سمندر پار غنڈا گردی کا نقصان


معزز پاکستانی بھائیو! پاکستان میں ہماری شناخت شناختی کارڈ سے ہوتی ہے جبکہ بیرون ملک پاسپورٹ سے۔ شناختی کارڈ یا پاسپورٹ میں یہ کہیں بھی نہیں لکھا ہوتا کہ آپ کا تعلق کس پارٹی سے ہے، بلکہ آپ کو ایک پاکستانی ہی کی نظر سے دیکھا اور پہچانا جاتا ہے۔ کسی اچھے یا برے عمل کے بعد آپ کی نسبت باپ دادا کی طرف بعد میں اور ملک کی طرف پہلے ہوتی ہے۔ آپ کی نسبت جس ملک کی طرف کی جاتی ہے اسے دنیا اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام سے جانتی ہے۔ اسلامی ملک کی پہچان اسلامی اقدار ہوتے ہیں اور اسلامی اقدار میں اچھی تربیت، اچھے اخلاق، تحمل، برداشت، رواداری، دلیل، تہذیب اور شائستگی بھی شامل ہیں۔ اگر ہم کچھ اچھا کریں گے تو ملک کا نام روشن ہو گا اور برا کریں گے تو ملک کا نام بدنام ہو گا۔ آمدم بر سر مقصد۔

آج کل ہفتے میں ہمارا دو دن درس ہوتا ہے۔ ایک دن درس ’اپنے ملک سے وفاداری اور اس کی تعمیر و ترقی میں ہمارا کردار‘ پر ہوا تو ایک انجنئیر صاحب کہنے لگے کہ ایک عام شہری اپنے ملک کے لیے کیا کر سکتا ہے؟ میں نے عرض کیا: بہت کچھ۔ اور وہ اس طرح کہ جس کی جو فیلڈ ہو وہ اس میں خوب مہارت پیدا کرے، اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر مزید آگے بڑھنے کی کوشش کرے، خلوص، محنت اور لگن کے ساتھ اپنی ڈیوٹی انجام دے اور اگر کوئی یہ بھی نہیں کر سکتا تو کم از کم اپنے ملک کی بدنامی کا باعث نہ بنے، کوئی ایسا فعل نہ کرے کہ جس کی وجہ سے اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والے ملک کا وقار مجروح ہو اور جس کی وجہ سے ہمارے ملک کے دیگر باشندوں کو بھی نقصان پہنچے ”بیرون ممالک میں مقیم حضرات کی بھاگ دوڑ اور کمائی سے صرف ان کے گھر والوں کو ہی فائدہ نہیں ہو رہا بلکہ پورے ملک کو ہو رہا ہے۔

ان کے ارسال کردہ چند ڈالرز، پاؤنڈ، ریال اور درہم ہی نے ملک کی گرتی معیشت کو کسی حد تک سہارا دیا ہوا ہے۔ مدارس، مساجد، مصیبت زدہ اور پریشان حال لوگوں کے ساتھ سب سے زیادہ مالی تعاون یہی لوگ کرتے ہیں۔ یقین نہیں آتا تو کسی رفاہی ادارے سے پوچھ کر معلوم کیجئے کہ قدرتی آفات کے وقت بیرون ممالک میں مقیم پاکستانی متاثرین کے ساتھ کتنا تعاون کرتے ہیں؟ صاف پتہ چل جائے گا۔

جو کہنا چاہ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ ملک کے اندر تو سیاست دانوں نے ہمیں تقسیم در تقسیم کر کے ہماری اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا ہے۔ پورے ملک میں لوگ سیاست کے نام پر دست و گریباں نظر آرہے ہیں۔ ایک ہی گھر کے افراد لیگی، پیپلی، انصافی، جماعتیوں اور جمیعتیوں میں تقسیم ہیں۔ برائی تب برائی سمجھی جاتی ہے جب اس کا ارتکاب مخالف پارٹی سے وابستہ فرد کرے۔ ورنہ اسے نیکی ہی باور کرایا جاتا ہے۔ اسی طرح بھلائی تب ہی بھلائی ہے جب کرنے والا اپنی پارٹی کا ہو۔

نہیں، تو عموماً حوصلہ افزائی کے بجائے اس میں کیڑے ہی نکالے جاتے ہیں۔ بد اخلاقی، بدتمیزی اور غنڈا گردی اندرون ملک بھی افسوسناک ہے لیکن بیرون ملک کسی مہذب معاشرے کو اپنی بدتہذیبی سے پلید کرنا افسوس ناک ہی نہیں، شرمناک بھی ہے۔ اس کا ایک نقصان یہ ہوتا ہے کہ آپ کے اپنے پاکستانی بھائیوں کو بیرون ممالک میں جاب کے حصول کے لیے انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ چنانچہ آپ کسی بھی بیرون ملک مقیم دوست سے پوچھ لیجیے کہ جاب ملنے میں بڑی رکاوٹ کیا ہے؟

وہ آپ کو یہی جواب دے گا کہ سب سے بڑی رکاوٹ ہمارا بدنام زمانہ، تباہ شدہ اخلاقی کریکٹر ہے۔ افسوس، مگر یہ ہے کہ جب کسی کے سامنے کسی برے عمل کی مذمت کی جائے تو وہ اپنی ملکی گندی تاریخ کے گٹر سے چند غلاظت بھرے واقعات اٹھا کر سمع خراشی شروع کر دیتا ہے کہ جی، فلاں سال فلاں تاریخ کو فلاں پارٹی والوں نے بھی تو ایسا کیا تھا۔ ارے بھائی! کیا ہو گا لیکن اس کی مذمت بھی تو اسی وقت کی جا چکی ہوگی۔ کل کی غنڈا گردی کو آج کے دنگا فساد کے لیے جواز کیوں بنا رہے ہو؟

کیا آپ چاہتے ہیں کہ یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہے؟ اپنے قبیح فعل کو لیڈر زاد بنا کر اسے اچھا کیوں ثابت کر رہے ہوں؟ کیوں برائی کو پارٹی سے نتھی کرنے کی کوشش کرتے ہوں؟ جس وقت جو غلط ہو جائے، ہم سب مل کر اس کی مذمت کیوں نہیں کرتے؟ کسی سے سیاسی اختلاف کی وجہ سے دل میں دشمنی پال رکھی ہے تو قانونی طریقے سے اسے ملک کے اندر بھی تو احتساب کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا جا سکتا ہے۔ پھر بیرون ملک بھی یہ شور شرابا اور بدتہذیبی کیوں؟

خدا را! اپنی اداؤں پر ذرا غور فرمائیں۔ کیوں اپنے ملک کا امیج برباد کرنے پر تلے ہوئے ہوں؟ آپ پاکستانی ہونے سے پہلے مسلمان بھی ہیں اور اسلام میں تعصب، بیہودہ گوئی اور بد اخلاقی کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ اس پر کئی آیات اور دسیوں احادیث پیش کی جا سکتی ہیں لیکن اس کا کوئی فائدہ اس لیے نظر نہیں آ رہا کہ نہ ہمارے اندر خوف خدا ہے اور نہ ہی ہم آخرت کے وبال سے خوف زدہ ہیں۔ ہم مادہ پرست لوگ ہیں اور مادہ پرستوں کے پیش نظر ہمیشہ دنیاوی مفاد ہی ہوتا ہے۔

اس لیے اس وقت اچھے اخلاق کے فضائل اور بد گوئی کے مذمت پر آیات و احادیث سے صرف نظر کرتے ہوئے آپ کی توجہ دنیوی فائدے کی طرف مبذول کرا کر فقط اس بات کی بھیک مانگتا ہوں کہ کم ازکم بیرون ملک اپنے کرتوتوں سے دوسروں کے لیے مشکلات پیدا نہ کریں۔ کچھ نہ کچھ تو اپنی ساکھ دھاک (اگر ہے بھی تو) کا بھرم رکھ لیجیے۔

کم ازکم اس حد تک تو اپنے ملک کی بدنامی کا باعث مت بنیں کہ پھر دنیا ہمیں یہ کہہ کر دھتکارنے لگے کہ ’پرے ہٹ، تم سے پاکستانیت کی بدبو آ رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments