طلاق کوچنگ جو علیحدگی کا مشکل مرحلہ لوگوں کے لیے آسان بنا رہی ہے

کیٹی بشپ - بی بی سی نیوز


طلاق
ساٹھ سالہ کیٹی کو جب معلوم ہوا کہ اُن کے شوہر کا کہیں اور چکر چل رہا ہے تو اس کے بعد کے چھ ماہ کی یادیں انھیں اب بہت دھندلی محسوس ہوتی ہیں۔ وہ طلاق کے مرحلے کی شروعات کو کسی قریبی شخص کی موت کے احساس جیسا قرار دیتی ہیں۔ اس عرصے کے دوران اُن کا کھانا اُن کے دوستوں کے گھروں سے آتا، ان کا وزن کم ہونے لگا، اور غصے کے ساتھ ساتھ ڈھیر سارے آنسو اُن کی زندگی کا حصہ بن گئے۔

برطانیہ میں رہنے والی کیٹی اپنی 35 سالہ شادی کے اختتام پر ٹوٹ چکی تھیں مگر پھر اُن کی بھانجی کی ایک دوست نے اُنھیں ایک مشورہ دیا۔

’اس نے مجھے کہا کہ اگر میں طلاق کے کوچ کا خرچہ برداشت کر سکتی ہوں تو یہ میرے لیے بے حد فائدہ مند ہو گا۔‘

کیٹی نے برسٹل میں مقیم ایک طلاق کے کوچ سے رابطہ کیا اور اب وہ اسے ’زندگی بدل دینے والا’ تجربہ قرار دیتی ہیں۔

ان کے کوچ ایک وکیل ہیں اور انھوں نے طلاق یا اپنے پارٹنر سے علیحدگی کے راستے سے منسلک جذباتی پہلوؤں پر کافی توجہ دی اور کیٹی کہتی ہیں کہ اس سے اُنھیں اپنی نئی زندگی کو ایک موقع کے طور پر دیکھنے میں مدد ملی ہے۔

اُنھوں نے اپنی شادی کی یاد دلانے والی چیزیں گھر سے نکال دیں اور دنیا گھومنے کا منصوبہ بنایا۔

‘مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں سوچتی تھی کہ یہ طلاق میری پہچان نہیں بنے گی۔ مجھے ایک سیشن یاد ہے جب کوچ نے سمندری لہروں کی بات کی۔ سمندر بہت بپھرا ہوا ہوتا ہے، لہریں اونچیں ہوتی ہیں مگر ساحل پر پہنچ کر آپ کو جو احساس ہوتا ہے وہی سب سے اہم ہوتا ہے۔‘

زندگی کے مختلف واقعات کے تناؤ کی پیمائش کرنے والے ہولمز اینڈ راہے سٹریس سکیل کے مطابق شریکِ حیات کی موت کے بعد طلاق زندگی کا سب سے زیادہ تناؤ بھرا مرحلہ ہو سکتا ہے۔

مگر اب طلاق کے کوچز کی بڑھتی ہوئی تعداد علیحدگی اختیار کرنے کے مرحلے کو نسبتاً آسان بنانے کا وعدہ کر رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اب پہلے سے زیادہ تعداد میں لوگ جوڑوں کی اور انفرادی سطح پر ایسے کوچز کی مدد لے رہے ہیں جو اُنھیں شادی ٹوٹنے کے مرحلے سے آسانی سے گزار سکیں اور طلاق کے کئی وکیل اب اپنے مؤکلین کو کوچنگ سروس کی جانب بھیجتے ہیں تاکہ وہ شادی ختم ہونے کے جذباتی، مالیاتی اور دیگر اقسام کی مشکلات سے نبرد آزما ہو سکیں۔

طلاق

طلاق کے کوچز کی مدد کون لیتا ہے؟

ٹورونٹو میں مقیم ایک طلاق کی کوچ نتالیہ خواریز کے مطابق دوسرے لوگوں کو تعلق ٹوٹنے کے دوران مدد فراہم کرنے کا فیصلہ بہت سی ذاتی وجوہات کی بنا پر تھا۔

اُنھوں نے اپنی منگنی ختم ہونے کے بعد اپنی کوچنگ سروس شروع کی اور اب وہ ویسے تو لوگوں کی انفرادی انداز میں رہنمائی کرتی ہیں مگر کبھی کبھی وہ جوڑوں کو بھی منگنیوں اور شادیوں کے خاتمے سے گزرنے میں بھی مدد دیتی ہیں۔

خواریز نامی کوچ سب سے پہلے ایک کال پر ان بنیادی مسائل کا جائزہ لیتی ہیں جن کی وجہ سے طلاق کی نوبت آ پہنچی ہے اور پھر وہ مقاصد طے کرتی ہیں۔ اس کے بعد ہفتہ وار سیشنز ہوتے ہیں۔ وہ تین ماہ کی کوچنگ کی تجویز دیتی ہیں مگر کہتی ہیں کہ ان کے تقریباً نصف کلائنٹس اس ابتدائی دور کے بعد بھی ان کی خدمات حاصل کیے رکھتے ہیں۔

وہ ایک سیشن کے کم از کم 300 ڈالر چارج کرتی ہیں جبکہ سہ ماہی کورس کے 3000 ڈالر تک وصول کر لیتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’سب سے عام وجہ جس کی وجہ سے لوگ طلاق کی کوچنگ لیتے ہیں وہ لوگوں کا جذباتی اور ذہنی بوجھ ہے۔ وہ اکثر کئی پیچیدہ جذبات سے نمٹ رہے ہوتے ہیں اور اس سب کے دوران طلاق کے معاملات بھی ایک بوجھ بن جاتے ہیں، چنانچہ وہ نہیں چاہتے کہ دوست اور خاندان ان کا واحد سہارا ہوں۔‘

طلاق کی کوچنگ کے اخراجات کا مطلب ہے کہ یہ بنیادی طور پر صاحبِ حیثیت افراد ہی حاصل کر سکتے ہیں خاص طور پر اگر یہ مدِ نظر رکھا جائے کہ طلاق کچھ لوگوں کے لیے کتنا بڑا مالی بوجھ بنتی ہے۔

سنہ 2018 میں انشورنس کمپنی اویوا نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا کہ برطانیہ میں طلاق کے عمومی اخراجات میں قانونی فیس اور اخراجاتِ زندگی کے لیے ساڑھے 14 ہزار پاؤنڈ، گھر کے کرائے کے لیے اضافی 35 ہزار پاؤنڈ یا پھر نئے گھر کی صورت میں ایک لاکھ 44 ہزار 600 پاؤنڈ شامل ہیں۔

اس کے علاوہ خواریز کہتی ہیں کہ ان کے عمومی کلائنٹس کی عمریں 30 سے 50 سال کے درمیان ہوتی ہیں اور 60 فیصد مرد ہوتے ہیں جس کی وجہ ان کے نزدیک خواتین کے لیے دوستوں اور خاندان کی طرف سے زیادہ سہارا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

’رات کو ساتھ سو جانے کو پیار نہیں کہتے، آپ بھی مرد نکلے جو عورت کو جائیداد سمجھتے ہیں‘

پانچ بیٹیوں کی پیدائش پر طلاق: ’اپنی بیٹیوں کو مجبوری کی اذیت سے نہیں گزرنے دوں گی‘

آپ کی ازدواجی زندگی مشکل میں ہو تو کیا کرنا چاہیے؟

’تم رشتہ توڑنے کی باتیں کر رہی ہو‘

ویسے تو ان کے 80 فیصد کلائنٹس ان کے پاس اکیلے آتے ہیں مگر کئی لوگ ایسے بھی ہیں جو جوڑوں کی صورت میں ان کے پاس آتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’کئی جوڑے ایک ساتھ طلاق کے کوچ کے پاس آتے ہیں کیونکہ انھیں علم ہوتا ہے کہ اُنھیں تیسرے فریق کی ضرورت ہے۔ یہ ہو سکتا ہے کہ اُن کے درمیان رابطے کا فقدان ہو، یا وہ تنازعے اور مشکل گفتگو سے گھبراتے ہوں، یا دونوں میں سے ایک شخص طلاق نہ چاہتا ہو اور اسے مشکل بنا رہا ہو۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ باہمی رضامندی سے ہونے والی طلاقوں میں بھی کئی جوڑے طلاق کی بہتر انتظام کاری کے لیے کوچ کا استعمال کرتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’طلاق کے کوچ کی مدد لے کر وہ طلاق کے دیگر مالی اور قانونی معاملات پر زیادہ توجہ دے سکتے ہیں۔‘

طلاق

طلاق کے بدلتے طور طریقے

طلاق کی کوچنگ میں اضافہ اس بات کا اہم اشارہ ہے کہ لوگ شادی ختم ہونے کے مرحلے کو حد درجہ ممکن بنانے کے لیے پیسے خرچ کرنے پر پہلے سے زیادہ آمادہ ہیں۔

ملینیئل نسل کو اکثر ’تھیراپی جنریشن‘ قرار دیا جاتا ہے، یعنی وہ نسل جو ذہنی صحت کے مسائل سے نمٹنے میں کسی ماہر کی خدمات لینے سے نہیں گھبراتی۔ یہ حیران کُن نہیں کیونکہ ملینیئل اکثر شادی کرتے ہیں اور بعد میں الگ ہو جاتے ہیں، اس لیے طلاق کی کوچنگ بھی اب پہلے سے زیادہ عام بنتی جا رہی ہے۔

نیو یارک شہر میں میڈیسن پارک سائیکولوجیکل سروسز کی بانی اور کلینیکل سائیکولوجسٹ یاسمین سعد کہتی ہیں کہ ’طلاق کی شرح میں اضافے کے ساتھ یہ عام بنتی جا رہی ہے۔ اب ہم ماہر کی خدمات حاصل کرنے میں زیادہ آسانی محسوس کرتے ہیں۔‘

’طلاق کو اب کوئی ذاتی کمزوری یا ناکامی نہیں سمجھا جاتا، جس کی وجہ سے اب ماہر کی خدمات حاصل کرنا عام بن گیا ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کہ آپ سرمایہ کاری سے قبل مالی مشورہ حاصل کریں۔ اس معاملے میں یہ نئی زندگی کی شروعات سے قبل قانونی، ذہنی اور عملی مشورہ حاصل کرنا ہے۔‘

امریکہ کی ریاست شمالی کیرولائنا میں عائلی قوانین کی وکیل اور مصنف نائیکول سوڈوما طلاق کے مرحلے سے گزر رہے کئی جوڑوں کے ساتھ کام کرتی ہیں اور اکثر اُنھیں اس سب میں آسانی کے لیے کسی طلاق کے کوچ کی مدد لینے پر راغب کرتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ایک طلاق کا کوچ آپ کو ان مسائل اور ضروری کاموں کی تشخیص اور ان پر وقت لگانے میں مدد دے سکتا ہے جو طویل مدت میں آپ کے لیے سب سے زیادہ ضروری ہوں گی۔ ساتھ ہی ساتھ وہ آپ کو ان مشکلات سے نمٹنے میں بھی مدد دے سکتا ہے جن سے آپ اس وقت گزر رہے ہوں گے۔‘

سوڈوما جیسے کئی وکلا اب اپنے کلائنٹس کو طلاق کے کوچز کی تجویز دیتے ہیں اور کچھ معاملات میں تو ان کا موزوں ماہرین سے رابطہ بھی کروا دیتے ہیں جس سے ان کی خدمات کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔

مگر طلاق کے معاملے میں تیسرے فریق کو لانے کے کچھ خطرات بھی ہیں۔ یاسمین سعد کہتی ہیں کہ ’طلاق کے کوچز کا کوئی لائسنس نہیں ہوتا اور ان کی مہارت ایک دوسرے سے کافی مختلف ہو سکتی ہیں۔ یہ بہت ضروری ہے کہ آپ اپنے کوچ کی قابلیت دیکھیں تاکہ آپ کو محفوظ ہاتھوں میں ہونے کا احساس ہو۔‘

وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ اپنی مہارت کی وجہ سے طلاق کے کچھ کوچز شاید اس جوڑے کے تعلقات پر اثرانداز ہونے والے نفسیاتی مسائل کا پتا لگانے میں ناکام رہ سکتے ہیں یا پیچیدہ قانونی مسائل سے ناواقف ہو سکتے ہیں جس سے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔

’طلاق میری پہچان نہیں بنی‘

کیٹی کا ماننا ہے کہ طلاق کے کوچ نے ان کی بعد از طلاق زندگی کا رُخ بالکل بدل دیا۔ دو سال قبل ان کی طلاق مکمل ہونے کے کچھ ہی عرصے بعد وہ ایک نئے شریکِ حیات سے ملیں۔ وہ نئے تعلق کی شروعات کے لیے اپنے خود مختار، پراعتماد اور لچکدار ہونے کا سہرا ان کوچنگ سیشنز کے سر باندھتی ہیں۔

دیگر لوگ جو طلاق کی کوچنگ حاصل کرنا چاہتے ہوں، ان کے بارے میں وہ کہتی ہیں کہ یہ مہنگا کام ہے مگر انھیں یہ فائدہ مند سرمایہ کاری محسوس ہوتی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ان سیشنز کی وجہ سے وہ اپنے مہنگے وکیل کی خدمات سے بھی بھرپور فائدہ اٹھا پائیں کیونکہ یہ سیشنز اُنھیں وکیل سے بات چیت کے لیے بھرپور تیاری کروا دیتے تھے۔

مگر وہ کہتی ہیں کہ وہ طلاق کے کوچ کی خدمات حاصل کرنے پر خوش ہیں کیونکہ اس سے ان پر بطور فرد اچھا اثر پڑا ہے۔

’آپ ٹوٹ پھوٹ کے شکار اور دکھی دل کے حامل ہو سکتے ہیں، پر جب آپ اس تبدیلی کے لیے تیار ہوں جو آپ کا حق ہے، تو کوچنگ ہی وہ مدد ہے جو آپ کو آگے بڑھنے کے لیے چاہیے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’یہ طلاق میری پہچان نہیں بنی ہے اور مجھے لگتا ہے کہ مستقبل روشن ہے۔‘

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32472 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments