ادیبوں کے لطائف


جاوید اختر اور شبانہ اعظمی سے ٹیلی ویژن پر انٹرویو چل رہا تھا۔ اینکر نے شبانہ سے سوال کیا کہ کیا جاوید اختر جیسی شاعری کرتے ہیں یہ تو بڑے رومانٹک ہوں گے؟ شبانہ نے جواب دیا رومانس تو انہیں چھو کر بھی نہیں گزرا ہے۔ اینکر نے جاوید کی طرف دیکھا تو بولے جو لوگ سرکس میں کام کرتے ہیں وہ اپنے گھر میں تھوڑا لٹکے ہوئے ملتے ہیں۔

ضمیر جعفری نے بشریٰ رحمن کے بارے میں لکھا: اس کا نشر جادہ، جرات، مسرت اور حیرت کے اجزاء سے ترتیب پاتا ہے۔ جرات جیسے چاند بی بی تلوار تانے کھڑی ہو۔ مسرت جیسے کپاس کا کھیت ہنس رہا ہو۔ اور حیرت جیسے گھوڑی نے زیبرا کو جنم دیا ہو۔ مشتاق یوسفی نے بشریٰ کے اعزاز میں منعقدہ تقریب میں کہا : ہم مرشد ضمیر جعفری سے نہ صرف کلی طور پر متفق ہیں بلکہ اتنا اضافہ کریں گے کہ گھوڑی کے ہاں زیبرا پیدا ہونے پر گھوڑی کو تعجب ضرور ہوا ہو گا لیکن سب سے زیادہ تعجب زیبرے کو ہوا ہو گا۔ تقریب کے بعد بشریٰ رحمن نے مشتاق یوسفی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے میرے میاں گھوڑا نہیں زیبرا ہی ہیں وہ تو میں نے ہاتھ پھیر پھیر کر اس کی دھاریاں مٹا دی ہیں۔

وزیر آغا اور انور سدید غالب سیمینار میں شرکت کے لئے دہلی تشریف لائے۔ سیمینار سے فارغ ہو کر کچھ کتابیں خریدنے اردو بازار گئے۔ وہاں انہوں نے وزیر آغا کی کتاب اردو شاعری میں طنز و مزاح کا ہندوستانی ایڈیشن دیکھا تو خریدنے کی خواہش ظاہر کی۔ دکاندار کو بتایا اس کتاب کے مصنف وزیر آغا میرے ساتھ کھڑے ہیں۔ دکاندار نے جواب دیا اگر اس کتاب کے مصنف ہیں تو کتاب کی قیمت کی ادائیگی میں 33 فی صد کمیشن کم کر کے دے دیں۔

مشہور ہندوستانی صحافی ایم جے اکبر (مبشر جاوید) صدر پاکستان ضیاء الحق کا انٹرویو لینے کے لئے اسلام آباد پہنچے۔ مختلف سوالات پوچھنے کے بعد اکبر نے کہا ہم مسلمان تو ہیں مگر بھارت میں پیدا ہونے اور پرورش پانے کی وجہ سے اسلامی تعلیمات سے نابلد ہیں۔ آپ تو ما شا ء اللہ سچے اور کھرے مسلمان ہیں۔ میں آپ سے پو چھنا چاہتا ہوں کہ اسلام میں جھوٹے کی سزا کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا جھوٹا بخشا نہیں جائے گا۔ اکبر نے دوسرا سوال پوچھا : اپنے اس بیان کی روشنی میں آپ کی اپنے بارے میں کیا رائے ہے؟ آپ نوے روز میں انتخاب کر وا کر اقتدار منتخب نمائندوں کو دینے کا وعدہ کر کے سات سال سے اقتدار پر بیٹھے ہیں۔ اس پر ضیاء صاحب کو جواب تھا: ہا ہا ہاہا۔ اگلا سوال

روس کی ایک کانفرنس میں امرتا پریتم اور سا حر لدھیانوی بھی مدعو تھے۔ دونوں کو ان کے ناموں کے بیج دیے گئے۔ غلطی سے ساحر کا بیج امرتا کو اور امرتا کا بیج ساحر کو مل گیا۔ جب اس غلطی کو درست کر نے کے لئے کہا گیا تو امرتا نے سا حر کے نام کا بیج اتارنے سے منع کر دیا کیونکہ وہ اس کے دل کو چھو رہا تھا۔ ساحر کی وفات کے بعد امرتا نے بے حد دکھ سے کہا: ساحر کے نام کا بیج پہن کر اس نے بڑی غلطی کی تھی کیونکہ اس کا خیال تھا کہ موت اس کے لئے آئی تھی۔ لیکن بیج کی وجہ سے اس نے ساحر کو نشانہ بنا لیا۔

شوکت تھانوی زندگی کے آخری دنوں میں ہسپتال میں داخل تھے۔ ڈاکٹروں نے لگ بھگ جواب دے دیا تھا۔ اخلاق احمد دہلوی ان کی عیادت کے لئے ہسپتال پہنچے۔ حال احوال پوچھنے پر شوکت تھانوی نے جواب دیا: میں تو جا رہا ہوں، اخلاق احمد نے پوچھا کہاں؟ شوکت تھانوی نے بر جستہ جواب دیا: انڈر گراؤنڈ

شیخ سعدی ایک بار کسی قصبے میں پہنچے۔ ایک کتے نے ان پر بھونکنا شروع کر دیا۔ حضرت نے کتے کو بھگانے کے لئے زمین پر سے پتھر اٹھانا چاہا تو محسوس کیا کہ یہ تو زمین میں دھنسا ہوا ہے۔ اس پر شیخ نے شہر کے باسیوں پر طنز کرنے ہوئے کہا: یہاں کے لوگ بھی عجیب ہیں۔ کتے تو کھلے چھوڑ دیتے ہیں البتہ پتھر کو باندھ کر رکھتے ہیں۔

مو لا نا ظفر علی خاں 1935 میں راولپنڈی کی جامع مسجد میں تقریر کر رہے تھے۔ حاضر ین جلسہ میں سے ایک کو حیرت ہوئی کہ اتنے بڑے نامی گرامی انسان اور اتنے چھوٹے قد کے؟ وہ بار بار یہ بات بڑبڑا رہا تھا : ظفر علی اینا وڈا، تے قد اینا چھوٹا۔ اس پر ایک دراز قد پٹھان کو غصہ آ گیا اور وہ بولا : تم خاموشی سے اس کی تقریر سنو، اور قد ہمارا دیکھ لو۔

بزم ادب حلیم کان پور کی طرف سے بابائے اردو مولوی عبد الحق کے اعزاز میں ایک دعوت کا اہتمام کیا گیا۔ کھانے کی میز پر الٰہ آباد یونیورسٹی اور لکھنؤ یونیورسٹی کچھ پر و فیسر صاحبان بھی موجود تھے۔ لکھنؤ یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے فخریہ انداز میں کہا: ہمارا اردو کا سٹاف سب یونیورسٹیوں سے بہتر ہے۔ الہٰ آباد یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے بڑ مارتے ہوئے دعویٰ کیا: ہمارا اردو کا سٹاف لکھنؤ یونیورسٹی سے ہزار گنا بہتر ہے۔ تیسرے صاحب نے مولوی عبد الحق سے دریافت کیا: آپ کی کیا رائے ہے؟ انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا: الہٰ آباد یونیورسٹی اردو کا قبرستان ہے اور لکھنؤ یونیورسٹی امام باڑہ۔

احمد ندیم قاسمی کی ایک عزیزہ نے اردو ایم اے کا امتحان دیا، پتہ چلا کہ پرچے صوفی غلام مصطفی تبسم کے پاس بھیجے گئے ہیں۔ قاسمی سفارش لئے اس عزیزہ کو ساتھ لے کر صوفی صاحب کے گھر پہنچے۔ سلام دعا کے بعد صوفی صاحب کمرے کے اندر چلے گئے۔ قاسمی کو ان کے برتاؤ پر بہت افسوس ہوا کہ نہ چائے پوچھی نہ آنے کا مقصد سنا اور اٹھ کر چلے گئے۔ اتنے میں صوفی صاحب ایک پرچہ ہاتھ میں لئے باہر آئے اور قاسمی صاحب سے پوچھا کہ فرمائیے۔ اس میں کتنے نمبر دوں۔ قاسمی اس پر بہت حیران ہوئے اور پوچھا آپ کو کیسے پتہ چلا کہ میں اس کام کے سلسلے میں آیا ہوں۔ اس پر صوفی صاحب نے کہا کہ بھئی میرے پاس 32 پرچے آئے تھے اور 31 اصحاب اس سے پہلے سفارش لے کر آ چکے ہیں۔ ظاہر ہے کہ آپ اس آخری پرچے کے سلسلے میں ہی آئے ہوں گے۔

قرۃ العین حیدر سے ایک داڑھی والے نے سوال کیا کہ آپ نے اپنے ناولٹ میں اگلے جنم کی بات کی ہے تو کیا آپ ہندوؤں کے آوا گون کے عقیدے پر یقین رکھتی ہیں؟ عینی آپا کی آنکھوں میں شدید غصے کی چمک آئی اور بولیں اگر میں اس عقیدے میں یقین رکھتی ہوں تو آپ میرے خلاف فتویٰ صادر فرمائیں گے کیا؟

کرشن چندر نے اپنی کتاب ایک گدھے کی سر گزشت، کنہیا لال کپور کو پیش کی، کپور صاحب نے ایک نظر کتاب کو دیکھا اور داد دیتے ہوئے کرشن چندر سے یوں مخاطب ہوئے :تم نے اچھا کیا، افسانے لکھتے لکھتے اپنی سوانح بھی لکھ دی۔

مو لا نا محمد علی جوہر عربی لباس پہن کر کسی اجلاس میں شریک ہوئے۔ انہیں عربی لباس میں دیکھ کر مدن مو ہن مالویہ نے طنزیہ انداز میں کہا : او ہو یہ آپ ہیں میں سمجھا بیگم بھوپال تشریف لا رہی ہیں۔ مولا نا کب چوکنے والے تھے فوراً جواب دیا، معاف کیجئے مالویہ جی بیگم بھوپال جیسی شیر دل خاتون، اس زنانہ اجلاس میں آنا کب پسند کر سکتی ہیں۔

ابتداء ہی سے جامعہ دہلی میں سیکولر ازم کی فضا تھی۔ ایک بار ہندوستانی پارلیمنٹ میں ایک ممبر نے سوال کیا کہ جامعہ میں ہندو اور مسلمان طلباء کا کیا تناسب ہے؟ وزرات تعلیم نے جانکاری کے لئے جامعہ کو خط لکھا۔ ان دنوں پروفیسر محمد مجیب شیخ الجامعہ تھے۔ انہوں نے جواب دیا جا معہ میں ہندو اور مسلمان کو داخلہ نہیں دیا جا تا بلکہ صرف طالب علموں کو داخل کیا جاتا ہے۔

ایک تقریب میں ایک خوبصورت اور خوش لباس عورت نے مشتاق یوسفی سے کہا: آپ سے ایک کام ہے۔ یوسفی نے کہا : دیباچے اور پیش لفظ کے علاوہ ہر خدمت کے لئے حاضر ہوں۔ خاتون نے منہ بنا کر کہا : اس کے علاوہ آپ کے پاس ہے کیا۔ اور آگے بڑھ گئی۔

سر سید احمد کالج کے لئے چندہ جمع کرتے ہوئے جمعہ کے دن لاہور شاہی مسجد لاہور پہنچے۔ سر سید لوگوں کو مخاطب کرنا چاہتے تھے لیکن نماز کے بعد کوئی ان کی تقریر سننے کے لئے تیار نہ تھا۔ اکثر لوگ ان کے مذہبی خیالات سے متفق نہ تھے۔ ڈپٹی نذیر احمد نے سنا تو سر سید کو مشورہ دیا کہ دیواروں پر اشتہار لگوا دو کہ ایک جغادری مولوی سر سید سے مناظرہ کر نے آر ہا ہے۔ اس لئے سر سید کا انجام دیکھنے کے لئے بہت تعداد میں لوگ اکٹھے ہو گئے۔ نذیر احمد کلام پاک کی تلاوت کرتے ہوئے اور سر سید کو ملامت کرتے ہوئے ان کے عیوب گنوانے لگے۔ اس کے بعد مجمع کو مخاطب کرتے ہوئے کہنے لگے کہ خدا کا حکم ہے اور اس کے رسول کا ارشاد ہے کہ دشمن بھی اپنی بات کہنا چاہے تو سنو اور اس پر غور کرو۔ یہ تمہارے بچوں کے لئے کالج بنا رہا ہے اور تم سے کچھ کہنے علی گڑھ سے یہاں آیا ہے۔ اس کے بعد سر سید نے معرکہ آراء تقریر کی۔ آنکھیں نم اور دل گداز تھے پھر تو ہر طرف سے چندے کی بارش ہونے لگی۔

گلوکارہ نور جہاں نے مصنف، ادیب اور کالم نگار حمید اختر سے فیض احمد فیض کی خیریت پوچھی تو حمید اختر نے انہیں بتایا کہ سرکار نے ان کے لکھنے پڑھنے پر پا بندی لگا دی ہے۔ وہ بلند آواز میں بولی ہائے یہ کیا؟ یہ تو ایسی بات ہوئی جیسے کوئی مجھ سے کہے تم گا نہیں سکتی۔

وزیر آغا کے پی ایچ ڈی کر لینے پر خبر سر گو دھا کے پاس جب ان کے گاؤں میں پہنچی تو گاؤں والے آغا جی اور بیگم صاحبہ کو مبارکباد دیتے رہے کہ وزیر آغا ڈاکٹر بن گئے ہیں۔ پی ایچ ڈی ہونے سے پہلے آغا صاحب گاؤں میں سردرد، کھانسی، زکام کی چھوٹی موٹی دوائیاں اپنے پاس گھر میں رکھتے تھے۔ اور گاؤں والوں کو مفت دیا کرتے تھے۔ ایک دن ایک عورت بچے کو گود میں لے کر آئی اور بو لی آغا جی اس کو بخار چڑھا ہے کوئی دوائی دے دیں۔ وزیر آغا نے گولیاں نکال کر عورت کو دے دیں کہ اسے بچے کو دے دینا۔ وہ عورت التجا کر نے لگی : نا، نا، آغا جی ہن تسی ڈاکٹر ہو گئے ہو کاکے نوں سوئی لگا دیو۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ڈاکٹر آمنہ خاتون اردو میں انشا پر پی ایچ ڈی کے لئے تحقیقی کام کر رہی تھیں۔ پروفیسر رشید احمد صدیقی وہاں صدر شعبہ تھے۔ اسی دوران آمنہ کے یہاں بچے کی ولادت کا وقت قریب آ گیا تو انہوں نے چھٹی کے لئے درخواست دے دی۔ رشید صاحب نے چھٹی لینے کی وجہ دریافت کی تو معلوم ہوا کہ یہ ماں بننے والی ہیں۔ انہوں نے فرمایا: ہم نے تو انہیں تحقیق کے لئے بلایا تھا لیکن انہوں نے تخلیق شروع کر دی۔

امجد اسلام امجد کا سیریل وارث ٹی وی پر چل رہا تھا۔ اس کے ٹائیٹل سین میں کتے چلتے ہوئے دکھائے جاتے تھے۔ اس کے ساتھ ہی سیریل کے رائٹر کا نام امجد اسلام امجد دکھایا جاتا تھا۔ عطاء الحق قاسمی نے فون پر امجد سے کہا: یار کمال ہے آج تک کسی سیریل والے نے رائٹر کی تصویر نہیں دکھائی لیکن تمہارے سیریل والے تو رائٹر کی تصویر بھی ساتھ دکھا رہے تھے۔

ساحر لدھیانوی سے نریش کمار نے ایک انٹرویو میں سوال کیا، کیا شعر و شراب لازم و ملزوم ہیں؟ ساحر نے جواب دیا ہر گز نہیں۔ شعر کہنے کے لئے نشے کی قطعی ضرورت نہیں۔ بلکہ میں تو کہوں گا نشے کی حالت میں عمدہ شعر کہا ہی نہیں جا سکتا۔ نریش نے دوبارہ سوال کیا آپ پھر شراب کیوں پیتے ہیں؟ میں بو شرٹ بھی پہنتا ہوں حالانکہ شاعر کے لئے ضروری نہیں۔ ساحر نے جواب دیا۔

بہ شکریہ:نارنگ ساقی۔ شگفتگی و برجستگی قلم کاروں کی، ایم آر پبلی کیشنز نئی دہلی 2019


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments