سیلاب زدہ سندھ مانگے روٹی کپڑا اور مکان


روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ دینے والا بھٹو زندہ ہے مگر نعرہ لگانے والے مر رہے ہیں، جیے بھٹو کا نعرہ لگانے والے عوام اپنے گھروں سے بے گھر کیمپوں میں، لب سڑک خیموں میں زندگی گزار رہے ہیں۔ بارش اور سیلاب نے مل کر بڑی تباہی مچائی ہے جو کسی آفت سے کم نہیں۔ بارش اور سیلاب سے تقریباً پورا پاکستان نبردآزما ہو کر بحالی کی طرف گامزن ہے لیکن سندھ کے میدانی علاقوں میں دو مہینے ہونے کو آرہے ہیں پانی کھڑا ہے۔ پانی ایک جگہ ٹھہر گیا ہے، چاروں اطراف سیم ملا پانی اور اس میں موجود جانوروں کی لاشوں نے پورا ماحول تعفن زدہ کر دیا ہے۔ مختلف بیماریاں گیسٹرو، جلدی امراض، ڈینگی اور پیٹ کے امراض پھوٹ پڑے ہیں، پہلے لوگ بارش اور سیلاب سے مر رہے تھے اب بیماریوں سے مر رہے ہیں، لیکن جینے کی کوشش ہنوز جاری ہے۔ کوئی ادارہ ایسا نہیں جو پانی کی نکاسی کا انتظام کرسکے، حکومت کو کیا کہیں بادشاہ لوگ ہیں اپنی زمینوں کو خود بنجر کرنے پر تلے ہیں۔

بھٹو کا نعرہ، روٹی کپڑا اور مکان مانگ رہا ہے ہر انسان، سراپا احتجاج بنا کھڑا ہے لوگوں کے پاسا کھانے کو کچھ نہیں۔ جو امداد میں مل گیا کھا لیا، روٹی کھانے والے روٹی کو ترس گئے، کپڑوں کے نام پر جو مل گیا پہن لیا، مکان کی جگہ خیموں اور کیمپوں میں گزارہ ہو رہا ہے۔ لوگ زندگی سے لڑ رہے یہ اپنے پیاروں کو مرتے دیکھ رہے ہیں وہیں ان کیمپوں میں نئی زندگیاں آنکھ کھول رہی ہے، بیٹا پیدا ہوا تو سیلاب خان نام رکھ دیا بیٹی ہوئی تو سیلابی کہنے لگے کتنے سیلاب خان اور اور سیلابیاں اس تباہی کی یادگار نسل بن کر کھڑے ہوں گے ۔

امدادی تنظیمیں بڑھ چڑھ کر امدادی کام کر رہی ہیں، دل و دماغ رکھنے والے اپنی بساط سے بڑھ کر امداد میں حصہ لے رہے ہیں۔ آج ہی وزیراعلیٰ کا بیان ہے کہ چھ مہینے تک پانی نکل سکے گا، پھر گیہوں کی فصل لگا سکیں گے، فصلیں لگانے والا کسان زندہ رہے گا تو فصل لگے گی، ان حالات میں عوام کیسے بچ پائے گی۔ آنے والا موسم سردی کا ہو گا اور اس سخت موسم کا مقابلہ یہ خیمے کیسے کر سکیں گے۔ کوئی مشینری کیوں نہیں لگا رہے نکاسی آب کے لیے، جلد سے جلد اس پانی کو نکالا جائے ورنہ المیہ جنم لے گا، اللہ قحط کی آفت سے محفوظ رکھے۔

ایک بیانیہ سننے کو مل رہا ہے پاکستان اس وقت موسمیاتی تبدیلی کی زد میں ہے، کیا یہ اچانک ہوا ہے، اس کے بارے میں دنیا بھر میں تحقیقات ہو رہی ہیں، معلومات بہم پہنچائی جا رہی ہیں۔ حفاظتی اقدامات لیے جا رہے ہیں، ہر ملک اپنا انفرا اسٹرکچر قدرتی آفات سے مقابلے کے لیے تیار کر رہا ہے۔ ہم پاکستانی ابھی کالا باغ ڈیم کی بحث سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ کتنی حکومتیں آئیں اور چلی گئیں کسی نے ڈیمز بنانے کو اہمیت نہیں دی، ایسا ہوتا تو بجلی اور پانی دونوں مسائل حل ہوسکتے تھے۔ ایم این ایز، ایم پی ایز اپنے گاؤں، دور افتادہ علاقوں سے منتخب ہو کر شہروں کے پوش علاقوں میں شفٹ ہو گئے اور اپنے علاقے کے مسائل پس پشت ڈال دیے۔

ہمیں سوچنا ہو گا کہ یہ تین کروڑ پاکستانی جو ہمارے ہم وطن ہیں کس طرح اپنی معمول کی زندگی کی طرف لوٹ سکیں گے۔ اس وقت ذاتی مفادات پس پشت ڈال کر قومی مفادات پر کام کرنا ہو گا۔ بلوچستان میں اپنی مدد آپ کے تحت لوگ خود ہی اپنی آباد کاری میں لگ گئے ہیں وہاں پانی اتر چکا ہے، کے پی کے اور جنوبی پنجاب میں کافی حد تک بحالی کا کام شروع ہو چکا ہے، سندھ میں پانی ٹھہر گیا ہے جیسے سندھ کے حکمرانوں کی آنکھ میں بے شرمی کا پانی ٹھہر گیا ہے، ایک موصوف اس سیلابی صورتحال کو وینس سے تشبیہ دے کر زخموں پر نمک چھڑک رہے تھے۔

بھٹو کا شہر لاڑکانہ دہائی دے رہا ہے ایک نظر ادھر، نواب شاہ میں زرداروں کے محل محفوظ اور غریب کے جھونپڑے بہہ گئے۔ کچھ اثر کسی پر نہیں کیمپ میں ایک بچی اپنا بستہ سیلاب سے بچا کر لے آئی تھی وہ ہر ایک کا دامن پکڑ کر پوچھ رہی ہے میں اسکول کب جاؤں گی۔ اب تو میڈیا نے بھی سیلابی خبریں دینی کم کردی ہیں شاید ان کی نظر میں سب بہتر ہو گیا ہو۔ دو ماہ ہونے کو آئے ریلوے ٹریک کی بحالی نا ہو سکی، سڑکیں بھی تباہ ہو گئیں ہیں، انڈس ہائی وے ابھی بھی کئی جگہ سے پانی میں ڈوبی ہوئی ہے۔ اگر بحالی کا کام شروع کیا جائے گا تو تب بھی ایک عرصہ درکار ہو گا ورنہ اللہ بھروسے سب ٹھیک ہے چلتا رہے گا۔

پڑھنے والے سوچ رہے ہوں گے میں سندھ کا دکھڑا اتنا کیوں رو رہی ہوں کیونکہ میں پیدا لاڑکانہ میں ہوئی، حیدرآباد میں بچپن گزرا، کراچی میں رہ رہی ہوں۔ یہ میرے جانے پہچانے شہر ہیں کیا میں حیدرآباد کی چوڑیاں، میرپور خاص کا سندھڑی آم، لاڑکانے کا امرود، مہیڑ کی مہندی، ہالا کی اجرک، ٹنڈو محمد خان کا لال گنا، دریائے سندھ کی پلا مچھلی، پٹارو کا کیڈٹ کالج، روہڑی کا ریلوے اسٹیشن، سکھر کا بیراج، سادھوبیلا کا مندر، موہن جو داڑو کے آثار قدیمہ، ٹھٹھہ کی شاہجہانی مسجد، کراچی کا قدرتی ساحل سب ختم ہوتا جا رہا ہے، کوئی ہے جو تعمیر کا بیڑا اٹھائے، سندھ کو سنوارنے کا بنانے کا۔ سیلاب کے بعد تو سندھ کا حال برا ہے کیچڑ اور گند کا ڈھیر بن گیا ہے۔ کون سا ضلع ہے جو متاثر نہیں کاش سندھ حکومت اپنی دھرتی سے ایماندار ہو جائے اور سندھ کو بچا لے۔

شاہ لطیف، سچل سرمست، لال شہباز قلندر، عبداللہ شاہ غازی کا سندھ سلامت رہے یہ نا ہو کہ جیے بھٹو کا نعرہ لگانے والے حکمرانوں کی قبریں کھودنے لگیں، اب بھی وقت ہے سدھر جاؤ ورنہ وقت ایک سا نہیں رہتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments