پردہ تو فقط ایک بہانہ ہے اصل میں ”روزن“ کا شاخسانہ ہے۔


علی محمد خان سے پیشگی معذرت کیوں کہ میں نے ان کے اصل جملے کے ساتھ چھیڑ خانی کی ہے ان کا اصل جملہ کچھ اس طرح سے تھا جو انہوں نے عدم اعتماد کی رات اسمبلی کے فلور پر ارشاد فرمایا تھا کہ ”روس صرف بہانہ ہے عمران خان نشانہ ہے“

یہ جملہ بیان بازی یا مبالغہ آمیزی کی حد تک انتہائی رومانوی سا لگتا ہے یا یوں کہہ لیں کہ ”آکسیمورون“ ہے۔ مطلب ایک ہی جملے میں سوچ کے دو زاویے یا دھارے ایک دوسرے کی نفی کرتے ہیں۔ پارسائی اور مبالغہ آمیزی کے درمیان جو رشتہ ہے وہ ایک طرح سے اٹوٹ انگ ہوتا ہے، اسی لئے ملمع سازی اور خوش الحانی اس پختہ قسم کے رشتے کا اقبال بلند کیے رکھتے ہیں۔ جس طرح سے بغض پی ڈی ایم اور حب عمران میں سرشار ہو کر کے علی محمد خان نے عمران خان کی رخصتی کی رام لیلا سنائی تھی جس کا حقائق سے دور دور تک کوئی واسطہ یا سمبندھ نہیں تھا بالکل اسی طرح سے ہمارے معاشرے کی غیرت بریگیڈ کا یہ کہنا کہ ”عورت کی بے پردگی معاشرے میں بے راہ روی پھیلاتی ہے“ کا بھی حقائق سے کوئی واسطہ نہیں ہے بلکہ اپنی عزت کو بلند کیے رکھنے کا ایک کھوکھلا سا جواز یا ڈھکوسلا ہے۔

جبر کے ظالمانہ پیمانوں کا مقصد شخصی کھوکھلے پن کے بھرم کو برقرار رکھنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا۔ مورل پولیسنگ کا مقصد دوسروں کو حقیر اور خود کو برتر جاننے کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے؟ اخلاقیات کے یہ ٹھیکیدار خواہ دنیا کے کسی بھی کونے میں آباد ہوں کوئی فرق نہیں پڑتا ان کی ذہنیت قرون وسطی میں اٹکی رہتی ہے، چاہے ان کا تعلق ایران سے ہو جہاں کی مورل پولیس کا ایمان صرف اس وجہ سے خطرے میں پڑ گیا کہ مہسا امینی نے وہاں کے مذہبی پنڈتوں کے فرمان کے مطابق پردہ کرنے سے انکار کر دیا تھا اور اپنی نجی سوچ و خواہش کے مطابق تن ڈھانپنے کی غلطی کر ڈالی تھی۔

لہذا اسی باغیانہ روش کو بنیاد بنا کر اسے عبرت کا نشان بنا دیا گیا تاکہ کوئی اور پارسان وقت کے خلاف جانے کی کوشش نہ کرے مگر شنید ہے کہ سینکڑوں مہسا امینی اپنے اپنے نقاب یا عبایہ اتار کر اپنی ساتھی کی آواز بن چکی ہیں۔ ہمارے پارسان بھی ان سے مختلف نہیں ہیں، مفتی عبدالقوی کی بڑی بڑی اخلاقی باتیں سن لیجیے اور پھر اس کی زندگی کا حقیقی عکس ملاحظہ فرما لیں جس میں آپ کو قندیل بلوچ اور حریم شاہ کے ساتھ ان کی ٹھرکیلی اٹکھیلیاں نظر آئیں گی۔

اس کے علاوہ کچھ عرصہ پہلے موصوف کی رنگ رلیاں مناتے ہوئے ویڈیو منظر عام پر آ گئی تھی جس کے متعلق مولانا کا فرمانا تھا کہ اس ویڈیو میں جسم ان کا نہیں ہے، البتہ لحم معلق کے متعلق انہوں نے واضح نہیں کیا کہ وہ بھی ان کا ذاتی تھا یا کسی اور کا تھا؟ قندیل بلوچ کی غربت کا جو تماشا مفتی قوی نے لگایا اس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی اور جب قندیل نے ان کا حقیقی چہرہ معاشرے کو دکھانے کی کوشش کی تو انہوں نے اسی کے نشئی بھائی کی غیرت جگا دی جس نے عزت کے نام پر اسے ٹھکانے لگا دیا۔ حالانکہ تلخ حقیقت یہ تھی کہ وہ اپنی آبرو کو داؤ پہ لگا کر اپنے خاندان کی کفالت کر رہی تھی۔ آخر وہ مردانہ عتاب سے کیسے بچ سکتی تھی؟

”ذات دی طوائف تے پاکبازاں نوں چیلنج کرے“

اب ہر کوئی حریم شاہ تو نہیں ہو سکتا جو سامنے سے مفتی قوی کے منہ پر تھپڑ رسید کر کے اس کی عزت کی دستار ہی الٹا دے۔ مختاراں مائی کے ساتھ گینگ ریپ کی صورت میں جو ظلم برپا ہوا جسے ایک ڈکٹیٹر نے غلط رنگ دینے کی کوشش کرتے ہوئے ”ڈرامہ“ تک کہہ ڈالا تھا، جس کا بین الاقوامی سطح پر بہت زیادہ ری ایکشن آیا تھا۔ دنیا حیران تھی کہ کرہ ارض پر کیا ایک ایسی مخلوق بھی آباد ہو سکتی ہے جو خواتین کے ساتھ زور زبردستی کو ڈرامہ سمجھتے ہوں؟

عزت کے یہ جتنے بھی ٹھیکیدار بنے پھرتے ہیں اور عورت کو درجنوں لباسوں میں لپیٹ کر خود کو راہ راست پر لانے کی ایکٹنگ کرتے رہتے ہیں ان کو ٹھرک صرف ”دہان زیریں” کی ہوتی ہے، دخول کے لئے کوئی بھی سوراخ یا راستہ دستیاب ہو، چلے گا۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ پارساؤں نے مذہب کو محض ”حور“ تک مقید کر کے اسے سینٹر آف اٹریکشن یا اٹینشن بنا دیا ہے، مذہب کے ساتھ اس سے بڑی زیادتی اور کیا ہو سکتی ہے کہ محض ٹھرک بازی کے لیے فقط حور کو اس کے ماتھے کا جھومر بنا ڈالو اور اس کے جسم یا پستان کے سائز کے متعلق رومانوی طرز کی قصہ خوانیاں کرتے پھریں۔

اگر عورت کے جسم سے آپ کو مسئلہ نہیں تو بہشتی زیور عورتوں کے مسائل سے کیوں بھرا پڑا ہے؟ اس سے تو یہی لگتا ہے کہ جیسے عورت ہر وقت آپ کے اعصاب پر سوار رہتی ہے۔ موٹر سائیکل کی سواری روزانہ درجنوں لوگ کرتے ہیں مگر کسی کے ذہن میں یہ انوکھا سوال کبھی بھی پیدا نہیں ہوا ہو گا کہ بائیک چلانے والے کے پیچھے بیٹھنے سے شہوانی خیالات پیدا ہوتے ہیں اور اس قبیح گناہ سے بچنے کے لئے دونوں کے درمیان ایک تکیہ رکھ لینا چاہیے جسے مدنی تکیہ کہا جاتا ہے تاکہ اعضائے مخصوصہ آگے والے کی پشت سے رگڑ کھا کر قیامت نہ کھڑی کر دیں۔

جب ہم مذہب کے نام پر دوسروں کی زندگیوں میں بلاوجہ یا حد سے زیادہ تانک جھانک کرنے کی کوششیں کرتے ہیں تو ہم مذہب کی کوئی خدمت نہیں کر رہے ہوتے بلکہ لوگوں کو متنفر کرنے کا سبب بن رہے ہوتے ہیں۔ اس کی زندہ مثال تبلیغی جماعت ہے جنہیں دیکھتے ہی لوگ راہ بدل لیتے ہیں، کیونکہ ان کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ چکی ہے کہ انہیں اخلاقی بھاشن دینے کے علاوہ کوئی اور کام ہی نہیں ہوتا۔ سرراہ پکڑ کر شروع ہو جاتے ہیں۔ شعور و آگہی کے اس دور میں آپ کسی کو بھی اپنے فریم آف مائنڈ کے حساب سے زبردستی قائل کرنے کی کوشش نہیں کر سکتے۔

اب ڈنڈا لے کر پیچھے پڑے رہنے کا دور گزر چکا ہے بلکہ اس رویے کو بدتہذیبی و بدتمیزی تصور کیا جاتا ہے۔ وہ سچائی بھی کیا سچائی ہوئی جسے ہر وقت تبلیغ کی ضرورت درکار رہتی ہو، سچ تو خود اپنی گواہی ہوتا ہے اور ڈھونڈنے والے اپنے تئیں خود ہی ڈھونڈ لیتے ہیں مگر یہ کہنا ہے کے آپ کی تلاش سب سے کامل ہے اور باقیوں کی کھوج بیکار ہے اس رویے کو مریضانہ تو کہا جا سکتا ہے صحت مند نہیں۔ ایک مذہبی فکر کے زیر سایہ درجنوں تبلیغی و روحانی اجتماعات حتی کہ حج و عمرہ کی صورت میں لاکھوں انسانوں کا ایک جگہ جمع ہونے کا سلسلہ طویل عرصہ سے چلتا آ رہا ہے مگر آؤٹ پٹ کیا ہے؟

اگر آپ کی روحانی فکر آپ کے توسن بے باک کو لگام ڈالنے میں کامیاب نہیں ہو سکی تو آپ کی فکر پر درجنوں سوالات کھڑے ہو جاتے ہیں، چونکہ جو دعویٰ کرتا ہے اس کا عملی مظاہرہ پیش کرنا بھی اسی کے ذمے ہوتا ہے اور اگر دعویٰ سوال کی چوٹ برداشت نہیں کر سکتا اور عملی طور پر زیرو پوائنٹ تک ہی ٹکا رہتا ہے تو پھر اس کے وجود پر بھی سوال کھڑے ہو جاتے ہیں۔ درجنوں جنسی جرائم اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ آپ معاشرے کی اخلاقیات پر عملی طور پر اثر نہیں ڈال سکے۔

اخلاقیات کی چار دیواری میں رہنے والے جناب شیخ بھی اگر محفوظ نہ ہوں تو پھر کون محفوظ ہو گا؟ کیا وجہ ہے کہ مدارس و مساجد جیسی پاک جگہ جنہیں خدا کا گھر بھی کہا جاتا ہے وہ بھی جنسی زیادتی کے واقعات  سے محفوظ نہ ہوں تو پھر کون سی جگہ محفوظ ہو سکتی ہے؟ ویسے حیرت ہے کہ پارسائی کا دعویٰ کرنے والے جانوروں، بچوں اور خواجہ سرا تک کو نہیں چھوڑتے ان کا ایمان ایک بے پردہ خاتون کو دیکھ کر ہچکولے کھانے لگتا ہے،

یہ کیا بات ہوئی کہ عورت کو بند کردو تاکہ ہمارا ایمان محفوظ رہے، دراصل یہ ایک طرح کا منافقانہ چہرہ ہوتا ہے جسے پردے کے نام پر چھپانے کی ایک ناکام سی کوشش ہوتی ہے۔ کھلے لفظوں میں کہیں تو اہل منبر و محراب جنسی گھٹن کا شکار ہوتے ہیں اور جنسی فرسٹریٹڈ اپنی کھوکھلی عزت کا اقبال بلند کیے رکھنے کے لیے مصنوعی رویوں میں پناہ ڈھونڈتے رہتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments