کراس جینڈر بل کا ایجنڈا اور پروپیگنڈا


آج کل، آج سے چار سال پہلے سال دو ہزار اٹھارہ میں پیش کیے جانے والے بل پر بڑے زور و شور سے بحث جاری ہے۔ اس بل کے ایجنڈے اور مندرجات کو اس طرح سے پروپیگیٹ کیا گیا کہ بل کے اصل متن یا شق یا پھر کلاز پس پشت چلے گئے اور پروپیگیٹ کیے گئے یا ترامیم کے لئے جو سفارشات دیے گئے اس کے تسلسل میں عامیانہ رد عمل کچھ اس طرح سے ابھر کر سامنے آیا کہ بل کا اصل منشا سرے سے پیچھے چلا گیا جبکہ افواہیں اور ایک دوسرے سے سنی سنائی باتیں سطح سماج پر سینہ بہ سینہ کچھ اس طرح سے گردش کرنے لگے کہ اس بل کو معاشرے کے لئے زہر قاتل یا خدا نخواستہ ناسور جیسی بیماری گرداننے لگے۔

میرے خیال سے دو فی صد لوگوں نے بھی یہ بل پڑھا نہیں ہو گا اور مزید یہ کہ ایک فی صد عام لوگوں نے سرے سے سمجھا ہی نہیں ہو گا لیکن اس پر رائے زنی اس طرح کریں گے جیسے اس بل کے ایک ایک شق اور ایک ایک دفعات سے نہ صرف واقف ہوں بلکہ اس کے تجزیے کے عمل سے بھی گزر چکے ہوں۔

سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں کوئی لاء آئین کے متصادم بن سکتا ہے؟ جس کا فوری جواب ہے بالکل نہیں۔ تو پھر پریشانی کس بات کی پھر احتجاج کس بات کا اور پھر بلا وجہ ڈر خوف اور نفی پروپیگنڈے کا کیا جواز؟

ہر کوئی بنیادی حقوق کا راگ الاپتا ہے، ہر کوئی اپنا حق آئینی طور پر سکیور اور ریکور کروانا چاہتا ہے لیکن اپنے لئے، دوسروں کے لئے نہیں جبکہ آئین میں ہر کسی کے لئے حقوق اور فرائض متعین ہیں۔

کیا آئین میں یہ درج نہیں ہے کہ آرٹیکل 25۔ اے میں ٹرانس جینڈر کو مفت لازمی تعلیم یقینی فراہم کی جائے گی۔ کیا آئین کے آرٹیکل 18 میں یہ صراحت سے بیان نہیں کیا گیا ہے کہ ٹرانس جینڈر کے لئے قانونی پیشے اور تجارت کے موقعے یقینی بنائے جائیں۔ کیا آئیں کے آرٹیکل 16 میں ٹرانس جینڈر کے اجتماع یا اسمبلی کو یقینی بنانے کا نہیں کہا گیا ہے۔

کیا ہم آئے دن ٹرانس جینڈر کے ساتھ سماجی طور پر لوگوں کے رویوں کو نہیں دیکھتے ہیں۔ کیا آئے دن ہم یہ خبریں نہیں سنتے کہ فلاں علاقے میں لڑکے سے لڑکی اور لڑکی سے لڑکا بن گیا لڑکے اور لڑکی نے درد محسوس کیا اور آپریشن کے بعد لڑکا یا لڑکی بن گیا اور لوگ ان کو دیکھنے کے لئے جوق در جوق جا رہے ہوتے ہیں۔

کیا ہم بچپن میں اپنی بچیوں کو لڑکوں کے کپڑے نہیں پہناتے تھے تاکہ لڑکا لگے بلکہ ایام بلوغت میں بھی لڑکوں جیسے حرکات اور سکنات رکھتے ہیں اور ہم بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ یہ میری بیٹی نہیں بیٹا ہے۔

اب اگر اس بل میں ٹرانس جینڈر کو قانونی شناخت کے ساتھ ساتھ قانونی حیثیت دی گئی ہے تو اس میں کیا قباحت ہے۔ اگر اس بل میں ٹرانس جینڈر کی اصل تعریف کی گئی ہے تو اس میں کیا غلط ہے۔ اگر ان کو ملازمت سروسز یا دیگر سماجی اور روایتی پریویلیجز کی سہولیات سے استفادے کی بات کی گئی ہے تو اس میں کیا خطا ہے۔ اگر اس بل میں ٹرانس جینڈر کے لئے بھیک مانگنے کے بجائے پبلک اور نجی آفس رکھنے کی بات ہو رہی ہے تو کیا قصور واری ہے۔

اگر اس بل میں ٹرانس جینڈر کے ساتھ بد سلوکی کو یا ہراساں کرنے سے لوگوں کو منع کیا گیا ہے تو اس میں کیا بد اخلاقی ہے۔ اگر اس بل کے تحت ٹرانس جینڈر کو سیف ہاؤسز، میڈیکل فیسیلٹیز حتی کہ ریہیبلیٹیشن کے لئے طبعی سہولیات کا بھی ذکر ہے تو اس میں کیا حرج ہے۔ اگر اس بل میں ٹرانس جینڈر کے لئے آسان شرائط پر قرضوں کی بات کی گئی ہے تو اس میں کیا مضائقہ ہے۔ اگر اس بل میں ٹرانس جینڈر کی عمر کی حد اور وراثت میں حقوق کی بات کی گئی ہے تو کیا زیادتی کی گئی ہے۔ اگر اس بل میں اس کے مقاصد بھی بیان کیے گئے ہیں اور پھر بھی اس پر نقطہ چینی کی جا رہی ہے تو اس میں قوانین بنانے والوں کا کیا گناہ ہے۔

ہاں تو لوگ پھر خائف کیوں ہے؟ وہ اس لئے کہ اس ایک نقطے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ کراس جینڈر اٹھارہ سال کے بعد نادرا خود جا کر اگر وہ اندرونی طور پر خود کو لڑکا سمجھتا ہو تو اندراج لڑکوں میں کریں اور اگر وہ لڑکی سمجھتا ہو تو لڑکی درج کروائیں۔ جس پر لوگوں کے ساتھ خدشہ ہے کہ اس طرح تو جب چاہے لڑکا خود کو لڑکی اور لڑکی خود کو لڑکا محسوس کر کے آسانی سے نام درج کروا کر اپنی جنس بدل دے گا۔

تو کیا واقعی ایسا ہے؟

اصل میں اس پورے بل میں کہیں بھی جنس بدلنے کا ذکر نہیں ہے اور نہ یہ عام لوگوں کے لئے ہے کہ بس ایک بندہ عورتوں کا لباس پہن کر یا سرخی پاوڈر لگا کر خود کا بطور عورت اندراج کر لے گا اور نہ عورت مردانہ لباس پہن کر خود کو نادرا میں مرد کی حیثیت سے درج کروا کر مرد کہلوانا شروع کردے گا۔

جس طرح اٹھارہ سال کے بعد لڑکا لڑکوں میں اندراج کرتا ہے اور لڑکی لڑکیوں میں بالکل اسی طرح کراس جینڈر دفعہ سات چیپٹر پانچ ذیلی دفع تین کے کلاز اے بی سی اور ڈی کے تحت اگر میل سلف پرسیو کرتا ہے تو میل وراثت کا حقدار ہو گا اور اگر لڑکی سلف پرسیو کرے گا تو بحیثیت لڑکی وراثت کی کلیم کر سکے گی۔ اور اگر اٹھارہ سال تک پہنچنے کے بعد بھی کراس جینڈر نہ میل اور نہ فی میل سلف پرسیو کرتا ہے توان کو وراثت میں حق اوسطاً دو الگ الگ میل اور فی میل کا تقسیم ہو گا۔ اور مزید یہ کہ جو ان سب خدشات کا حل ہی اسی کلاز ڈی ہی میں ہے کہ اگر اٹھارہ سال سے کراس جینڈر کی عمر کم ہو تو ایسی صورت میں جنس کا تعین میڈیکل افسر میل یا فی میل کے پری ڈومیننٹ فیچر ( اہم خصوصیات ) کے بنیا پر کرے گا۔

اس سے زیادہ اور آرٹیکل پچیس اے میں بنیادی حقوق کا استعمال کیسے کیا جا سکتا ہے کہ آئین کے مطابق سب شہری برابر ہیں۔ لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم خواجہ سرا یا کراس جینڈر کو صرف اور صرف ایک ہی نظر یا اپنی خواہشات کی نظر سے دیکھتے ہیں ان کی مجبوریوں، ضرورتوں اور حقوق و فرائض کی نظر سے نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments