ٹرانسجینڈر ایکٹ


پچھلے کچھ دنوں سے ٹرانسجینڈر ایکٹ لوگوں کے درمیان بحث کا موضوع بنا ہوا ہے۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ اس کی مکمل وضاحت اور حقیقی تصویر کشی کے لیے یہ آرٹیکل لکھ ریا ہوں۔

لفظ ٹرانسجینڈر کو سمجھنے کی ضرورت ہے معمول میں جب انسان پیدا ہوتا پے تو اسے مرد یا عورت کی جنس ملتی ہے اور کبھی کبھار خوجہ سرا۔ لیکن کچھ لوگوں میں کچھ تبدیلیاں وقت کے ساتھ ساتھ رونما ہوتی ہیں اور وہ شناختی مخمصے کا شکار ہو جاتے ہیں فرض کریں کوئی انسان مرد ہے لیکن عمر کا ایک حصہ گزارنے کے بعد اسے محسوس ہوتا ہے کہ اس کے اندر عورت پن کی خصوصیات موجود ہیں اسے مرد اچھے لگتے ہیں بلکہ مردوں کے ساتھ ذاتی و سماجی تعلقات اسے راحت بخشتے ہیں تو ایسا مرد اپنی جنسی شناخت تبدیل کرنے کا اختیار رکھتا ہے اسی طرح اگر کوئی عورت بچپن سے جنسی طور پر عورت ہے لیکن عمر کے ایک حصے میں آ کر اسے لگتا ہے (جو کہ ایک حیاتیاتی حقیقت ہے) کہ وہ مرد ہے اسے عورتوں کے ساتھ سماجی و جنسیاتی تعلقات قائم کرنا زیادہ موزوں لگتا ہے تو ایسی عورت بھی اپنی شناخت مرد کروانے کا مجاز رکھتی ہے اسی طرح اگر کوئی انسان جنسی طور پر کچھ اور ہے لیکن اس کی نفسانی اور ذاتی خواہشات اس کی جنسی شخصیت کے متضاد ہیں تو ایسا شخص بھی اپنی شناخت اپنی حقیقی جبلت کے تحت کروانے کا مجاز رکھتا ہے۔

یہ شناخت کا سارا معاملہ سلجھانے اور ریاست کے اندر رہتے ہوئے تمام قانونی و انسانی حقوق کی فراہمی کے لیے حکومت وقت نے ٹرانسجینڈر بل پارلیمنٹ میں پیش کیا۔ ایوان اعلی میں یہ بل پیش کیا گیا۔ اس بل کے تحت ایسے تمام لوگ جن کی ظاہری جنسی شناخت ان کی جبلی شناخت کے تضاد میں ہے ریاست پاکستان میں اپنی مرضی سے اپنی حقیقی شناخت کروانے کا قانونی حق رکھیں گے اور ریاست ان کے حقوق کی حفاظت کو یقینی بنائے گی۔

اس ایکٹ میں 7 چیپٹرز ہیں جو کہ 21 آرٹیکلز پر مشتمل ہیں۔ ان پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

پہلے چیپٹر میں تمام قانونی تعریفات موجود ہیں کہ قانون کی نظر میں جنس، شخصیت اور ان سب سے متعلقہ جو ادارے اور قوانین ہیں ان کی قانونی تعریف کیا ہے۔

دوسرے چیپٹر میں یہ لکھا گیا ہے کہ ایک ٹرانسجینڈر کو مکمل قانونی حق حاصل ہے کہ وہ بالائے نظر جنس اپنے مرضی سے اپنی حقیقی شناخت کروا سکتا ہے اس کی جنس طے نہیں کرے گی کہ وہ مرد ہے یا عورت بلکہ وہ خود اور میڈیکل سپیشلسٹ یہ طے کریں گے اور ریاست اسے اس سب میں مدد فراہم کرے گی۔

تیسرے چیپٹر (آرٹیکل 4) میں لکھا ہے کہ اس ٹرانسجینڈر کے ساتھ کسی بھی سطح پر چاہے سرکاری و غیر سرکاری ہو یا سماجی، کسی بھی قسم کے تعصب کی قانونی طور پر ممانعت ہے۔

آرٹیکل 5 میں لکھا ہے کہ ٹرانسجینڈرز کو ہراس (تنگ) کرنے کی بھی قانونی طور پر ممانعت ہے۔

چوتھے چیپٹر میں لکھا ہے کہ حکومت پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ٹرانسجینڈرز کے تمام حقوق کی حفاظت کو یقینی بنائے۔ انھیں تمام تر حقوق بلا کسی روک ٹوک کے فراہم کرنا حکومت کا فرض ہے۔

پانچویں چیپٹر میں ٹرانسجینڈرز کے حقوق بتلائے گئے ہیں کہ قانونی طور پر ٹرانسجینڈرز کو چیپٹر 5 کے
آرٹیکل 7 کے تحت وراثت کا حق حاصل ہے۔ وراثت میں حصہ متعلقہ سول ایکٹ کے تحت متعین کیا جائے گا۔
آرٹیکل 8 کے تحت تعلیم کا حق حاصل ہے۔
آرٹیکل 9 کے تحت سرکاری و غیر سرکاری سطح پر بلا امتیاز نوکری کا حق حاصل ہے۔
آرٹیکل 10 کے تحت ووٹ دینے کا حق حاصل ہے۔
آرٹیکل 11 کے تحت پبلک آفس ہولڈ کرنے کا حق حاصل ہے۔
آرٹیکل 12 کے تحت صحت کی تمام سہولیات کا حق حاصل ہے۔
آرٹیکل 13 کے تحت اسمبلی کا حق حاصل ہے۔
آرٹیکل 14 کے تحت عوامی جگہوں پر جانے کا حق حاصل ہے۔
آرٹیکل 15 کے تحت جائیداد خریدنے، بیچنے اور رکھنے کا حق حاصل ہے۔
آرٹیکل 16 کے تحت وہ تمام انسانی بنیادی حقوق جن کی ضمانت ریاست کا آئین دیتا ہے ان کا حق حاصل ہے۔
آرٹیکل 17 کے تحت جرم کے نتیجے میں سزا ہونے کی صورت میں علیحدہ سے ٹرانسجینڈرز سیل کا حق حاصل ہے۔

چھٹے چیپٹر میں لکھا گیا ہے کہ اس ایکٹ کو لاگو کرنے میں حکومت کو مکمل اختیار حاصل ہے وہ جس طرح چاہے ضرورت وقت کے تحت اس ایکٹ کو نافذ کر سکتی ہے۔

ساتویں چیپٹر میں کچھ متفرق دوسرے آرٹیکلز موجود ہیں جیسے آرٹیکل 20 کے تحت حکومت اس قانون کے نفاذ کے لیے اصول طے کرے گی۔

آرٹیکل 21 کے تحت حکومت کے پاس اختیار ہے کہ وہ اس قانون کے نفاذ میں پیش آنے والی تمام تر رکاوٹوں کو قانونی طریقے سے ہٹا سکتی ہے۔

یہ تھا ٹرانسجینڈر ایکٹ مجھے اس میں کسی بھی جگہ یہ لکھا دکھائی نہیں دیا کہ ریاست پاکستان میں لونڈے بازی قانونی طور پر جائز قرار دی گئی ہے جو مختلف لوگ کہتے اور سنتے دکھائی دیتے ہیں کہ قوم لوط والا عذاب نازل ہونے کو ہے۔ اگر ایک ٹرانسجینڈر مرد کسی دوسرے مرد سے تعلق قائم کرتا ہے تو صاف ظاہر ہے وہ ٹرانسجینڈر مرد حقیقت میں ایک عورت ہے بس کچھ فطری عوامل کی وجہ سے اسے ظاہری وضع مرد والی ملی اس کی اصل تو عورت ہے اور ایک عورت کا مرد سے تعلق رکھنے میں کیا قباحت۔ اسی طرح اگر ایک ٹرانسجینڈر عورت کسی دوسری عورت سے جنسی تعلق قائم کرتی ہے تو اس کا بھی صاف مطلب ہے کہ وہ ٹرانسجینڈر عورت حقیقت میں مرد ہے۔ اس کی فطری پیدائش نے ظاہری طور پر اسے عورت کی شناخت دے دی۔

اگر اس ٹرانسجینڈر والے معاملے کی مکمل پیچیدگی کو سمجھ لیا جائے تو بالکل واضح ہوتا ہے کہ اسلام یا پھر کسی دوسرے نظریے کا اس سے کوئی اختلاف نہیں۔ ریاست پاکستان میں ایسے (ٹرانسجینڈر) طبقے کے حقوق کے لیے قانون سازی ایک مثبت قدم ہے بین الاقوامی سطح پر بھی اس عمل سے پاکستان کی ساخت مضبوط ہو گی ایک پازیٹو امیج اہل دنیا کے سامنے جائے گا۔

یہ سب تو کاغذی بات ہو گئی اب ذرا حقیقی دنیا میں آنکھ کھولتے ہیں۔ ریاست اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین 1973 کے آرٹیکل 8 سے 28 کے تحت ریاست کے تمام شہریوں کو تمام بنیادی انسانی حقوق فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے جن میں روٹی، کپڑا، رہائش، بہتر طرز زندگی، نوکری۔ کاروبار کے مواقع، اور بنیادی مفت تعلیم وغیرہ شامل ہیں لیکن آج تک پچھتر سالوں میں کبھی بھی عوام کو ان سب چیزوں کی جھلک بھی نہیں دکھائی گئی۔

اسی طرح اور کتنے ہی قوانین ہیں جن کی آئے روز دھجیاں اڑائی جاتی ہیں تو اگر ایک اور ایکٹ پاس ہو گیا ہے تو اس پہ اتنا بھی کیا واویلا۔ کون سا اس پہ عمل درآمد ہو جانا ہے۔ دراصل یہ ٹرانسجینڈرز والا معاملہ زیادہ تر اپر کلاس (ایلیٹ کلاس ) میں پایا جاتا ہے متوسط طبقے میں کم ہی یہ سب دیکھنے کو ملتا ہے تو اشرافیہ کی خوشنودی کے لیے حکومت نے یہ ایکٹ پاس کیا ہے اور دوسرا انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ گلوبل لیول پہ سیکولر شفٹ لانا چاہتی ہے انتہا پسندی سے انھیں کافی کچھ بھگتنا پڑا ہے یہ سب اس کی ایک کڑی ہے۔

وگرنہ تو ہونا یہ چاہیے کہ بلا امتیاز رنگ، نسل، مذہب، ذات، جنس کے ریاست کے تمام شہریوں کو سیاسی، سماجی، عمرانی، معاشی، معاشرتی و انسانی حقوق فراہم کیے جائیں۔ صرف ٹرانسجینڈرز کو ہی کیوں۔ ریاست کے تمام شہریوں کا حق ہے کہ انھیں ریاست تمام حقوق بلا کسی امتیاز و تعصب کے فراہم کرے۔ لیکن سرمایہ دار ریاست ایسا کیسے کر سکتی ہے کیونکہ اس کا مقصد تو صرف اور صرف عوام کا استحصال کر کے انھیں لوٹنا ہے اس کے لیے وہ جتنا ہو سکے ایسے ہتھکنڈے اپناتی ہے جن سے عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑے جائیں ان کے حقوق سلب کیے جائیں تاکہ سرمایہ داروں، جاگیرداروں، وڈیروں، کرپٹ بیوروکریٹس، کرپٹ جرنیلوں، کرپٹ ججز اور کرپٹ اشرافیہ کے خزانوں کو بھرا جائے۔

سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے ایسا ایک ایکٹ تو کیا لاکھوں ایکٹ بھی پاس کر لیں لیکن ریاست کے عوام اور مزدور طبقے کو کچھ نفع نہیں ملنے والا۔ ظلم ان کا مقدر، غربت و افلاس ان کا نصیب اور مظلومیت ان کے ماتھے کا کلنک رہیں گے۔ اس سب کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں ایک ایسا نظام لایا جائے جو انسان کو بلا کسی امتیاز کے تمام حقوق فرض سمجھ کر فراہم کرے۔ ایسا نظام جو انسان کو انسانیت کی معراج پہ لا کھڑا کرے۔ جو کسی بھی قسم کے تفرق اور تعصب سے پاک ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments