پڑھے لکھے اچھوت


تعلیم کا قطعی طور پر مقصد اپنے اندر دوسروں کے لیے حقارت کو پروان چڑھانا نہیں ہے۔ دوسرا یہ کہ معلومات اور تعلیم کے بیچ مبہم فرق بھی واضح رہے کہ معلومات معلوم سے ماخوذ ہے اور کسی شے یا عمل کے بارے میں ”کیا“ کا جواب فراہم کرتا ہے جبکہ تعلیم علم سے ماخوذ ہے جس کے لغوی معنیٰ جاننا کے ہیں اور یہ کسی شے، جگہ یا عمل کے متعلق آگہی فراہم کرتا ہے یعنی ”کیوں“ اور ”کیسے“ کا جواب دیتا ہے۔ بنیادی نقطہ جو سمجھنا چاہیے وہ یہ کہ جسے ہم علم سمجھ کر حاصل کر رہے ہوتے ہیں اور جو بعد میں ہمیں دوسرے انسانوں سے برتری کا احساس دلاتا ہے، کیا واقعی علم ہے بھی یا کہ محض انفارمیشن یعنی معلومات ہیں۔

اس نقطے کو پرکھا یوں جا سکتا ہے کہ ہم حاصل شدہ علم کو ”کیا“ ، ”کیوں“ اور کیسے کی کسوٹی پہ رکھیں کہ اگر تو حاصل ہم میں سوچنے سمجھنے کے احساسات یعنی جستجو کو پروان چڑھا رہا ہے تو یقیناً علم ہے، اور اگر یہ محض ”کیا“ کا جواب فراہم کرتا ہے تو انفارمیشن ہے۔ مثال کے طور پر جیسے کہ آپ کو ایک سوال کہ ”انسان کیا ہے“ کا جواب دیا جائے کہ انسان جاندار ہے تو یہ محض معلومات ہیں اور اگر سوال یہ ہو کہ ”انسان کیوں ہے“ یا انسان جاندار کیسے ہے وغیرہ تو یہ آپ میں جستجو کے ایک سلسلے کو پروان چڑھانے کا باعث بنتا ہے جو کہ علم یا نالج کی مثال ہے۔

یہ تو بات ہو گئی نالج اور انفارمیشن کے درمیان سادہ فرق کی۔ مدعا یہ ہے کہ اگر ہم ذرا سا اپنے نصاب تعلیم جو کہ نصاب معلومات کہا جائے تو زیادہ بہتر رہے گا، کو اسی بنیادی فرق کی کسوٹی پہ جانچیں تو قلعی کھلے کہ میاں جس ڈگری، نصاب، اور اٹھارہ سال مغز ماری کو ہم علم سمجھتے رہے وہ تو محض انفارمیشن کا پلندا تھا۔ اور انفارمیشن بھی ایسی کہ آؤٹ ڈیٹڈ کہنا بھی آؤٹ ڈیٹڈ لگے۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ غیر نصابی کتب بھی ساری کی ساری آدھی ادھوری معلومات کی دستاویزات!

اوپر سے ڈیجیٹلائزیشن کے انقلاب نے جو سوشل میڈیا کا نیا سلسلہ شروع کیا وہ بھی پورا کا پورا انفارمیشن وائرس کا گڑھ۔ زیادتی یہ ہوئی کہ ہمیں ڈگریوں پہ ڈگریاں تھماتے رہے اور ہم سمجھتے رہے کہ پتہ نہیں ارسطو اور ابن بطوطہ کے جانشین ہم سے بڑھ کر تو اور کیا ہی ہوں گے۔ اسی زعم میں ہم نے خود کو پڑھا لکھا، سلجھا سچا، حق سچ کا پیکر اور کوئی برتر و اعلیٰ مخلوق سمجھنا شروع کر دیا۔ بات یہیں ختم ہوتی تو پھر واویلا کیسا لیکن یہ تو محض آغاز داستاں ہے!

ایک تو ہم خود بھی تعلیم سے محروم اوپر سے حاصل کردہ غلط صحیح معلومات کی بنیاد پہ ہم نے ہر دوسرے ذی شعور کو جاہل گردان دیا۔ اور صرف جاہل کا فتویٰ جاری نہیں کیا بلکہ اچھوت اور کافر قرار دے کر اس کے برتن بھی الگ کر دیے اور کبھی کبھار تو اس سے بنیادی انسان ہونے کا حق بھی چھین لیا۔ اب ظاہر ہے کے ان مصنوعی پڑھے لکھے پن میں زیادہ سرمایہ رکھنے والے آگے ہیں کہ جس کے پاس جتنا روپیہ اس کا ایکسپوژر بھی اتنا اور ذخیرہ معلومات بھی اور اس کی گردن میں سریا بھی اتنا ہی سخت!

ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ معلومات کے وافر ذخائر آپ کی وسعت ذہن کو بڑھا تو کیا ہی پائیں الٹا دماغ پہ بوجھ کا باعث بن رہے ہیں۔ سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا سے روزانہ کی بنیاد پر بے بہا معلومات اذہان کے کنند ہونے کے ساتھ ساتھ ڈپریشن اور بانجھ پن کا باعث بھی ہے۔ آپ خود ہی سوچیں کہ آپ اپنے گھر میں سکون اور آرام سے موجود ہوں اور روزانہ فی گھنٹہ پوری دنیا میں مرنے والوں کے بارے میں معلومات دی جائیں کے فلاں فلاں اس طرح سے وفات پا گیا اور ساتھ میں اگر ویڈیو بھی دکھا دی جائے تو رات گئے تک آپ کی حالت کیا ہو گی!

ویسے آج کل میڈیا بھی تو یہی کار خیر سر انجام دے رہا ہے کہ ہر ادھر ادھر کی انفارمیشن لا کر ہمارے سر تھوپ دی جاتی ہے اور ہم انفارمیشن مائننگ کے لیے اپنے موبائل اور گھر کو ہر ممکن ذریعہ سے لیس کیے ہوئے ہیں کہ کوئی کسر باقی رہ نہ جائے! آپ کبھی ٹھہر کے تھوڑا سوچیں بھی کہ آپ کو حقیقتاً فرانس میں ہونے والے فیشن شو کے بارے میں کیوں جاننا ہے، یا مالی کے فسادات سے آپ کا کیا لینا دینا ہے، یا پھر افغانستان میں بے روزگار خاتون کے مسائل کا آپ کیا حل کر سکتے ہیں یا کیلیفورنیا کے سکول میں ہونے والی فائرنگ آپ کی زندگی کے کس حصے کو متاثر کر رہی ہے یا کہ آپ سے متصل شہر میں کسی گھر سے بھاگی ہوئی لڑکی کے بارے میں جان کر آپ کون سی اپنی مشکل یا پریشانی کا حل کر رہے ہیں یا یہ کہ شہزادہ ہیری کے ڈریس سٹائل کے روز مرہ سے کیا مراد ہے یا ملکہ کی وفات سے آپ کو کیا فائدہ یا نقصان ہو گا، اسی طرح کسی سیاستدان کی نجی زندگی، کسی شوبز سٹار کے رومانوی قصے، کسی ایلون مسک کے شوق وغیرہ بھلا ہماری زندگی میں نا امیدی اور خام خیالی سے زیادہ کیا اہمیت رکھتے ہیں۔

یعنی ہم میڈیا کے ذریعے مسلسل اپنے دماغ کو بے جا معلومات (یعنی کسی فلم کی ہیروئن کے قصے، کسی دہشت گرد کی زندگی کے قصے، کسی لڑکی کے معاشقے، کسی ملک کے حالات و واقعات، کسی برانڈ کی رونمائی کی تقریب وغیرہ وغیرہ) کے ذخائر سے بھرنے میں لگے ہوئے ہیں اور پھر اپنے دن کا بیشتر حصہ انھی معلومات پہ تبصرہ کرتے گزار دیتے ہیں۔ وہ الگ بات ہے کہ ہمیں یہ پتہ ہو کہ ہمارے ارد گرد حالات یا آفات کی وجہ کیا ہے اور اس کا حل کیسے ہو گا۔

اور وہ بے چارہ جو ان معلومات کا فاضل نہیں اسے جاہل کہہ کہہ کر کوستے رہتے ہیں۔ مسئلہ معلومات کی رسائی یا ذخیرہ اندوزی کا نہیں، مسئلہ معلومات کی ضرورت اور ان کے استعمال سے متعلق ہے۔ ہم جانے انجانے میں اپنی زندگیوں کا مرکزی حصہ ایسی معلومات کو بنائے ہوئے ہیں جس کا ہم سے درحقیقت کوئی واسطہ ہے ای نہیں اور جس کا نہ ہونا الٹا کسی رحمت سے کم نہیں ہے۔ ہمارے پہناوے، ہمارا رہن سہن، معاشرت، سیاست اور معمول اسی غیر ضروری معلومات کے محصور ہوتے چلے جاتے ہیں اور ہم بدستور ایک خیالی دنیا کی دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں۔

سوہان روح یہ کہ ہمیں اس کی خبر بھی نہیں رہتی۔ یقین کریں آپ اپنی روز مرہ گفتگو اور رہن سہن پہ اپنے علاقائی طور کے لحاظ سے ایک نظر دوڑا کر دیکھیں تو آپ خود اپنی نظروں میں اجنبی نہ ہو جائیں تو بات ہو گئی۔ مزید یہ کہ اگر معلومات حاصل کرنی بھی ہیں تو اپنے ارد گرد معاشرے کے رواج، رہن سہن کے انداز، معاشی مسائل، ثقافت کے رجحانات، مذہبی افکار اور نظام کے بارے میں حاصل کرنی چاہیے تاکہ ہم خود پہ آفت زدگیوں کا سبب اور حل تلاش کر سکیں۔

خواہ مخواہ کی معلومات ہیجان سے زیادہ کچھ کارگر نہیں۔ پھر یہ بھی کہ ہم خود ہیجان زدہ رہیں تو پھر بھی ٹھیک ہے لیکن ہم تو اس ہیجان زدگی کی بنیاد پہ دوسروں کو جانچنے اور پرکھنے لگ جاتے ہیں اور پھر انھیں اس جانچ کی بنیاد پہ جاہل، لو کلاس یا دیگر پیمانوں پہ رینک کرتے ہیں جو ہمارے خود کے جاہل ہونے کا واضح ثبوت ہے۔

قدیم ہندوستان میں براہمن سب سے عالی مرتبت نسل ہوا کرتی تھی کیونکہ اس کے پاس مقدس وید یعنی مقدس معلومات ہوتی تھیں اور پھر کھشتری جو نظم و انصرام کا انتظام سنبھالتے تھے، پھر ویشیا جو زمینداری کرتے اور آخر پہ شودر جو خاص براہمنوں کے اور باقی سب کے نجی کام کاج دیکھتے۔ اس ساری ہیرارکی کی بنیاد معلومات کی تقسیم پہ مبنی ہوتی تھی۔ جس کے پاس جس طرح کی معلومات ہیں اس کا مقام بھی اسی حساب سے طے ہوتا۔ براہمن مقدس اس لیے کہ ان کے پاس معلومات مقدس، کھشتری حکمران کہ ان کے پاس معلومات نظم و انتظام کی، اسی طرح زمیندار اور آخر میں شودر یعنی اچھوت جن کے پاس انتہائی نچلے درجے کی معلومات ہوتی اور ان کا درجہ بھی سب سے نچلا۔

وقت بدل گیا۔ برصغیر میں نت نئے انداز متعارف ہوئے، دنیا ما بعد جدیدیت کی سیڑھی چڑھ گئی لیکن معلومات کا یہ رقص آج بھی انھی سروں پہ ہے جو کئی صدیاں پہلے تھے۔ آج بھی مقدس معلومات رکھنے والے مقدس اور فضول معلومات رکھنے والے اچھوت۔ جس کے پاس پیسہ زیادہ اس کے پاس معلومات بھی اتنی اہم اور اس کا مقام بھی کھشتری۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشروں میں جہاں علم آٹھ چکا اور معلومات کے بے شمار ذرائع متعارف ہو چکے، ہم ایسی غلام گردش اور بے راہ روی کی ڈگر پہ چل رہے ہیں کہ نہ انجام کا ہوش نہ سمت کی خبر!

ایک لمحہ ٹھہر کے سوچنا ہو گا کہ ہماری موجودہ زندگی کا محور کون سی معلومات ہیں اور آیا کہ وہ معلومات ہمارے لیے کارگر بھی ہیں یا نہیں! فرض کریں کہ ہم وسطی پنجاب کے کھلے میدانوں میں رہ رہے ہوں اور پہناوے اور بول چال کینیڈا کے خشک اور سرد ماحول کے مطابق ہو تو کیا ہم اپنے ماحول کے لحاظ سے اچھوت نہ ہوئے؟ کیونکہ پہناوے جغرافیائی اظہار پہ ترتیب پاتے ہیں اور ہم اپنے جغرافیہ کے اعتبار سے اچھوت طرز تمدن کو اختیار کیے ہوئے ہیں۔

خود سوچیں کہ ایک سفید برفانی ریچھ جس کے لمبے لمبے بال ہوں اور وہ اپنے ماحول میں کامیاب زندگی گزار رہا ہو، کو پتہ چلے کہ دیو سائی یعنی پاکستان کے بھورے ریچھ کے بال چھوٹے ہوتے ہیں جن میں وہ بہت خوبصورت لگتا ہے، تو سفید ریچھ بھی اپنے بال چھوٹے کروا کر انھیں بھورا رنگ دے دے تو یہ فیشن کیا ہوا! یعنی ایک غیر ضروری معلومات کی تقلید نے اچھے بھلے خوبصورت سفید ریچھ کو اپنے ہی گھر میں اچھوت بنا دیا۔

قصہ مختصر یہ کہ! نالج کی فراہمی فرض ہے، گانٹھ باندھ لیں کہ چائنہ، امریکہ، یورپ، انڈیا یا جاپان کی روز مرہ معلومات کا آپ کے پاس ہونا کوئی ضروری نہیں! اور اگر آپ ایسی بے محالہ معلومات کو ضروری سمجھتے ہیں تو آپ اچھوت ہیں نہ کہ وہ جو علاقائی تہذیب و تمدن کے پیرو ہیں۔ نالج یعنی علم کا حصول یقینی بنائیں، اپنے اذہان کو وسعت دیں، اپنے سینے صحیح علم سے منور کریں، حصول علم کو کیا، کیوں اور کیسے کی کسوٹی پہ ماپیں، اور اس علم کی بنیاد پہ اپنے اور اپنے معاشروں کے لیے روشن چراغ بنیں نہ کہ اچھوت! علم انسان میں جستجو کے جذبات ابھارتا ہے، برداشت سکھاتا ہے، طبیعت میں ٹھہراؤ کا باعث ہے اور دانش اس کی معراج۔ حاصل شدہ علم اگر یہ سب فراہم کرنے سے قاصر ہے تو علم نہیں وبال ہے اور وبال سے کبھی بھلائی کی امید نہیں رکھی جا سکتی!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments