غریب ملک اور عوام چل کریں


غریب لوگ بہت خوش قسمت ہیں۔ یقین نہ آئے تو کسی مذہبی رہنما سے پوچھ کر دیکھ لیں۔ غربت کے اصل فائدے وہی آپ کو بتا سکتے ہیں۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہے کہ غریب انسان دنیا و آخرت میں حساب کتاب کے جھنجھٹ سے بچ جاتا ہے۔ اور کم ازکم بھوک سے نہیں مرتا۔ کسی نہ کسی طرح کہیں نہ کہیں سے خوراک کا انتظام ہو ہی جاتا ہے۔ اس سے بڑا فائدہ کیا ہو گا کہ چوری بھی کرے تو چور نہیں مجبور کہلاتا ہے۔

قناعت چھوٹا لفظ ہے، یہ کہنا چاہیے غریب لوگ انتہا کے راضی بہ غربت ہوتے ہیں۔ جو مل جائے ساری عمر اسی میں گزار دیتے ہیں۔ کبھی ترقی کرنے کا نہیں سوچتے۔ آگے بڑھنے کے شوق میں مبتلا زندگی کو امتحان میں نہیں ڈالتے۔ امیروں کی طرح بیوقوف نہیں ہوتے جو اس پیسے کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں، جس کا کچھ حصہ ہی ان کے ذاتی کام آتا۔ بیشتر حصہ تو وارثین کے کام آتا یا مستحقین کے۔ تو بھلا کیا فائدہ ایسی بھاگ دوڑ کا۔ کئی صاحب ثروت تو ایسے دیکھے ہیں جن کا کچھ لٹ جائے تو انھیں ہارٹ اٹیک آ لیتا۔

غریب اس لحاظ سے بھی خوش قسمت ہیں کہ کچھ چھن جانے کی وجہ سے انھیں ہارٹ اٹیک نہیں ہوتا، کہ ان کے پاس ایسا کچھ ہوتا ہی نہیں جو چھینا جائے۔ اکثر دیکھا ہے غریب بہتر زندگی گزارنے کے لیے زیادہ پیسہ کمانے کی دوڑ میں شامل ہونا پسند نہیں کرتے۔ اپنی مرضی سے زندگی گزارتے ہیں۔ کہیں آنے جانے کی بندش سے آزاد ہوتے ہیں۔ جدھر دل کرے منہ اٹھا کے چل پڑتے ہیں۔ جہاں چلے جائیں وہاں سے واپس آنے کی بھی جلدی نہیں کرتے۔ بلکہ کوشش کرتے ہیں کہ جتنی دیر گھر والے برداشت کریں اس سے چار دن زیادہ ہی رہ لیں۔

سونے کے لیے کوئی نیند آور گولیاں نہیں پھانکتے۔ ہاں ضرورت محسوس کریں تو پھر پکے سگریٹ کے کش ضرور لگا لیتے ہیں۔ ان کے پاس چونکہ کرنے کو کوئی اور کام نہیں ہوتا اس لیے یہ پوری دلجمعی سے بچے پیدا کرنے کے کام پہ لگے رہتے ہیں۔ جی بھر کے بچے پیدا کرتے ہیں بلکہ جب تک عمر اور صحت وفا کرے تب تک یہی ایک کام کرتے رہتے ہیں۔ بچوں کو بوجھ نہیں رزق کا وسیلہ سمجھتے ہیں۔ اس کا فائدہ یہ بھی ہوتا کہ خوشی غمی کے موقع پر باہر سے لوگ اکٹھے کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔

فوت ہو جائیں تو جنازے پر ان کی آل اولاد کی تعداد ہی اتنی تعداد ہوجاتی، جتنی مولوی نے میت کی بخشش کے واسطے جنازہ پڑھنے والوں کی گنتی بتائی ہے۔ یوں اپنے بچوں کی تعداد ہی انھیں جنت میں لے جانے کے لیے کافی ہوجاتی ہے۔ مولوی کے مطابق اگر جنازے میں شریک لوگوں کی تعداد کو ہی جنت میں داخلے کی ایک وجہ سمجھا جائے تو پھر کثرت اولاد کی وجہ سے کئی لوگوں کا جنت کے رقبے میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔

چونکہ ان کے پاس دینے دلانے کو کچھ نہیں ہوتا اسی لیے کسی عزیز یا ہمسائے کے بے وقت آنے سے یہ کبھی نہیں سوچتے کہ یہ کچھ مانگنے آیا ہو گا۔ یہ لوگ ایک دوسرے سے خاصے بے تکلف ہوتے ہیں۔ اس لیے وقت بے وقت ایک دوسرے کے گھر آنے جانے پہ اعتراض بھی نہیں کرتے جس کا جب دل چاہے کسی کے گھر جا گھستا ہے۔ اور پھر اہم موضوعات پر ( دوسروں کی برائیاں ) گھنٹوں سیر حاصل گفتگو کرتے ہیں۔ فارغ وقت میں جو کہ قریباً ہر وقت ہی ہوتا ہے ایک دوسرے کی بہو بیٹیوں اور بیویوں پر خوب نظر رکھتے ہیں۔

گندے لطیفے سننا اور سنانا ان کی فل ٹائم تفریح ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ شدید گندے لطیفوں کے موجد یہی لوگ ہوتے ہیں تو بے جا نہ ہو گا۔ خوشی میں ہنس ہنس کے گالیاں نکالتے ہیں اور شدید غصے کا اظہار بھی گالیوں ہی سے کرتے ہیں، گالیاں وہی ہوتی ہیں بس لہجہ بدل جاتا ہے۔ ان کے دکھ سکھ ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ اس لیے آہ و زاریاں بھی ایک جیسی ہی کرتے ہیں۔ محض جائیداد ہتھیانے کے چکر میں بیٹیوں کو گھر میں نہیں بٹھائے رکھتے۔ جو بھی بھنگی، چرسی، آوارہ ملے اسی سے بیٹی بیاہنے کی کرتے ہیں۔

غریبوں کو آج تک کسی پیچیدہ بیماری میں مبتلا ہو کر ڈاکٹر کے پاس جاتے نہیں دیکھا۔ ان کی بیماری کیسی بھی ہو بابا جی کی پھونکوں ہی سے دم توڑ جاتی ہے۔ غربت کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ یہ وفادار ہوتی ہے، اس وقت تک جان نہیں چھوڑتی جب تک انسان خود نہ اسے چھوڑے۔ ایک خاصے مفلوک الحال شاعر ہیں خدا ان کو ”غریق ہدایت“ کرے۔ اتنے اعلی پائے کے شاعر ہیں کہ غربت ادب سے ڈیرہ جمائے انھیں سنتی رہتی ہے۔ اور وہ بھی اسے سنانے کو شعر کہتے رہتے ہیں۔

پتہ نہیں غربت ان کا ساتھ نہیں چھوڑتی یا شاعر صاحب خود کمبل کی طرح اسے لپیٹے بیٹھے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے سے بے حد مانوس ہیں۔ مجھے افسوس ہے کہ دونوں سے جلد ایک بیوفائی کر جائے گا۔ غربت تو خاصی وفادار لگتی ہے اور پیچھے شاعر صاحب ہی بچتے ہیں۔ وہ عمر کے اس حصے میں داخل ہوچکے جب کسی بھی وقت اسے دغا دے جائیں گے۔

ان گنہگار آنکھوں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ غریبوں کی ناک بہت اونچی ہوتی، یوں کہیے ان کے پاس ناک ہی ہوتی ہے جس کا یہ بہت خیال رکھتے ہیں۔ اس کی اونچائی میں برکت کے لیے بھوکوں مر جاتے لیکن کسی قسم کی حرکت نہیں کرتے۔ غریبوں کی مزید خوبی یہ ہے کہ امیروں سے مدد لینا اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں ہے۔ ان کا ایمان ہے کہ اگر امیر غریبوں کی مدد نہیں کریں گے تو انھیں غریبوں کی آہیں کھا جائیں گی۔ غریبوں کا ماننا ہے کہ امیر لوگ غریبوں کی مدد کر کے کوئی احسان نہیں کرتے بلکہ یہ غریبوں ہی کا رزق ہوتا ہے جو امیر کماتے ہیں۔

امیروں کے ساتھ یہ بڑا مسئلہ کہ مہنگی سے مہنگی برانڈ کی چیزیں خرید کر بھی ان کے پاس پیسے بچ جاتے ہیں۔ سوچیئے غریب نہ ہوتے تو امیر اتنی دولت کس پہ خرچ کرتے۔ غریبوں کو دعا دیں کہ ان کے ہونے سے امیر ذہنی مریض بننے سے بچ جاتے ہیں ورنہ اتنی دولت تو شاید دیوانہ ہی کردے۔ کہ بعض امیروں کی دولت تو شیطان کی رسی کی طرح دراز ہوئی جاتی ہے۔ امیروں کو دیوانگی سے بچانے کے لیے بھی غریبوں کا ہونا بہت ضروری ہے یہ غریب ہی ہیں جو ان سے صدقات، خیرات، امداد لے کر ان کی دولت کو بیلنس رکھتے ہیں۔

کئی غریب اسی لیے بھی آگے بڑھنے کے لیے کبھی کوشش نہیں کرتے کہ انھیں پتہ کسی بھی طرح کی مصیبت آئے گی تو امیر لوگ ان کی مدد کو آ جائیں گے۔ غریب ملکوں کا بھی یہی حال ہے۔ وہ بھی اپنی غربت میں مست رہتے ہیں۔ ہمیشہ مدد پر چلتے ہیں یا قرض پر۔ وہ بھی اسی لیے ترقی نہیں کرتے کہ جانتے ہیں لوگوں کی بدحالی دنیا کو مدد پہ مجبور کردے گی۔ کسی بھی مصیبت، آفت میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر انھیں اقوام عالم سے امداد مل جائے گی، اور ہر چیز سیٹ ہو جائے گی۔ تو جب تک دنیا میں ایک بھی امیر موجود ہے غریب لوگوں اور غریب ملکوں کا اپنی ترقی کا سوچنا بھی جرم ہے۔ اصل عیاشی غریبی ہی میں ہے کہ جب ضرورت کے وقت بنا ہاتھ پیر ہلائے سب مل جائے تو خوامخواہ خود کو ہلکان کیوں کیا جائے۔ لہذا غریب ملک اور عوام چل کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments