سرٹیفائیڈ انٹرنیشنل بھکاری


زمانہ طالب علمی کی بات ہے، راقم ایک درزی سے کپڑے سلواتا تھا۔ وہ بیک وقت لیڈیز اینڈ جینٹس ٹیلر ماسٹر تھے۔ بہت قابل درزی تھے۔ شہر میں ان کی دھوم تھی لیکن ان کا بہت بڑا نفسیاتی مسئلہ یہ تھا کہ خواتین کے معاملے میں انتہا درجے کے دل پھینک تھے۔ یا کوئی خوبصورت خاتون کپڑے سلوانے آ نہیں گئی اور موصوف ساری دنیا بھول گئے۔ ایک خاتون پہ لٹو ہو گئے تو نہ صرف اس سے کپڑوں کی سلائی کا خرچ نہیں لیتے تھے بلکہ تحفے تحائف دیتے دیتے لوگوں کے مقروض ہو گئے۔ دکان میں سلائی کے لیے آنے والے جتنے کپڑے پڑے تھے وہ سب کہیں جا کر فروخت کر آئے اور دکان کے اندر کپڑوں کی بچی ہوئی کترنوں کو آگ لگا کر مشہور کر دیا کہ بجلی کے شارٹ سرکٹ سے آگ لگ گئی۔

لوگ ان کے کام کو پسند کرتے تھے۔ اب دوبارہ کام شروع کرنے کے لیے انھوں نے گاہکوں سے ”امداد“ لینا شروع کر دی۔ ”چٹے“ ان پڑھ تھے لیکن خود کو انتہائی پڑھا لکھا ظاہر کرتے تھے۔ اردو اور سرائیکی میں گفتگو کرتے کرتے انگریزی کے چند الفاظ جن کا انھوں نے رٹا لگایا ہوا تھا وہ بھی بولنا شروع کر دیتے۔

بہاول پور سے تعلق رکھنے والے عالمی شہرت یافتہ ہاکی پلیئرز کے ساتھ بہاول پور ہاکی اسٹیڈیم میں پریکٹس والے ہاکی میچز میں چند مرتبہ کھیلے تھے۔ ان کے ساتھ اپنی تصویریں بنوا کر درزی والی دکان میں لگا رکھی تھیں۔ ایسے ظاہر کرتے تھے جیسے وہ خود ہاکی اولمپکس کھیل کر آئے ہیں حالانکہ جناب کا زیادہ وقت اپنے والد سے درزی کا کام سیکھتے ہوئے لکڑی کے ”فٹے“ سے مار کھاتے گزرا تھا۔ اپنا تعارف انٹرنیشنل ہاکی پلیئر کے طور پہ کرواتے تھے حالانکہ موصوف پوری زندگی میں انٹرنیشنل تو ایک طرف کوئی نیشنل سطح کا میچ بھی نہ کھیلے تھے۔

بہاول پور اور ملتان سے درزیوں کی سعودیہ عرب میں مانگ ہو رہی تھی۔ وہ بھی مفت کے ویزہ پہ سعودیہ عرب چلے گئے۔ خود اپنی روداد سناتے ہیں کہ پی آئی اے کے جہاز میں اخبار پیش کیے گئے تو انھوں نے ایک انگریزی اخبار اٹھا کر پڑھنا شروع کر دیا اور اپنے ”پوز“ سے خود کو کوئی بہت ہی بڑا اعلٰی تعلیم یافتہ ظاہر کرنے لگے۔ تھوڑی دیر بعد ساتھ والی سیٹ پہ بیٹھے ایک صاحب نے توجہ دلائی کہ آپ نے اخبار کو الٹا پکڑا ہوا ہے۔ پھر دوبارہ کبھی بھی جہاز میں سفر کے دوران اخبار نہیں پڑھا۔

سعودیہ میں بھی کپڑے سلوانے کے لیے آنے والی ایک عرب خاتون کے عشق میں مبتلا ہو گئے۔ اس کے عشق میں ہی عربی زبان فر فر بولنا سیکھ لی۔ ان کا طریقہ واردات جو انھوں نے خود بتایا، یہ تھا کہ وہ دکان پہ کپڑے سلوانے کے لیے آنے والی ہر خاتون کو دیکھتے ہی فوراً تعریف کرنا شروع کر دیتے اور اسے یقین دلا دیتے کہ بس وہ ہی دنیا کی سب سے زیادہ حسین عورت ہے۔ خیر۔

معاشقے کا علم عرب خاتون کے منگیتر کو ہوا تو وہ اپنے دوستوں کے ہمراہ آئے اور موصوف کو اغوا کر کے پہاڑوں میں لے جا کر مار پیٹ کا نشانہ بنایا۔ وہ سمجھے کہ مر گیا ہے لہذا انھیں پہاڑوں میں ہی پھینک کر آ گئے۔ ہوش آیا تو کسی طرح سڑک پہ پہنچ کے ایک گاڑی والے سے لفٹ لی پھر شہر پہنچ کر دوستوں اور احباب کو اپنے زخم دکھا دکھا کر ”امداد“ اکٹھا کرنا شروع کر دی۔

اپنی ”حرکتوں“ کی وجہ سے سعودیہ عرب سے نکال دیے گئے۔ واپس بہاول پور آ کر دوبارہ سے درزی والی دکان کھول لی۔ میرے ماموں سعودیہ عرب سے آئے تو مجھے سیکو فائیو واچ اور بوسکی کا کپڑا گفٹ کیا۔ میں درزی صاحب کے پاس لے گیا۔ سلائی کے پیسے فوراً مجھ سے یہ کہہ کے ایڈوانس لے لیے کہ دھاگہ گوٹا، بکرم، کالرز اور بٹن خریدنے ہیں۔ کئی دن تک چکر لگانے کے باوجود مجھے میرا سوٹ نہ ملا۔ پھر بتایا گیا کہ چوری ہو گیا۔ ساتھ ہی اپنے ”حالات“ کا بتا کر مجھ سے ”امداد“ مانگنے لگے۔ مجھے غصہ آ گیا اور میں نے غصے سے کہہ دیا ”درزی! تو تو سرٹیفائیڈ انٹرنیشنل بھکاری ہے“ ۔

ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاء کے ادوار میں عرب ممالک میں جانا بہت آسان تھا۔ اکثر مفت میں ہی ویزے مل جاتے تھے۔ ایک صاحب جو انتہائی غریب تھے ایسے ہی مزدوری کے کام والے مفت کے ویزہ پہ سعودیہ عرب چلے گئے۔ وہاں محنت کر کے اپنا ریسٹورنٹ بھی بنا لیا۔ چھوٹا بھائی بچپن سے ہی پولیو زدہ تھا۔ ضد کرنے لگا کہ مجھے عمرہ کرواؤ۔ ویزہ بھیج کر بھائی کو سعودیہ عرب بلوا لیا۔ عمرہ کی ادائیگی کے لیے خانہ کعبہ لے کے گئے تو بیرونی گیٹ پہ یاد آ گیا کہ فلاں چیز تو بھول آیا ہوں۔ بھائی کو کہا چند منٹ ٹھہر، میں وہ چیز لے کے ابھی واپس آیا۔ چھوٹے بھائی کے ہاتھ پاؤں مڑی ہوئی شکل میں تھے۔ کمزوری کی وجہ سے وہ کھڑا رہنے کی بجائے گیٹ کے باہر ہی بھائی کے انتظار میں فرش پہ بیٹھ گیا۔

بعد میں پاکستان آ کر بتایا کہ ”عرب لوگ قیمتی گاڑیوں سے اترتے، بڑے غور سے مجھے دیکھتے پھر پچاس ریال سو ریال کا کرنسی نوٹ میری جھولی میں ڈال دیتے۔ میں انھیں اردو زبان میں کہتا کہ بھائی میں مانگنے نہیں آیا۔ میں کوئی بھکاری نہیں ہوں تو انھیں میری زبان سمجھ نہ آتی اور وہ دوسرا کرنسی نوٹ نکال کر ڈال دیتے“ ۔ بڑا بھائی واپس آیا تو کہا ”میں تجھے یہاں بھیک مانگنے کے لیے تو بٹھا کر نہیں گیا تھا یہ کیا تونے اپنے سامنے کرنسی نوٹوں کا ڈھیر لگایا ہوا ہے؟“ ۔

وہ سارے نوٹ پاکستان لے کر آئے تو میں نے کہا تو وہیں پہ غریب لوگوں میں بانٹ آتا، یہ کیا بھیک اکٹھی کر کے لے آیا ہے؟ کہنے لگا ”شیخ! اب آہی گئے ہیں تو واپس کیا کرنے۔ ویسے بھی ہم پاکستانی“ امداد ”کو بھیک نہیں سمجھتے“ ۔

آپ میری فیس بک وال کا وزٹ کریں تو آپ کو میرے فوٹو البم میں یونیسیف چائلڈ پروٹیکشن کنٹری چیف، مس سارہ کولیمن کا انٹرویو لیتے ہوئے میری ایک تصویر ملے گی۔ ہوا یوں کہ یونیسیف نے چاہا کہ پاکستان میں بھیک مانگنے والے اور سٹریٹ چلڈرن پہ کام کیا جائے۔ اقوام متحدہ، آکسفیم اور کچھ دیگر عالمی تنظیموں کی فنڈنگ سے ایک این جی او نے انسانی حقوق پہ کام کرتے ہوئے بھیک مانگنے والے افراد کے مائنڈ سیٹ کو سمجھنے اور عالمی اداروں کے لیے ان پہ ایک رپورٹ مرتب کرنے کے لیے کام کیا۔ ان کی ایک تقریب میں ہی سارہ کولیمن آئی تو راقم نے ان کا انٹرویو کیا۔

بعد میں اس این جی او کے بڑوں نے مجھے بھکاریوں پہ کیے جانے والے اپنی تحقیقی کام کے بارے میں بھی آگاہ کیا۔ کہنے لگے ”شیخ صاحب! ہمارے منتخب ماہرین نفسیات نے بھکاریوں کی نفسیات پہ کام کیا تو پتہ چلا کہ ان کا مائنڈ سیٹ محنت کر کے کمانے کے لیے کسی طرح تیار ہی نہیں ہوتا۔ یہ لوگ بس امداد پہ ہی ساری زندگی گزارنے والا مائنڈ سیٹ رکھتے ہیں لہذا نہ تو یہ لوگ محنت کرتے اور نہ ہی ترقی کرتے ہیں۔ بس باتیں بہت بناتے ہیں“ ۔

پھر کہا ”جن قوموں میں نیچے سے لے کر اوپر تک ہر وقت امداد چاہنے والا مائنڈ سیٹ پایا جاتا ہو، ان کے اندر خودداری اور عزت نفس کا احساس ختم ہو جاتا ہے۔ اس طرح کی قوموں کے بڑے، زلزلے اور سیلاب آنے کے لیے بھی دعا کرتے رہتے ہیں کہ چلو امداد تو ملے گی“ ۔

احباب! ہمارے ملک میں لاکھوں لوگ ایسے ہیں جو جسمانی طور پہ چاق و چوبند اور صحت مند ہیں لیکن وہ جسمانی مشقت کر کے اپنی روزی کمانے کی بجائے مذہب کے نام پہ پیسہ اکٹھا کر کے خود کو اور اپنے خاندان کو پالتے رہتے ہیں۔

ہمارے دیس میں لاکھوں لوگ ایسے ہیں جو پیر صاحب بن کے کوئی کام بھی نہیں کرتے بس ”روحانیت“ کے نام پہ خوب پیسہ کماتے اور خوب کھاتے ہیں۔ لوگوں کی ایک تعداد ایسی بھی ہے جو اپنا تعلق کسی نہ کسی قسم کی ”مقدس ذات پات“ سے جوڑ لیتے ہیں اور پھر چاہتے ہیں کہ معاشرہ ”تقدس“ کے نام پہ اپنی محنت کی کمائی میں سے انھیں بھی دے۔

کبھی کبھی تو اکبر شیخ اکبر کو وہم سا ہو جاتا ہے کہ نفسیاتی طور پہ ہم من حیث القوم بھکاری بنے ہوئے ہیں۔ باوردی، بے وردی، سیاسی، مذہبی، روحانی اور نہ جانے کتنے روپ ہیں جو ہم نے اختیار کر رکھے ہیں۔

دیکھیں، پاکستان ہمارا پیارا ملک ہے۔ ہم یہاں پائی جانے والی سماجی برائیوں سے جتنے بھی بیزار ہو جائیں پھر بھی ہم اس ملک کو اپنے دل سے نہیں نکال سکتے۔ ڈنمارک کوئی بہت بڑا ملک نہیں لیکن اس کی ڈیری پراڈکٹس کی ایکسپورٹس سو ارب ڈالرز یعنی ایک کھرب ڈالرز سے بھی زیادہ ہیں۔ کیا سنگا پور یا ہانگ کانگ رقبہ میں پاکستان سے بڑے ہیں؟ ملائیشیا کو سامنے رکھیں۔ دنیا میں کتنے ہی چھوٹے چھوٹے ملک ہیں جو اس قدر زر مبادلہ کما رہے ہیں کہ انھیں دنیا سے کسی قسم کی امداد کی ضرورت نہیں پڑتی۔

سویڈن، بلجیم، ناروے، فن لینڈ کی مثال لے لیں۔ اسپین کے بارڈر پہ جبرالٹر نام کا ایک چھوٹا سا ملک ہے اس کا رقبہ تقریباً ساڑھے چھ مربع کلومیٹر ہے۔ وہ ملک اپنی معیشت چلانے کے لیے کسی سے امداد نہیں لیتا۔ اس نے اپنے ٹورازم سیکٹر کو ہی اتنا زیادہ ڈویلپ کر لیا ہے کہ صرف اسی سے ہی اپنے ملک کی معیشت کو مستحکم کر لیا ہے۔

یورپ میں تقریباً دو مربع کلو میٹر رقبہ رکھنے والا مناکو نام کا ایک ننھا منا سا ملک بھی ہے۔ وہ بھی دنیا کے سامنے کشکول پھیلا کے کھڑا نہیں ہوتا بلکہ دوسرے ممالک کے کشکول میں کچھ نہ کچھ ڈال سکتا ہے۔ بوسنیا، کروشیا اور دیگر کئی چھوٹی چھوٹی ریاستیں جنگ میں تباہ و برباد ہو گئیں لیکن آج وہ طاقتور معیشت رکھتے ہیں۔ کیوں؟ کیوں کہ انھوں نے بھیک مانگنے کی بجائے اپنے قوت بازو پہ انحصار کیا۔ بات ساری مائنڈ سیٹ کی ہے۔ قوم کا اجتماعی مائنڈ سیٹ بھکاری ہے یا خوددار۔

جرمن اور جاپانی اقوام کی نفسیات اور مائنڈ سیٹ کو ہی سمجھنے کی کوشش کریں تو ان کی کامیاب معیشت کے پیچھے ان کے جینز میں پایا جانے والا خودداری اور عزت نفس کا احساس ہے۔ جب تک ہم اپنی قوم کے اندر خودداری والا مائنڈ سیٹ بیدار نہیں کریں گے تب تک ہماری معیشت کا شمار بھکاری معیشت کے طور پہ ہو گا۔ بھکاری مائنڈ سیٹ بھی ارواح خبیثہ کی طرح ہوتا ہے جو کسی بھی قوم کو محنت اور ترقی کر کے باوقار قوم بننے سے روکتا رہتا ہے۔

کیسا سایہ ہے ارواح خبیثہ کا دیس پہ اکبر میاں
رات پھیلی ہے صدیوں پہ سویرا کیوں نہیں آتا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments