آئیے خدا کی تقسیم پر راضی ہو جائیں


ہم سب نے خدا کو اپنی اپنی عقلوں کے مطابق محدود کر دیا ہے تقسیم کر دیا ہے زیادہ تر نے خدا کو خوف کی علامت اور جنت اور جہنم بانٹنے والا ہی سمجھا ہے۔ خوف خدا کی بہت غلط تفہیم بچپن دے ذہنوں میں بٹھا دی جاتی ہے۔ بچپن سے ہی اللہ ناراض ہو گا، جہنم میں جھونکے جاؤ گے، آگ میں ڈالا جائے گا، قبر پیسے کی وغیرہ وغیرہ کے الفاظ سے بچوں کو ڈراوا دیا جاتا ہے وہ بھی کس کا، اس رب کا جس کا تعارف ہم بسم اللہ سکھاتے وقت رحمن اور رحیم کے اسما الحسنی سے کراتے ہیں۔

کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے۔ بغیر سے سمجھے کہ ہم سادہ کاغذوں پر کیا تحریر کر رہے ہیں۔ یہ نقش ان کے دلوں پر ثبت رہے گا۔ ہم بچوں کو خدا کی یکتائی اور اس سے محبت کرنا کیوں نہیں سکھاتے۔ اس کی تمام صفات سے آگاہ کیوں نہیں کرتے۔ اس کی نعمتوں کے ساتھ اس کی رحمانیت سے آگاہ کیوں نہیں کرتے۔ جو عبادت یا نیکی کسی سزا کے خوف یا دباؤ میں کی جائے یا پھر کسی لالچ میں میں کسی جائے اس میں خلوص کی خوشبو کہاں سے آئے گی۔ پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے۔

خدا سے محبت کرنے اور اس کی رضا میں راضی رہنے کے لیے کیا اس کا کرم اور اس کی بے پناہ نعمتیں اور رحمتیں کم ہیں۔ جن کا شمارے چاہنے کے باوجود نہیں کر سکتے

جب خدا کا تصور بچوں میں خوف خدا کے نام پر یا جنت کے لالچ اور جہنم کے انجام پر بٹھایا جائے تو بچے یا تو انتہا پسند بن جاتے ہیں یا تمام عمر تشکیک کی کیفیت میں اور خدا سے دور رہتے ہیں۔

خدا تو ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتا ہے۔ وہ تو اتنا رحیم و کریم ہے کہ جس کے رحم و کرم کی کوئی حد ہی نہیں ہے۔ جو شہ رگ سے زیادہ قریب ہے۔ آسمان پر اڑنے والے پرندوں کے پروں کی تعداد اور زمین پر رینگتی باریک چیونٹیوں کی آہٹ سن لیتا ہے یہی نہیں ایسا سمیع و بصیر ہے کہ دل کے اندر کا حال جانتا ہے اور سوچ کو حرف و صوت میں ڈھلنے سے پہلے سن لیتا ہے۔ کسی ذی روح سے اس کی طاقت سے اور برداشت سے بڑھ کر آزمائش نہیں ڈالتا اور گناہ کے ارادے پر سزا نہیں دیتا لیکن نیکی کے ارادے پر نیکی آپ کے اعمال میں شمار کر لیتا ہے۔ وہ خدا جس کی فطرت کے قوانین سب کے لیے یکساں ہیں کہ وہ رب العالمین ہے لیکن عالمین کے رب کو ہم نے کتنا محدود کر دیا ہے۔ ہمارا وجود خدا کی کبریائی کے سامنے چیونٹی سے بھی کم تر ہے۔

لیکن اس چیونٹی سے کمتر وجود کے کبر کا یہ عالم ہے کہ زمین پر اکڑ کر چلتا ہے۔ اپنے سے کمزور پر حکومت کے سارے خدائی حربے آزماتا ہے۔ پھر بھی سکون سے نہیں رہتا نہ دوسروں کو رہنے دیتا ہے۔ حالانکہ اس کا وجود ایک قطرہ نجس سے پھوٹا ہے اور ایک وقت ایسا آئے گا کہ بدن کی یہ عمارت بھربھری مٹی کی طرح ڈھے کر ایک نجاست بھرے ڈھیر میں ڈھل جائے گی جسے ہاتھ لگانے والا بھی نجس کہلائے گا۔ کی مغفرت کے لیے نہ جانے لوگ ہوں گے یا نہیں کوئی نہیں جانتا۔ اور اسی بے خبری میں مارا جاتا ہے۔ اسی لیے خسارے میں ہے۔ ایسے کبیر خسارے میں کہ جس کی قسم پاک پروردگار نے کتاب بلاغت میں کھائی ہے۔ کاش انسان اس خسارے کو درک کر لے تو زمین پر خدائی کرنا چھوڑ دے اور خدا کو تقسیم کرنے کے بجائے خدا کی تقسیم پر راضی رہے کہ اسلام تو نام ہی تسلیم و رضا کا ہے۔

تسلیم و رضا کی منزل روح کو آفاقی بلندیوں تک لے جاتی ہے جہاں رب اتنا راضی ہو جاتا ہے کہ پھر بندے کی رضا رب کی رضا بن جاتی ہے جسے نے خدا کی تقسیم کو سمجھ لیا کہ خدا کا کوئی بھی فیصلہ عدل کے خلاف نہیں ہو سکتا جو کچھ بھی خدا نے مجھے عطا کیا اور جو کچھ میرے حالات رہے اس سے بہتر اور اچھا کچھ ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ کیونکہ وہ مالک کل ہے اور جانتا ہے کہ اس کی بندے کا ظرف اور برداشت کتنی ہے۔ وہ دے کے بھی آزماتا ہے اور لے کے بھی آزماتا ہے۔

خدا کی جانب سے عطا ہونے والی نعمتوں کے ساتھ زندگی میں آنے والے مصائب اور مشکلات میں بھی خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ مشکلات میں شکر کی منزل اور خدا کی تقسیم پر راضی بہ رضا رہنا صبر سے بڑا عمل ہے اور شکر گزاری کشائش اور رحمت سے جڑی ہوئی ہے۔ خدا سے زیادہ ہمیں کوئی نہیں جانتا کہ ہمیں کیا دینا ہے اور کہاں کس حال میں رکھنا ہے کمال تو یہی ہے کہ اس کی تقسیم پر مسکراتے رہیں اور اس کے شکر گزار بندوں میں شمار ہوں۔

آئیے خدا کی تقسیم پر راضی ہو جائیں اور اپنے عمل سے اپنے بچوں کو شکر گزاری اور خدا کی تقسیم پر راضی بہ رضا رہنا سکھائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments