سوشل میڈیا پر آڈیو لیکس: پاکستان کی سائبر سکیورٹی ایک بار پھر زیر بحث

منزہ انوار - بی بی سی اردو، اسلام آباد


Getty Images

پاکستان کے سوشل میڈیا پر ایسی چند آڈیوز وائرل ہوئی ہیں جن میں مبینہ طور پر وزیر اعظم شہباز شریف، مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز اور وفاقی کابینہ میں شامل مسلم لیگ (ن) کے اراکین کو مختلف معاملات پر بات کرتے سنا جا سکتا ہے۔

اس مبینہ آڈیو لیک سکینڈل پر اب تک وفاقی حکومت یا مسلم لیگ ن کی جانب سے کوئی باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا۔ بی بی سی نے وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال سے جب حکومتی موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ اب تک انھوں نے یہ آڈیو نہیں سنی اور وہ اس کو سننے کے بعد ہی کوئی ردعمل دے سکتے ہیں۔

حکومت کی جانب سے اس معاملے پر خاموشی کی وجہ سے اس بات کی تصدیق نہیں کی جا سکتی کہ یہ آڈیو ٹیپس مصدقہ ہیں یا نہیں۔ تاہم سوشل میڈیا پر کئی اہم سوالات اٹھائے جا رہے ہیں جن کا مرکزی نکتہ پاکستان میں اہم سرکاری دفاتر اور عہدوں کی سائبر سکیورٹی ہے۔

ادھر پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے حکومتی ردعمل سامنے آنے سے قبل ہی اس معاملے پر باقاعدہ جوڈیشل انکوائری کروانے کا مطالبہ بھی سامنے آ چکا ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ ایک جانب جہاں مبینہ آڈیو میں ہونے والی گفتگو موضوع بحث ہے وہیں یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ یہ گفتگو کس نے ریکارڈ کی؟ کیسے ریکارڈ کی اور یہ آن لائن کیسے پہنچی؟ اسی سے جڑے اہم سوال یہ بھی ہیں کہ اس سارے معاملے میں پاکستان کی سائبر سکیورٹی کس قدر مضبوط یا کمزور ہے؟

لیکن یہ بات واضح رہے کہ پاکستان میں ماضی میں بھی کئی اہم شخصیات کی گفتگو کی مبینہ آڈیوز لیک ہو چکی ہیں تاہم ان میں سے اکثریت فون پر ہونے والی بات چیت تھیں۔

آڈیو لیک سکینڈل

آڈیو لیک سکینڈل

بی بی سی نے جن مبینہ آڈیوز کو سنا ہے ان میں سے ایک میں مبینہ طور پر وزیر اعظم شہباز شریف، سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق، وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ، وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف، وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کی آواز پہچانی جا ستی ہے۔ اس گفتگو میں پی ٹی آئی کے استعفوں پر گفتگو کی جا رہی ہے۔

تاہم جب بی بی سی نے وفاقی وزیر احسن اقبال سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ابھی تک انھوں نے یہ آڈیو نہیں سنی اس لیے وہ اس کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔

بی بی سی نے مبینہ آڈیو ان کے ساتھ شیئر کی تاہم احسن اقبال سمیت پاکستان مسلم لیگ کے کسی رہنما کی جانب سے جواب نہیں دیا گیا۔

حکومتی خاموشی کی وجہ سے اس وقت اس معاملے پر حقائق اور جواب کم ہیں، اور سوالات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ۔۔۔۔

ادھر پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے یہ آڈیو شئیر کرتے ہوئے سوال کیا کہ ’وزیر اعظم پاکستان کا آفس ڈیٹا جس طرح ڈارک ویب پر فروخت کے لیے پیش کیا گیا یہ ہمارے ہاں سائبر سکیورٹی کے حالات بتاتا ہے، یہ ہماری انٹیلی جنس ایجنسیز خصوصاً آئی بی کی بہت بڑی ناکامی ہے، ظاہر ہے سیاسی معاملات کے علاوہ سیکیورٹی اور خارجہ موضوعات پر بھی اہم گفتگو اب سب کے ہاتھ میں ہے۔‘

فواد چوہدری کا یہ دعوی کس بنیاد پر ہے یہ کہنا مشکل ہے تاہم ٹؤٹر پر @OSINT_Insider (اوپن سورس انٹیلیجنس انسائڈر) نامی اکاؤنٹ کا دعویٰ ہے کہ سوشل میڈیا پر وائرل یہ آڈیوز 100 گھنٹوں سے بھی زیادہ طویل دورانیے کے ریکارڈ شدہ اس ڈیٹا کا حصہ ہیں جس کی ڈارک ویب ہیکنگ فورم پر 345000 ڈالر تک بولی لگائی گئی۔

اوپن سورس انٹیلیجنس انسائڈر کا دعویٰ ہے کہ یہ فون پر ہونے والی گفتگو نہیں بلکہ پی ایم آفس میں ریکارڈ کی گئی گفتگو ہے۔ بی بی سی ان دعوؤں کی تصدیق نہیں کر سکتا۔

’سیاسی قیادت کی بات چیت کو کون کس قانون کے تحت ٹیپ کر رہا ہے؟‘

سوشل میڈیا پر اسے پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی سکیورٹی بریچ قرار دیا جا رہا ہے۔ اور یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ یہ گفتگو کب، کیسے اور کہاں ریکارڈ کی گئی، بیشتر افراد جاننا چاہتے ہیں کہ کیا یہ واقعی سکیورٹی بریچ ہے؟ اور اگر ایسا ہے تو یہ کتنے بڑِے پیمانے کی سکیورٹی بریچ ہے، اور اس کا ذمہ دار کون ہے؟

خیبرپختونخوا کے وزیر خزانہ تیمور جھگڑا نے بھی ایسے ہی خدشات کا اظہار کیا ہے جن کی سابق وفاقی وزیر شوکت ترین سے گفتگو کی آڈیو کچھ ہی عرصہ قبل منظر عام پر آئی تھی۔

وہ پوچھتے ہیں کہ ’کیا کوئی جواب دے گا کہ سیاسی قیادت کی بات چیت کو کس قانون کے تحت اور کون ٹیپ کر رہا ہے، چاہے پی ایم او میں ہو یا فون پر؟ اور اس ڈیٹا کی حفاظت کا ذمہ دار کون ہے؟‘

سابق وزیر اعظم کے فوکل پرسن آن ڈیجٹل میڈیا اور پنجاب میں آئی ٹی کے وزیر ڈاکٹر ارسلان خالد کہتے ہیں کہ ’اصل سوال تو یہ ہے کہ 100 گھنٹوں سے اوپر کی ریکارڈنگ ہوئی کیسے؟ کیا وزیراعظم ہاؤس میں گفتگو سننے والے خفیہ آلے لگائے گئے؟‘

ان کا کہنا ہے کہ ‘وزیراعظم ہاؤس میں خارجہ پالیسی سمیت تمام تر حساس موضوعات پر بھی بات چیت ہوتی ہے تو کیا یہ سب ڈیٹا اب ہیکرز کے ہاتھ ہے؟ یہ سیاسی ایشو نہیں، پاکستان پر سائبر حملہ ہے۔’

شہباز شریف کی گذشتہ حکومت میں پنجاب میں ڈیجیٹل اصلاحات متعارف کروانے والے عمر سیف کا کہنا ہے کہ پاکستان کی سائبر سپیس محفوظ نہیں ہے۔

انھوں نے ان خدشات کا اظہار کیا کہ ہمارے پاس سائبر سپیں میں ہونے والی ترقی کے ساتھ ساتھ چلنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک اہم قومی اہمیت کا مسئلہ ہے۔ پاکستان کو سیاسی طور پر سنسنی پھیلانے سے بالاتر ہو کر یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ خطرہ کیا ہے۔

ایک سینئر صحافی نے سوال اٹھایا کہ ’اہم سوال یہ ہے کہ آیا یہ گفتگو پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں نے ریکارڈ کی یا پھر وہ اس سے بے خبر تھے؟‘

صحافی عاصمہ شیرازی نے لکھا کہ ’جب وزیراعظم ہاؤس بھی محفوظ نہیں تو باقی کیا کہنا، مجھے جارج اورول کا ناول 1984 اور کردار بگ برادر یاد آ گیا جو ہر چیز پر خفیہ نظر رکھتا ہے۔۔ آج بڑا بھائی کون ہے؟؟؟‘

صحافی مبشر زیدی لکھتے ہیں کہ ’وزیر اعظم اور مریم نواز کو ان آڈیو لیکس پر اپنا رد عمل دینا چاہئے۔ کسی دوسرے ملک میں ایسی لیکس آتیں تو ابھی تک انٹیلیجنس اداروں کے سربراہان مستعفی ہو چکے ہوتے۔‘

آڈیو ریکارڈ کیسے ہوئی؟

حکومت کی جانب سے اس معاملے پر موقف سامنے نہ آنے کی وجہ سے صارفین اندازے قائم کرتے نظر آئے کہ اگر یہ آڈیو جعلی نہیں ہے، تو پھر یہ گفتگو کیسے ریکارڈ ہوئی ہو گی؟

صارف عزیر یونس نے لکھا کہ ’پہلی صورت یہ ہے کہ وہاں موجود کسی شخص کا فون ہیک کیا جا چکا ہو جس میں لوکیشن کی مدد سے فون میں موجود ہاٹ مائیک کو صارف کی مرضی کے بغیر استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘

عزیر یونس کے مطابق ’ایک صورت یہ بھی ہے کہ وزیر اعظم ہاوس میں خفیہ آلات موجود ہوں جن کے ذریعے اس گفتگو کو ریکارڈ کیا گیا تاہم بعد میں یہ لیک ہوئی یا کر دی گئی۔‘

صحافی سرل المائڈا نے لکھا کہ ’عمران خان سے ایک ملاقات کے دوران میں نے ایک بات پہلی بار نوٹس کی کہ ایک شخص نے اندر آ کر آلے کی مدد سے دو بار کمرے کی تلاشی لی اور تمام ڈیجیٹل آلات کو کچھ فاصلے پر رکھا گیا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32547 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments