تو شاید اسے اس طرح بہتر بناتیں۔‘

ترکیبوں پر کئی برسوں کی تحقیق کرنے اور ڈش پکانے کے بعد، کگاپتے نے کئی تسلی بخش نتائج اخذ کیے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے یہ بات بہت پسند ہے کہ کس طرح عاشور اس کی مختلف شکلیں اور اس کی مٹھاس ایک نئی شروعات کی علامت ہیں۔ میرے خیال میں بہت کم تراکیب عاشور کی طاقت رکھتی ہیں جس میں وسیع پیمانے پر بائبل اور مسلم حوالہ جات ہیں جو ہمیں یکساں خطوط پر سوچنے کی ہدایت کرتے ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32287 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments