“گھر واپسی یا صرف نام واپسی” ہندو بننے والے مسلمانوں کو کیا ملا؟

رجنیش کمار - نمائندہ بی بی سی ہندی، دہلی


نوشاد، دلشاد اور ارشاد تینوں بھائیوں نے چند سال قبل ہندو مذہب قبول کر لیا تھا
نوشاد، دلشاد اور ارشاد تینوں بھائیوں نے چند سال قبل ہندو مذہب قبول کر لیا تھا
چار سال کی بچی مذہب کے بارے میں کیا جانتی ہوگی؟ اگر اسے زویا کے نام سے پکارا جائے تو بھی وہ شاید ہی سمجھ پائے کہ اس کے والدین مسلمان ہیں، اس لیے یہ اس کا یہ نام رکھا گيا ہے۔

بچوں کا مذہب کیا ہوگا، یہ ان کی پسند سے طے نہیں ہوتا۔ پوری دنیا میں والدین ہی فیصلہ کرتے ہیں کہ ان کے بچوں کا مذہب کیا ہوگا۔ اگر والدین اپنا مذہب تبدیل کرتے ہیں تو بچوں پر تبدیلی مذہب کا دباؤ ہوتا ہے۔

انڈیا کے دارالحکومت دہلی سے ملحق سب سے بڑی ریاست اتر پردیش کے باغپت ضلع کے بدرکھا گاؤں میں جب ایک چار سالہ بچی سے اس کا نام پوچھا گیا تو اس نے اپنا نام زویا بتایا۔

نام بتانے کے بعد زویا نے شرماتے ہوئے اپنی چھوٹی انگلیاں منہ پر رکھ لیں۔ اس کے پاس بیٹھی اس کی بڑی بہن زویا کو دھکا دیتی ہے اور کہتی ہے کہ تمہارا نام گڑیا ہے۔ اپنی بہن کے کہنے پر وہ پھر اپنا نام گڑیا بتاتی ہے۔

اسی دوران زویا کے بھائی کو محلے کا ایک بچہ انس کے نام سے پکارتا ہے۔ سات سالہ انس اپنے والد دلشاد کو دیکھ رہا ہے۔

دلشاد اس بچے کو ڈانٹ کر کہتے ہیں کہ سکول میں اس کا نام امر سنگھ ہے اور اسے سکول کے نام سے ہی پکارا کرو۔ بچہ جس کا نام انس ہے وہ بھی دلشاد کے جواب سے دنگ رہ گیا اور خاموشی سے وہاں سے چلا گیا۔

بچے

ہندو بننے کا مقصد

دراصل دلشاد کے خاندان کے کل 13 لوگ سنہ 2018 میں مسلمان سے ہندو بن گئے تھے۔ ان میں تین بھائی نوشاد، دلشاد اور ارشاد کے علاوہ ان کی بیویاں اور بچے بھی شامل تھے۔

اس کے ساتھ ان کے والد اختر علی بھی اپنی اہلیہ کے ساتھ ہندو بن گئے۔ پھر انھوں نے شکایت کی کہ مسلمانوں نے مشکل وقت میں ان کا ساتھ نہیں دیا، اس لیے انھوں نے اسلام چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ جب یہ خاندان ہندو بنا تو زویا صرف چھ ماہ کی تھی۔

یہ پورا خاندان مزدوری کرکے اپنی روزی روٹی کماتا ہے۔ نوشاد راج مستری ہیں یعنی وہ مکان کی تعمیر کرتے ہیں۔ دلشاد کپڑے بیچنے کے لیے گاؤں گاؤں پھرتے ہیں۔ ارشاد بھی پھیری لگا کر کپڑے ہی بیچتے ہیں۔ ان کے والد اختر علی بھی یہی کام کرتے تھے لیکن اب وہ بوڑھے ہو چکے ہیں۔

اختر علی کے چھوٹے بیٹے گلشن کی میت سنہ 2018 میں مشکوک حالت میں ملی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ بیٹے کو قتل کیا گیا تھا اور برادری کے لوگوں نے تعاون نہیں کیا۔

یوا ہندو واہنی کے لوگوں نے ان کی مدد کی اور بعد میں انھوں نے اسلام چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ ہندو مذہب اختیار کرنے کے بعد گاؤں کے جگبیر سنگھ نے اپنا گھر دے دیا تھا۔ گاؤں میں ان کا گھر خالی تھا کیونکہ پورا خاندان میرٹھ میں رہتا ہے۔

لیکن مسلمان سے ہندو بننے کا سفر پورے خاندان کے لیے زیادہ عرصے تک نہیں چل سکا۔ ان کے گھر کی عورتوں کا ہندو بننے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔

ہندو بننے کے بعد نوشاد کی بیوی رقیہ اپنے مائیکے چلی گئیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ شادی ہندو بننے کے بعد ٹوٹ گئی ہے اور اب وہ واپس نہیں آئیں گی۔ نوشاد کا کہنا ہے کہ ان کے لیے اکیلا رہنا بہت مشکل تھا کیونکہ بچے بھی بیوی کے ساتھ ہی چلے گئے تھے۔

نوشاد، دلشاد اور ارشاد تینوں بھائیوں نے چند سال قبل ہندو مذہب قبول کر لیا تھا

نوشاد، دلشاد اور ارشاد تینوں بھائیوں نے چند سال قبل ہندو مذہب قبول کر لیا تھا لیکن دو واپس مسلمان ہو گئے ہیں

ہندو بننے سے کیا ملا؟

نوشاد نے دو ماہ کے اندر ہی دوبارہ اسلام قبول کر لیا اور اس نے دوبارہ اپنی بیوی سے شادی کر لی۔ اسی طرح ارشاد کا کہنا ہے جو کچھ سوچ کر وہ ہندو بنے تھے ویسا کچھ حاصل نہیں ہوا۔ ہندو بننے کے بعد ارشاد نےاپنا نام قوی رکھ لیا تھا۔ ارشاد کا کہنا ہے کہ وہ انصاف کے لیے ہندو بنے تھےلیکن وہاں بھی انھیں کچھ نہیں ملا۔

ارشاد کا کہنا ہے کہ ‘وہ ہندو بن گئے تھے لیکن تمام رشتہ دار مسلمان تھے۔ ہندو بننے کے بعد سب نے منہ موڑ لیا۔ کوئی بات نہیں کرتا تھا۔ سب طنز کرتے تھے۔ کسی نے فون تک نہیں اٹھایا۔ دوسری طرف ہندوؤں میں بھی ذات پات کا نظام ہے۔ خود کو ہندو بنا لیا، لیکن ذات کہاں سے ملتی؟ اگر ذات نہ ملے تو شادی کا کیا ہوگا؟ میں نے سوچا کہ یہ اپنی ٹانگ پر کلہاڑی مارنے والی بات ہوئی۔’

اختر علی کی سب سے بڑی بہو صابرہ خاتون کہتی ہیں: ‘میں جانتی تھی کہ کوئی ہندو ہمیں قبول نہیں کرے گا۔ اس لیے میں نے فیصلہ کیا تھا کہ مجھے کتنی ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے، میں ہندو نہیں بنوں گی۔ میرے بچوں کی شادی کون کرے گا؟ ہندو بننے کے بعد میں برہمن تو نہیں بن جاتی۔ دلت ہی بنتی۔ پھر میں وہاں اچھوت بننے کے لیے کیوں جاتی؟ دیکھو مسلمان بننا آسان ہے لیکن آپ ہندو بن کر اپنی پچھلی زندگی سے آزاد نہیں ہو سکتے۔’

اختر علی کا پورا خاندان دوبارہ مسلمان ہو گیا لیکن ان کا تیسرا بیٹا دلشاد اب بھی ہندو ہے۔ اس نے سنہ 2018 میں اپنا نام بدل کر دلیر سنگھ رکھ لیا۔ دلیر سنگھ نے اپنے پانچوں بچوں کا نام ہندو رکھا ہے۔ ان کے پانچ بچوں کی عمریں چار سے 14 سال کے درمیان ہیں۔ دلیر سنگھ نے اپنی بیوی کا نام منجو رکھا ہے۔

دلیر سنگھ پچھلے چار سال سے ہندو ہیں تو کیا اس سے کوئی فائدہ ہوا؟ اس سوال کے ساتھ ہی اس کے چہرے پر دیر تک خاموشی چھائی رہی۔ خاموشی توڑتے ہوئے دلیر سنگھ کہتے ہیں: ‘ملنا کیا تھا؟ ملتا تو محنت سے ہی ہے۔ مذہب کے ساتھ نام بدلتے ہیں۔ گاؤں کے ہندوؤں نے ہی مدد کی۔ جے بیر سنگھ کا دیا ہوا مکان اب بھی ہے۔ میرا بھائی دوبارہ مسلمان ہوا لیکن ابھی تک اسی گھر میں ہے۔ اس نے اسے نہیں ہٹایا۔’

باغپت کے رام نواس سنگھ اور سکھبیر سنگھ

باغپت کے رام نواس سنگھ اور سکھبیر سنگھ

ہندوؤں کا کیا کہنا ہے؟

جے بیر سنگھ کے خاندان کے سکھبیر سنگھ کہتے ہیں: ‘انھیں گھر اس لیے نہیں دیا گیا کیونکہ وہ ہندو بن گئے تھے۔ مکان اس لیے دیا گیا کہ وہ خالی تھا اور جب یہ لوگ رہتے ہیں تو صفائی کرتے رہتے ہیں۔ وہ جس مذہب میں رہنا چاہتے ہیں اس پر قائم رہیں۔ ہمیں پرواہ نہیں ہے۔’

سکھبیر سنگھ کہتے ہیں: ‘دیکھو، ہندو سے مسلمان بننا آسان ہے، لیکن مسلمان سے ہندو بننا مشکل ہے۔ ہندو سماج میں ذات پات کو آج بھی بہت اہمیت حاصل ہے۔ اب بھی شادیاں اپنی ذات میں ہی ہوتی ہیں۔ اگر کوئی مسلمان سے ہندو بن جائے تو وہ کون سی ذات اختیار کرے گا؟ ذات پیدائشی ہے۔ پسند کی بنیاد پر حاصل نہیں ہوتی۔ فرض کریں وہ ہماری ذات جاٹ میں آنا چاہتے ہیں، لیکن انھیں جاٹ کے طور پر کون اپنائے گا؟’

مغربی بنگال کی جادو پور یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر عبدالمتین کا کہنا ہے کہ انڈیا میں گھر واپسی کا جو نعرہ دیا گیا ہے وہ ایک سماجی اور سیاسی دھوکہ ہے۔

پروفیسر متین کہتے ہیں: ‘گھر واپسی’ کا نعرہ تو دے رہے ہیں لیکن کس گھر میں؟ چاہے گھر کی بالکونی میں رہنا ہو یا صحن میں۔ یا گیراج میں رہو۔ مجھے لگتا ہے کہ گھر کی گھنٹی بجنے کے بعد بھی کوئی دروازہ نہیں کھولے گا۔ دیکھیں ہندومت میں ذات پات کی زنجیر کو توڑنا آسان نہیں ہے۔ امبیڈکر اسے نہ توڑ سکے اور ہارنے کے بعد وہ بدھ مت کے حامل ہو گئے۔ ابراہیمی مذاہب یعنی اسلام اور عیسائیت کی بات کریں تو اجتماعیت کا احساس ہوتا ہے۔ تعلق کا احساس ہوتا ہے یعنی آپ بھی اس گروپ کا حصہ ہیں اور آپ جڑا ہوا محسوس کرتے ہیں۔ لوگ ہندو مذہب کی طرف جاتے ہیں لیکن انھیں سماجی پہچان نہیں ملتی۔’

دلیر سنگھ

دلیر سنگھ گاؤں کے مندر کے باہر

گھر واپسی میں گھر کہاں ہے؟

پروفیسر متین کہتے ہیں: ‘جو ہندو بن رہے ہیں وہ دل کی تبدیلی کی وجہ سے نہیں بن رہے ہیں۔ اس کے سیاسی محرکات ہیں۔ لیکن اگر کوئی مسلمان دل بدل کر بھی ہندو بن رہا ہے تو کیا ہندو سماج میں دل بدلے گا؟ یعنی ہندو معاشرہ اتنا لبرل ہو جائے گا کہ انھیں قبول کر لے؟ جو لوگ مسلمان سے ہندو بن جاتے ہیں، ان کی شناخت مزید پیچیدہ ہو جاتی ہے۔ ہندو سماج میں شناخت کے حوالے سے بہت سی پیچیدگیاں پہلے سے موجود ہیں۔ ایسے میں اس پیچیدگی کے ساتھ جینا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ تبدیلی کے بعد ہندوؤں کے لیے بڑے معاشرے میں داخل ہونا مشکل ہے۔’

پروفیسر متین کہتے ہیں کہ ‘میں نے ابھی سعید نقوی کا ناول ‘The Muslim Vanishes’ پڑھا ہے۔ اس ناول میں بتایا گیا ہے کہ ہندوستان سے مسلمان اچانک ختم ہو جاتے ہیں۔ تاج محل، قطب مینار سے لال قلعہ تک غائب ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد انڈیا میں سیاسی جماعتیں پریشان ہو جاتی ہیں کہ الیکشن کیسے لڑیں۔ انھیں واپس لانے کے لیے الیکشن کمیشن کے گیٹ کے باہر احتجاج کیا جاتا ہے۔ میڈیا والوں کو بھی بحث کا کوئی فرضی ایشو نہیں مل رہا ہے۔ آپ نے سوال کیا تو مجھے فوراً وہ ناول یاد آگیا۔’

یہ بھی پڑھیے

’انڈیا میں نفرت پھیلانے والے ہر شخص کے خلاف قانونی لڑائی لڑوں گا‘

انڈیا میں ہندو مسلم شادی: ’ہمیں محبت کی سزا دی جا رہی ہے‘

’ماتھے پر تلک لگا کر ہندو نام یاد کروا دیے‘

وشو ہندو پریشد کے جوائنٹ سکریٹری سریندر جین کہتے ہیں: ‘بیٹی روٹی کے رشتے کا سوال اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کوئی اسلام سے ہندو مذہب میں آتا ہے۔ قبولیت کا سوال بھی ہے۔ ہم اس کے لیے ایک حل لے کر آئے ہیں۔ جن کے آباؤ اجداد جس ذات سے تعلق رکھتے تھے، انھیں وہی ذات ملے گی۔ یہاں کے تمام مسلمانوں کے آباؤ اجداد ہندو تھے اور ان کے آباؤ اجداد کے بارے میں کون نہیں جانتا۔ کون نہیں جانتا کہ شیخ عبداللہ کا خاندان کول برہمن تھا۔ اسی طرح جناح کے خاندان کے بارے میں کون نہیں جانتا۔’

محمد علی جناح کے آباؤ اجداد کا تعلق گجرات میں لوہانہ ٹھککر ذات سے تھا۔ یہ ذات گجرات کے ہندوؤں میں کاروبار کرنے والوں کی ہے۔

دلشاد کی اہلیہ اب منجو بن گئی ہے

دلشاد کی اہلیہ اب منجو بن گئی ہے

ہندو بننے کے بعد ذات کا کیا بنے گا؟

سریندر جین کہتے ہیں: ‘یہ ہریانہ میں شروع ہوا ہے۔ جاٹوں نے انھیں اسلام سے واپس ہندو مذہب میں آنے کے بعد قبول کیا ہے۔ گھر واپسی کا نعرہ صرف نعرہ نہیں بلکہ یہ کام جاری ہے۔ جو کہتے ہیں کہ مسلمانوں میں کوئی ذات نہیں ہے، وہ اسلام کو نہیں جانتے۔ کیا شیخ پسماندہ سے شادی کرے گا؟ شیعہ سنی دشمنی کون نہیں جانتا؟ ہم اس پر کام کر رہے ہیں کہ جو لوگ اسلام سے ہندو مذہب میں آئے انھیں ان کے آباؤ اجداد کی ذات مل جائے۔ میوات میں ہم وہاں کے مسلمانوں کے ہندو گوتر کو بھی جانتے ہیں۔ اس لیے اس میں الجھنے کی ضرورت نہیں۔’

گجرات یونیورسٹی میں سوشیالوجی کے پروفیسر گورانگ جانی کہتے ہیں: ‘سریندر جین کو یہ کہنا چاہیے تھا کہ وہ ذات پات سے پاک معاشرہ بنانا چاہتے ہیں تاکہ ذات پات کی بنیاد پر امتیاز ختم ہو سکے۔ لیکن وہ ورنا (ذات) کے نظام کو خراب نہیں کرنا چاہتے، اس لیے مسلمان سے ہندو بننے کے بعد بھی وہ لوگوں کو ذات پات میں تقسیم کریں گے۔ پچھلے 10 سالوں میں مسلمانوں کی جو تصویر بنائی گئی ہے، کیا لوگ اس تصویر سے نفرت کریں گے یا اسے قبول کریں گے؟ وشو ہندو پریشد کو یہ سوال خود سے پوچھنا چاہیے۔ اگر ہندوؤں میں ایسا قابل قبول جذبہ ہے تو وہ مسلمانوں کو کرائے پر مکان کیوں نہیں دیتے؟’

اختر علی کے خاندان کو یوا ہندو واہنی کے باغپت ضلع کے صدر یوگیندر تومر نے مسلمان سے ہندو بننے میں مدد کی۔ ان سے پوچھا کہ یہ خاندان دوبارہ مسلمان کیوں ہوا؟

اس سوال کے جواب میں یوگیندر تومر کہتے ہیں: ‘ان کی بیویاں اور بچے چلے گئے تھے۔ اس لیے اسے دوبارہ واپس جانا پڑا۔ لیکن ہماری مہم ختم نہیں ہوئی۔ ہم چاہتے ہیں کہ تمام مسلمان گھر واپسی کریں۔’

سنہ 2018 کی ہندو بننے کی تصویر

سنہ 2018 کی ہندو بننے کی تصویر

وسیم رضوی کو ہندو بن کر کیا ملا؟

اتر پردیش شیعہ وقف بورڈ کے سابق چیئرمین وسیم رضوی نے گذشتہ سال 5 دسمبر کو ہندو مذہب اختیار کر لیا اور جیتیندر نارائن سنگھ تیاگی بن گئے۔ 51 سال کی زندگی میں جیتیندر نارائن سنگھ تیاگی 50 سال دو ماہ تک اسلام میں رہے۔ پچھلے 10 مہینوں سے وہ ہندو ہیں۔ وہ ان 10 مہینوں کو کیسے دیکھتے ہیں؟

تیاگی کہتے ہیں: ‘مجھے سناتن (ہندو مذہب کا اصل نام) میں آنے کے چیلنجوں کا پہلے ہی اندازہ تھا۔ یہاں لوگ نہیں اپناتے۔ پہلا مسئلہ ذات پات اور بھائی چارے کا ہے۔ اگر آپ نے کوئی ذات لے بھی لی تو اس ذات کے لوگ آپ کو قبول نہیں کریں گے۔ میں نے اپنے نام میں تیاگی جوڑا، اس کا یہ مطلب نہیں کہ تیاگی سماج بیٹی روٹی کا رشتہ بنائے گا۔ میرا ماضی انھیں مجھے اپنانے نہیں دے گا۔ یہ سناتن دھرم کے مسائل ہیں۔ یہاں لوگ نہیں اپناتے۔ اگر ساتویں صدی کا مذہب اسلام دنیا کا دوسرا بڑا مذہب بنا تو اس کی بھی کچھ خوبیاں ہیں۔’

جیتیندر تیاگی کہتے ہیں: ‘اسلام میں گھل مل جانے کی جگہ ہے۔ ایک بار جب آپ اسلام قبول کر لیتے ہیں تو ان کے لیے آپ کے ماضی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ازدواجی تعلقات میں کوئی حرج نہیں۔ اسلام میں ذات پات کے لیے کوئی ذلت نہیں اٹھانی پڑتی ہے۔ میں مرتے دم تک سناتن میں رہوں گا، لیکن میں جانتا ہوں کہ بیٹی روٹی کا رشتہ کوئی نہیں بنائے گا۔ ایسے میں ایسا لگتا ہے کہ ہم نہ گھر کے ہیں نہ گھاٹ کے۔ جب میں اسلام میں تھا تب بھی سکون نہیں تھا اور اب میں یہاں رہ کر بھی الگ تھلگ محسوس کرتا ہوں۔’

جیتیندر نارائن تیاگی کا کہنا ہے کہ سناتن میں آنے کے بعد ان کی شادی ٹوٹ گئی۔ خاندان بری طرح متاثر ہوا۔ انھوں نے کہا: ‘سچ کہوں تو میں نے اپنی زندگی میں زہر گھول لیا۔ اسی لیے میں پورے خاندان کے ساتھ سناتن مذہب میں نہیں آیا۔ پہلے میں خود آکر دیکھنا چاہتا تھا۔ اچھا ہوا کہ پورا خاندان ساتھ نہیں آیا۔’

وسیم رضوی گذشتہ سال 5 دسمبر کو ہندو بنے

وسیم رضوی گذشتہ سال 5 دسمبر کو ہندو بنے

مذہب اتنا اہم کیوں ہے؟

کیا انسان کی زندگی میں مذہب اتنا اہم ہے کہ شادی اور خاندان بھی تباہ ہو جائے؟ اس سوال کے جواب میں تیاگی کہتے ہیں: ‘انسانیت سے زیادہ کوئی چیز اہم نہیں ہے، لیکن ہاں، میں نے مذہب کو زیادہ اہمیت دی۔ میں یہ ضرور کہوں گا کہ اگر گھر واپسی کو مہم بنانا ہے تو آگے بڑھتے ہوئے ہندوازم کو اپنانا ہوگا، ورنہ یہ محض ایک سیاسی چال کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔

جیتیندر نارائن تیاگی کی شکایت پر وشو ہندو پریشد کے قومی جوائنٹ سکریٹری سریندر جین کہتے ہیں: ‘وسیم رضوی کو میڈیا پر آنا اور بے قابو ہو کر بات کرنا پسند تھا۔ ہم وشو ہندو پریشد سے تعلق رکھتے ہیں لیکن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کبھی کوئی قابل اعتراض بات نہیں کی۔ میں نے یقینی طور پر اویسی کو خبردار کیا تھا کہ اگر آپ نے کوشلیا اور رام کے بارے میں بولنا بند نہیں کیا تو میں پیغمبر اسلام پر بولنا شروع کر دوں گا۔ لیکن کبھی نہیں کہا۔ وسیم رضوی کو بھی ان باتوں کا خیال رکھنا چاہیے تھا۔ اس نے بے قابو ہو کر بولنا شروع کر دیا اور اس کا خمیازہ اسے بھگتنا پڑا۔’

سریندر جین کا کہنا ہے کہ اگر وسیم رضوی کو کوئی مسئلہ تھا تو انھیں ہم سے بات کرنی چاہیے تھی اور میڈیا میں کچھ بولنا شروع نہیں کرنا چاہیے تھا۔ سریندر جین کہتے ہیں: ‘ہم یتی نرسمہانند جیسے بھی الٹرا ہندو کی حمایت نہیں کر سکتے۔’

کولکتہ یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر ہمادری چٹرجی ایسا نہیں مانتے کہ اسلام قبول کرنے کے بعد بیٹی روٹی کا رشتہ بنانے میں کوئی امتیاز نہیں ہوتا۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘کیا کوئی اشرف کسی پسماندہ مسلمان کے گھر شادی کرے گا؟ وہاں کے دلتوں کا بھی یہی حال ہے۔ اگر کوئی مذہب تبدیل کرتا ہے تو اس کی سماجی شناخت اس کے ساتھ آتی ہے۔’

وسیم رضوی کا تبدیلی مذہب

امبیڈکر بھی بے بس تھے

سریندر جین مذہب کی تبدیلی کے بعد باپ دادا کی ذات دینے کی بات کر رہے ہیں، کیا یہ اتنا آسان ہے؟ پروفیسر ہمادری چٹرجی کہتے ہیں: 'اگر وہ گھر واپسی پر یہ ذات دیتے ہیں تو معاملہ مزید دلچسپ ہو جائے گا۔ پھر ہندو مذہب کے متون میں ترمیم کرنا پڑے گی۔ امبیڈکر نے ہندومت سے بغاوت کیوں کی؟ ظاہر ہے ذات پات کے موذی چکر سے بچنے کے لیے۔ انھوں نے کافی تحقیق کے بعد بدھ مت اختیار کیا۔ بدھ مت کو بھی اپنے ہی حساب سے بنایا گیا تھا۔ امبیڈکر نے نئے خیالات والا بدھ مت کہا۔ لیکن جین صاحب ذات کو جانے نہیں دینا چاہتے۔'

ہمادری چٹرجی کہتے ہیں: ‘میں پروفیسر متین کی بات کو آگے بڑھاتا ہوں۔ کیا گھر واپسی کے بعد ماسٹر بیڈروم میں جگہ ملے گی؟ اگر کسی کے آباؤ اجداد دلت تھے تو وہ دوبارہ دلت بننے کے لیے ہندو مذہب میں کیوں آئے گا؟ اگر وہ کہتا ہے کہ وہ برہمن بننے کی شرط پر ہندو مذہب میں آئے گا تو کیا جین صاحب اس کو برہمن بنائیں گے؟ سوال یہ ہے کہ کوئی گھر واپس آنے کے بعد گیراج میں رہنے کے لیے کیوں آئے گا؟ جین صاحب ماسٹر بیڈروم دیں۔’

جب دلیر سنگھ دلشاد تھا تو وہ گاؤں گاؤں گھوم کر کپڑے بیچتا تھا اور چار سال بعد بھی وہی کام کرتا ہے۔ اس کی بیوی منسو سے منجو بن گئی لیکن اسے پھر بھی پانچ بچوں اور اپنے شوہر دلیر کے لیے ہر روز کھانا پکانا پڑتا ہے۔ تبدیلی صرف نام ہے۔ لیکن نام میں کیا ہے؟ پروفیسر چٹرجی کہتے ہیں: ‘بہتر ہوتا کہ ‘گھر واپسی’ کا نام بدل کر ‘نام واپسی’ رکھ دیا جاتا کیونکہ اس میں کوئی گھر نہیں ہے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32554 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments