ملا کی دوڑ اقوام متحدہ تک مگر


کہتے ہیں کہ کوئی بچہ نورانی قاعدہ میں استاد کا دیا ہوا سبق یوں یاد کر رہا تھا کہ ہجے تو لفظ ’الذین‘ کا کر رہا تھا لیکن پھر روانی کے ساتھ لفظ ’الذین‘ کو دہرانے کی بجائے ’کذالک‘ کو رٹے جا رہا تھا۔ پاس سے گزرتے ڈھولکیا نے جب بچے کی اس بے ربط تسبیح کو سنا تو بچے سے عرض کیا: بیٹا، میں قرآن تو نہیں پڑھا ہوا بلکہ ایک جاہل ڈھولکیا ہوں لیکن آپ کے اس جوڑ توڑ میں مجھے ذرا سی بھی کوئی مناسبت نظر نہیں آئی۔

ہمارے موجودہ وزیر اعظم جناب شہباز شریف صاحب نے بھی گزشتہ دنوں جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنا شروع کیا تو بسم اللہ کے بعد سورہ زمر کی آیت نمبر 53 کو پڑھتے ہوئے کچھ حصہ کو چھوڑ دیا اور کچھ کو غلط پڑھا۔ خدا جانے وہاں موجود دیگر اراکین نے ڈھولکیا جیسا کچھ محسوس کیا ہو گا کہ نہیں، تاہم پاکستان کے مولوی طبقے کو ضرور یہ پتہ چلا کہ ہمارے پیارے موجودہ شریف صاحب بھی اعتزاز احسن، عبدالرحمن ملک اور خان صاحب جتنے ہی قرآن سے آشنا ہیں۔

قرآن کے کسی لفظ یا آیت کو دیکھ کر بھی نہ پڑھ سکنے کی روایت ہمارے ہاں نئی نہیں ہے، بلکہ اس سے پہلے بھی اعتزاز احسن اور عبدالرحمن ملک سورہ اخلاص کو غلط پڑھ چکے ہیں اور ہمارے سابقہ وزیراعظم عمران خان صاحب بھی وزارت عظمی کا حلف اٹھاتے ہوئے بار بار کوشش کرنے کے باوجود ’خاتم النبیین‘ کا تلفظ درست طریقہ سے نہیں کر سکے تھے۔

کل قرآن کی ایک تہائی کے برابر فضیلت رکھنے والی سورۃ اخلاص بڑی عظیم سورت ہے۔ اگر کوئی یہ بھی نہ پڑھ سکے تو اس کا مطلب سوائے اس کے اور کیا لیا جائے کہ اس نے نماز بھی نہیں پڑھی ہوگی، کہ یہی نماز کے درست ہونے کے لیے سب سے ادنی حد ہے۔ انسان سے غلطی ہو جاتی ہے لیکن کیا یہ قابل افسوس نہیں کہ ایک اسلامی ملک کا سربراہ یا عصری علوم میں بڑی بڑی ڈگریاں رکھنے والی مسلم شخصیات روز مرہ پڑھی جانے والی سورۃ اخلاص جیسی چھوٹی سی سورت، قرآن کی کوئی آیت اور یا ’خاتم النبیین‘ جیسے مختصر لفظ کو کسی کے بتانے پر بھی نہ پڑھ سکیں۔

ہمارا شکوہ ان سے نہیں جو بالکل ان پڑھ اور جاہل ہیں، بلکہ انہی دانشوروں سے ہے جو عصری علوم میں بڑی بڑی ڈگریاں رکھنے کے باوجود قرآن اور اسلام کو اتنی بھی اہمیت نہیں دیتے کہ دیکھ کر قرآن کے کسی لفظ کا درست تلفظ تو کرسکیں۔ لیکن شاید ہماری مقتدرہ کے ہاں اہمیت صرف اسی مضمون کو حاصل ہے جسے پڑھ کر وہ ایوان اقتدار تک پہنچ سکیں۔ کاش کہ آکسفورڈ، کیمبرج اور ہارورڈ وغیرہ کی بڑی بڑی ڈگریاں حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ایک دو لفظ کسی مولوی سے بھی سیکھ لیتے۔

وہی مولوی جس پر یہ دانشور ’ملا کی دوڑ مسجد تک‘ کی پھبتی کستے ہیں۔ حالانکہ مولوی کی دوڑ مسجد تک تو آپ جیسے با اختیار لوگوں نے خود ہی محدود کردی ہے۔ اگر آپ اپنی دوڑ میں مسجد تک یا مولوی کی دوڑ میں اپنے گھر تک توسیع فرما کر اس سے قرآن کی ٹیوشن لینے کی تھوڑی سی زحمت اٹھا لیتے تو تب مولوی کی دوڑ کی گونج آپ کے کانوں سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران بھی ٹکرا جاتی اور آپ اس کے سکھائے گئے چند حروف کی برکت سے بہت بڑی خجالت سے بچ جاتے۔

ویسے بسم اللہ بھی قرآن ہی کی آیت ہے۔ کسی بڑے فورم پر رسوائی سے بچانے کے لیے یہ بھی کافی ہے۔ اگر وزیراعظم صاحب چاہتے تو اس پر بھی اکتفا کر سکتے تھے لیکن شاید میرا رب قرآن سے بے وفائی کرنے والوں پر یہ واضح کرنا چاہتا تھا کہ میرے حبیب کی اس بات کو کبھی ہلکا مت سمجھنا ”اللہ تعالیٰ اس کتاب ( قرآن ) کے ذریعے بہت سے لوگوں کو بلندی عطاء کرتا ہے اور بہت سوں کو اس کے ذریعے سے نیچے گراتا ہے۔“ جو اپنی عام زندگی میں قرآن کریم سے بے وفائی کرتے ہیں، ان کے ساتھ ایسا ہوجانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔

ایک حکمران حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی تھے، جن کے بارے میں صحیح بخاری کی ایک حدیث میں آتا ہے کہ ”قرآن مجید کے قاری اور علماء خواہ وہ بوڑھے ہوں یا جوان، ان کے شریک مجلس و مشورہ ہوا کرتے تھے۔ ان کی قرآن اور اہل قرآن سے محبت کا اندازہ اس بات سے بھی لگائیں کہ جب ایک مرتبہ مکہ کے والی حضرت نافع بن عبد الحارث ان کے استقبال کے لیے مکہ سے باہر آئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا کہ آپ مکہ کے لوگوں پر کس کو اپنا نائب مقرر کر کے میرے پاس آئے ہو؟

حضرت نافع نے جواب دیا: ابن ابزیٰ کو۔ آپ نے پوچھا : ابن ابزیٰ کون ہے؟ کہنے لگے : ہمارے آزاد کردہ غلاموں میں سے ایک ہے۔ اس پر آپ نے فرمایا: تو تم نے ان پر ایک آزاد کردہ غلام کو اپنا جانشین بنا ڈالا؟ تو حضرت نافع نے عرض کیا: کیونکہ وہ اللہ عزوجل کی کتاب کو بھی زیادہ بہتر پڑھنے والا ہے اور فرائض کا عالم بھی ہے۔ تب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :ہاں واقعی، تمہارے نبی ﷺ نے فرمایا تھا۔“ اللہ تعالیٰ اس کتاب ( قرآن) کے ذریعہ بہت سے لوگوں کو بلندی عطاء کرتا ہے اور بہت سوں کو اس کے ذریعے سے نیچے گراتا ہے۔ ”

وطن عزیز کے مؤقر حکمرانو! ابھی بھی آپ کے پاس وقت ہے۔ کچھ وقت اہل علم کو بھی دے کر آزما لیں، انہیں بھی اپنے مشیروں میں شامل کر کے شریک مشورہ کر لیں۔ اور

پھر دیکھیں کہ کسی نا کسی درجے میں اصلاح باطن اور تزکیہ نفس کی دولت ہاتھ آتی ہے یا نہیں، مادہ پرستی کی زنجیروں سے نجات ملتی ہے یا نہیں، صبر، شکر اور قناعت کا گوہر نصیب ہوتا کہ نہیں، غلام ذہنیت سے چھٹکارا ملتا ہے یا نہیں؟ ایک بار دیکھ لیجیے کہ علماء سے تعلق کی وجہ سے قومی سطح پر کرپشن، خیانت، جھوٹ، دھوکہ، فریب، چوری، لوٹ مار، اخلاقی جرائم، عہد شکنی، قانون اور آئین کی خلاف ورزی کا بازار مزید گرم ہوتا ہے یا پھر سرد پڑتا ہے، انہوں نے کون سا آپ کے ہاتھ سے زمام قیادت کھینچ لینی ہے؟ آزما کر دیکھیے، آزمانے میں کیا حرج ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments