گیدڑ ”کمانڈر“ کی بپتا


میں نہیں جانتا کہ عمران خان کے بہی خواہ و ہمدرد کارکنوں کو ”گیدڑ“ بننا کتنا اچھا لگا یا کہ انہیں اپنے مہان رہنما کا خود کو ”شیر“ کہنا کتنا بھایا، البتہ اس ساری صورتحال کے بعد مجھے 5 آسکر ایوارڈ یافتہ ہالی ووڈ فلم The Silence of Lamb کے اہم کردار جوڈی فوسٹر اور انتھونی ہاپکنز کی تھامس ہیرس کی کہانی پر مبنی 1991 کی شاہکار فلم ضرور نگاہوں میں گھوم گئی جس میں ایک نہایت عیار جھوٹے اور مکار قاتل سے ایف بی آئی کی ٹرینی نے زبان کھلوا کر اس کے سفاکانہ کردار کو دنیا کے سامنے منظر عام پر لے آئی۔

اسی ضمن میں مجھے نوے کی دہائی کا یہ قصہ بھی یاد آ گیا، جب ہمیں بالی ووڈ کے مہان بنگالی ہدایت کار ستیا جیت رے کی فلموں کا چسکا پڑا ہوا تھا، اپھار سے لے کر یہاں سے شہر کو دیکھو تک بیشمار فلمیں ہمارا جنون تھیں، اسی جنون کو سکون دینے کی خاطر فیض احمد فیض، سبط حسن اور کیفی اعظمی کی کتابوں کے ٹائیٹل بنانے والے آرٹسٹ لیاقت حسین جو خود لکھنوی تہذیب میں رچے بسے سپوت تھے، ایک روز منشی پریم چند کی کہانی پر مبنی فلم ”شطرنج کے کھلاڑی“ لے آئے جس کو ڈائریکٹ ستیا جیت رے نے کیا تھا جبکہ اس فلم میں مرکزی کردار سنجیو کمار اور امجد خان بطور واجد علی شاہ نے ادا کیا تھا، ڈھائی گھنٹے کی یہ تاریخی اور تفریح کے تمام لوازمات لئے فلم سب نے جام سے جام ٹکرا کر ایک ہی نشست میں دیکھ ڈالی۔

ان دونوں فلموں کا مرکزی عنوان یا خاکہ شکست و ریخت اور طاقت کے نشے میں سرشار افراد کے گرد گھومتا دکھائی دیتا ہے، جہاں جنونی اور پاگل پن کی حد تک سفاک دی سائلنس آف دی لیمبز کا انتھونی ہاپکنز تھا جو یہ سمجھتا تھا کہ ایف بی آئی کی خوبرو ایجنٹ جوڈی فوسٹر کو بیوقوف بنا کر وہ اسے اپنے دھوکے میں جکڑ لے گا، وہیں ”شطرنج کے کھلاڑی“ کا واجد علی شاہ کا وہ کردار تھا جو خود کو ذہین اور دنیا کا کامیاب حکمران یا رہنما سمجھتا تھا اور اسے اپنی حماقتوں اور اقتداری بد انتظامی سے زیادہ اس بات کا زعم تھا کہ اس کے اقتدار سے خوش ہو کر ”اودھ“ کے عوام اسے برٹش سامراج کی لشکر کشی سے بچا لیں گے۔

ان دونوں فلموں کے اختتام پر نظر رکھی جائے تو دونوں فلموں میں مشترکہ نکتہ اقتدار اور طاقت کے زعم کی شکست و ناکامی دکھایا گیا جبکہ سائلنس آف دی لیمبز کی کمزور سمجھی جانے والی ایف بی آئی کی ایجنٹ کے خاموش کردار کو دنبے کا لذیذ گوشت سمجھا گیا، اور جب خاموش دنبے کے گوشت کی نرم محبت یا سلوک کا عادی سفاک اور جھوٹا انتھونی ہاپکنز بن گیا تو اسی خاموش محبت نے اس کی سفاکی کو دنیا کے سامنے عیاں کر کے اس کے مکر و فریب کے کردار کو دنیا کے لئے عبرت کا نشان بنا دیا۔

اسی طرح ”شطرنج کے کھلاڑی“ میں واجد علی شاہ کو بڑا زعم تھا کہ اس کے پائے کا کوئی شطرنج کا کھلاڑی نہیں جو اسے شکست دے سکے جبکہ اس کی شطرنج کی چالوں کو مات دینے میں آخر کار اس کا دوست سمجھے جانے والا سنجیو کمار ہی نکلا جو گاہے گاہے اسے کبھی رخ کی سیدھی چال کبھی فیلے کی ترچھی چال اور کبھی گھوڑے کی ڈھائی چال میں الجھا کر اور اس کو مصروف رکھتا اور واجد علی شاہ کو حکمرانی کے امور سے لاتعلق کیے رکھتا، تاکہ وہ واجد علی شاہ کے تخت کا تختہ کرنے میں کامیاب ہو اور آخرکار وہ واجد علی شاہ کی حکمرانی پر گرفت کمزور کرنے میں کامیاب رہا، جس کا انجام واجد علی شاہ کی بادشاہت کے خاتمے پر ہوا۔

پاکستان کی سیاسی صورتحال میں مذکورہ فلموں کا اختتام ایک ایسا سبق ہے جس پہ ہر صاحب نظر اور بطور خاص اہل سیاست کو ضرور سوچنا چاہیے، آج کل ملک کی سیاسی صورتحال میں خاص طور پر عمران خان کے ”اوتالوے“ رویے یا بیانیے کے تناظر میں تحریکی تجزیہ کاروں کو یہ بات سمجھنی ضروری ہے کہ سیاست اور حکمت عملی خواہش اور مرضی و منشا کی مرہون منت نہیں ہوتی بلکہ سیاست میں تاریخی خد و خال اور سیاسی مقاصد کی تکمیل دھیرج قدم اور انتہائی سنجیدگی کی متقاضی ہوتی ہے وگرنہ سیاست میں جلدی یا خواہش بہت جلد پانی کے اس ابال کا کردار ادا کرتی ہے جو کچھ لمحے بعد ٹھنڈا ہوتے ہی بے اثر ہو جاتا ہے اس۔

اس بات سے انکار کیسے کیا جاسکتا ہے کہ عمران خان کی حکومت کی تبدیلی آئین کے تقاضوں کے تحت نہیں ہوئی، اس طریقے کار سے اختلاف بھی سیاسی سنجیدگی کا متقاضی ہے جو کہ عمران خان یا ان کے حامی ملک کی معروضی اور سیاسی صورتحال کے برعکس کرنے پر تلے بیٹھے ہیں، جس کا انجام خالی ہاتھ کے سوا کچھ نہیں لگتا، عمران خان کے بیانیے کی طاقت افسوسناک سطح تک ان غیر سیاسی نوجوانوں یا افراد تک ہی محدود ہے جو کہ تعداد میں تو زیادہ ہو سکتے ہیں مگر تحریک انصاف کے لئے کارکنان کی یہی غیر سیاسی فوج مستقبل کی ایسی چھچھوندر بننے جا رہی ہے جو پی ٹی آئی کی سیاست کے تابوت میں اسی جذبے و جوش سے آخری کیل ٹھوکے گی جس جذبے سے وہ آج کل اپنے قائد عمران خان کی ہر بات پر لبیک کہہ رہی ہے، کیونکہ سیاست اور تاریخ میں اٹھایا جانے والا ہر جذباتی اور غیر سنجیدہ قدم فرد یا گروہ کو بالآخر شرمندگی اور پسپائی سے ہی سرخرو کرتا ہے۔

دنیا کی تاریخ کے تناظر میں سیاست کی سنجیدگی ہمیں بتاتی ہے کہ عوام نہ تو تماشبین ہوتے ہیں اور نہ ہر فرد سیاست کا کھلاڑی ہو سکتا ہے، سیاست تدبر غور و فکر اور مستقل سنجیدگی کا وہ عمل ہے جس کا غلط استعمال آپ کو شطرنج کے کھیل کی طرح مات سے دوچار کر سکتا ہے، شہرت اور رعایت کے بل بوتے پر سیاست میں بہت دیر تک چلنا نہ صرف محال بلکہ نا ممکن ہو جاتا ہے، جبکہ عمران خان ایسی سیاست کرنے والوں کی نسل بعد میں ہٹلر کی پوتی کی طرح یہ کہنے پر مجبور ہو جاتی ہیں کہ ”یہ میرا قصور نہ تھا کہ میرا دادا ایک سفاک اور دنیا میں نفرت زدہ شخص تھا، البتہ میں اپنے شعور کی بنا پر ہٹلر کو اپنا دادا کہنے پر آج شرمندہ ہوں“ ۔

سیاست کے تجزیہ کاروں کی اکثریت سمجھتی ہے کہ ہٹلر نما فاشسٹ سوچ کے رہنما عمران خان کا اقتدار سے محروم ہونے کے بعد مزاج بن گیا ہے کہ فوج، عدلیہ، الیکشن کمیشن، نیب اور دیگر ادارے اگر آئین و قانون کے مطابق چل رہے ہیں اور مذکورہ ادارے عمران خان کی خواہشات کو بروئے کار نہیں لا رہے تو وہ ہر اس ادارے کے خلاف ہرزہ سرائی سے گریز نہیں کرتے جو ان کے مفادات کی نگہبانی یا مدد نہ کر رہا ہو، عمران کے جلسوں میں آرمی چیف کی تعیناتی کو متنازع بنانا ہو یا فارن فنڈنگ کیس کی تحقیقات کا معاملہ ہو، وہ ان اداروں پر تنقید کرتے وقت یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کی بتائی گئی نشاندہی ہی درست ہے جبکہ دوسرے لمحے وہ طاقتور اداروں یا سیاست میں فوج کو کردار ادا کرنے کی دعوت دیتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں، جو ان کی ذہنی افراتفری کا واضح مظہر ہے، اسی کے ساتھ وہ ایک ضدی بالک کی طرح اقتدار کے ایوانوں تک کی رسائی کے راستوں کی گنجائش پیدا کرنے کے لئے یو ٹرن لینے میں ملکی و غیر ملکی طاقتوں کے ترلے کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔

عمران خان کی سہاروں اور مدد کی سیاسی نفسیات ذریعے اقتدار تک پہنچنے کی خواہش نے ان کی لانگ مارچ کی تاریخ دینے میں جو رکاوٹ ڈالی ہے، اس کا منطقی نتیجہ عوام اور ان کے کارکنان میں ان کی غیر سنجیدہ حکمت عملی سمجھا جا رہا ہے، اب عمران خان عدلیہ کے کاندھوں پر بیٹھ کر مسترد شدہ اسمبلی میں واپس جانے کا عندیہ دے رہے ہیں جو کہ سیاسی شکست اور ان کے بیانیے کی وہ شکست ہے جو شاید ہی انہیں اب اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھا سکے، ایسے ہی صدر مملکت کی وہ غیر آئینی کوششیں ہیں جو وہ بطور صدر سے زیادہ تحریک انصاف کے کارکن کے طور کر رہے ہیں، جس کا آئینی استحقاق صدر مملکت کو ہرگز بھی نہیں۔ عمران خان آج کی سیاست میں اپنی سیاسی چالاکیوں اور گھاگ اسٹیبلشمنٹ اور سیاستدانوں کے چنگل میں اکر خود کو شیر کی کھال کے وہ کمانڈر ثابت کر رہے ہیں جو کسی بھی شکست کے لمحے گیدڑوں کے ساتھ جا کر ان میں پناہ لے سکتا ہے۔

ہمارے ملک میں عمران خان کی سیاست سے در گزر اور گفتگو کے مقابلے میں جو گالم گلوچ اور عقیدہ پرستی کا جنون پیدا ہوا ہے وہ کسی طرح بھی ملکی سیاست کے لئے نیک شگون نہیں، عمران خان کے اشتعال پسند جذباتی بیانیے کے مقابلے میں دوسری جانب سے سیاسی یا اداراتی خاموشی کو بزدلی یا بیانئے کا متبادل نہ دینے کا عمل ہرگز قرار نہ دیا جائے کیونکہ دنبے کے گوشت کو چٹخاروں کے ساتھ کھایا تو جا سکتا ہے مگر اس کی ”خاموش“ رہنے والی صفت سے پیٹ میں آنے والے بھونچال سے نمٹنا بہت مشکل ہوجاتا ہے، پھر ایسے کھیل میں فلم سائلنس آف دی لیمبز اپنی آخری فتح ایف بی آئی کی ٹرینر جوڈی فوسٹر کے نام کرتی ہے کہ جس کے سامنے شہرت کا مارا جھوٹا اور سفاک انتھونی ہاپکنز بے سدھ و لاچار پڑا ہوتا ہے۔

وارث رضا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وارث رضا

وارث رضا سینیئر صحافی، تجزیہ کار اور کالم نگار ہیں۔ گزشتہ چار عشروں سے قومی اور بین الاقوامی اخبارات اور جرائد میں لکھ رہے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا کے کہنہ مشق استاد سمجھے جاتے ہیں۔۔۔

waris-raza has 32 posts and counting.See all posts by waris-raza

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments