اب دیر ہو چکی ہے- افسانہ


جاوید اپنے والدین کا بڑا بیٹا تھا۔ غریب والدین اور دس بچوں کے ساتھ نے زندگی کو بڑا مشکل بنا دیا تھا۔ والدین نے بچپن سے ہی جاوید پر ذمہ داریوں کا بوجھ ڈالنا شروع کر دیا تھا۔ جاوید نے بچپن کا کوئی لطف حاصل نہ کیا۔ اور سارا دن موٹر ورکشاپ میں گاڑیوں کے نٹ بونٹ کھولتے استادوں کی جھاڑ کھاتے اور ان کے ذاتی کام کرتے گزر گیا۔ استاد جی! جاوید کو ہر غلطی پر جھاڑ پلاتے اور گالیاں دیتے۔ لیکن جاوید نے کبھی بھی اس بات کا ذکر اپنے والدین سے نہ کیا۔

وہ جانتا تھا کہ اگر وہ اپنے والدین کو اپنے استاد جی کی شکایت کرے گا تو والدین اس سے ناراض ہو جائیں گے۔ اور اس کو مزید ڈانٹ بھی پلائیں گے۔ گھر کے بڑے بیٹے اور کماؤ پوت ہونے کی وجہ سے گھر میں اس کی اہمیت اور عزت بڑھ گئی تھی۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ذمہ داریوں کا بوجھ بھی بڑھتا چلا گیا۔ اب جاوید دن رات صرف گھر کے خرچے اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی تعلیم کے بارے میں سوچتا رہتا تھا۔ جاوید کے والدین نے اس کو اس کی آنے والی زندگی کے سنہرے خواب دیکھا رہے تھے۔

جاوید جلد سے جلد اپنی ذاتی ورکشاپ بنانا چاہتا تھا۔ تاکہ اس کی آمدنی میں بھی اضافہ ہو اور استاد جی سے بھی جان چھوٹ جائے۔ لیکن جتنے پیسے وہ بچاتا تھا اس سے تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ آ نے والے پچیس سال بھی وہ اپنی ورکشاپ کے پیسہ اکٹھا نہیں کر سکتا تھا۔ جاوید کے بہن بھائی بڑے ہو رہے تھے اور والدین بوڑھے۔  اخراجات میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔

جاوید جس محلے میں رہتا تھا۔ وہاں ایک نیا گھرانا آ کر آباد ہوا۔ جاوید کی اب عمر تقریباً پچیس سال ہو چکی تھی۔ جوانی بھر پور تھی مگر ابھی محبت کا ذائقہ اس نے نہیں چکھا تھا۔ زندگی بے رونق تھی۔ زندگی کی مصروفیات نے کبھی اس کی توجہ وجود زن کی طرف مبذول نہیں کروائی تھی۔ جاوید کا پچھلے پندرہ سال سے ایک ہی معمول تھا۔ صبح آٹھ بجے وہ گھر سے ورکشاپ کے لیے نکلتا اور رات گئے تک وہ گھر واپس پہنچتا اب ورکشاپ کی زیادہ تر ذمہ داریاں اس پر آ گئی تھیں۔

استاد اپنا زیادہ تر وقت گھر اور اپنے دوستوں کے ساتھ گزارتا تھا۔ جاوید کی مہارت میں کافی اضافہ ہو چکا تھا۔ تمام لوگ اپنی گاڑی کی مرمت اس سے کروانا چاہتے تھے۔ ایک دن وہ گھر سے ورکشاپ کے لیے نکل رہا تھا کہ اس کی نظر سامنے خوبصورت لڑکی پر پڑی۔ ایسا نہ تھا کہ اس کو راستے میں لڑکیاں نظر نہیں آتی تھیں۔ لیکن اس لڑکی میں عجیب کشش تھی کہ جاوید کا دل چاہا کہ وہ رک جائے۔ اور اس کو دیکھتا رہے لیکن وہ ایسا نہ کر سکا۔

کیونکہ اس نے ورکشاپ جلد پہنچنا تھا۔ اور دو گاڑیوں کو ان کے مالکان کے حوالے کرنا تھا۔ جس کا استاد جی نے ان سے وعدہ کیا تھا۔ سارا دن ورکشاپ میں کام کے دوران بھی وہ اس لڑکی کی خوبصورتی میں کھویا رہا۔ اس کا چہرہ بار بار اس کی نظروں کے سامنے آ جاتا تھا۔ استاد نے بھی محسوس کیا اوئے جاوید! خیر ہے آج تیرا کام میں دل نہیں لگ رہا۔ جاوید نے کہا استاد جی ذرا طبیعت خراب ہے۔ صبح سے دل کام میں نہیں لگ رہا۔ کچھ سستی ہو رہی ہے استاد نے کہا چائے پی لے تھکن دور ہو جائے گی اور رات کو جلدی سویا کر تاکہ کام میں دل لگ سکے۔

جاوید نے جواب دیا۔ جی استاد جی۔ شام کو گھر واپسی پر جب اماں نے جاوید سے کھانے کا پوچھا تو اس نے کہا کہ دل نہیں کر رہا۔ ماں جاوید کے پاس آ بیٹھی اور کہا کہ پتر خیر ہووے۔ کیا ہوا جاوید نے بہانا بنایا کہ ورکشاپ میں کام زیادہ تھا۔ تھک گیا ہے۔ ساری رات بھی جاوید کو نیند نہ آئی اور بستر پر کروٹیں ہی بدلتا رہا۔

صبح جاوید کی آنکھ ذرا دیر سے کھلی اور تھکن کے آثار بھی نمایاں تھے۔ لیکن ورکشاپ پہنچنا ضروری تھا۔ ناشتہ بے دلی سے کیا اور ورکشاپ کی طرف چل دیا۔ دل میں تمنا لیے آج بھی وہ لڑکی راستے میں نظر آ جائے۔ گھر سے نکل کر گلی میں آیا تو کیا دیکھتا ہے۔ کہ وہ نازنیں اپنی تمام دلربائی پھیلائے اپنے گھر کی چوکھٹ پر کھڑی کسی بھکاری سے الجھ رہی ہے۔ جاوید کے دل میں خوشیوں کی لہر دوڑ اٹھی۔ بھکاری بھی ڈھیٹ قسم کا لگتا تھا کہ اس کی جان نہیں چھوڑ رہا تھا۔ جب جاوید قریب پہنچا تو دونوں کے درمیان تکرار جاری تھی۔ جاوید رک گیا اور جیب سے دس روپے کا نوٹ نکال کر بھکاری کے ہاتھ میں پکڑاتے ہوئے اسے وہاں سے جانے کے لئے کہا بھکاری اللہ بھلا کرے اللہ بھلا کرے کہتے ہوئے وہاں سے چل پڑا۔ جاوید بھی جھجکتے جھجکتے اپنے قدم آگے بڑھاتا ہے کہ پیچھے سے آواز آتی ہے۔

لڑکی: ذرا سنیں
جاوید: (رکتے ہوئے اس کی طرف دیکھتا ہے ) جی؟
لڑکی: آپ کا شکریہ
جاوید: کوئی بات نہیں
لڑکی:آپ اسی محلے میں رہتے ہیں ہم لوگ یہاں نئے ہیں
جاوید: جی پچھلی گلی میں ہمارا گھر ہے۔
لڑکی: جی ٹھیک ہے۔ کبھی میں اماں کے ساتھ ملنے آؤں گی۔ یہاں ہمارا کوئی جاننے والا نہ ہے۔
جاوید: جیسے آپ کی مرضی۔
سلام کرتا ہوا اپنی ورکشاپ کی طرف چل پڑتا ہے۔

جاوید کے کانوں میں سارا دن اپنی اس لڑکی کے ساتھ گفتگو کی باز گشت سنائی دیتی رہتی ہے۔ استاد جی سے آج کافی مرتبہ ڈانٹ پڑتی ہے کہ تمہاری توجہ کس طرف ہے۔ لیکن جاوید ایک عالم میں مست اپنے آپ کو بڑا پر سکون پاتا ہے۔ سارا دن اسی طرح گزر جاتا ہے ۔ رات گئے اس کی واپسی گھر ہوتی ہے۔ اماں کھانا دیتی ہے۔ اور دن کا حال پوچھتی ہے جاوید آج کا دن بہت اچھا گزرا اور ورکشاپ پر کافی کام تھا اماں نے کہا ٹھیک ہے۔

آج زرینہ اور اس کی بیٹی صباء ملنے آئے تھے۔ یہ لوگ ابھی محلے میں آئے تھے۔ بھلے لوگ لگتے ہیں میں نے چائے بسکٹ کھلائے تھے بیٹا بسکٹ کے پیکٹ گھر میں ختم ہو گئے ہیں۔ کل واپسی پر ایک ڈبہ بسکٹ کا لیتے آنا مہمان وغیرہ آتے رہتے ہیں اور تمہیں پتا ہے کہ تمہاری چار بہنیں بیٹھی ہیں اور رشتے بھی آنے شروع ہو چکے ہیں۔ کلثوم کا رشتہ تمہارے چچا اپنے بیٹے امجد کے لیے مانگ رہے ہیں۔ ان کو بہت جلدی ہے کہ جلد سے جلد بیاہ کر لے جائیں۔ خرچہ کہاں سے پورا ہو گا؟

جاوید جو کہ صباء کا نام سن کر مست ہو چکا تھا۔ وہ کہاں اپنی اماں کی باتیں سن رہا تھا۔ صباء کتنا خوب صورت نام ہے۔ جاوید نے دل ہی دل میں دہرایا اماں کو احساس ہوا جاوید کی توجہ کہیں اور ہے اماں نے کہا میں تم سے کلثوم کی شادی کی بات کر رہی ہوں خرچے کہاں سے پورے ہوں گے اماں نے دہرایا۔

جاوید نے جواب دیا ہو جائیں گے۔ ساری رات ہی صباء کا نام اس کے ذہن میں گونجتا رہا اور اسے نیند آ گئی۔

اب جاوید اور صباء کی ملاقات معمول بن گئی تھی روز صبح جب جاوید ورکشاپ کے لئے گھر سے نکلتا تو صباء اس کا انتظار اپنے دروازے پر کر رہی ہوتی۔ جاوید کو معلوم ہوا کہ صباء کا ایک ہی بھائی ہے اور وہ بہت چھوٹا ہے اور صباء کا والد کباڑیہ ہے جاوید سارا دن صرف صباء کے بارے میں سوچتا رہتا اور اب تو اس نے صباء کے لئے تحفے بھی خریدنے شروع کر دیے تھے۔ صباء کے لئے اس نے کان کی بالیاں خریدیں وہ صباء کو دینا چاہتا تھا۔

جمعہ کا دن جاوید کا ورکشاپ سے چھٹی کا دن ہوتا تھا وہ سارا دن گھر آرام کرتا اور شام کو دوستوں کے ساتھ شہر کی سیر کو نکل جاتا اس جمعہ اس نے صباء سے مل کر نئی فلم دیکھنے کا پروگرام بنایا تھا لیکن اس نے صباء کو تاکید کی کہ وہ اسے محلے سے باہر اسٹاپ پر ملے کیونکہ محلے والے پہلے ہی ان کے بارے میں باتیں بناتے پھر رہے ہیں وہ دن جاوید کا خوبصورت ترین دن تھا۔ جاوید اور صباء نے اکٹھی فلم دیکھی اور ساتھ ہی دہی بھلے کھائے۔ کلثوم کی شادی نزدیک تھی گھر میں شادی کا خوب صورت سماں تھا۔

جاوید نے اپنے استاد سے پچاس ہزار روپے قرض لے کر شادی کے انتظامات خوب کیے تھے۔

اماں نے رشتے داروں اور محلے کے چند گھروں کو بھی کلثوم کی شادی کے دعوت نامے دیے تھے۔ صباء اور اس کی ماں زرینہ بھی ان میں شامل تھیں مہندی کے دن جب صباء اور اس کی ماں جاوید کے گھر آئے تو صباء کوئی آسمان کا تارہ لگ رہی تھی جاوید بہانے بہانے سے صباء سے بات چیت کرتا رہا۔ جاوید کی اماں جو کہ شادی میں مصروف تھی لیکن اس کی نظر جاوید پر بھی تھی۔ وہ بھانپ گئی کہ جاوید صباء سے پیار کرتا ہے اور اس کے نزدیک ہونا چاہتا ہے۔

جاوید نے بھی سوچ رکھا تھا کہ کہ وہ شادی کے بعد اماں سے اپنی اور صباء کی شادی کی بات کرے گا۔ کلثوم خوشی خوشی امجد کے گھر چلی گئی اماں خوش تھیں کہ کہ انہوں نے اپنا پہلا فرض بخوبی انجام دے دیا ابا بھی مطمئن تھے۔ کلثوم کے ولیمے کے بعد واپسی گھر آتے ہوئے جاوید نے اماں سے اپنی اور صباء کی بات کی۔ اماں بھڑک اٹھی۔ لونڈے تجھے کیا ہو گیا ہے۔ ابھی تو تیری تین تین جوان بہنیں گھر بیٹھی ہیں۔ اور تجھے اپنے سر پر سہرا سجانے کی پڑ گئی ہے ابھی تیری عمر بھی کیا ہے۔ میں اس لڑکی کے لچھن دیکھ رہی ہوں وہ تجھے اپنا بنا لے گی تجھے کہیں کا نہ چھوڑے گی۔ جاوید نے ماں کی منت کی کہ ٹھیک ہے میں ابھی شادی نہیں کرتا مگر کم از کم تم زرینہ چچی سے رشتے کی بات تو چلاؤ لیکن ماں نے کہا ابھی نہیں بیٹا بات چلائیں گے اتنی بھی جلدی کیا ہے۔

صبح جب جاوید کی صباء سے ملاقات ہوئی تو وہ کافی پریشان لگ رہی تھی۔ جاوید نے وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ آج کل اماں ابا شادی کی بات چلا رہے ہیں۔ وہ جلد اپنی اماں کو رشتے کے لیے اس کے گھر بھیجے ورنہ اس کا باپ انتظار نہیں کرے گا۔

رات کو دوبارہ اماں سے بات کی تو اماں ناراض ہو گئیں اور رونا شروع کر دیا تھا کہ تیری تین بہنیں ابھی گھر بیٹھی ہیں۔ بھائی پڑھ رہے ہیں۔ اور تجھے اپنا گھر بسانے کی پڑی ہے۔ کافی دن تک جاوید اپنی ماں کو سمجھانے کی کوشش کرتا رہا اور اپنے باپ کو بھی شامل کیا لیکن اسے پتا تھا کہ گھر میں صرف اماں کی چلتی ہے۔ ابا بات نہیں منوا سکتے۔ اماں نہ مانی اور نہ ہی صباء کا رشتہ لینے اس کے گھر گئیں۔ ادھر صباء کے گھر والوں نے اس کا رشتہ طے کر دیا۔

صباء خوبصورت تھی اس کو رشتوں کی کوئی کمی نہ تھی۔ صباء کے لئے پڑھے لکھے انجینئر کا رشتہ آیا۔ جو دبئی میں کام کرتا تھا۔ انہیں شادی کی جلدی تھی۔ کیونکہ اسلم کو صرف 15 دن کی چھٹیاں ملی تھیں۔ صباء نے ماں کو منانے کی بہت کوشش کی۔ لیکن اس کی شرط یہ تھی کہ جاوید کے گھر والے رشتہ لے آئیں۔ تو وہ اس کے باپ کو منائے گی۔ جاوید اپنے والدین کو نہ منا سکا۔ اور اس طرح صباء اسلم سے بیاہ کر دبئی چلی گئی۔ صباء کے جانے کے بعد جاوید ایک روبوٹ بن گیا۔

وہ زیادہ وقت ورکشاپ میں گزارتا اور سونے کے لئے گھر میں آتا تھا۔ دن گزرے، سال گزرے جاوید نے اپنی تینوں بہنوں کی شادی دھوم دھام سے کر دی۔ جاوید کے چھوٹے بھائی پرویز نے اپنی شادی کی بات کی تو اماں کو جاوید کا خیال آیا کہ پہلے جاوید کی شادی ہو گی پھر تمہاری ہو گی۔ اماں نے جاوید سے شادی کی بات کی۔ جاوید کی عمر اب 45 سال ہو چکی تھی۔ وہ شادی کی منزل سے بہت آگے نکل آیا تھا۔ وہ انسان کم روبوٹ بن چکا تھا۔ اماں نے کہا کہ جاوید تم اب شادی کر لو۔

جاوید نے جواب دیا۔
۔ ”اب دیر ہو چکی ہے اماں“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments