شہناز شورو کی کہانی “تیسری بیٹی”: تیسری نسل کا استعارہ


“تیسری بیٹی” شہناز شورو کی تازہ کہانی بھی ہے اور  Changing from ME to WE کا فلسفیانہ نکتہ نظر بھی۔

میں سے ہم میں تبدیل ہونے کی سوچ فلسفیوں کی نزدیک مساوات کی کلید ہے لہذا اپنے ایک مضمون میں شہناز ”میں“ کی خونخواریت کر رد کرتے ہوئے اس کا منطقی جواز یوں پیش کرتی ہیں کہ ”میں کیا لکھوں، کیا کہوں کہ میں ہوں کیا؟ میں کے بارے میں تو اسی وقت لکھا جاتا ہے جب یہ اعتماد ہو کہ“ میں ”میں کچھ سچ چھپا ہوا ہے۔ “ میں ”تو ایک نقطہ ہے۔ سارے لطف، سارے خواب، سارے جذبے، سارے پھول، سارے بچے، سارے وعدے، سارے نقطے، ساری کتا بیں اور سارے اصول اسی“ میں ”کی خونخواریت کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔“

”تیسری بیٹی“ کی کہانی پڑھتے ہوئے میں اسی ”میں“ کے وحشت ناک مناظر میں ڈوبتی ابھرتی رہی جو انسان کو ایک سیکنڈ میں بھیڑیے میں تبدیل کر دیتا ہے۔ ”تیسری بیٹی“ ہمارے لاشعور میں بسے اس خوف کی کہانی ہے جسے ہمارا ماضی بھوگ چکا ہے مگر ہم جس پر بات کرنے سے گریز کرتے ہیں یا شا ید اپنی چھٹی حس کو ریت میں دبا کے سب اچھا ہے سب کچھ ٹھیک ہے، کی طمانیت اوڑھ کے تمامتر وحشیانہ امکانات کو جھٹلا رہے ہیں۔ جو بیت گئی سو بیت گئی۔ کہاں ہماری مملکت اسلامیہ کہاں وہ کٹے اور ذبح کیے ہوئے انسانوں سے لدی ٹرینیں جو پاکستان سے ہندوستان بھیجی جاتی تھیں اور ہندوستان سے پاکستان آتی تھیں پھر بنگلہ دیش بنتے وقت کیسے کیسے خونی مناظر دیکھے اور بھول گئے۔ لیکن نفاق پیدا کر نے والے نفرتوں کا ہزار جواز ڈھونڈ لیتے ہیں۔ ایک خوف ہے جو پیچھا نہیں چھوڑ رہا ہے، کوئی آواز ہے جو مسلسل جھنجھوڑ رہی ہے کہ یہ نفرتیں، یہ وحشتیں یہ قتل و غارت گری اپنے آپ کو کیا پھر نہیں دہرا سکتی؟ شہناز شورو کی کہانی ہمارے لاشعور میں بسے اسی خوف کو کھنگالتی ہے اور حقائق کی خوابیدہ لاتعلقی کو جھنجھوڑتی ہے۔

کہانی میں چار کردار ہمارے سماج کی چادر کے چاروں کونوں کو کس طرح تھامے ہیں، کو بڑی مہارت سے اجاگر کیا گیا ہے۔ عذرا خا لہ، حسام، تمیزالدین اور سردار جی۔ کہانی میں پہلی ملاقات ہماری عذرا خالہ سے ہوتی ہے۔ عذرا خالہ کے کردار کے ذریعہ کسی ایک فرد کی شخصیت کا سگھڑاپا دکھانا مقصود نہیں بلکہ یہ کردار ایک پورے دو رکے رہن سہن، تہذیب و اقدار اور روایات کی نمائندگی کر رہا ہے۔ وہ دور جو اب دھیرے دھیرے ہمارے معاشرے کے منظرنامے سے غائب ہو رہا ہے اور محبتیں محدود سے محدود تر ہوتی جا رہی ہیں۔ خاندان کا تصور، مغرب کی تقلید میں میاں بیوی اور دو یا تین بچوں تک محدود ہو رہا ہے۔ عذرا خالہ کا کر دار اب سے پہلے کی وہ معاشرتی اقدار ہیں جن کا چہرہ دھندلا رہا ہے جن میں سے اکثر کو تو اب ہم بھی بھول چکے ہیں۔ ”وہ ہر کسی کے دکھ درد کو دل سے محسوس کرتی تھیں۔ کسی بھی ضرورت مند کی مدد کرتے ہوئے ان کا وہی اصول تھا کہ دوسرے ہاتھ کو خبر نہ ہو۔“

”پھر خالہ جس طرح چھاچھ پر بچھی مکھن کی سفید تہہ کو ہلکے ہاتھوں سے جمع کر کے چمکدار پیڑہ بنا کر اس کو علیٰحدہ پانی والے برتن میں ڈال کر رکھتیں وہ منظر بھی خوب ہوتا تھا۔ صبح سے دروازے پر لسی لینے والوں کی قطار لگ جاتی تھی اور خالہ کسی کو مایوس نہیں لوٹاتی تھیں۔“

شہناز شورو اپنی کہانی میں صرف اخلاقی اقدار تک متن کو محدود نہیں رکھتی بلکہ اس دو رکی مکمل تصویر پیش کرتی ہے۔ ”میز پوش سے میزیں ڈھکی ہوتیں، کرسیوں پر انتہائی نفیس کور ہوتے، پوری پوری چادروں پہ حسین کشیدہ کاری کی ہوتی، گویا بچھے ہوئے بستر پہ گلستان کی سجاوٹ کا گمان ہوتا تھا۔“ خالہ کا کردار نہ صرف ان محلوں کی یاد دلا رہا ہے جو ایک دوسرے کے ہر دکھ ہر درد میں شریک ہوتے تھے بلکہ اس دو رکے رہن سہن کی تصویر کشی بھی کر رہا ہے۔ یہ جزئیات نگاری کیوں؟ اس کا جواب شمس الرحمنٰ فاروقی صاحب کے ناول ”کئی چاند تھے سر آسماں“ کے پاس ہے۔ یعنی کسی ناول یا افسانے میں مکان و زمان کے بدلتے ہوئے معاشرے کی جزئیات بھی اہم ہیں۔ موسیقی کے بیان میں سات سروں کی تفصیلات و انفرادیت، قالین کا ذکر کیا تو وہ وہ نام گنا دیے رنگوں کے جو اب ہمارے حافظے سے محو ہو چکے ہیں۔

dr shahnaz shoro

شہناز کے اس افسانے میں بھی دو تہذیبیں بیک وقت انضمام بھی ہو رہی ہیں اور یہ اپنا رہن سہن اور طور طریقے بھی بدل رہی ہیں۔ جب کسی دور کی تصویر کشی منظور ہو اور وہ بھی کسی خاص مقصد کے تحت تو رہن سہن، ملنا جلنا، لباس، مذہبی عقائد سب کو سمیٹ کے سارے رنگوں کو اپنی روشنائی میں گھول کے اس دور کی پینٹنگ بنانی پڑتی ہے۔ شہناز شورو جیسی افسانہ نگار واقف ہے اس نکتہ سے، لہذا اس تہذیب کے کسی گوشے یا کسی زاویے سے صرف نظر نہیں کیا۔ خالہ ایک انسانیت پسند، تہجد گزار خاتون ہیں لہذا اپنے دونوں بیٹوں کی پرورش میں بھی اسی محبت اسی رواداری اور انہی عقائد کی آبیاری کرتی ہیں اور انہیں اعلی تعلیم دلاتی ہیں۔ لیکن یہ تفریق و تقسیم کی چنگاری شعلوں میں بدل جائے تو ساری تربیت دھری کی دھری رہ جاتی ہے اور پوری شخصیت نفرت انگیز نعروں میں بدل جاتی ہے۔ انسان کے اندر کا حیوان ایک جست میں کود کے باہر نکل آتا ہے اور محافظ بھیڑیوں میں بدل جاتے ہیں۔ عذرا خالہ کی تربیت میں پلا حسام، اس کا بھائی اور دو دوست نفرت اور انتقام کی لپیٹ میں آتے ہیں تو وحشی جانور کا روپ دھار لیتے ہیں۔ ایسا کیسے ہوتا ہے؟ ہم جانتے ہیں، واقف ہیں اور بنگلہ دیش کے قیام کے وقت ان مناظر کے چشم دید گواہ بھی ہیں لیکن تمام امکانات کی سرگوشیاں سننے کے باوجود اس موضوع پر کسی افسانہ نگار، کسی شاعر، کسی مقرر کسی سیاست دان کو فکرمند نہیں دیکھا۔ ایک حساس لکھاری عصر سے ہی جڑا نہیں ہوتا بلکہ آنے والے زمانوں کی وہ دھمک بھی سن لیتا ہے جو زلزلہ بن کے سب کچھ تباہ و برباد کردینے کا پیغام دے رہی ہو۔ شہناز شورو ایک ایسی ہی کہانی کار ہے جو اپنے عصر سے ہی نہیں جڑی بلکہ گزرے ہوئے زمانوں کے کردار بھی سانس لیتے ہیں اس کی کہانیوں میں اور اس کی کہانیاں مستقبل کی پکار پر بھی گوش برآواز ہیں۔ کس نفاق نے آستین میں کو نسا خنجر چھپایا ہوا ہے؟ اس کی فکر لرزاں ہے، اگر وہی سب کچھ ایک بار پھر سندھی اور مہاجر کے فرق کے نام پر دہرایا گیا تو ایک نہیں سیکڑوں ہزاروں حسام جن کا چہرہ اور کردار ہم ماضی میں دیکھ چکے ہیں، ایک بار پھر گلی گلی گھر گھر نظر آئیں گے لہذا شہناز انیس سو سینتالیس کے خونی مناظر کی یاد دہانی کراتی ہے جو آج کے منظر نامے سے کیا مختلف ہو گا۔

”شہر تو یہ چھوٹا تھا اور لوگوں میں قربت بھی تھی، مگر آگ لگے اور بجھانے والا کوئی نہ ہو تو پھر آن کی آن میں چاروں اور پھیل جاتی ہے اور یہی کچھ اس شہر کے ساتھ بھی ہوا۔ مسجدوں سے چند مولویوں نے امن، امن کی اپیلیں کیں مگر بے سود۔ اصل پریشانی تو تن بدن میں آگ لگا دینے والے وحشی نعروں سے ہوئی جنہوں نے تفریق اور نفرت دونوں کو بڑھاوا دیا۔ روز ساتھ اٹھنے بیٹھنے والے ایک دوسرے سے ڈرنے لگے۔ گلیاں، چوپالیں ویران ہوئیں۔ میں کون، تو کون جیسی اجنبی فضا نے پہلے بے گانگی بڑھائی پھر خوف اور آخر میں نفرت۔ لوگوں نے گھروں میں لاٹھیاں، چھریاں، چاقو رکھنے شروع کر دیے۔ دنگے اور فسادات میں لاشوں کا ذکر عام ہونے لگا اور دیکھتے دیکھتے انتشار اور بلوے گھر گھر دستک دینے لگے۔ “ مسلمان، ہندو، سکھ سب ایک دوسرے سے اس قدر خوفزدہ کہ اپنی اپنی بیٹیوں، بہنوں اور بیویوں کا ہاتھ پکڑا اور انہیں کنویں میں پھینک دیا۔

وحشت کا دور دورہ ہے۔ عبدالغفار اچھا مسلمان ہونے کی شہرت رکھتا ہے لہذٰا گھر چھوڑنے پر مجبور لوگوں نے عبدالغفار کو صادق اور امین سمجھ کے اپنے گھروں کی چابیاں، قیمتی سامان اور زیورات اس کے پاس اپنا اپنا گھر چھوڑنے سے پہلے رکھوانے شروع کر دیے۔ ”بھائی اسے سنبھالو یہ ہماری عمر بھر کی جمع پونجی ہے۔ جو رب نے چاہا اور بچ گئے اور واپس آنے کی کوئی سبیل نکلی تو ہماری امانتیں ہمیں واپس کر دینا ورنہ تمہیں حق ہے کہ جیسے چاہو ویسے انہیں استعمال کرو۔ سب کو معلوم تھا کہ عبدالغفار کی ہمدردیاں ہر انسان سے بلا تفریق مذہب تھیں۔ ایک زمانہ سب نے ساتھ گزارا تھا۔ خوشی غمی میں شریک ہوئے تھے۔ کئی کئی نسلوں سے ایک دوسرے کو جانتے تھے۔“

اللہ اللہ! کیا منظرکشی ہے! نسلوں سے ساتھ رہنے والی محبتیں اچانک ایک دوسرے کے خون کی پیاسی ہوجاتی ہیں سو ایک بار پھر کہانی ہمارے احساس کو جھنجھوڑتی ہے۔ نفرت کا بھوت جب سروں پہ سوار ہو تو ”ہم“ کے تصور کو نگل کے صرف ”میں“ کا نشہ دھت کر دیتا ہے۔ لہذٰا عبدالغفار جیسے نیک انسان کو بھی اسی وحشت کے وحشیوں نے مجبور کر دیا۔ بھلا وہ ایسے میں کسی کے زیورات کی حفاظت کیا کرتا جب نفرت کی آگ نے اس کے ہی گھر کو چاروں طرف سے اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہو۔ لہذا اسے یہ فیصلہ کرنا پڑا کہ اپنی جوان بیوی اور دو بیٹوں کے ساتھ تیل چھڑک کے آگ لگا لے اور سب ایک ساتھ زندہ جل مریں۔ شہناز، انسان میں چھپے وحشی جانور اور اس کی وحشت کو تصویر کرتے ہوئے کہانی میں دو اور کرداروں کے چہرے دکھاتی ہے۔ تمیزالدین جو کہ انتہائی شریف، صوم و صلوٰۃ کا پابند اور محلے کا نیک ترین انسان مانا جاتا ہے اور دوسرا اس کے پڑوسی سردار جی کا۔ یہ چہرے دکھانا، یہ واقعات یاد دلانا، اس وحشت کی منظرکشی کرنا، ہماری اطمینان بھری خوش فہمی کے لئے کتنا ضروری ہے۔ شہناز شورو اس فرض سے آگاہ ہے لیکن اس جنون کو سمجھانے کے لئے وہ کہانی کے متن کو وعظ کا انداز عطا کر کے اسے اپنے معیار سے نہیں گرنے دیتی بلکہ ان وحشی مناظر کی تصاویر پینٹ کرتی ہے۔ ان کرداروں کی جن کا چہرہ تاریخ کے اوراق اور ہمارے جد کی یاد داشت میں محفوظ ہے۔ جنگیں تہذیب کے آداب، انسانیت کے حقوق، شرافت کے تقاضے، سب کھا جاتی ہیں۔ ایسا ہم نے بارہا دیکھا ہے اور جانتے ہیں کہ ایسا ہی ہو گا اگر خدانخواستہ پاکستان میں پھر ایک بار لسانی اور نسلی بنیادوں پر خون کی ہولی کھیلی گئی۔ سردار جی کا تمیزالدین سے گہرا دوستانہ ہے اور اس کی پارسائی اور ایمانداری پر سردار جی کو یقین ہے سو وہ بہت سوچ بچار کے بعد اپنے پرکھوں کی زمین چھوڑنے کا فیصلہ کرتے ہیں اور تمیزالدین سے کہتے ہیں، ”بھائی تمیزالدین یہ میرے بندھے ہاتھ دیکھ۔ گھر تو چھوڑنا ہے پر ان نکی نکی جانوں کو کیسے سنبھال پاؤں گا۔ انسان کی کھال اوڑھے بھیڑیے باہر دانت نکوسے بیٹھے ہیں، دھیوں ہہنوں کی لاج بچانا مشکل ہو گئی ہے۔ تو چاچا ہے ان کا۔ بچیاں تیرے سامنے ہی پیدا ہوئیں اور پلی بڑھی ہیں۔ بس اتنے دن ان معصوموں کو سنبھال جب تک میں کہیں کوئی آسرا، کوئی جھگی جھونپڑا کسی جگہ دیکھ لوں۔ میرا گھر بھی تیرے حوالے۔ پر جائی تیری کو اس حال میں کیسے چھوڑوں؟ اس کو کاندھے پر اٹھا کر مارا مارا پھرنا پڑے گا۔ ایک واہگرو اور دوسرا تیرا ہی آسرا ہے۔ سمجھ اپنی جان، متاع، آبرو سب تیری چوکھٹ پر چھوڑے جا رہا ہوں۔ زندہ رہا تو آؤں گا ضرور۔“ سردار جی نے اپنی تینوں بیٹیاں برسوں سے پڑوس میں رہنے والے اپنے سب سے عزیز، سب سے بھروسے والے دوست کے سپرد کیں اور پناہ کی دعائیں ورد کرتے سر نیہوڑائے نکل گئے کسی پرامن جگہ کی تلاش میں۔ خونی گلیوں میں خنجر لہراتے بھیٹریوں سے کسی طور سردار جی بچ گئے تو مہینوں بعد بھائی تمیز الدین کے در پر فقیر بن کے لہو لہو بدن لئے اپنی بیٹیاں واپس لینے پہنچے۔ نیک، پارسا، بھروسے والے عزیز ترین دوست تمیزالدین نے دو بچیاں دیتے ہوئے کہا۔ ”دیکھو، سال سے اوپر ہو گیا ہے تمہیں یہاں سے گئے ہوئے۔ ٹھیک ہے نہ۔ اپنی جان پر کھیل کر حفاظت کی ہے میں نے ان کی۔ کھلایا پلایا ہے اتنا وقت میں نے ان کو۔ تو مجھے کیا ملے گا اس کے بدلے۔ تو میں نے فیصلہ کیا ہے کہ تین کے بجائے دو دوں گا۔ ان دو کو  لے کے جانا ہے تو  لے جاؤ۔ تین کے بجائے دو ملیں گی، بات ہے صاف۔“

سردار جی مجبور تھے کیا کرتے سو دو بیٹیاں سر جھکا کے  لے لیں اور تیسری کو یرغمال رہنے دیا۔

کسی بھی فکشن نگار کے بارے میں ”بڑا“ بلکہ ”عظیم“ فکشن نگار اکثر پڑھنے کو ملتا ہے لیکن جب اس کی تخلیق کو کھنگالو تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس کے قلم کی سچائی اور توانائی کس مقام پر ہے۔ سردار جی اور تمیزالدین کے کردار لکھتے ہوئے اگر کوئی ہمارے معاشرے کا معمولی لکھاری ہوتا تو وہ ان کر داروں کے عقائد ضرور بدل دیتا اور ہوتا یہ کہ تمیزالدین سردار جی کے پاس اپنی بچیاں چھوڑتے اور سردار جی تمیزالدین کی نیت میں ڈھل جاتے۔ بھلا ہم کسی مسلمان کو اپنی کہانی میں بددیانت ہوتے کیوں دکھائیں؟ اتنا بڑا جگرا ہمارے پاس کب ہے کہ ہم اپنی نیتوں کو کھنگالیں، اپنے کردار اپنی سوچ اور اپنے عمل کی دھجیاں اڑائیں؟ یہ جگرا تو صرف شہناز شورو جیسے سچے لکھاریوں کے قلم کو ہی عطا ہوا ہے قدرت کی طرف سے۔

کہانی پہلو بدلتی ہے لاشعور میں بسے خوف کی بھنبھناہٹ نے شہناز کے قلم کی نیندیں اڑا دی ہیں۔ سندھ لسانی آگ کی لپیٹ میں ہے۔ نفرتوں کے خنجر ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہے ہیں، محبتوں والی گلیاں اور مکان نفرتوں کا زہر اگل رہے ہیں۔ جو نوجوان ایک دوسرے کے گلے میں باہیں ڈالے برسوں کے دوست تھے اب ایک دوسرے کی بہنوں پر جھپٹ کے انہیں بے عزت کر رہے ہیں۔ ”تیسری بیٹی“ یعنی تیسری نسل کی بیٹیاں اب بھی اسی وحشت کی، اسی جنون کا شکار ہیں جس نے بہتر سال پہلے مسلک کی بنیاد پران کا بدن دھجی دھجی کر کے فخر محسوس کیا تھا۔ اب پھر عذرا خالہ جیسی فرشتہ صفت کے بچے بھی بھیڑیے بن چکے ہیں۔ بیٹھک سے کسی سندھی لڑکی کی بے حواس چیخیں سنائی دے رہی ہیں۔ عذرا خالہ کے بیٹوں اور ان کے دوستوں کا اس جرم، اس بے غیرتی پر ماں کو جواب ہے۔ ”امی آپ کو معلوم ہی نہیں ہے کہ ہماری لڑکیوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے وہاں؟ کیا کر رہے ہیں یہ لوگ ہمارے ساتھ۔“

افسانے میں دو اہم نکات اس خوبصورتی سے شہناز نے سموئے ہیں کہ ایک بار پھر شہناز کی فکشن نگاری کو دل نے بے ساختہ داد دی۔ دراصل میں دو دن تک یہ سوچتی رہی تھی کہ تیسری بیٹی کا عنوان ہی کیوں مناسب لگا شہناز کو؟ میرا ماننا دراصل یہ ہے کہ ایک اچھا لکھاری کوئی عنوان نہ تو بے سبب دیتا ہے اپنی کتاب یا کہانی کو اور نہ ہی کہانی میں بے وجہ الفاظ کے انبار لگاتا ہے۔ خیر۔ تو ذہن میں اچانک روشنی کا جھماکا سا ہوا اور جواب آیا۔ تیسری نسل ہے یہ تیسری بیٹی۔ ایک بار پھر دل سے داد نکلی کہ کس طرح پوری داستان کوایک عنوان میں سمیٹ لیا ہے۔ اصل نکتہ، اصل گھبراہٹ، اصل وحشت تو یہی ہے کہ اگر کہیں تاریخ نے ایک بار پھر دہرایا خود کو تو اب ہماری تیسری نسل کو بھی بہتر سال ایک ساتھ رہنے کے باوجود ہم مسلک ہونے کے باوجود ہم وطن ہونے کے باوجود وہ سب کچھ پھر ہوبہو اسی طرح بھوگنا پڑے گا جو ہمارے جد بھوگ چکے ہیں۔ ماضی میں اور آج بھی یعنی دو نسلیں گزر جانے کے بعد بھی ایک لڑکی، ایک عورت ہی کو ننگا کر کے وحشی بھیڑیے اپنے غصے اور انتقام کا نشانہ بنائیں گے جس کا ثبوت آئے دن اخبارات میں چھپنے والی خبریں ہیں۔

شہناز شورو ایک حساس فکشن رائٹر ہیں، ان کی نگاہیں نظر نہ آنے والی وہ سرحدیں دیکھ رہی ہیں جو لسانی اور نسلی بنیادوں پر تعمیر ہو رہی ہیں۔ ان کا قلم اس خون کی بو سونگھ رہا ہے جو گلی گلی بہہ سکتا ہے، ان کا وجدان ان خنجروں کو سان لگاتے دیکھ رہا ہے جو شکل صورت، لباس، عقیدہ یا مذہب، سب ایک ہونے کے با وجود ان پر اب بھی صرف سندھی اور مہاجر کا لیبل لگا ہو گا۔ یہ معمولی نہیں بلکہ ایک بہت بڑا سوال ہے کہ کیا پھر ہمارے اندر کا وحشی انسان پلک جھپکتے انسانیت کا خول توڑ کے باہر نہیں نکل آئے گا اگر فرق و تفریق کی تاریخ نے خود کو تیسری بار بھی دہرایا تو؟ یہ صرف ایک کہانی نہیں ہے بلکہ یہ بھی ایک گرین ہاؤس افیکٹ جیسی ہی پیشن گوئی ہے جو پورے ما حول کو خونی برسات کے سیلاب میں بہا لے جا نے کی نشاندہی کر ہی ہے۔

اس کہانی کو اگر میں ایک مختلف قسم کے ماحولیاتی منظر نامہ کا سائنس فکشن کہوں تو شاید بے جا نہ ہو گا۔ کہانی کا متن جس ہمہ گیریت کا حامل ہے، عنوان نے بھی موضوع کو ویسے ہی پوری طرح اپنی گرفت میں رکھا ہے۔ تیسری بیٹی جو استعارہ ہے تیسری نسل کا۔ وہ تیسری نسل جو پہلی یا پھر دوسری نسل کے بوئے ہوئے نفرتوں کے بیج کی فصل کاٹے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments