“نیم ملا” خطرہ جان


ایک حضرت کے ساتھ امریکہ کی ریاست پینسلوینیا کا سفر کرنے کا اتفاق ہوا، یہ ایک بزنس ٹرپ تھا جس میں ہمیں تین چار دن تک

پینسلوینیا کے دور افتادہ علاقوں کا سفر کار میں کرنا تھا۔

میں نے ان کو ان کے گھر سے پک کیا، ویسے تو میں ان سے کافی دفعہ مل چکا تھا لیکن وہ کیسے آدمی ہیں؟ ان کے سیاسی اور مذہبی نظریات کیا ہیں؟ اس سے میں ناواقف تھا۔

کار میں بیٹھتے ہی انہوں نے حکمیہ انداز میں کہا، سفر کی دعا کر لیں، میں نے کہا جی ضرور، سفر کا آغاز ہوا تو مجھے اندازہ ہوا کہ حضرت صوم و صلوۃ کے پابند ہیں اور راستے میں ہمیں ہر نماز کے وقت بریک لینی ہے، چلیں کوئی بات نہیں، یہاں تک تو ٹھیک تھا لیکن جب یہ عقدہ کھلا کہ وہ ایک مشہور مذہبی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں، تبلیغ کے شدید خواہش مند اور مستقبل میں اس کا ارادہ بھی رکھتے ہیں ”کیوں کہ کم از کم ارادہ ہونا بہت ضروری ہے“ ۔

میں سمجھ چکا تھا کہ مستقبل قریب کے سفر کی ”ماں بہن“ ہو چکی ہے، ایک تو اتنی لمبی ڈرائیو اوپر سے میں اکیلا مقتدی اور ایک ”نیم ملا“ تبلیغ کی ساری مشق مجھ پر ہی کرنے والا تھا، مجھے اپنا آپ اس بچھڑے کا سا محسوس ہوا جسے سفاری پارک کے درندوں کے سامنے زندہ حالت میں پھینکا جاتا ہے، تاکہ ان کی خصلت کو زندہ رکھا جا سکے۔

کھانے اور پینے کے معاملات میں بھی کفر کی حد تک احتیاط کرنا تھی، اب کھانا کیا اور پینا کیا؟ ، بس پیٹ بھرنا تھا اور چلتے جانا تھا،

”روٹی میری کاٹھ دی تے لاون میری بھک“

اس پر ظلم یہ کہ میوزک کے معاملے میں بھی وہ صاحب تھوڑے سخت گیر واقع ہوئے تھے، لتا، رفیع اور مکیش کے لیے تو میں نے انہیں راضی کر ہی لینا تھا یا کم از کم وہ خاموش رہتے لیکن مائی لو ”نصیبو“ کی گنجائش کہیں نظر نہیں آ رہی تھی، ”چلی سانواں دی ہنیری دو انار ہل گئے“ ، ”جپھی گھٹ کے جے پاویں“ ، یا ”ببلو پا“ وغیرہ رات گئے ڈرائیونگ کے دوران جب نیند غلبہ پائے تو کسی تھیرپی سے کم نہیں، آپ کی آنکھیں کھلی رکھنے کے لیے۔

پہلا دن کسی نہ کسی طرح گزر گیا، آن لائن ہوٹل ڈھونڈ کر تقریباً رات 11 بجے چیک ان کیا، عشاء ہم کہیں راستے میں ہی پڑھ چکے تھے، آنحضرت کی بے باقی اور اس فانی دنیا سے لاپرواہی کا اندازہ لگائیں کہ بیڈ پر لیٹتے ہی خراٹوں کی ہلکی ہلکی نچلے سروں میں تان شروع ہو گئی، مجھے ان پر غصے سے زیادہ رشک آیا کیونکہ ہم جیسے رات کے مسافر، دلوں میں دنیا جہان کے خواہ مخواہ کے غم لیے، ایسی بے باک نیند سے نہ جانے کب سے آشنائی کھو بیٹھے۔

لیکن اس رشک کو غصے میں تبدیل ہونا ہی مقصود تھا جب خراٹوں کی آواز گڑگڑاہٹ میں تبدیل ہونی شروع ہوئی، میں نے جلدی سے اپنے فون پر نیٹ فلکس کی ایپ کھولی اور کوئی انڈین مووی ڈھونڈنے لگا، بالکل سامنے ”بے فکرے“ مووی نظر آئی جس کے پہلو میں ”کمینے“ مووی بھی تھی، اسی پر کلک کیا اور نہ جانے کب سو گیا۔

ابھی سوئے بمشکل دو گھنٹے گزرے ہوں گے کہ دو مضبوط ہاتھوں نے میرے کندھے کو اتنی زور سے جھٹکا کہ میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا، وہی حکمیہ انداز، اٹھیں جی وضو کریں، فجر کا وقت ہو گیا ہے، میں نے کہا آپ پڑھ لیں میں لیٹ سویا تھا، میں تھوڑی دیر ٹھہر کے پڑھ لوں گا، میرے نماز لیٹ پڑھنے سے کون سا سورج نے طلوع ہونے سے انکاری ہو جانا ہے، وہ قدرے سختی سے گویا ہوئے، یہ دنیا کے کام چلتے رہنے ہیں اور ویسے بھی نماز نیند سے بہتر ہے ”الصلاۃ خیر من النوم“ ۔

وہ خود تو نیند پوری کر چکے تھے اور جس انداز میں میں اٹھا تھا (یا اٹھایا گیا تھا) اب دوبارہ نیند آنے والی تھی نہیں، تو پھر جناب ”الصلاۃ خیر من النوم“ ۔

دوسرا دن بھی کافی مصروف گزرا، اب کی بار جو انہوں نے میرا امتحان لیا مجھے واقعی میں بڑے عرصے کے بعد خدا یاد آیا۔

پینسلوینیا کے جنگلی علاقوں میں (جہاں صرف ”ہل بلی“ Hill Billy یعنی دیہاتی، سخت گیر، سخت جان، دقیانوسی، ٹرمپ کے فالورز اور اسلحے کو اپنا زیور سمجھنے والے گورے رہتے ہیں ) ایک گیس سٹیشن پر کافی کے لیے رکے تو عصر کا وقت ہو چکا تھا، ان صاحب نے کہا کہ وضو کر لیں (حکمیہ) ہم یہاں عصر پڑھیں گے، وہ بضد ہوئے کہ ہم نماز گیس سٹیشن کی ٹک شاپ کے باہر فٹ پاتھ پر پڑھیں گے، میں نے بہت سمجھایا مگر بے سود۔

اب ہم وہاں نماز پڑھ رہے ہیں، لمبے تڑنگے گورے، داڑھیوں والے، ٹیٹوز اور لمبے لمبے بالوں کی گتیں بنائے رک رک کر ہمیں دیکھ رہے ہیں، کچھ ہماری تصویریں کھینچ رہے ہیں، پاس گزرتی سڑک پر پک اپ ٹرکس (جنہیں پاکستان میں ڈالے کہا جاتا ہے ) آہستہ ہو کر ”ربر نیکنگ“ کر رہے ہیں (یعنی اپنی گاڑی میں موجود تمام لوگوں کو متوجہ کر کے ہماری طرف اشارہ کرتے ہوئے گردنیں گھما گھما کر دیکھ رہے ہیں ) ، اور میں اللہ کو تہہ دل سے یاد کر رہا ہوں، شاید نماز پڑھتے ہوئے کبھی میں نے اللہ کی طرف اتنا دھیان نہ لگایا ہو گا جتنا اس نماز میں، کہ

یا اللہ بس آج بچا لے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments