ریٹائرمنٹ زندگی کا خاتمہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک نئی شروعات۔


آزادی ریٹائرمنٹ کا دوسرا نام ہے مگر ہم ریٹائرمنٹ سے خوفزدہ ہوتے ہیں کہ ریٹائرڈ ہونے کے بعد کچھ لوگوں کے۔ سر پر چھت ہوتی ہے اور نہ ہی اتنی رقم کہ گھر نہیں ہے تو گھر خرید سکیں اگر گھر میں بیٹی ہے اور اس کی شادی نہی ہوئی تو یہ بھی ایک دیمک کی طرح لگ جانے والا وہ غم اور روگ ہے جو ریٹائرڈ شخص کے لئے سوہان روح بن کر اسے چاٹتا رہتا ہے اور وہ اس غم میں مبتلا ہو کر ذہنی، نفسیاتی اور بدنی عارضوں میں مبتلا ہو جاتا ہے اور اپنی ریٹائرمنٹ کی اس آزادی کے تمام خوابوں کو چکنا چور ہوتے دیکھ کر مختلف بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے۔

ریٹائرمنٹ کے بعد انسان اس فیوز بلب کی طرح ہو جاتے ہیں جس کی اب کوئی اہمیت نہیں رہتی کہ یہ بلب کس کمپنی کا تھا، کتنی روشنی اور چمک دیتا تھا بلب کے فیوز ہونے کے بعد اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ بلب کتنے واٹ کا تھا۔ اسے اتار کر نیا لگا لیا جاتا ہے یہی حال کچھ ریٹائرڈ بندے کا بھی ہے۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ اس فیوز بلب نے خود کو جلا کر ہمیں ایک عرصے تک اپنی روشنی سے ہما ری زندگیوں میں اجالا کیے رکھا۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ انہوں نے کس طرح اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر اولاد کو پالا پوسا۔

آئیں ہم اس ایماندار کا بڑھاپے کا نقشہ ذہن میں رکھیئے ہوئے جو پاکستان کی ترقی کے لئے ساری عمر اپنی توانائیاں خرچ کر کے بوڑھا ہو گیا ہو اور وہ بڑھاپے میں شوگر ’ہارٹ فالج‘ لقوہ ’رعشہ، جیسی بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ مگر کسی بھی حکومت نے آج تک اپنے ان وفادار ملازموں کے لئے کچھ نہیں کیا۔ نہ ہی میڈیکل الاؤنس میں اضافہ ہوا نہ ہی ان کی بیماری میں ان کا ساتھ دیا یہ ریٹائرڈ بوڑھے نہایت کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں اور اسی کسمپرسی کی حالت میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملتے ہیں۔ پاکستانی حکومت کو چاہیے ان سرکاری ملازمین کے لئے ایسا انتظام کر دے کہ وہ نہ صرف ان بیماریوں سے نبردآزما ہو سکیں بلکہ پاکستان کے ان محسنوں کو ان کی خدمات کا صلہ بھی مل سکے۔

بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ ساتھ پیش آنے والے مسائل سے نمٹنے کے لیے انتباہات، تفصیلات اور تجاویز دراصل وہ مشکل حالات و واقعات ہیں جن کا ہم سب کو آگے چل کر سامنا کرنا ہے۔ اور یہ سب کے ساتھ ہونا ہے کوئی ان مسائل اور مشکلات سے بچ نہیں سکتا۔ گھر میں رہنے والے بچوں پوتے پوتیوں اور وہ لوگ جو ان کے ساتھ رہتے ہیں ان کو ہر حال میں ان ریٹائرڈ بوڑھوں کے لئے اپنا مثبت اور نرم رویہ قائم رکھنا ہو گا چاہے ان کی طرف سے کوئی ردعمل آئے یا نہ آئے۔ کہ اگر عمر رسیدہ افراد کو مناسب نگہداشت اور نگرانی کی فراہمی اور تھوڑی ہمدردی ملے تو تو ان کا بڑھا پا ان۔ کے لیے پریشانی نہ بنے

سن رسیدگی صرف طبی مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس کے بہت سارے سماجی، معاشی، تمدنی اور نفسیاتی پہلو بھی ہیں جو غور طلب ہیں۔ لہٰذا خاص طور پر ہمارے یہاں یہ مسئلہ گہرے غور و فکر کا موضوع بنا ہوا ہے اور حکومتوں اور بین الاقوامی تنظیموں کو چاہیے کہ اس جانب خاص توجہ دی جائے جس کے لئے ایک طرف کافی فکر و تحقیق کی ضرورت ہے اس کے لئے اداروں کو قوانین بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ تاکہ زندگی کی ڈھلتی شام میں بزرگوں کو پروقار محفوظ اور آرام دہ زندگی میسر آ سکے۔

ایک حالیہ مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ اگر بزرگ افراد اپنے گھریلو کاموں کو انجام دیں اور خود کو مصروف رکھیں تو ان کا دماغی حجم بڑھاپے کے باوجود برقرار رہ سکتا ہے اور یہ دماغی صحت، یادداشت اور ذہنی افعال کی وجہ بھی ہوتا ہے جو انہیں کام میں مصروف رکھتا ہے اور وہ خوش رہتے ہیں۔ بچوں کو پڑھانا، صفائی، کھانا پکانا، باہر کے چھوٹے موٹے کام، باغبانی، بازار سے خریداری کرنا، چھوٹی موٹی مرمت اور بچوں کی نگرانی ان کے ساتھ کھیل کر وقت گزارنا، بچوں کو اسکول لانا اور لے جانا وغیرہ شامل ہیں۔

ان میں سے جنہوں نے زیادہ وقت مصروفیت میں گزارا ان کے دماغ کا حجم دیگر کے مقابلے میں زیادہ تھا۔ اسی طرح دماغ کے ایک اہم گوشے ہیپو کیمپس میں بہتر سرگرمی نوٹ کی گئی جو یادداشت اور سیکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ عموماً جب ایک آدمی کسی شعبہ سے ریٹائر ہوتا ہے صحت و توانائی کے باوجود کوئی کام نہیں کرتا ہے بلکہ بسا اوقات اپنے وسائل اور عمر کو ضائع کرتا رہتا ہے۔ کچھ لوگوں پر مذہبیت کا جنون سوار ہوجاتا ہے تو مسجد میں جا بیٹھتے ہیں اور کچھ لوگ سیر و تفریح میں اپنے دن گزارتے ہیں۔

میں ان ریٹائرڈ لوگوں سے گزارش کروں گی کہ ریٹائرمنٹ زندگی کا خاتمہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک نئی شروعات ہے۔ یہ ایک قانونی عمل ہے جس کا اطلاق ان لوگوں پر ہوتا ہے جو نوکری پیشہ ہیں۔ جو آزاد پیشہ لوگ ہیں جب تک ان کے جسم و جان میں طاقت ہوتی ہے اور ان کے حواس درست ہوتے ہیں کام کرتے رہتے ہیں۔ اس لیے جو لوگ ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی گھریلو ذمہ داریوں، بچوں کی تعلیم، ان کا روزگار، ان کی شادی بیاہ وغیرہ سے فارغ ہوچکے ہیں اور ان کی صحت بھی ٹھیک ہے انہیں ہاتھ پاؤں توڑ کر اپنے گھر میں نہیں بیٹھنا چاہیے بلکہ اپنے علم، تجربہ اور خدمات سے معاشرے کو مستفید ہونے کا موقع دینا چاہیے تاکہ ایسے لوگو کے تجربات اور واقعات سے فائدہ اٹھایا جا سکے اور معاشرے کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments