زندگی کی رونقوں کا شہر تھا کابل کبھی


کابل جو کبھی روشنیوں اور رونقوں کا شہر ہوا کرتا تھا لیکن کئی عشروں پر محیط دہشت گردی نے اس شہر کی رونقیں اور روشنیاں چھین لی ہیں۔ طالبان کی گزشتہ حکومت کے خاتمے کے بعد اگرچہ تباہ حال کابل میں نئی آبادکاری کے بعد رونقیں کسی حد تک بحال ہو چکی تھیں اور عام زندگی بڑی حد تک معمول پر آ چکی تھی لیکن جب سے افغانستان دوبارہ طالبان کے تسلط میں چلا گیا ہے، کابل میں دوبارہ دہشت گرد حملوں نے عام لوگوں کو خوف اور وحشت مبتلا کر دیا ہے۔ گزشتہ دن ایک تعلیمی مرکز میں خود کش حملہ میں 19 طالب علم شہید اور 27 زخمی ہو گئے ہیں۔ یہ طالب علم وہاں امتحان کی تیاری کر رہے تھے۔

معلوم نہیں دہشت گردوں کے دل کس قسم کے پتھر کے بنے ہوئے ہیں کہ وہ بے گناہ انسانوں کو بے دردی سے ہلاک کرنے میں سکون اور طمانیت محسوس کرتے ہیں۔ وہ ہسپتالوں میں بیمار بچوں، خواتین اور بزرگوں کو اپنے خود کش حملوں کا نشانہ بناتے ہیں۔ وہ مسجدوں میں اللہ کے حضور سجدہ ریز مسلمانوں کا خون بہاتے ہیں۔ وہ جنازوں میں شریک لوگوں کو مارتے ہیں۔ شادی بیاہ کے مواقع پہ معصوم انسانوں کو قیمتی جانوں سے محروم کر دیتے ہیں۔ پرہجوم مارکیٹوں میں بھی بم دھماکے کرتے ہیں۔ ایسے سفاک لوگ وحشی جانوروں سے بھی بد تر ہیں اور جو لوگ ان ظالموں کو تربیت دیتے ہیں، مذہب کے مقدس نام پر ان کی برین واشنگ کرتے ہیں اور ان کی پشت پناہی کرتے ہیں، وہ ان سے بڑھ کر وحشی، ظالم اور سفاک ہیں۔ وہ انسانیت کے نام پر بدنما داغ ہیں۔

اب تو ”امارات اسلامی افغانستان“ پر مجاہدین اور مومنین کی حکومت قائم ہو چکی ہے۔ افغانستان نے ”غلامی کی زنجیریں“ توڑ ڈالی ہیں اور وہاں ”شرعی نظام“ کا دور دورہ ہے۔ پھر امیرالمؤمنین کی سربراہی میں امارات اسلامی میں بے گناہ انسانوں کا خون کیوں بہ رہا ہے۔ پاکستان کے جو دانش ور اور صحافی پاکستان میں رہ کر افغانستان میں طالبان کا خیر مقدم کر رہے تھے اور طالبان کی ”فتح مبین“ پر شادیانے بجا رہے تھے، وہ بے گناہ انسانوں کے قتل عام پر اب خاموش کیوں ہیں؟ بے گناہ اور مظلوم افغان باشندوں کے حق میں اب کہیں سے کوئی صدا بلند نہیں ہو رہی ہے۔

ایک حکومت کا فرض سب سے پہلے اپنے شہریوں کو امن و امان، انصاف اور جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ فراہم کرنا ہوتا ہے۔ اس کے بعد اس کی اولین ذمہ داریوں میں تعلیم، صحت، روزگار اور صاف پانی کی سہولتیں فراہم کرنا شامل ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اپنے عوام کو خوف و دہشت سے پاک معمولات زندگی کا ماحول مہیا کرنا بھی حکومت کی اہم ذمہ داری ہے لیکن افسوس افغانستان میں طالبان کے ”امارات اسلامی“ میں ان انسانی سہولتوں اور آسانیوں کی بجائے عوام کی ذاتی زندگیوں میں ان کے اپنے خودساختہ مذہبی نظریات کے تحت مداخلت اور پابندیاں ان کا بنیادی منشور ہے۔

لوگوں کا لباس کیسا ہونا چاہیے، خواتین کو آمد و رفت میں کن (ان کے خود ساختہ) شرعی احکام کو مد نظر رکھنا چاہیے۔ خواتین کی ملازمتوں پر پابندی اور ان پر ثانوی اور اعلا ثانوی تعلیم کے دروازے بند کرنا، یہ سب ایسے معاملات ہیں جن کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ ان کا تعلق ایک بہتر انسانی معاشرے کی تشکیل اور عام لوگوں کو زندگی کی بنیادی ضروریات اور سہولیات کی فراہمی سے ہے۔ اور اگر کوئی ریاست خود کو ”امارات اسلامی“ کے نام سے کہلواتی ہے تو اس کی ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے۔

اسے عوام کی زندگیوں میں ہر حوالے سے آسانیاں پیدا کرنی چاہیے اور ان کے مسائل اور مشکلات ختم کرنے میں اپنی صلاحیتیں صرف کرنی چاہیے۔ طالبان کو یہ حقیقت سمجھنی ہوگی کہ مذہبی شدت پسندی اور اپنے خود ساختہ مذہبی نظریات کے تحت عوام پر پابندیاں کسی ”امارات اسلامی“ کو زیب نہیں دیتیں۔ اس وقت افغانستان جس معاشی ابتری اور افغان عوام غربت و افلاس اور بے روزگاری کے جس عذاب میں مبتلا ہیں، اس کا تقاضا یہ ہے کہ طالبان اپنی سخت گیر پالیسیوں پر نظر ثانی کریں اور عالمی سطح پر بنیادی انسانی حقوق کا جو معیار قائم ہے، اس کی پابندی کریں تاکہ دنیا ان کی حکومت کو تسلیم کرے اور امریکہ نے سات ارب ڈالر پر مشتمل افغانستان کے مرکزی بینک کے جو اثاثے منجمد کیے ہیں، وہ طالبان حکومت کے حوالے کریں تاکہ افغانستان کی بڑھتی ہوئی مشکلات اور اقتصادی مسائل میں کمی آ سکے۔ تاہم اس وقت طالبان کے لئے بہت اہم اور بنیادی مسئلہ عوام کی جان و مال کی حفاظت ہے جو نئے سرے سے شروع ہونے والے بم دھماکوں اور خود کش حملوں کی وجہ سے عوام کے معمولات زندگی کو درہم برہم کرنے اور ان میں خوف و دہشت پھیلانے کا باعث بن رہا ہے۔

کابل کی ایسی ہی ناگفتہ بہ صورت حال سے متاثر ہو کر میں نے اپنے احساسات کو چند اشعار میں سمونے کی کوشش کی ہے۔ وہ ذیل میں قارئین کی نذر ہیں۔

چشم کو تر دیکھئے اور دل کو بے کل دیکھئے
خون دل جس میں بہے اک ایسا مقتل دیکھئے

زندگی کی رونقوں کا شہر تھا کابل کبھی
رونقوں کے شہر کو اب مثل جنگل دیکھئے

ہر طرف ہے شور برپا راہ رو ہیں در بہ در
رقص وحشت اب تو ہر سو اور ہر پل دیکھئے

تیرگی کا راج ہے، اہل نظر خوار و زبوں
پھر رہا ہے ہر بشر اب بن کے پاگل، دیکھئے

وقت کے طوفان سے لو برسر پیکار ہے
تیز جھکڑ دیکھئے اور رقص مشعل دیکھئے

اب کہاں کا امن اور کیسا سکوں راہیؔ! یہاں
دیکھئے اب خوں چکاں دل اور مسلسل دیکھئے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments