جان سنو کی طرح آپ بھی کچھ بھی نہیں جانتے


آج کی میری تحریر جان سنو کے بارے میں نہیں ہے۔ نہ جان سنو، سنو وائٹ کا رشتہ دار تھا۔ سنو وائٹ کی کہانی کسی اور دن، کیونکہ جان سنو کی کہانی پریوں کی نہیں بلکہ ہماری کہانی ہے۔ جان سنو، گیم آف تھرونز ڈرامے کا ہزاروں کرداروں میں سے ایک غیر اہم کردار تھا، جو ڈرامے کے اختتام پر زندہ بچ کر سب سے اہم بن گیا تھا۔ ویسے بھی زندہ بچ جانا سب سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔

کہانی کے مطابق جان سنو پر وائلڈ لنگز یا فری فوک کی ایک خوبصورت لڑکی ایگرٹ دل و جان سے فدا ہو جاتی ہے۔ جو مسلسل کوشش کرتی ہے کہ وہ جان سنو، کے آس پاس رہے۔ وہ ہر سین میں اسے ایک مشہور جملہ بولتی رہتی ہے کہ جان سنو یو نو نتھنگ، یعنی جان سنو تم کچھ بھی نہیں جانتے۔ یہاں تک کہ اپنی جان، جان سنو، پر وارتے ہوئی بھی اس کا آخری جملہ یہی ہوتا ہے کہ جان سنو، تم کچھ بھی نہیں جانتے۔ اور یہی حالت ہماری ہے۔ ہم میں سے ہر ایک جان سنو ہے اور ہم کچھ بھی نہیں جانتے۔ آڈیو ویڈیو لیک کا جو موسم آیا ہوا ہے اور جس پر کچھ ماہرین جانتے ہوئے اور کچھ انجانے میں قوم کو گمراہ کر رہے ہیں ممکن ہے وہ بس اتنا بتا سکتے ہوں جتنا ان کے علم میں ہے، یا جتنا انہیں بتانے کا اختیار ہے کہ یہ لیک کہاں سے سے آ رہی ہیں۔

الیکٹرانک کمیونیکیشن اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں، جب ہر کسی کی جیب میں سمارٹ فون بیگ میں لیپ ٹاپ یا ٹیبلٹ پڑا ہوتا ہے، اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اس کا ڈیٹا، پیغامات، انٹرنیٹ براؤزنگ، فلمیں بینی، ذاتی فائلوں اور تصاویر کا تبادلہ اور فون پر باتیں کرنا کوئی نہیں دیکھتا یا سنتا یا جب وہ یہ سب کرتا ہے تو ان سب تک کسی اور کی رسائی نہیں ہوتی تو وہ جان سنو ہے۔ ایگرٹ بن کر کوئی جتنا بھی اسے احساس دلائے کہ تم کچھ بھی نہیں جانتے، وہ یقین نہیں کرے گا۔ کیونکہ ہم واقعی نہیں جانتے کہ ہمیں کون کون کہاں کہاں دیکھتا سنتا جانچتا اور نگرانی کرتا ہے؟

جس فون کو ہم الگ ہو کر تنہا سنتے ہیں، پاسورڈ لگا کر جس موبائل فون اور کمپیوٹر کو ہم محفوظ کرتے ہیں، وی پی این اور فائر وال کے پیچھے چپ کر ہم جو نیٹ سرفنگ کرتے ہیں، جو ذاتی پیغامات ہم ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کرتے ہیں، بنک اکاؤنٹ نمبر اور اے ٹی ایم پاسورڈ، گاڑی کے ٹریکر کو لاک ان لاک کرنے کے معلومات، الیکٹرانک سیکورٹی لاکس اور والٹ پاسورڈ، ان میں کچھ بھی کبھی بھی محفوظ نہیں ہوتا۔ بس ایک اندھا اعتماد ہے جس نے ہمیں محفوظ ہونے کا احساس دلایا ہوا ہے۔ اس لیے یہ سوچنا کہ وزیر اعظم ہاؤس کے موبائل کیسے ہیک ہوئے یا میٹنگ روم کیسے بگ ہوئے یا اتنی وی آئی پی شخصیات اور اتنے محفوظ میٹنگ کی باتیں کیسی سنی اور ریکارڈ کی گئی اس بات کا ثبوت ہے کہ جان سنو کچھ بھی نہیں جانتا۔

نادرا پاکستانیوں کی معلومات کا ایک ایسا خزانہ ہے جس کا دروازہ کھلا ہوا، کواڑ ٹیڑھے اور قبضے نکلے ہوئے جبکہ چابیاں گم ہو گئی ہیں۔ ایسی معلومات کے کتنے گاہک ہیں اور وہ اس کے لئے کتنی رقم خرچ کرنے کے لئے تیار ہیں کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا، لیکن یہ معلومات کتنی آسانی سے دستیاب ہیں، بندہ جان سنو نہ ہو تو ضرور جان سکتا ہے۔ پاکستان بھر کے بنکوں میں یہ ڈیٹا دستیاب ہے۔ نادرا کے کیاسک دفاتر میں یہ پڑا ہوا ہے۔

گاڑیاں رجسٹر کرنے والوں کی اس تک رسائی ہے تو ڈیٹا چرانے والوں کے لئے کون سا مشکل ہے جو وسائل کے مالک اور جان سنو سے زیادہ علم و ہنر رکھتے ہیں۔ نادرا کے بھاگے ہوئے ملازمین اور چرائے گئے ڈیٹا کے بارے میں خبریں ملکی اور غیر ملکی اخبارات میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ تبھی تو ڈارک ویب پر ہمارا ڈیٹا لونڈے کے مال کی طرح بکتا ہے۔

ساری دنیا میں طریقہ یہ ہے کہ کسی شہری کے فنگر پرنٹس تب ریکارڈ کیے جاتے ہیں جب وہ کسی جرم میں ملوث ہو جائے اور جج یا قانون اجازت دے۔ جبکہ پاکستان میں ہر کوئی مجرم سمجھا جاتا ہے اور ہر کسی کے فنگر پرنٹس نادرا کے غیر محفوظ ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ اب نہیں پتہ کہ یہ ہماری ضرورت ہے یا کسی اور کو محفوظ بنانے کی خاطر ہمارے حکمرانوں نے ہمیں عدم تحفظ کا شکار کیا ہوا ہے۔

سارے غیر ملکیوں کے پاس قابل اعتماد اور قابل قبول دستاویز اس کے ملک کا مہیا کیا گیا پاسپورٹ سمجھا جاتا ہے لیکن پاکستانی کے پاس بیرون ملک پاسپورٹ کے علاوہ ایک عدد نائیکوپ بھی ہوتا ہے۔ کوئی نہیں بتاتا کہ یہ کیوں ضروری ہے اور جان سنو کو بھی اس میں کوئی دلچسپی نہیں۔ جان سنو کو دلچسپی نہ بھی ہو تو سوال یہ ہے کہ نادرا ملازمین، نادرا ریکارڈ تک رسائی رکھنے والے بنک ملازمین اور نادرا کیاسک کے مالکان کی سیکورٹی کیلئرنس کتنی ہے؟ کس نے کی ہے؟ اور ان پر نگرانی رکھنے کا کیا انتظام ہے؟

جان سنو، کی کم علمی عدم دلچسپی یا محفوظ ہونے کے اعتماد کا سبب یہ بھی ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ کوئی درجن بھر خفیہ اور ظاہر ایجنسیاں اس کی حفاظت پر مامور ہیں، اور یہ سچ بھی ہے۔ لیکن گزشتہ چند سالوں سے جس طریقے سے موجود اور اکٹھا کیا گیا ڈیٹا جس مجرمانہ طریقے سے سیاسی مقاصد کے لئے عقلی طور پر دیوالیہ ایک شخص کے لئے استعمال کیا گیا اس کے بعد جان سنو کے پاس تحفظ کا احساس محض اس کا واہمہ ہے۔ عمران خان اور شیخ رشید تاریخی دھرنے کے دوران جو جو پیشگوئیاں کرتے رہے وہ ٹھوس معلومات پر مشتمل تھیں۔

جاوید ہاشمی نے پی ٹی آئی سے الگ ہو کر جو کہا وہ سو فیصد درست ثابت ہوا۔ شیخ رشید آج بھی سیاسی ولی اللہ بنکر ججوں کے فیصلوں اور ایسٹیبلشمنٹ کے مووز کے بارے دس دن پہلے درست پیشگوئیاں کرتا رہتا ہے۔ کیا کسی نے کبھی ان لیکس کی انکوائری کروائی یا اس کے بارے میں پوچھ گچھ کی ہے کہ یہ معلومات اسے کہاں سے ملتی ہیں؟ کیا کسی نے اس بات کی تردید کرنا مناسب سمجھا کہ شیخ رشید کسی بھی نمبر کے گیٹ سے کوئی تعلق نہیں رکھتا؟

ٹی وی پروگرامز اور ذاتی ویڈیوز بلاگز میں کئی ”نامی گرامی“ اینکرز ویلاگرز اور یوٹیوبرز نے کئی بار ببانگ دہل کہا کہ انہیں فائلیں اور فلمیں دکھائی جاتی تھیں اور معلومات شیئر کی جاتی تھی۔ کیا ان یوٹیوبرز اور وی لاگرز کی سیکورٹی کلیئرنس اس لیول کی تھی جس لیول کا ڈیٹا ان کے ساتھ شیئر کیا گیا تھا؟ کیا ایسا ڈیٹا اس لیول کے لوگوں کے ساتھ شیئر کرنا مناسب تھا جن کا کام صرف بولنا ہے؟ کیا یہ ضروری نہیں کہ جان سنو یہ جان لے کہ ایسا کیوں اور کس نے کیا تھا؟

جان سنو نے کئی بار عمران کو تقریروں میں یہ کہتے ہوئے سنا ہو گا کہ میں ایماندار ہوں کیونکہ آئی ایس آئی میرے فون سنتی اور ریکارڈ کرتی ہے۔ لیکن جان سنو نے کبھی نہیں جانا کہ کیا ان کو اپنا فون ریکارڈ کرنے کی اجازت عمران خان دی تھی یا عمران خان کو معلوم ہو گیا تھا کہ اس کا فون ریکارڈ ہوتا ہے اور وہ ان کو شرمندہ کرنے کے لئے ایسے بیانات دیتا تھا؟ ان بیانات کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ کیا عمران خان کسی کو اپنی تقاریر کے ذریعے پیغام دینا چاہتا تھا کہ مجھے فون نہ کریں، آئی ایس آئی میرے فون سنتی ہے؟

عمران خان کے لئے تیار کردہ سینکڑوں دنوں پر محیط دھرنے کے دوران آئی بی نے جنرل ظہیر السلام کے فون ریکارڈ کر کے وزیراعظم کو پیش کیے جس میں وہ حکومت کے خلاف دھرنے والوں کو ہدایات دے رہا تھا۔ نواز شریف نے وہ ٹیپ جنرل راحیل شریف کی موجودگی میں سنائیں۔ تو عمران خان نے حکومت ملنے کے بعد آئی بی کو مزید اڑان بھرنے سے روکنے کی خاطر لنگڑی بطخ بنا کر محدود مالی معلومات اکٹھا کرنے پر لگا دیا۔ کیونکہ ماضی میں بھی آئی بھی نے سینیٹر گل شیر کے گھر میں بینظیر کی حکومت گرانے کی خاطر منتخب حکومتی اراکین کی وفاداریاں بدلنے کے لیے بریگیڈیئر امتیاز اور میجر عامر کے خلاف کامیاب آپریشن کیا تھا۔

پاکستان میں انٹلیجنس معاملات کے ساتھ سویلین کا کوئی کام نہیں ہوتا کیونکہ زیادہ تر انٹلیجنس سویلین کے خلاف اکٹھی کی جاتی ہے خواہ سویلین عام پاکستانی ہوں غیر ملکی ہوں یا سیاستدان ہوں، اس لیے آئی بی، جو انگریز کے دور میں ایک ہیبت ناک اور کار آمد ادارہ تھا پاکستان ریلوے کی طرح بیکار کر دیا گیا۔

عمران خان ایسٹیبلشمنٹ کے جس اندرونی حلقے اور معلومات تک رسائی رکھتا تھا یہ عین ممکن ہے کہ اس نے ان معلومات کو کسی طرح کہیں پر اپنے مستقبل کی خاطر محفوظ کی ہوں جو اس کے ساتھ اچھے دنوں میں شیئر کی جاتی تھی۔ جس کو وہ اب مختلف دھمکیوں کی شکل میں گاہے بگاہے اپنی تقاریر کے دوران استعمال کرتا رہتا ہے، ورنہ ایسی کیا مجبوری ہو سکتی ہے کہ جس انداز کی وہ دھمکیاں دیتے ہوئے بار بار ریڈ لائن کراس کر جاتا ہے تو کئی دنوں کی خاموشی کے بعد بڑی غور و خوض کر کے اس کی دھمکی پر ”ناراضگی“ کا اظہار کیا جاتا ہے۔

جان سنو، اگر نہیں جانتا تو جان لیں کہ پہلے اس کی معلومات ہر کسی کے دسترس میں تھیں اب معلومات اکٹھا کرنے والوں کا ڈیٹا بھی لونڈا بازار میں پڑا ہوا بک رہا ہے۔ جان سنو، تو پہلے بھی محفوظ نہیں تھا صرف اس کا اعتماد اسے سلائے ہوئے تھا لیکن اب تو جاگنے والوں کی عزت ساکھ اور کارکردگی بھی داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ انفارمیشن کے تیز ترین ٹرانسمیشن کے موجودہ دور میں ہم اپنے بارے میں کتنا جانتے ہیں کہ کتنی حریم زادیاں اور سانتھیا رچی کہاں تک لات مار کر دروازے کھول سکتی تھیں؟

شازار جیلانی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شازار جیلانی

مصنف کا تعارف وجاہت مسعود کچھ یوں کرواتے ہیں: "الحمدللہ، خاکسار کو شازار جیلانی نام کے شخص سے تعارف نہیں۔ یہ کوئی درجہ اول کا فتنہ پرور انسان ہے جو پاکستان کے بچوں کو علم، سیاسی شعور اور سماجی آگہی جیسی برائیوں میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔ یہ شخص چاہتا ہے کہ ہمارے ہونہار بچے عبدالغفار خان، حسین شہید سہروردی، غوث بخش بزنجو اور فیض احمد فیض جیسے افراد کو اچھا سمجھنے لگیں نیز ایوب خان، یحییٰ، ضیاالحق اور مشرف جیسے محسنین قوم کی عظمت سے انکار کریں۔ پڑھنے والے گواہ رہیں، میں نے سرعام شازار جیلانی نامی شخص کے گمراہ خیالات سے لاتعلقی کا اعلان کیا"۔

syed-shazar-jilani has 127 posts and counting.See all posts by syed-shazar-jilani

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments