عمر شریف حاضر ہو


آج عمر شریف کی پہلی برسی ہے

وطن عزیز میں دیکھا یہ گیا ہے کہ کسی بھی اہم اور ہر دلعزیز شخصیت کے انتقال پر اس کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے متعدد تعزیتی اجلاس، ٹی وی پروگرام اور کالمز کا اہتمام کیا جاتا ہے لیکن پھر اس شخصیت کو یکسر بھلا دیا جاتا ہے۔ ہم نے اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے محترمہ حسینہ معین کی اسی سال مارچ میں ان کی پہلی برسی پر کالم تحریر کیا تھا۔ ”ہم سب“ کا خاص شکریہ کہ انہوں نے یہ کالم عین ان کی برسی والے دن شائع کیا۔ دو اکتوبر کو کنگ آف کامیڈی عمر شریف کی پہلی برسی ہے، عمر شریف فخر پاکستان ہے اس کے چاہنے والے اسے رہتی دنیا تک یاد رکھیں گے۔ عمر بھائی کے بارے میں ان کی وفات کے موقع پر آپ بہت کچھ پڑھ اور سن چکے ہوں گے ، آج کے کالم میں ہماری کوشش ہے کہ خراج عقیدت کے طور پر اپنے کچھ مشاہدات بھی قارئین کی نذر کریں۔

عمر شریف 19 اپریل 1955 کو کراچی کے علاقے لیاقت آباد المعروف لالو کھیت میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ٹی وی، فلم اور تھیٹر میں بحیثیت اداکار، ہدایت کار اور مصنف اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا لیکن ان کی پہچان آخر تک تھیٹر رہی۔ انہوں نے تھیٹر میں پہلی مرتبہ 14 سال کی عمر میں حادثاتی طور پر اداکاری کی اور خوب داد سمیٹی اور آہستہ آہستہ فرقان حیدر اور معین اختر کی سرپرستی میں اسٹیج ڈراموں میں اپنی جگہ بنانی شروع کردی۔

معین اختر کو لوگوں نے کہا کہ بھائی کیوں اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار رہئے ہو، یہ لڑکا کل کو تمہارے سامنے کھڑا ہو جائے گا، لیکن اس بلند کردار شخص نے لوگوں کی کوئی پرواہ نہیں کی اور عمر شریف کی خداداد صلاحیتوں کو بھانپتے ہوئے ان کی حوصلہ افزائی جاری رکھی۔ 1976 میں عمر شریف نے ڈرامہ بائیونک سرونٹ لکھا اور اس میں معین اختر کے باپ کا کردار ادا کیا اور یوں بحیثیت مصنف عمر شریف کی اننگز کا آغاز ہوا۔ لاہور اور کراچی اس وقت تھیٹر کے بڑے مراکز تھے۔ معین اختر اور عمر شریف کی کوشش تھی کہ کراچی میں فیملی تھیٹر کے ذریعے اسٹیج ڈرامے کو انڈسٹری کے درجے تک پہنچایا جائے۔ اس وقت تک وی سی آر عام نہیں ہوا تھا اور ڈرامے کے ناظرین مختصر ہوتے تھے لہذا عمر شریف کو وہ فیم حاصل نہیں ہو رہا تھا جس کے وہ حقدار تھے۔

پی ٹی وی کی ایک روایت تھی کہ بچوں کے لئے خاص ڈرامہ سیریل بنایا کرتے تھے جس میں تفریح کے ساتھ ساتھ نصیحت کا پہلو بھی ہوتا تھا، جیسے کہ رومی، بہادر علی، جن چاچا، کوشش، ٹک ٹک کمپنی اس طرح کے کامیاب ڈرامہ سیریلز رہی ہیں۔ 1979 میں ایسا ہی ایک ڈرامہ سیریل ”چمن اپارٹمنٹس“ پیش کیا گیا، جس کے ایک کردار کا تکیہ کلام ”نہار منہ“ بہت مشہور ہوا اور یہ اہم کردار عمر شریف نے ادا کیا، ہم نے نک ٹائی کی ناٹ کے لیے لفظ ”سموسہ“ پہلی مرتبہ اس ڈرامے میں عمر شریف کی زبانی سنا۔

یوں عمر شریف ہمارے گھروں میں پہلی مرتبہ داخل ہوئے اور گھر سے ہوتے ہوئے آہستہ آہستہ دلوں میں گھر کر گئے۔ 80 کی دہائی کا اوائل کراچی میں اسٹینڈ آپ کامیڈی کا دور تھا، چند گلوکاروں اور ایک کامیڈین کے ساتھ ”ایک شام“ کو فنکشن کا نام دیا جاتا تھا۔ یہ فنکشنز گھریلو سطح سے شروع ہو کر کمرشل میں صف اول تک جاتے تھے۔ اس دور میں اسٹینڈ آپ کامیڈین میں کراچی میں فرید خان، خالد نظامی جبکہ لاہور میں امان اللہ کا طوطی بول رہا تھا۔

معین اختر اسٹینڈ اپ کامیڈی کے ساتھ ساتھ اسٹیج پروگراموں کی میزبانی شروع کرچکے تھے، لاہور میں شوز کی میزبانی دلدار پرویز بھٹی کر رہئے تھے جبکہ خالد عباس ڈار جنہیں اسٹینڈ اپ کامیڈی کا موجد کہا جاتا ہے وہ ٹی وی پر زیادہ کام کر رہئے تھے۔ خالد نظامی، فرید خان اور معین اختر کے ہوتے ہوئے عمر شریف اسٹینڈ اپ کامیڈی میں اپنی جگہ بنانے کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے۔ اس دور میں معین اختر نے اپنے آڈیو کیسٹ بھی لانچ کیے جن میں لطیفے اور سچویشنل ممیکری شامل ہوتی تھی۔

عمر شریف کو ہو سکتا ہے کہ آڈیو کیسٹ کا آئیڈیا یہیں سے سوجھا ہو اور اس طرح 1983 میں عمر شریف کا پہلا آڈیو کیسٹ آیا اور آتے ہی چھا گیا، اس کیسٹ کی انفرادیت یہ تھی کہ اس میں لطیفے نہیں تھے بلکہ یہ کیسٹ مکمل طور پر اسٹینڈ اپ کامیڈی سے مزین تھا۔ اس کے بعد لوگ عمر شریف کے آڈیو کیسٹ کا انتظار کرنے لگے اور 1984، 1985 یعنی تین سال تواتر کے ساتھ وہ اپنے کیسٹ لے کر آئے۔ 1985 میں عام انتخابات ہوئے، انتخابات کے نتائج کے لیے پی ٹی وی نے براہ راست نشریات کا اہتمام کیا اور نتائج کے وقفے کے دوران لوگوں کو محظوظ کرنے کے لیے ”ایک فنکار“ کے نام سے اسٹینڈ اپ کامیڈین کا سلاٹ رکھا جس میں عمر شریف نے ناظرین پر بھرپور تاثر چھوڑا۔

اب 1988 آیا وی سی آر عام ہو چکا تھا، عمر شریف نے اپنا اسٹیج ڈرامہ ”یس سر عید نو سر عید“ شہزاد رضا کے ساتھ پیش کیا، یہ ڈرامہ شوقین لوگوں نے وی سی آر کی ذریعے دیکھا اور عمر شریف کے کام کو سراہا۔ اس کے بعد اسٹیج ڈراموں کا مغل اعظم یعنی ”بکرا قسطوں پر “ پیش کیا گیا جس میں معین اختر بھی تھے۔ اس ڈرامے نے اگلے پچھلے سارے ریکارڈ توڑ دیے۔ اس ڈرامے میں ایک سین تھا جس میں عمر شریف انگیٹھی جلا کر ”اگنی ساکھشی“ کی طرح پھیرے دلواتے ہیں، اس سین کی وجہ سے یہ ڈرامہ بھارت میں بین کر دیا گیا، لیکن فن اور خوشبو کو کون قید کر سکتا ہے۔

بھارت میں بھی عمر شریف گھر گھر پہچانے جانے لگے۔ عامر خان شوکت خانم کی فنڈ ریزنگ کے لئے جب پاکستان آئے تو انہوں نے انکشاف کیا کہ ”میری امی عمر بھائی کی بہت بڑی مداح ہیں اور انہوں نے ہی مجھے بکرا قسطوں پر دیکھنے کے لئے کہا تھا“ اس کے بعد دوسرا ڈرامہ ”بڈھا گھر پر ہے“ معین اختر کے ساتھ کیا، اس کے بعد ڈرامے میں معین اختر اور عمر شریف یکجا نہیں ہو سکے جبکہ عمر شریف نے اپنی ایک مستقل ٹیم بنالی جس میں نمایاں فنکاروں میں شکیل صدیقی، سلومی نعیمہ گرج اور سلمی وغیرہ شامل تھے۔

”بکرا قسطوں پر “ کے مزید تین سیکوئل بنائے گئے اور تمام کے تمام کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔ اس کے بعد عمر شریف نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ عمر شریف کا طرہ امتیاز ان کی حاضر جوابی اور ڈراموں کے لیے اچھوتے آئیڈیا ہوتے تھے، انہوں نے کئی ڈراموں کا پلاٹ سائنسی فکشن پر رکھا اور اس کے اوپر تانے بانے ملاتے ہوئے پر مغز مکالمات کے ساتھ مثبت پیغام دیا۔ سب کو معلوم ہے کہ وہ اسکرپٹ کے علاوہ فی البدیہہ بھی بولا کرتے تھے، ”عمر شریف حاضر ہو“ میں اچانک ان کے دماغ میں کیا آیا کہ اسکرپٹ کے علاوہ بولنا شروع کیا تو اداکارہ جو کہ ائر ہوسٹس کا کردار ادا کر رہی تھی وہ گھبرا گئی تو زیر لب اس کو اس کی لائنیں بتاتے گئے۔ اسی طرح لاہور کے شمع تھیٹر میں نسیم وکی نے اپنی طرف سے جگت لگائی ”لوگ اپنا تھیٹر بنا لیتے ہیں“ جواب میں یاد نہیں کہ عمر شریف نے کیا کہا کہ نسیم وکی ہنستے ہنستے بے حال ہو گیا اور اس کی کچھ سمجھ میں نہیں آیا تو وکی نے استاد کے پیر پکڑ لئے۔

1988 میں غالباً کراچی کے حالات کی وجہ سے عمر شریف لاہور منتقل ہو گئے کیوں کہ کراچی میں تھیٹر نہیں ہو پا رہا تھا۔ انھوں نے وسیم عباس کے ساتھ مل کر شروع میں الحمراء میں اور بعد میں شمع سینما لے کر اس کو تھیٹر میں تبدیل کر کے کافی عرصے تک ڈرامے پیش کئیے، جس میں اسکرپٹ، لیڈ رول اور ہدایت کاری ان کی اپنی ہوتی تھی۔ راقم ان دنوں لاہور مقیم تھا، الحمراء میں ڈرامے کا ٹکٹ 100 اور 50 روپے ہوتا تھا، ہم تین کزنز مل کر ڈرامہ دیکھنے جایا کرتے تھے، 100 کے بعد تھوڑے سے وقفے کے ساتھ 50 کی لائن شروع ہوتی تھی اس طرح ہم 50 کی پہلی لائن یعنی درمیان کا ٹکٹ لے کر ڈرامہ دیکھا کرتے تھے۔

اچھے اسکرپٹ کی وجہ سے حیرت انگیز طور پر لاہور میں اردو ڈرامے کو بھر پور پذیرائی ملی اور عمر شریف کی وجہ سے وہاں فیملی ڈرامے کو فروغ حاصل ہوا۔ پھر اس کے بعد عمر شریف کی کراچی واپسی ہوئی اور ہم نے کراچی اسٹیج کا رخ کیا، غالباً 18 جون 1992 کا دن تھا ہم دوست ٹکٹ کے ساتھ جب ہال پہنچے تو بتایا گیا کہ عمر شریف کی طبیعت خراب ہے آج کے ڈرامے میں وہ نہیں ہوں گے ، ہمارے دوست نے عمر شریف اسٹائل میں ٹکٹ کا ؤنٹر والے سے کچھ کہا تو وہ گھبرا کر کہنے لگا کہ یہ ٹکٹ کل بھی کارآمد ہو گا۔

لیکن وہ کل پھر ہمارے لیے نہیں آئی کیونکہ اگلے دن سے کراچی کا مشہور زمانہ آپریشن شروع ہو گیا۔ ہمیں ذاتی طور پر ”عمر شریف حاضر ہو“ ڈرامہ بہت پسند ہے، اس میں عدالت کا سیٹ لگا کر عمر شریف نے جس طرح معاشرے کے مختلف کرداروں کو کٹہرے میں کھڑا کر کے ان پر جرح کی اور ان کرداروں نے اپنی صفائی پیش کی، یہ نشتر زنی صرف عمر شریف کا ہی خاصہ تھا۔ اس ڈرامے پر راولپنڈی کے وکلا نے کیس کیا تھا، ان کو شاید اس مکالمے پر اعتراض تھا ”آپ مجھے انسان نہ کہیں میں وکیل ہوں“ ان کے ہر ڈرامے میں قومی یکجہتی اور پاکستانیت کا پیغام ملتا تھا۔ عمر شریف جب دم توڑتی فلم انڈسٹری کی طرف گئے تو نہ صرف فلم انڈسٹری سانس لینے لگی بلک عمر شریف نے یہاں بھی کہنہ مشق فلم میکر کے طور پر اپنے آپ کو منوا لیا۔ انہوں نے مجموعی طور پر 10 نگار ایوارڈ حاصل کیے جس میں ایک سال میں چار نگار ایوارڈ بھی شامل ہیں۔

بھارت میں دو دہائی پہلے تک اسٹینڈ اپ کامیڈی کا تصور نہیں تھا، وہ لوگ صرف فلموں کی کامیڈی سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ وی سی آر کے بعد جب پاکستانی ٹیلنٹ انڈیا پہنچا تو ان کے دل میں بھی اس کی امنگ جاگی، اس سلسلے میں انہوں نے تواتر کے ساتھ پاکستانی کامیڈین کو مدعو کیا خاص طور پر عمر شریف کو کامیڈی کے بھگوان کا درجہ دیا۔ ان کے اسٹیج اور فلموں کے صف اول کے کامیڈین گوندا، پاریش راول، جونی لیور، راجو شری واستو، کپل شرما، شیکھر سمن اور بہت سے دوسرے ان کو استاد کہتے تھے۔

عمر شریف کے انتقال پر بھارت کے فنکاروں نے بھی گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج کامیڈی کا سورج غروب ہو گیا۔ بھارت میں اسٹینڈ اپ کامیڈی کو فروغ دینے میں عمر شریف کا بڑا ہاتھ ہے۔ بھارت کے بڑے شوز میں عمر شریف کو خصوصی طور پر مدعو کیا جاتا تھا، ان کی پرفارمنس پر امیتابھ بچن اور شاہ رخ خان تک بے حال ہو گئے تھے۔ بھارت کے بڑے بڑے فنکاروں کے سامنے پرفارم کرتے ہوئے کبھی بھی ان کے اعتماد میں کمی نہیں آئی۔ دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو گا کہ جہاں اردو سمجھی جاتی ہو اور وہاں عمر شریف نے پرفارم نہ کیا ہو۔

بحیثیت انسان عمر شریف میں انکساری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، وہ بتاتے تھے کہ گھریلو حالات کی وجہ سے سات سال کی عمر میں کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ ان کے انتقال پر ان کی کئی ویڈیوز وائرل ہوئیں، جس میں ان کی شخصیت کے مخفی پہلو سامنے آ رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مشکلات سے انسان کو کبھی نہیں گھبرانا چاہیے، بلکہ صبح اٹھ کر اگر آپ کو چیلنج نہ ملے تو سمجھیں کہ آپ کی صبح ہی نہیں ہوئی۔ بزرگان دین سے خصوصی عقیدت رکھتے تھے، ان کی تدفین بھی ان کی خواہش کے مطابق عبداللہ شاہ غازی کے مزار کے احاطے میں ہوئی۔ ایک انٹرویو میں کہا کہ ”میں قبر سے گھبراتا ہوں، قبر انسان کا کردار بتاتی ہے“ رمضان کی نشریات میں اتنی مدلل گفتگو کی کہ لگتا تھا کہ یہ کوئی اور عمر شریف ہے۔

کچھ لوگوں نے یہ اعتراض کیا کہ معین اختر کے مقابلے میں عمر شریف کے تھیٹر میں عامیانہ زبان ہوتی ہے۔ ہم نے سوال کیا عمر شریف کو باقاعدگی سے دیکھتے ہو کہنے لگے ہاں، ہم نے پوچھا کیوں تو جواب دیا کہ ہنساتا بہت ہے۔ ہم نے جواب دیا بس یہی اس کا نصب العین ہے۔ معین اختر نے اپنے اور عمر شریف کے مقابلے کی بات کو یہ کہ کر ختم کر دیا کہ معین اختر، عمر شریف نہیں ہو سکتا اور عمر شریف، معین اختر نہیں ہو سکتا ۔ عمر شریف نے مرتے دم تک اپنے معین بھائی کو استاد کا درجہ دیا اور معین اختر نے بھی ان کو اپنا چھوٹا بھائی سمجھا، جب معین اختر کو ان کے بائی پاس آپریشن کا پتہ چلا تو انہوں نے باہر سے عمر شریف کی بیگم کو فون کیا اور بھرائی ہوئی آواز میں کہا ”اس کو کہو کہ انسان کا بچہ بن جائے ورنہ میں آ کر بناتا ہوں“ اکتوبر 2021 میں عمر شریف کی جان بچانے کے لیے جرمنی میں ایک ائر ایمبولینس بھیجی گئی پر آسمانوں سے حکم ہوا ”عمر شریف حاضر ہو“ عمر شریف نے معینہ وقت اور مقام کے مطابق لبیک کہا اور اپنی جان اپنے رب کے حضور پیش کردی۔ شاید اوپر پہنچ کر انہوں نے سب سے پہلے اپنے معین بھائی کو تلاش کیا ہو گا اور حسب عادت ان کے گھٹنے کو ہاتھ لگا کر کہا ہو گا کہ معین بھائی آپ کو تو پتہ ہے میں آپ کے بغیر زیادہ دیر نہیں رہ سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments