اسقاط حمل پر انڈین سپریم کورٹ کے فیصلے کے کیا معنی ہیں؟

سوشیلا سنگھ - بی بی سی نامہ نگار


انڈین سپریم کورٹ کی وکیل کامنی جیسوال کے بقول 'سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ بہت اچھا ہے اور میریٹل ریپ کے خلاف جاری لڑائی میں اس کی مدد سے ایک قدم آگے بڑھانے میں مدد ملی ہے۔'

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ‘شادی شدہ خواتین بھی جنسی زیادتی یا ریپ کی متاثرین ہو سکتی ہیں۔ کوئی خاتون اس صورت میں بھی حاملہ ہو سکتی ہے جب اس کے شوہر نے اس کی مرضی کے خلاف اس کے ساتھ جنسی تعلق قائم کیا ہو۔ پارٹنر کے ہاتھوں ہونے والی اس قسم کی زیادتی کو اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے، حالانکہ یہ ایک حقیقت ہے اور ریپ کی شکل بھی اختیار کر سکتی ہے۔’

سپریم کورٹ نے جمعرات کو ایک کیس کی سماعت میں خواتین کے لیے اپنی مرضی سے اسقاط حمل کرانے کی گنجائش کو بڑھاتے ہوئے ریمارکس دیے کہ غیر شادی شدہ خواتین چوبیس ہفتے تک اسقاط حمل کروا سکتی ہیں۔

عدالت میں ایک غیر شادی شدہ خاتون نے یہ درخواست دائر کی تھی۔

درخواست کے مطابق یہ خاتون ‘لِو ان ریلیشن شپ’ میں تھیں اور انھوں نے اپنی مرضی سے جنسی تعلقات قائم کیے تھے۔ لیکن اس دروان وہ حاملہ ہو گئیں اور پھر عدالت میں اسقاط حمل کے لیے درخواست دائر کی۔

اس معاملے کے منظر عام پر آنے کے بعد میریٹل ریپ یعنی شادی شدہ رشتے میں مرضی کے بغیر جنسی تعلق قائم کیے جانے کو غیر قانونی قرار دیے جانے کے بارے میں ملک بھر میں ایک بار پھر بحث چھڑ گئی ہے۔ حالانکہ اس معاملے کا سپریم کورٹ میں میریٹل ریپ سے متعلق دائر کی جانے والی ایک دوسری درخواست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ اس سے یہ امید بندھی ہے کہ ججز اور عدلیہ اس بارے میں سوچ رہے ہیں۔

کامنی جیسوال نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘اس معاملے میں فیصلے نے خواتین کے ‘انکار کے حق’ کو تقویت ملی ہے۔ جو فیصلہ سنایا گیا، اگر وہ اس انداز میں نہ سنایا گیا ہوتا تو میریٹل ریپ کے خلاف جاری جنگ میں کوئی مدد نہیں ملی ہوتی۔’

وہ کہتی ہیں ‘ایسے فیصلوں سے یہ ہوگا کہ تعلقات میں خواتین کے ساتھ کسی قسم کی جنسی زبردستی نہیں کی جا سکے گی۔ حالانکہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ میریٹل ریپ کو اگر جرم قرار دے دیا گیا تو اس کا شادی شدہ زندگیوں پر اثر پڑے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ قانون کا غلط استعمال ہوتا ہے لیکن یہ بھی ٹھیک نہیں کہ کسی ایک دو معاملوں کی بنیاد پر قانون کو ہی غیر یقینی نظر سے دیکھا جائے اور خواتین کو حقوق نہ دیے جائیں۔’

سپریم کورٹ میریٹل ریپ کے معاملے میں دائر درخواستوں کی سماعت اگلے برس فروری میں کرے گی۔

اس سے قبل ہائی کورٹ نے میریٹل ریپ پر منقسم فیصلہ سنایا تھا۔ اس فیصلے میں ایک جج نے کہا تھا کہ اہلیہ کی مرضی کے بغیر اس کے ساتھ جبراً جنسی تعلق قائم کرنا آئین کی شق 14 کی خلاف ورزی ہے، جبکہ دوسرے جج ان کی اس بات سے متفق نہیں تھے۔

میریٹل ریپ کا معاملہ کیا ہے؟

میریٹل ریپ کو جرم قرار دیے جانے کے لیے دلی ہائی کورٹ میں درخواستیں دی گئی تھیں جس کے بعد معاملہ سپریم کورٹ میں پہنچا تھا۔

انڈین پینل کوڈ کے آرٹیکل 375کے تحت ریپ کو جرم قرار دیا گیا ہے۔ حالانکہ کورٹ میں دائر درخواستوں میں اس قانون کا کچھ معاملوں میں اطلاق نہیں ہوگا۔ اور ان معاملوں میں رعایت کے بارے میں اعتراضات بھی ظاہر کیے گئے ہیں۔

اس کے تحت اگر ایک شادی میں کوئی مرد اپنی اہلیہ کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرتا ہے، جس کی عمر پندرہ برس یا اس سے زیادہ ہے، تو وہ ریپ نہیں کہلائے گا۔ بھلے ہی اس نے یہ جنسی تعلق اپنی اہلیہ کی مرضی کے بغیر قائم کیا ہو۔

حالانکہ 2017 میں سپریم کورٹ نے اس معاملے میں خوتین کی عمر 15 سے بڑھا کر 18 کر دی تھی۔

اس قانون کے حق میں ایک جانب تو لوگ میریٹل ریپ کو غیر قانونی قرار دیے جانے پر زور دیتے ہیں، تو دوسرے جانب کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ایسا کرنے سے متعدد شادیوں کے ٹوٹنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ساتھ ہی عدالتوں میں غلط کیسز کا ڈھیر لگ جائے گا۔

معاملہ کیا تھا؟

سپریم کورٹ میں ایک خاتون نے ‘میڈیکل ٹرمینیشن آف پریگننسی’ یعنی ایم پی ٹی قانون میں 2021 میں ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں تفصیلات واضح کیے جانے کے لیے ایک درخواست دائر کی تھی۔

کورٹ نے اس معاملے میں کہا کہ ہر عورت چاہے اس کا میریٹل سٹیٹس جو بھی ہو، یعنی وہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ، اسے محفوظ طریقہ کار سے اسقاط حمل کرانے کا حق ہے۔

جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ، ایس بوپنا اور جے بی پردی والا کے بینچ نے کہا ہے کہ ایک عورت کی ازدواجی حیثیت کا تعین اس بنیاد پر نہیں کیا جا سکتا کہ اس کے پاس اسقاط حمل کا حق ہونا چاہیے یا نہیں۔

وکیل سونالی کڑواسرا کا کہنا ہے کہ دور بدل چکا ہے اور ایسے میں قوانین میں بھی تبدیلی اہم ہے۔ اس کے علاوہ شادی شدہ خواتین کو اسقاط حمل کا حق دینا اور غیر شادی شدہ خواتین کو یہ حق نہ دینا، دونوں خواتین کو ایک برابر انصاف کیسے دے سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

آن لائن کی دنیا اور اسقاط حمل کے بارے میں گمراہ کن مواد

’میریٹل ریپ کے موضوع پر لڑکیاں کسی سے بات نہیں کر سکتیں، اپنی ساس سے بھی نہیں‘

محفوظ اسقاط حمل: ’میں اُس شخص کو اپنے بچے کا والد نہیں بنانا چاہتی تھی‘

سونالی نے بی بی سی سے کہا ‘یہ دیکھا گیا ہے کہ ایسے معاملوں میں ابھی تک ڈاکٹر اسقاط حمل سے گھبراتے تھے کیوں کہ انہیں خوف رہتا ہے کہ وہ کسی قانونی کارروائی میں نہ الجھ جائیں۔ ایسے میں خواتین ان کلینکس کا رخ کرتی ہیں، جو ان سے اسقاط حمل کی وجہ نہ پوچھیں۔ ایسے کلینکس رجسٹرڈ نہیں پوتے ہیں اور وہاں صفائی وغیرہ کا بھی خیال نہیں رکھا جاتا۔ ایسے میں ان کو جان کا خطرہ رہتا تھا، کچھ معاملوں میں ان کی موت بھی ہو جاتی تھی۔’

انڈیا میں اسقاط حمل سے متعلق قانون کیا ہے؟

میڈیکل ٹڑمینیشن آف پریگننسی بل 2021 کے مطابق ضلعی کمیٹیوں، میڈیکل بورڈز اور جہاں کہیں بھی اسقاط حمل ہو سکتا ہے، ان سبھی کو طے شدہ اصولوں پر عمل کرنا ہوگا۔

لیکن اسقاط حمل کا قانون کن خواتین پر لاگو ہوگا؟

  • خواتین بیس ہفتے تک اسقاط حمل کروا سکتی ہیں اور کچھ معاملوں میں مزید عرصے بعد بھی، لیکن اس کی حد چوبیس ہفتے سے زیادہ نہیں بڑھنی چاہیے
  • وہ خواتین جو جنسی زیادتی، ریپ یا انسسٹ سے متاثر ہوں
  • نابالغ لڑکیاں
  • حمل ٹھہرنے کے بعد شادی شدہ زندگی میں تبدیلی، یعنی طلاق یا شوہر کی موت
  • جسمانی کمزوری سے متاثرہ خواتین
  • ذہنی امراض سے متاثرہ خواتین
  • اگر بچے کے ساتھ کوئی مسئلہ ہو اور پیدائش کے بعد اس کے لیے معمول کی زندگی جینا ممکن نہ ہو، یا بچہ پیدا ہونے کے بعد اس میں جسمانی یا ذہنی کمزوریاں ہونا طے ہو

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32497 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments