سیلاب سے متاثرہ افراد اور ان کے درد


گزشتہ ایک ماہ سے ڈیڑھ ماہ سے سیلاب سے متاثرہ افراد سندھ کے مختلف شہروں خیرپور ناتھن شاہ، میھڑ، وارہ، قمبر شہداد کوٹ، کنڈیارو، کنب، نوابشاہ سمیت کئی شہروں سے سیلاب کے متاثرین اپنے ابائی گھر چھوڑ کر کراچی، حیدرآباد اور جامشورو کے ٹینٹ سٹی اور مختلف کالجز اور اسکولز میں مقیم ہیں۔ کراچی، حیدرآباد، جامشورو، کوٹری اور دیگر شہروں میں جو لوگ ٹینٹ سٹیز میں مقیم ہیں یا سرکاری کالجز اور اسکولز میں مقیم ہیں ان کے درد بھی ایسے ہیں جن کو نا تو کوئی سن سکتا ہے اور نا ہی ان کے دردوں کا کوئی درمان ہو سکتا ہے جس کی وجہ سے وہ بے یارومددگار اپنے اپنے علاقوں میں پانی سوکھنے کا انتظار کر رہے ہیں۔

خیرپورناتھن شاہ، میہڑ اور دادو، کنڈیارو، مٹیاری، کنب، ٹھاروشاہ، خیرپورمیرس، نوابشاہ سمیت جہاں جہاں سندھ کے پیروں، میروں اور وڈیروں نے اپنی اپنی جاگیریں، زمینیں بچانے کے لئے کٹ دیے تھے ان علاقوں میں پانی تاحال جمع ہے اور لوگ جو اپنے گھروں سے بے گھر ہوئے وہ اب کسی نا کسی اسکول، کالج، یا ٹینٹ سٹی میں بیٹھے انکھوں میں امید سمائے بیٹھے ہیں کہ ان کے شہروں سے پانی نیکال ہو گا تو وہ اپنے گھروں کو جائیں گے۔

مگر حکومتی مشینری ہمیں کہیں نظر نہیں آتی، کے این شاہ میں پانی ابھی تک موجود ہے، کے این شاہ اور میہڑ شہر میں اسی فیصد گھر پانی کھڑا ہونے سے گر گئے ہیں جبکہ دیہات میں تو گھروں کے نام و نشان بھی نہیں بچے ہیں۔ ہمارے حکمران صرف بڑے برے دعوے اور تقاریر تو بہت اچھی کرلیتے ہیں مگر گراؤنڈ پر کچھ بھی نہیں ہو رہا ہے۔ اسکولز، کالجز اور ٹینٹ سٹیز میں ڈپٹی کمشنرز کی جانب سے کھانے پینے کی اشیاء فراہم کی جا رہی ہے مگر اس وقت ٹینٹ سٹیز ہوں یا اسکولز اور کالجز کی کیمپس میں مقیم افراد ان کے ننھے منے اور معصوم بچے ملیریا، ڈینگی، ڈائیریا جیسی مہلک بیماریوں سے دوچار ہیں مگر ادویات نہیں مل رہی ہیں۔

میرا حیدرآباد کے مختلف اسکولز، کالجز اور ٹینٹ سٹی میں جانا ہوا جہاں پر سینکڑوں کی تعداد میں بچے بیمار پڑے ہوئے تھے جب ان کے والدین سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ رات کے اوقات میں سرکاری سطح پر بریانی کی دیگیں آتی ہیں کبھی کبھی وہ دیگیں باسی ہونے کی وجہ سے پوری پوری رات بھوکے پیٹ رہتے ہیں صبح کی اوقات میں بھی ناشتہ دیا جاتا ہے اور دوپہر کو بھی قورمہ اور نان دیے جاتے ہیں مگر ہم لوگ چاول کی روٹی کھانے والے ہیں جس کی وجہ سے نان اور بریانی بدہضمی سمیت پیٹ کی بیماریوں میں مبتلا کر دیتی ہے۔

جب متاثرہ افراد سے خاندان میں ایک میہڑ کے گاؤں شاہ پنجو کا رہائشی تھا جو اپنی بیوی بچوں، بھائی بھابھی سمیت تقریباً پندرہ افراد کی فیملی تھی اس نے کہا کہ بھائی سچ تو یہ ہے کہ یہاں پر کچھ بھی نہیں مل رہا ہے بس ہر کوئی آتا ہے شناختی کارڈ کی فوٹو کاپیاں لے کر جاتا ہے اور پھر واپس نہیں آتا ہمیں صرف یہ آسرا دے کر چلے جاتے ہیں کہ آپ لوگوں کے لئے کچھ اچھا کریں گے لیکن ڈیڑھ ماہ ہوا ہے اس کیمپ میں مگر ہمیں ڈیڑھ ماہ میں سوائے کھانے پینے کے کچھ بھی نہیں ملا ہے نا تو کپڑے ملے ہیں نا ہی کوئی ترپال یا کوئی ٹینٹ ملا ہے جس کو لے کر ہم اگر واپس اپنے گاؤں بھی جائیں تو کم از کم اسی ٹینٹ کے نیچے زندگی تو بسر کرسکیں۔

اس کا مزید یہ بھی کہنا تھا کہ یہاں پر قوم پرست جماعتوں کے لوگ بھی آتے ہیں وہ بھی شناختی کارڈ کی کاپیاں لے کر جاتے ہیں اور پھر واپس نہیں آتے صرف ایک ہی رٹ لگا کر بیٹھے ہوتے ہیں کہ ہمیں ووٹ دیں تو ہم سونے کی نہریں بہا دیں گے۔ گورنمنٹ گرلز ہائر سیکنڈری اسکول کیمپ جی او آر کالونی میں مقیم ایک خاتون جو اپنے ایک معصوم بیٹے اور شوہر کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی اس نے روتے ہوئے بتایا کہ میرا بیٹا بیمار ہوا تھا جیب میں پانچ ہزار روپے تھے سرکاری اسپتال والے تو بچے کو ایڈمٹ بھی نہیں کر رہے تھے کیونکہ سرکاری اسپتال والوں کا کہنا تھا کہ ہم سیلاب زدگان کو ایڈمٹ نہیں کرتے ہیں پھر انہوں سے صرف ایک ٹیبلیٹ کی اسٹرپ دے کر واپس روانا کر دیا جبکہ میرے بیٹے کو شدید قسم کا بخار تھا اور وہ بخار کے مارے بے انتہا بے چین اور سانس لینے میں بھی تکلیف تھی مگر اسپتال والوں نے داخل نہیں کیا اور واپس بھیج دیا پھر جو پانچ ہزار روپے تھے اس سے اپنے بیٹے کا علاج کروایا۔

اسی طرح اسی کیمپ میں موجود ایک خاتون نے کہا کہ ہم خاندانی لوگ ہیں ہمیں تو اس کیمپ میں رہنا بھی بے انتہا برا لگ رہا ہے مگر کیا کریں کے مجبوری ہے ہمارا پورا گاؤں ڈوب گیا ہے اور وہاں پر جو ہمارے مکان تھے وہ بھی گر گئے ہیں ہمیں حکومت سے اور کچھ نہیں چاہیے بس اگر حکومت ہمارے لئے کچھ کرنا چاہتی ہے تو صرف دو کمروں کا گھر بنا کردے تاکہ ہم اپنی زندگی اچھی طرح سے گزار سکیں اس سال نا تو فصل ہو گا اور نا ہی ہمارے گھر بن سکیں گے اس لئے یہاں پر بیٹھے ہوئے ہیں اوپر سے اسکول انتظامیہ نے پہلی اکتوبر کو اسکول خالی کرنے کا کہا ہے۔

ٹینٹ سٹی جامشورو میں مقیم ایک شخص نے بتایا کہ وہ اپنے علاقے میں آخری بندہ تھا جو آخر میں نکلا کیوں کہ ہمیں یہ پسند نہیں کہ ہم اپنی عورتوں کو ایسی جگہ پر بٹھائیں جہاں پر لوگوں کی بڑی تعداد موجود ہو ہم عزت والے لوگ ہیں اپنے ننگوں کا خیال کرنا اچھی طرح آتا ہے مگر ہمارے ساتھ جو وڈیروں، اور ایم پی ایز، ایم این ایز نے کیا ہے وہ کبھی نہیں بھولیں گے۔ اس کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے گاؤں کو جاں بوجھ کر ڈبویا گیا حالانکہ ہمارے گاؤں میں پانی آنا ہی نہیں تھا مگر زمینداروں نے اپنی زمینیں بچانے کی خاطر ایسے کٹ مارے جس سے ہمارا گاؤں بھی ڈوب گیا اور اتفاق سے ان کی وہ زمینیں بھی اس پانی سے بچ نا سکیں۔

ایک اسکولی کیمپ میں موجود شخص نے بتایا کہ اب ہمیں جانے کے لئے کہا جا رہا ہے مگر ہمارے گاؤں میں پانی موجود ہے اوپر سے ٹینٹ بھی نہیں دیا گیا اگر ایک دو ٹینٹ ہی ہوتے تو سڑک کے کنارے بیٹھ جاتے جبکہ بیوی اور بھابھی دونوں امید سے ہیں اور ساتواں ساتواں ماہ چل رہا ہے ایسے میں انہیں کوچ پر کیسے سفر کروا سکتے ہیں اگر انہیں یا ان کے پیٹ میں پلنے والے بچے کو کچھ ہو گیا تو اس کی ذمے داری کس کی ہوگی؟ ایسے بہت سارے سوال ہیں جو ان سیلاب زدگان کی آنکھوں اور زبان پر موجود ہیں مگر ہمارے حکمرانوں کو نا تو ان کی انکھیں دکھائی دیتی ہیں اور نا ہی ان کی زبانوں سے نکلی ہوئی باتیں سنائی دیتی ہیں۔

سیلاب سے متاثرہ افراد کے بے انتہا درد ہیں اگر ان کے درد سنیں جائیں تو کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں مگر ہمارے حکمرانوں کو ان کے درد نا تو دکھائی دیتے ہیں اور نا ہی سنائی دیتے ہیں جس کی وجہ سے ابھی تک یہ بے سہارا لوگ مدد کے منتظر ہیں مگر شاید ہمارے حکمرانوں کو ایک دوسرے کے راز و آڈیو لیکس سمیت دیگر مسائل اتنے عزیز ہیں کہ ان کو ان لاکھوں بے گھر انسانوں کے درد دکھائی ہیں نہیں دیتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments