کہانی رائیگانی کی


ڈیئر پروفیسر

سلام، آج ایک لمبے وقفے کے بعد آپ سے بات کرنے کی شدید خواہش ہے جو ہمیں خط لکھنے پر مجبور کر رہی ہے۔ سوچ کے کیڑے کی کلبلاہٹ جب حد سے زیادہ بڑھ جاتی ہے تو وہ کاٹنا شروع کر دیتا ہے۔ ایسے میں ایک انسان کو کسی دوسرے انسان کی شدت سے ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ کوئی ایسا جو احساسات کی کاٹ کو سمجھ سکے۔

انسان ایک معاشرتی حیوان ہے ایسا ہم نے پڑھا تھا مگر فی زمانہ معاشرت دم توڑ رہی ہے اور حیوانیت عروج پہ ہے۔ ہمہ وقت دانت نکوسے کتوں کو غراتے دیکھ کر خوف کی لہر تن بدن میں دوڑ جاتی ہے۔ جو نہیں ہونا چاہیے وہ کیوں ہو رہا ہے؟ اور جو ہونا چاہیے وہ کب ہو گا؟ وہ عصائے کلیمی کہاں سے لائیں جو پانی میں راستہ بنا دے۔ ایسا رستہ جو جانب منزل ہو۔ بد قسمتی سے ید اللہ کہیں نہیں ہے۔ ہمارے ارد گرد ایسا کوئی ذی حس نہیں جو بات سمجھنا تو درکنار سن بھی سکے۔ ان بے سر و پا باتوں کے لیے ان کے پاس وقت نہیں ہے۔ ان سے یہ کیسے کہیں کہ

چھلنی میں پانی بھرتے عمر گزری
اب کچھ اور کرو

رات کا پچھلا پہر ہے۔ خاموشی کی چادر تانے رات گہری نیند سو رہی ہے۔ وہ آوازیں جو دن کے جھمیلوں میں کبھی محسوس بھی نہیں ہوتیں شد و مد کے ساتھ اپنے ہونے کا احساس دلا رہی ہیں۔ چھت پہ لگے پنکھے کی ہلکی ہلکی گھرر گھرر دیواری گھڑی کی ٹک ٹک اور ایک دوسرے کا پیچھا کرتی ہوئی سوئیاں۔ باتھ روم کے نلکے سے ٹپکتی بوندوں کی ٹپ ٹپ۔ ہر آواز کا اپنا ردھم ہے۔ شب کے سناٹے کو چیرتی یہ تمام آوازیں جیسے ہلکے سروں میں کچھ کہہ رہی ہوں مگر جو انسانوں کی نہیں سنتے وہ ان بے جان اشیا کی بپتا کیا سنیں گے۔

جب نیند آنکھوں سے کوسوں دور ہو تو دھیان ان آوازوں کی جانب جاتا ہے۔ پنکھے کو غور سے دیکھو تو محسوس ہوتا ہے گویا زندگی کے دائرے میں حرکت کرتے تین ادوار ہوں۔ حرکت جو زندگی کا دوسرا نام ہے یہ رک جائے تو زندگی رک جاتی ہے۔ شاید لوگ ٹھیک کہتے ہیں کہ زندگی دائروں کا سفر ہے اور اپنے انجام تک یہ سفر جاری و ساری رہتا ہے۔ چابی سے چلنے والے کل پرزے کی مانند ایک دائرے سے نکل کر انسان دوسرے دائرے میں داخل ہو جاتا ہے۔ ان ہی دائروں میں گھومتے گھومتے سانس کم ہوتے ہوتے رک جاتی ہے۔

گھڑی کی سوئیوں کا ایک دوسرے کے مسلسل تعاقب میں رہنا، یہ سب کیا ہے؟ یہی ناں کہ خواہشات کے گھوڑے پہ سوار انسان بھی تو تعاقب میں رہتا ہے۔ ایک کے بعد دوسری پھر تیسری زندگی ختم ہو جاتی ہے مگر خواہشات کا یہ لا متناہی سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوتا۔ ایک بار جو اس ریس کے گھوڑے کی پیٹھ پہ بیٹھ جائے تو ہل من مزید کا ورد زبان پہ جاری رہتا ہے۔ ایک ریس ختم نہیں ہوتی کہ دوسری کی سیٹی بج جاتی ہے۔ گھڑی کی ٹک ٹک متنبہ کر رہی ہے کہ وقت کو پر لگ گئے ہیں۔ اس کی رفتار سوچ کی رفتار سے کہیں زیادہ تیز ہو گئی ہے مگر اسے نظر انداز کر کے خواہشات کے حریص پرندے نت نئی منزلوں کی جانب اڑان بھرنے سے باز بہیں آتے اور حقیقت یہ ہے کہ ایک ہلکی سی پھونک سے یہ چراغ بجھ جاتا ہے۔

نلکے سے وقفے وقفے سے گرتی بوندوں کی ٹپ ٹپ کہہ رہی ہے کہ کچھ خرابی ضرور ہے مگر کسی کے پاس وقت ہی کہاں ہے جو ان بوندوں کی بر وقت فریاد سنے۔ جن کانوں کو چیخیں نہیں سنائی دیتیں جو انسانوں کے درد کو محسوس نہیں کر سکتے وہ اس دھیمی سی ٹپ ٹپ کا المیہ کیا سمجھیں گے۔ ہاں جب پانی سر سے گزر جائے گا تب سوچیں گے۔ اور یہ بھی تو گمان ہی ہے کہ جب سوچیں گے۔ سوچ بے لگام ہو تو کچھ بھی سوچا جا سکتا ہے مثلاً یہ کہ ان قطروں کی قسمت میں گوہر ہونا ہی نہیں لکھا ہے۔ یہ قسمت بھی عجیب شہ ہے کہ ہر الزام چپ چاپ سہ جاتی ہے مگر اف نہیں کرتی۔

بے حسی کے اس دور میں سوائے اکا دکا کے لوگوں نے ضمیر نام رکھنا چھوڑ دیا ہے مبادا اسے پکارتے سویا ہوا ضمیر نہ جاگ اٹھے۔ یہ سویا ہی رہے تو اچھا ہے جاگ اٹھا تو بڑی قیامت ہو گی۔ اپنے ارد گرد ہونے والی تمام نا انصافیاں، ظلم و جبر دیکھ لے گا تو چپ نہ بیٹھ گا بات بے بات ٹوکے گا، کچوکے لگائے گا، جھنجھوڑے گا۔ ہماری نیند خراب کرے گا اور اس حبس زدہ گرمی میں ہمیں اپنے ٹھنڈے کمروں سے باہر نکلنا پڑے گا۔ دیکھنا پڑے گا کہ باہر کیا قیامت ٹوٹی پڑی ہے۔ اٹھارہویں یا انیسویں صدی میں لکھے گئے وہ اشعار سنائے گا جو سر سے گزر جاتے ہیں۔

درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کر و بیاں

لکھنے والوں کا کیا ہے کچھ بھی لکھ لکھ کر صفحے کالے کرتے رہتے ہیں۔ اب انہیں سمجھنے کے جھنجھٹ میں کون پڑے۔ زندگی میں اور تھوڑی بک بک ہے کہ یہ سب بھی کریں۔ جاؤ سو جاؤ اور ہمیں بھی سونے دو تنگ نہ کرو کہ تازہ دم ہو کر کولہو کے بیل کو کل پھر زندگی کے دائرے میں گھومنا ہے۔ دفتری فائلوں کا پیٹ بھرنا ہے اور سب کشل منگل ہے کی رپورٹ دینی ہے۔

پروفیسر، ہماری آنکھوں میں نیند کیوں نہیں ہے؟ سوچ کے قافلے رات کے پچھلے پہر ہی کیوں آتے ہیں کیا دن کے شور و ہنگامے میں یہ راستہ بھول جاتے ہیں؟ زندگی کی بے ثباتی کا احساس صرف رات کو ہی کیوں ہوتا ہے؟ اس پریشان رات کا کوئی انت بھی ہے یا نہیں؟ رائیگانی کی اس کہانی کے لاکھوں کردار کشل منگل کی معنی سے نا آشنا ہیں اور ان کے مدقوق چہروں پہ ایک ہی سوال لکھا ہے کہ اب کیا ہو گا ہمارے پاس تو کچھ نہیں بچا اب زندگی کیسے کریں گے؟ سوال تو ان گنت ہیں مگر جواب دینے والا کوئی نہیں۔ ہر کوئی اپنا دامن بچا کر نکل جاتا ہے۔

اب ہم بھی کیا کریں کہ ہماری نسل نے صرف رات ہی دیکھی ہے ایک طویل تاریک رات، ملگجے دن کا زرد اجالا ہی دیکھا ہے۔ چمکیلے اجالوں کا ذائقہ نہیں چکھا۔ بقول فیض

یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں

کیا یہ کروڑوں انسان خواب دیکھنا نہیں چاہتے؟ جہاں تن پہ چیتھڑے اور پیر میں چپل نہیں، سر پہ سائبان اور پیٹ میں روٹی نہیں، پینے کو صاف پانی نہیں چھالوں بھرے پاؤں کے نیچے کی زمین سیلاب لے جائے تو انسان جلتی آنکھوں سے خواب کیسے دیکھے؟ عزیز من یہ شاید ساحر نے کہا تھا

مفلسی حس لطافت کو مٹا دیتی ہے
بھوک آداب کے سانچے میں نہیں ڈھل سکتی

ان کے خوابوں پہ شب خون پڑ چکا ہے۔ سنا ہے کہ چڑیا بھی اپنے بچوں کو بچانے کے لیے ممولے سے لڑ جاتی ہے۔ مگر یہ کیسی بے حس ماں ہے جسے اپنے بچوں کے دکھ درد کا احساس ہی نہیں۔ جب امید کا مرکز کوئی نہ ہو تو خواب روٹھ جاتے ہیں۔ شاید ایسی ہی الہامی کیفیت میں فیض نے لکھا تھا

اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کر لو
اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا

ایک فیض ہی پہ کیا موقوف ان سے پہلے اور ان کے بعد اور کتنے اس کرب سے گزرے کون جانے؟ ان آخری سوالوں کے جواب تو آپ دے ہی سکتے ہیں کہ زندگی کی چکی میں پستے ہوئے یہ لاکھوں کروڑوں انسان کیوں ناکام ہیں؟ کیا یہ سب تسلسل سے دھرائی جانے والی رائیگانی کی کہانی کے نئے کردار ہیں؟ کیا وقت کا اندھیرا ان کی کہانی نگل لے گا؟

ہے کوئی جو یہ پیغام فیض صاحب تک پہنچا دے کہ یہ جاننے کے باوجود کہ یہاں کوئی نہیں ہے اور آنے کا امکاں بھی نہیں ہے پھر بھی بے خواب کواڑ بند کرتے ہمارے ہاتھ کانپتے ہیں۔ دل خوش فہم کی آس ابھی تک ٹوٹی نہیں ہے گو قطرے میں دجلہ دکھانے کا ہنر تو نہیں آتا مگر کالی دیواریں گواہ ہیں کہ آج بھی کوئی نہ کوئی دیوانہ ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں زندگی کی دکھ بھری تاریخ رقم کر رہا ہے۔

سنو
زندگی سے ربط بحال رکھنے کو
دیواروں پہ گونگے بہرے الفاظ لکھتے رہو
گو سرد موسموں میں ایسا کم ہوا ہے
مگر شاید کوئی اچٹتی نگاہ ٹھٹھک کر ٹھہر جائے
شاید یہ لفظ بولنے لگیں
شاید سورج پلٹ آئے
والسلام
غزالہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments