اپنے پیاروں سے بحث نہ کریں


میں نے بڑی نادانی اور خرابی کے بعد یہ بات جانی ہے کہ کبھی بھی اور کسی سے بھی بحث نہیں کرنی چاہیے۔ خاص کر ان لوگوں سے بالکل بھی بحث نہیں کرنا چاہیے جن سے ہم محبت کرنا چاہتے ہیں اور جن سے ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ بھی ہم سے محبت کریں اور ہمیشہ کے لیے کریں، کیونکہ بحث محبتوں کی قاطع ہے اور رقابتوں کی جنم داتا ہے۔ بحث اپنے والدین، اپنے بہن بھائیوں سے، اپنے رشتہ داروں سے، اپنے چھوٹوں سے اور اپنے بڑوں سے، اپنے اساتذہ سے اور اپنے قریبی دوستوں سے بالکل بھی نہیں کرنی چاہیے۔ کیونکہ بحث ہمدردی کے جذبات کو ختم کر دیتی ہے اور عداوت کے جذبات کو ابھار دیتی ہے۔

ایک ملازم اگر اپنے باس سے بات بے بات بحث کرنے لگے، ترکی بہ ترکی جواب دینے لگے، تو یقینی طور پر ایسا ہو گا کہ باس کے دل میں اس ملازم کے خلاف کم از کم ہمدردی کا جذبہ ختم ہو جائے گا۔ اور وہ اپنے ہمدردانہ جذبات اور نرم و ملائم مزاج کے باوجود ایسے ملازم کے حق میں مدد اور خیر خواہی کے لیے کچھ بھی آمادگی نہیں پائے گا۔ ملازم اور باس کی بات تو بہت دور کی ہے، آپ نے اپنے گھروں اور محلوں میں دیکھا ہو گا کہ جو بچے اپنے والدین سے زبان لڑاتے ہیں اور بات بے بات بحث کرتے ہیں وہ اپنے والدین کے دلوں میں اپنے لیے نفرت جگاتے ہیں۔

جبکہ دوسرے بچے جو محبت اور خدمت کے ذریعہ آگے بڑھتے ہیں وہ والدین کے نور نظر رہتے ہیں۔ لڑکیاں عموماً اپنے اسی غیر نزاعی مزاج کے باعث گھر بھر کی نور نظر ٹھہر جاتی ہیں اور لڑکے اپنے اسی بحث و تکرار والے مزاج کے باعث کھوٹے ثابت ہو جاتے ہیں۔ اور جو اصول ایک گھر کے ماحول میں کارگر ہے وہ گھر سے باہر کی دنیا میں بھی اسی طرح کارگر ہے، کیونکہ نفسیات تو دونوں جگہ ایک ہی جیسی ہیں اور انسان اپنے جن فطری اور عادی خواص کے ساتھ آپ کے گھر میں موجود ہیں گھر کے باہر والے انسان بھی وہی سب فطری اور عادی خواص رکھتے ہیں۔ مگر درست بات یہ بھی ہے کہ اب گھروں کے نقشے بدل رہے ہیں اور بچے جارحانہ مزاج لیے پیدا ہو رہے ہیں یا پھر ان کی تعلیم انہیں ایسا سکھا رہی ہے۔

بحث کئی طرح کی ہوتی ہے، کبھی نئے پرانے خیالات کی ہوتی ہے، کبھی عقائد و افکار کی ہوتی ہے۔ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ دو بھائیوں میں نظریات کا فرق آ جاتا ہے، ایک کا رجحان دینی ہوتا ہے اور دوسرا کسی قدر رند مشرب ہوتا ہے، ماں اپنے خیالات میں زیادہ مذہبی ہوتی ہے، جو کئی بار محض عمر کے تقاضے کی وجہ سے ہوتی ہے اور بیٹی کسی قدر آزاد خیال ہوتی ہے اور کئی بار یہ آزاد خیالی بھی عمر کے تقاضے اور ماحول کے اثر سے ہوتی ہے۔

اور جیسے ہی یہ دونوں عوارض ختم ہوتے ہیں آزاد خیالی کی جگہ خود بخود مذہبیت کا گہرا رنگ آزاد خیال لڑکی کے دل و دماغ سے لے کر اس کے نین و نقوش تک چڑھ جاتا ہے۔ مگر تب تک وہ بڑی ہو چکی ہوتی ہے اور اسی نوعیت کی بحث و تکرار اس کے اپنے بچوں کے ساتھ شروع ہو چکی ہوتی ہے۔ کل تک وہ آزاد خیال تھی اور اس کی ماں قدیم ماحول کی پردہ اور آج وہ قدامت پسند ہے اور اس کے اپنے بچے آزاد خیال، اس واضح فرق کے ساتھ کہ جارحیت کی شدت بھی وقت کے ساتھ ساتھ بڑھ گئی ہے۔

آزاد خیالی اور قدامت پسندی کے حوالے سے والدین اور اولاد میں اکثر نوک جھونک ہوتی رہتی ہے۔ مگر نتیجہ کیا نکلتا ہے، نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ برسہا برس تک بحث و تکرار اور نوک جھونک آپس کی محبتوں کو قتل کر دیتی ہے۔ نہ بچے اپنے آپ کو بدل پاتے ہیں اور نہ ہی والدین خود کو بدل پاتے ہیں البتہ ایک دوسرے کو بدلنے اور سمجھانے کی کوشش میں محبتوں کا قلع قمع ہوجاتا ہے۔

اس لیے بہتر یہی ہے کہ جن سے ہم محبتیں چاہتے ہیں، محبتیں پانا چاہتے ہیں اور محبتیں دینا چاہتے ہیں، ان کے ساتھ مباحثہ کرنے سے گریز کریں۔ خیالات میں لاکھ فرق سہی اور افکار میں ہزاروں اختلافات سہی، ان سے جب بھی معاملہ کیا جائے ہمیشہ محبتوں کی بنیاد پر کیا جائے۔ تسلیم کریں کہ آپ کے استاذ مذہبی خیالات کے ہیں یا کسی جماعت یا پارٹی سے وابستہ ہیں اور اکثر اس جماعت یا پارٹی کے تعلق سے آپ سے بات کرتے ہیں جن میں کئی ایسی باتیں بھی ہوتی ہیں جو آپ کو اپنے آزاد منش ذہنیت کی وجہ سے بالکل بھی پسند نہیں تو آپ کے لئے یہی بہتر ہے کہ آپ انہیں بولنے دیں اور ان سے نہ الجھیں، سمجھانے کی کوشش نہ کریں، اگر ان سے آپ ہمیشہ کے لیے محبت کرنا چاہتے ہیں اور ہمیشہ کے لیے ان سے قریب رہنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح اس کے برعکس اگر آپ خود استاد ہیں اور آپ کا کوئی شاگرد مان لیں کسی دوسرے مسلک کا ہے یا کسی جماعت سے وابستہ ہے تب بھی یہی رویہ زیادہ بہتر ہے کہ ایک حد تک اسے صحیح اور غلط کے تعلق سے ضرور بتائیں مگر بات کو کبھی بھی بحث و مباحثے تک نہ جانے دیں۔

البتہ یہ بھی اپنی جگہ درست ہے کہ بحث و مباحثہ ہر جگہ اور ہر حال میں غلط نہیں ہوتا۔ خصوصاً جب یہ مباحثہ ایک سے زائد رائے معلوم کرنے کے لئے ہو اور بہتر سے بہتر رائے تک پہنچے کی تگ و دو کے نتیجے میں ہو۔ یقیناً بحث و تکرار سے علم میں اضافہ ہوتا ہے اور پختگی آتی ہے مگر اس کے بھی حدود ہیں اور آداب ہیں۔ بیشک اس سے بہتر کوئی بات نہیں کہ ہر بات کو اور ہر چیز کو اس کی اپنی حدود کے اندر رکھا جائے۔ تجاوزات ہمیشہ ہی مسائل پیدا کرتے ہیں، مگر یہ کہ کئی لوگ اپنے تجاوزات کے بارے میں اس وقت جان پاتے ہیں جب بہت دیر ہو چکی ہوتی۔ جیسے خود میں نے ہی جو یہ بات جانی ہے بڑی نادانیوں اور خرابیوں کے بعد جانی ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments