اک ’تقرری‘ سب پہ بھاری


یہ اہم ترین فیصلہ جتنا آسان ہوتا ہے ہم ہر تین چار سال بعد اسے مشکل بنا دیتے ہیں نہ جانے کس انجانے خوف سے چار یا پانچ نام فوج کی طرف سے وزیراعظم کو بھیجے جاتے ہیں۔ جن میں سے انہیں کسی ایک سینئر جنرل کو فور اسٹار ترقی دے کر فوج کا نیا آرمی چیف مقرر کرنا ہوتا ہے۔ شاذ و نادر ہی اس سے ہٹ کر فیصلہ ہوتا ہے۔ البتہ یہ وزیراعظم کا آئینی اختیار ہوتا ہے کہ وہ ان میں سینئر ترین کو چیف لگاتے ہیں یا ان میں سے کسی کو دیگر پر ترجیح دیتے ہیں۔ بات توسیع پر آ جائے تو معاملہ مختلف ہوجاتا ہے۔ یہ پہلا موقع ہو گا کہ شہباز شریف بحیثیت وزیر اعظم یہ فیصلہ کرنے جا رہے ہیں۔

اب میرے علم میں یہ بات تو نہیں کہ وزیراعظم کی لندن میں اپنے بڑے بھائی میاں نواز شریف سے اس سلسلے میں کیا مشاورت ہوئی۔ تقرری یا توسیع کے حوالے سے دونوں کے درمیان یہ اتفاق البتہ ہو گیا ہے کہ فیصلہ کسی دباؤ میں نہیں کیا جائے گا، اعلان وزیر اعظم کی طرف سے طریقہ کار کے مطابق ہو گا اور یہ حکومت بہرحال اگست 2023 تک رہے گی۔ دوسری طرف اس صورتحال کو بھانپتے ہوئے سابق وزیر اعظم عمران خان نے بھی اسلام آباد تک چڑھائی کی دھمکی دے دی ہے۔ میری اپنی معلومات کے مطابق موجودہ حکومت جو 11 جماعتی اتحاد پر مشتمل ہے۔ پچھلے پانچ ماہ میں جب سے مارچ 2022 میں عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کی حکومت کا خاتمہ ہوا اپنی معاشی پالیسیوں کی بنیاد پر کمزور ضرور ہوئی ہے اور پاکستان تحریک انصاف نے نہ صرف جلسوں مگر ضمنی الیکشن میں بھی بڑی کامیابیاں حاصل کر کے پنجاب میں ہی اپنی حکومت واپس نہیں لی بلکہ آئندہ ماہ 8 ضمنی الیکشن اور کراچی کے بلدیاتی الیکشن کے حوالے سے بھی خان صاحب پر امید ہیں۔ پچھلے ہفتہ کا میرا ٹویٹ ”عمران کی واپسی کا سفر شروع“ اطلاعات کی بنیاد پر تھا کہ خان صاحب کے معاملات آگے بڑھے ہیں البتہ وزیر اعظم کا اس پر کیا ردعمل ہو گا یہ ان کی وطن واپسی پر پتا چلے گا جب وہ سابق صدر آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمان سمیت دیگر اتحادیوں کو لندن ملاقات پر اعتماد میں لیں گے۔ عمران خان نے، جو الیکشن جیتنے کے حوالے سے ہمیشہ ہی پر امید رہے ہیں، حال ہی میں فیصل آباد کے جلسے میں اس اہم ترین تقرری پر غیر ضروری طور پر ایک تنازع کھڑا کر دیا اپنی چند اطلاعات کی بنیاد پر۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کا اس پر ردعمل سامنے آیا تو خان صاحب کے کیمپ میں کچھ پریشانی لاحق ہوئی۔ سینئر صحافی اور اینکر پرسن کامران خان سے انٹرویو میں وہ یہ تو کہہ گئے کہ نئے آرمی چیف کا تقرر نئی منتخب حکومت کو عام انتخابات کے بعد کرنا چاہیے اور تب تک فیصلہ مؤخر کر دینا چاہیے مگر اس دوران کیا ہو، وہ بس توسیع کا لفظ اپنی زبان پر لاتے ہوئے گھبراتے نظر آئے وہ تو اللہ بھلا کرے جناب فواد چوہدری صاحب کا انہوں نے تصدیق کر دی کہ مطلب توسیع ہی تھا۔ خان صاحب کو غصہ یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر نیا آرمی چیف ان کے بقول مجرم نواز شریف اور ڈاکو آصف زرداری کے کہنے پر لگا تو میرٹ پر نہیں ہو گا۔ اس کے معنی بہت سادہ سے ہیں کہ کوئی نام ہے جو انہیں خوف میں مبتلا کر رہا ہے۔ اب یہ خوف ہمارے ہر سویلین حکمراں کے نصیب میں رہا ہے جس کی وجہ سے یا تو کسی ایک کو سینئر ترین پر ترجیح دے دیتے ہیں یا توسیع دے دیتے ہیں۔

پاکستان کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ کا کردار ہماری سیاست کا حصہ رہا ہے۔ ایک بار آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گل مرحوم نے میرے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ”ہم سے بنیادی غلطی اس وقت ہوئی جب ایک حاضر سروس چیف کو وزیر دفاع بنا کر حکومت میں شامل کر لیا گیا پھر جنرل ایوب خان نے مارشل لا لگا دیا“ ۔ بھٹو صاحب سب سے طاقتور سویلین حکمراں تھے مگر خوف کا یہ عالم تھا کہ جنرل گل حسن جیسے پروفیشنل سولجر کو چیف آف اسٹاف لگایا پھر ہٹا کر پہلے جنرل ٹکا خان کو کمانڈر ان چیف بنا دیا اور پھر کوئی چھ یا سات جنرلز پر ترجیح دیتے ہوئے جنرل ضیاء الحق کو چیف لگا دیا۔ گو کہ بھٹو صاحب کے ایک قریبی ساتھی اور اس وقت سندھ کابینہ کے وزیر کمال اظفر صاحب کا کہنا ہے ”میں اس وقت اس کمرے میں موجود تھا جب اردن کے شاہ حسین کا فون آیا تھا بعد میں بھٹو صاحب نے بتایا کہ اس کی تقرری کی بات کی ہے“ ۔ چند سال بعد کیا ہوا ہماری بھیانک سیاسی تاریخ کا حصہ ہے۔ میاں نواز شریف نے سویلین حکمرانوں میں سب سے زیادہ تقرریاں کی ہیں۔ اس اہم ترین عہدہ پر مگر شاید ہی کسی سے تنازع نہ بنا ہو۔ یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ تمام معاملات میں غلطی صرف ایک فریق کی نہیں رہی۔ کم از کم جنرل مشرف کے کیس میں تو ایسا ہی ہے۔ مگر شاید جنرل جہانگیر کرامت کے معاملے میں میاں صاحب ضرورت سے زیادہ آگے چلے گئے۔ وہ تو کرامت صاحب نے خود استعفیٰ دے دیا ورنہ سعید مہدی کو برطرفی کی سمری تیار کرنے کا حکم دے دیا تھا جو انہوں نے استعفیٰ کے بعد روک لی۔ جنرل راحیل شریف نے پہلے ہی اعلان کر دیا تھا کہ وہ توسیع نہیں لیں گے۔ 2014 کے دھرنے کے دوران جو ان کی اہم ملاقات میاں صاحب سے وزیر اعظم ہاؤس میں pti کے دھرنے کے دوران ہوئی اس سے غالباً راحیل شریف صاحب کو اندازہ ہو گیا تھا۔ سابق صدر آصف زرداری نے جنرل کیانی کو پوری ایک مدت کی توسیع دی اور پھر پہلی بار توسیع کے حوالے سے بات سپریم کورٹ تک میں پہنچ گئی۔ موجودہ آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کے حوالے سے اسی سال اپریل 2022 میں ہی ڈی جی آئی ایس پی آر نے واضح اعلان کیا کہ وہ توسیع نہیں لیں گے چاہے ان کو وزیر اعظم توسیع دینا بھی چاہیں۔ اب اگر بات الیکشن تک کی آتی ہے تو کیا اتفاق رائے ہو جائے گا۔ یہی اہم ترین سوال ہے جس کا جواب ایک ماہ بعد آئے گا۔ آخر کیوں یہ ایک تقرری سویلین حکمرانوں اور سیاست دانوں کے ذہنوں پر سوار رہتی ہے۔ اب جب کہ کم از کم 50 سالہ تاریخ سے یہ ثابت ہے کہ وزرائے اعظم کے اس حوالے سے معاملات گڑبڑ ہی رہے ہیں کیا بہتر نہ ہو گا کہ یہ فیصلہ اس ادارے پر ہی چھوڑ دیا جائے، جس طرح سپریم کورٹ نے چیف جسٹس پاکستان کے بارے میں طے کر لیا ہے۔ نہ وہاں کبھی توسیع کا معاملہ آیا نہ تقرری پر تنازع کھڑا ہوا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments