انگریزوں کی آمد کے بعد برصغیر کی مالی حالت


گزشتہ کالم میں ہم نے اس بات کا جائزہ لیا تھا کہ انگریز آمد سے پہلے برصغیر کی مالی کتنی مضبوط تھی جبکہ اس کالم میں انگریز آمد کے بعد اس خطے کی غربت اور کمپنی سرکار کی لوٹ مار کا جائزہ لیا جائے گا۔

حقیقت یہی ہے کہ اس خطے میں غربت کا پودا انگریز کاشتہ ہے۔ سر ولیم ڈگبی لکھتا ہے : ہندوستان میں جو غیر معمولی غربت بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے اس کی واحد وجہ ہماری حکومت ہے، بڑے ظالمانہ انداز میں یہاں کی دولت سمیٹ کر برطانیہ منتقل کی جا رہی ہے۔ انگریزوں نے اس خطے کو کس طرح لوٹا اس بات کا اندازہ یوں بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جب چارلس اول نے ایسٹ انڈیا سے بطور نذرانہ 10000 پونڈ طلب کیے تو کمپنی سرکار اتنی غریب تھی کہ یہ رقم بھی ادا نہ کر سکی لیکن کچھ عرصے بعد جبکہ برصغیر میں لوٹ مار کا عمل شروع ہو چکا تھا، اسی کمپنی نے بعد کے بادشاہ کرام ول کو 60000 پونڈ نذرانہ ادا کیا۔

اسی زمانے میں انگریزوں کو پرتگیز، ہالینڈ، فرانس اور جرمنوں سے بھی جنگ کا بھی سامنا رہا لیکن کمپنی سرکار نے یہاں سے اتنی دولت حاصل کی کہ اس چہار طرفہ جنگ کا خرچا بھی برداشت کیا اور بادشاہ کو دیا جانے والا نذرانہ بھی تین چار لاکھ پونڈ تک پہنچ گیا۔ چونکہ لوٹ مار مقصود تھی لہذا ایسے لوگ ملازم رکھے گئے جو شریف نہ ہوں جیسا کہ جیمس مل کے مقالے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب کمپنی نے تجارت کی اجازت حاصل کرنے کے لیے درخواست دے رکھی تھی تو برطانیہ نے انھیں کہا کہ سفارت کاری کے لیے سر ایڈروڈ مائیکل کو ملازم رکھ لیں لیکن کمپنی سرکار نے اپنی حکومت کو جواب دیا کہ ہم اس مقصد کے لیے کسی شریف آدمی کا انتخاب نہیں کر سکتے بلکہ ہمیں اس مقصد کے لیے اپنے جیسے آدمیوں کی ہی ضرورت ہے۔

لہذا کمپنی سرکار نے ایسے لوگ ملازم رکھے اور انھیں لوٹ مار کی کھلی چھوٹ تھی اور یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ معمولی تنخواہ کے باوجود دولت میں کھیلنے لگے جیسا کہ کرناٹک کے نواب نے ایک بار احتجاجاً کمپنی کے بڑوں کو لکھا: آپ کے نوکروں کا کوئی کاروبار بھی نہیں، تنخواہ بھی معمولی ہے، پھر بھی وہ لاکھوں اشرفیاں کماتے ہیں، اتنی کم مدت میں یہ پیسا کہاں سے آ رہا ہے وہ ہم اور آپ بخوبی جانتے ہیں۔

لارڈ کلائیو بنگال کی لوٹ مار سے متعلق لکھتا ہے کہ تین کروڑ انسانوں کو لوٹ کر کلکتہ میں دولت کے انبار لگا دیے گئے ہیں۔ بروکس اینڈمسن کا کہنا ہے :انگریزوں نے کروڑوں کے خزانے ہتھیا کر لندن پہنچا دیے ہیں اور یہ دولت پورے یورپ کی مجموعی دولت سے بھی زیادہ ہے۔ بلکہ سر ولیم ڈگبی نے تو اس بات کا کھلا اعتراف کیا ہے کہ برطانیہ میں صنعتی ترقی کا انقلاب 1760 میں آیا جس کی بنیاد برصغیر سے لوٹی گئی دولت ہے۔ اس خطے کی امارت اور انگریز کی لوٹ مار کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بقول میجر وینگٹ صرف جنگ پلاسی اور جنگ واٹرلو کے درمیانی عرصے میں ہندوستان سے انگلستان جانے والی دولت کا تخمینہ کم و بیش پندرہ ارب روپیا ہے۔ لارڈ میکالے کا کہنا ہے کہ دولت کا ایک دریا تھا جو یہاں سے برطانیہ کی طرف بہہ نکلا۔

جب ایک خطہ مسلسل لوٹ کا ہدف بنا رہے گا تو وہ کب تک امارت کا حامل رہ سکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ برصغیر جو کبھی سونے کی چڑیا کہلاتا تھا اور جہاں دولت کی برسات ہوتی تھی وہ بتدریج غریب ہونے لگا۔ منٹگمری مارٹن لکھتا ہے : جس طرح یہاں سے دولت برطانیہ جا رہی ہے اگر اسی طرح برطانیہ سے کہیں اور جانے لگے تو وہ بھی بہت جلد غریب ہو جائے گا جہاں پہلے ہی مزدوروں کو دو تین پینس دیہاڑی ملتی ہے۔ اس بیان سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب برصغیر کا عام انسان بھی سونے سے کھیلتا تھا اس وقت وہاں اتنی کم اجرت تھی جس میں گزارہ بھی مشکل سے ہو انگریز تو چلے گئے لیکن ان کے گماشتوں نے دو محاذوں پر کام جاری رکھا کچھ ہمیں بتانے لگے کہ مسلمانوں کے دور میں برصغیر ایک غریب ملک تھا اور یہاں بادشاہوں نے لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا تھا اگر انگریز نہ آتے تو آج ہماری حالت بہت ہی بدتر ہوتی۔

کچھ لوگ انگریز کی طرح آج بھی اس ملک کی دولت باہر منتقل کرنے میں لگے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ برصغیر ایک امیر ملک تھا جسے انگریز خود سونے کی چڑیا کہتے تھے اور تاریخ دیکھیں تو یہاں سے کبھی کوئی لشکر کسی ملک پر حملہ آور نہیں ہوا جبکہ باقی خطوں کے لوگ یہاں آتے، حملہ کرتے اور کچھ سالوں کا خرچا لے کر چلے جاتے، جب غریب ہوتے تو دوبارہ حملہ آور بن کر چلے آتے۔

مسٹر اے جی ولسن کے مطابق انگریز اس خطے سے سالانہ تین کروڑ پونڈ ہتھیاتا تھا جو مشہور ماہر معیشت ہنڈومین کے مطابق 1945 ء میں ایک ارب چوراسی کروڑ پونڈ ہو گئی تھی اور یہ وہ دولت ہے جو آئینی طریقے سے منتقل ہوتی تھی، غیر آئینی منتقلی اس میں شامل نہیں۔ لیکن افسوس ہمارے ”دیسی“ دانشور ہمیں یہ تو بتاتے ہیں کہ ہندوستان اتنا غریب تھا کہ کمپنی سرکار اسے قرضہ دیتی تھی لیکن اس سوال کا جواب نہیں دیتے کہ اسی غریب ہندوستان میں خود کمپنی سرکار کیسے امیر ہوتی جا رہی تھی اور نہ ہی یہ کہ بقول آر سی دت مصارف برطانیہ میں ہوتے تھے اور بوجھ ہندوستان پر ڈالا جاتا تھا۔

جسے شک ہو وہ ”Unhappy“ پڑھ کر اپنا شک دور کرے کہ کس طرح برطانیہ اس ملک کو لوٹتا تھا اور پھر یہی لوٹا ہوا پیسا ہندوستان کو نہ صرف بطور قرضہ دیتا تھا بلکہ اس پر سود بھی لیتا تھا۔ حیرت ہے ان دانشوروں پر جو ایسے لوگوں کو اپنا محسن کہیں اور ان مسلمان بادشاہوں کو ظالم کہیں جنھوں نے اس خطے کو امیر بنایا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments