”کائنات“ کے ”بیک یارڈ“ سے


ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ شیر نے لومڑی کو پکڑ لیا اور اسے کھانے لگا۔ لومڑی بولی بادشاہ! مجھے کھا جاؤ گے تو تمہیں کچھ نہیں ملے گا۔ اگر مجھے چھوڑ دو تو میں تمہیں ایک بہت بڑی خبر سناتی ہیں۔ شیر نے کہا کہ پہلے خبر سناؤ، اگر واقعی بڑی ہوئی تو تمہیں چھوڑ دوں گا۔ لومڑی بولی کہ بادشاہ سلامت قیامت آنے والی ہے، اور اس پہاڑی کی دوسری جانب پہنچ چکی ہے۔ خبر بڑی تھی بلکہ بہت بڑی تھی۔ شیر نے جلدی سے لومڑی کو چھوڑ دیا۔

لومڑی بھاگ کر اسی پہاڑی پر چڑھ گئی۔ شیر نے حیرت سے پوچھا کہ اس طرف سے تو قیامت آ رہی ہے اور تم اسی کی جانب جا رہے ہو۔ لومڑی بولی بادشاہ سلامت آپ مجھے کھا جاتے ؛ میرے لیے تو قیامت ہوتی۔ اس حکایت سے میں نے یہ سیکھا کہ فرد کائنات کی بنیادی اور کمزور ترین اکائی بھی ہے اور خود کائنات بھی۔ اس لیے کہ ابھی تک کائنات میں اس جیسی خود شناس اور خود آگاہ مخلوق اور کہیں دریافت نہیں ہو سکی۔ یعنی ایک شخص کے لیے کائنات اس کے جانے کے ساتھ ہی ختم ہو جاتی ہے۔ ”اپنی بلا سے بوم بسے یا ہما رہے“

جب یہ بات طے ہو گئی کہ انسان کائنات کا بنیادی جزو بھی ہے اور کائنات بھی۔ تو اس کائنات کا کوئی بیک یارڈ بھی ہونا چاہیے۔ جی ہاں انسان کے داخل کی دنیا اس کا بیک یارڈ ہے۔ نفسیات اس کے بارے میں کیا کہتی ہے، شعور، لا شعور، اجتماعی لا شعور۔ وغیرہ وغیرہ وغیرہ سب مباحث اپنی جگہ، سادہ الفاظ میں انسان کی نا آسودگیاں، حسرتیں، اس کی جسمانی اور ذہنی خواہشیں، ماضی کے ناگوار تجربات۔ سب اسی بیک یارڈ میں بے ترتیب انداز میں بکھری ہوتی ہیں۔ ان کی اہمیت کے پیش نظر ہی تو غالب نے ناکردہ گناہوں کی حسرت کی داد طلب کر لی تھی۔

؎ نا کردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد
یا رب اگر ان کردہ گناہوں کی سزا ہے

یعنی ناکردہ خواہشات اور حسرتوں کی اہمیت کردہ سے زیادہ ہے۔ واپس آتے ہیں اس انسانی بیک یارڈ کی جانب جو بہت طاقت ور ہے اور انسانی شعور اور لا شعور کے ماہر اس کی طاقت کو تسلیم کرتے ہیں۔ اسی حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے تخلیق کار کردار کو سمجھنے کے لیے شعور کے ساتھ ساتھ اس کے داخل کی دنیا تک رسائی کو ضروری سمجھتے ہیں۔ بیک یارڈ میں بکھری یہ دنیا بہت بے ترتیب ہوتی ہے۔ میں فکشن کا قاری ہوں اور اچھی طرح جانتا ہوں کہ اس بے ترتیب بیک یارڈ تک رسائی کی خاطر فکشن نگار کیا کیا تکنیک استعمال کرتے ہیں، اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ داخل تک رسائی میں ترتیب سے زیادہ بے ترتیبی معاون ہوتی ہے۔ اس لڑکی نے جتنی سہولت سے اپنی کائنات کے بیک یارڈ تک رسائی حاصل کی اور اس کا اظہار بھی جس سادگی اور سہولت سے کیا اس کا اعتراف نہ کرنا بخل ہو گا۔

شاعری ہو یا نثر ہمارے ہاں موضوع کو بیان پر فوقیت دی جاتی ہے۔ میر کے سہل ممتنع کی سب تعریف تو کرتے ہیں مگر اس سہل ممتنع کے کوہ گراں کو سر کرنے کے لیے وہ کن کن ریاضتوں سے گزرے ہوں گے اس کو سمجھنا بہت دشوار ہے، ورنہ ہر شاعر میر ہوتا اور سہل ممتنع کے شعر کہ رہا ہوتا۔ خیر یہ بات تو برسبیل تذکرہ آ گئی، اصل بات یہ کہ صنوبر بہت سہولت کے ساتھ شعر کہتی ہے، وہ کسی فلسفیانہ گہرائی تک جانے کی کوشش نہیں کرتی۔ یہ بات مد نظر رہے کہ میں نے کوشش کا لفظ استعمال کیا ہے۔

اور سچی بات یہ ہے کہ بطور استاد میں اپنے طالب علموں کو یہ کہتا ہوں کہ حقیقی سچ وہی ہے جو آپ کے اپنے تجربے سے پھوٹے۔ اس کی نظموں میں موجود فلسفہ اس کے وجود کا سچ ہے۔ اس لیے اظہار اور ابلاغ میں رکاوٹ نہیں آتی، بناوٹ نہیں آتی، سجاوٹ نہیں آتی۔ ہاں ایک بات اس اسلوب کے لیے بہت جرات درکار ہے ؛ خاص طور پر ہمارے سماج میں۔ جہاں مرد بھی اتنی ہمت نہیں جوڑ پاتا کہ اپنے اندر کے سچ کو سامنے لا سکے، وہاں اس لڑکی نے یہ ہمت کر دکھائی ہے۔ اب ذرا نظموں کی طرف آتے ہیں اور پھر بات آگے بڑھے گی۔

میں نے سنا ہے!
کہ تمہیں نروان مل چکا ہے
تم اب کہیں کے خدا ہو
یہ بھی سنا ہے لوگ تمہارے پاس آتے ہیں
سکون کی تلاش میں
ایک لا محدود داخلی سکون
سدھارتھ! تم انہیں کون سا سکون دیتے ہو؟
وہی جو تم نے مجھ سے چھینا؟ (بدھا! تمہارے جانے کے بعد)

”میں، وہ اور تاریخ“ کا پروفیسر جب چاہتا ہے گلوب گھما کر اپنی مرضی کے زمان اور مکان میں چلا جاتا ہے۔ شاہی دربار، جنگ کے میدان، فوجی دفتر، کیفے، گلیاں، محلے، بازار، لکھاریوں کی ڈائریاں۔ کچھ بھی اس سے اوجھل، چھپا ہوا نہیں، کچھ بھی نہیں جو اس کی دسترس میں نہ ہو۔ جب کہ

میری میز پر کوئی گلوب نہیں ہے
اور میرا کوئی مکان نہیں ہے
میں اپنی تاریخ سے بے خبر ہوں
میرا کوئی زمان بھی نہیں
لیکن ہر رات سونے سے پہلے
وقت کے ڈر سے
ٹانگیں سینے سے جور لیتی ہوں

اس کے پاس تو ایک ہی کمرا ہے اور وہ بھی اس کا نہیں۔ باپ، بھائی، شوہر، بیٹا یا خریدار، مالک، آقا۔ نہ زمان اس کا نہ مکان اس کا ۔ تو پھر

ہمارا قصور کیا ہے
ہمارے وجود پر جمی یہ کائی
بتا کر تو نہیں اگی۔ (خانہ بدوش وقت سے آزاد ہیں )

خانہ بدوش تو وقت سے آزاد ہیں پر کیا عورت ہے؟ پالک کی آپ بیتی ہو یا آخری پہر کی ملاقات، یا امی۔ ان نظموں کا کردار عورت ہے۔ بلکہ صنوبر کی ہر نظم کا کردار عورت ہے جو سوال کر رہی ہے، جو یگوں کو سوچ رہی ہے۔ جو جانتی ہے کہ عورت سے سماج کیا چاہتا ہے۔ اسے کون سی کتاب پڑھنی اور کتنی پڑھنی چاہیے، گانے کے کون سے بولوں پر کان بند کرنے چاہیں۔ کون سی یاد اپنانی اور کون سی ترک کرنی ہے۔ کب گنگنانا اور کب اپنی چیخ کا گلہ گھونٹ دینا ہے۔ (تنہائی کا معبد) وہ جانتی ہے کہ حوا کو بنانے کے لیے اگر مٹی نہیں تھی تو حوا زادیوں کے لیے کیا ہو گا۔ وہ یشودھرا ہو، سیتا ہو، خانہ بدوش لڑکی ہو یا صنوبر سب کا نصیب ایک ہی سیاہی سے لکھا گیا ہے۔ تنہائی، بے بسی اور لا حاصلی ہی سب کا نصیب ٹھہرائی گئی ہے۔

یہ سب نظمیں ایک مسلسل مکالمہ ہے۔ ایک عورت کا اپنا نصیب لکھنے والے سے۔ ہر عہد میں مرد ہی غالب رہا۔ حوا (عورت) کو بنانے کے لیے مٹی نہیں تھی، اسے مرد کی پسلی سے نکالا گیا، مرد کو بہکانے میں، جنت نکالا دلانے میں عورت ذمہ دار، تمام مذاہب کا مرکز مرد، عورت مرد کو بہکانے والی، خراب کرنے والی، کمزور، محتاج، دیوی ہو کر بھی آگ پر چل کر اپنی پاکیزگی ثابت کرنے پر مجبور، جب کہ مرد کو ہر طرح کی آزادی۔ اس مذہبی اور سماجی منظر نامے میں کائنات مر داور اس کائنات کا بیک یارڈ عورت کو ٹھہرایا گیا ہے۔ مگر یہ بیک یارڈ (عورت) نہ ہو تو کائنات (مرد) بھی نہ رہے۔ کہ تخلیق کا جوہر صرف اس ”بیک یارڈ“ میں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments