“فناٹ بک “


کچھ روز قبل میرے پاس چند ننھے منے بچے پڑھنے آئے۔ پہلے تو سوچا معذرت کرلوں کہ ہمیشہ ذرا بڑے بچوں کو ہی پڑھایا ہے پھر کیوں کہ معاملہ ہمسائیگی کا بھی تھا سو انکار نہ ہو سکا۔ ان میں چار ساڑھے چار سالہ ایشل سب سے متحرک اور متجسس بچی ہے۔ آئیں اس کا اور میرا مکالمہ سنیں۔

ایشل : یہ دیکھو ٹیچر میں نے الف ب لکھ لی۔ اب جلدی سے مجھے سٹار دو۔
میں : واہ آپ نے تو بہت اچھا لکھا ہے۔ لیکن بیٹا بڑوں کو ایسے نہیں کہتے کہ لکھ دو۔ کہتے ہیں ”لکھ دیں“
ایشل: کیوں ٹیچر؟

میں : کیوں کہ ایسے اچھا لگتا ہے۔ میں آپ سے بڑی ہوں اس لیے احترام سے بولنا چاہیے۔ (خیر اس گفتگو میں میں نے انگریزی کا سہارا بھی لیا کہ انگلش میڈیم بچے ہیں )

ایشل: اوکے ٹیچر۔ کیا میں اب فناٹ بک کر لوں۔
میں : ( غور کیے بغیر) بیٹا ابھی آپ میتھس کی نوٹ بک لے کر آئیں۔ اس کا کام رہتا ہے نا۔
ایشل: اوکے ٹیچر۔
(کچھ دیر بعد پھر میرے سامنے آ کر)
ایشل : یہ دیکھیں ٹیچر۔ میں نے کتنا اچھا کیا ہے۔
میں : واہ بھئی واہ۔ زبردست۔ ( یہ کہہ کر گود میں بٹھا لیا اور شاباش دی)
ایشل : ہنستے ہوئے۔ ٹیچر گود میں کیوں بٹھایا۔ میں کوئی چھوٹی بچی ہوں کیا؟
(ہائے ماں صدقے۔ اب ہنسنے کی باری میری تھی۔ )
میں : سوری۔ بھول گئی تھی۔ آپ تو کافی بڑی ہو گئی ہیں۔
ایشل: کیا میں اب فناٹ بک کر لوں۔
میں : ( اب ذرا غور کرتے ہوئے ) فناٹ بک۔ ؟
جی بیٹا لے آئیں۔
ایشل خوشی خوشی بھاگتے ہوئے جاتی ہے اور فناٹ بک لے کر آتی ہے۔
ایشل: یہ لیں ٹیچر۔ بتائیں اس میں سے کون سا کام کروں؟
میں نے کتاب تھام لی۔ جس پر لکھا ہے ”فن، آرٹ“ Fun
Art…

ہائے یہ ننھے منے بچے۔ ڈھیر ساری کتابوں اور کاپیوں کے بوجھ تلے دبے۔ گریڈز کی گھمن گھیریوں میں پھنسے، کلاس ورک، ہوم ورک کے جھنجھٹ سے نبردآزما۔ ”فناٹ بک“ کی چاہ میں انتظار کی گھڑیاں کاٹتے۔ کتنا ترس آتا ہے نہ ان پر۔ کاش حصول علم کا سارا عمل ان کے لیے ”فناٹ بک“ ہوتا۔ کھیل کھیل میں سیکھتے،

ہنسی ہنسی میں تعلیمی مدارج طے کرتے، شروع سے ہی اپنی پسند کے مضامین پڑھتے، اپنی خدا داد صلاحیتوں کے بل بوتے پر آگے بڑھتے۔ کاش۔

افسوس کہ زندگی ”فناٹ بک“ نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments