نیب افسر نے کہا خان صاحب اصل میں خطرہ مریم کو ہی سمجھتے ہیں


مریم نواز نے اپنی جنگ خود لڑ کر کے تمام سیاستدانوں کو پیغام دیا ہے کہ انتقامی سیاست کا مقابلہ اشاروں سے نہیں اپنے دم پر کرتے ہیں۔ عدالتی فیصلے نے ثابت کیا مریم نواز نے 2 بار بے گناہ جیل کاٹی اور میڈیا ٹرائل برداشت کیا۔ بغیر کوئی سیاسی عہدہ رکھے تقریباً دس سال مریم نواز کو میڈیا ٹرائل کا سامنا کرنا پڑا۔ عدالتی پیشیوں کی سنچری الگ سے مکمل کی۔ کبھی والد کے ساتھ عدالتوں کے دھکے کھائے اور کبھی کیپٹن صفدر کے ساتھ پیشیاں بھگتی۔

مریم نواز کا جرم بس یہی تھا کہ وہ نواز شریف کی بیٹی ہیں اور اپنے باپ کا سہارا بنی۔ کچھ عرصہ قبل جب نیب لاہور کے آفس میں آدھی رات کو اچانک میاں نواز شریف کی طبیعت خراب ہوئی تو ان کو فوراً سروسز ہسپتال شفٹ کیا گیا، بعض ذرائع نے اس وقت دعوی کیا کہ میاں نواز شریف کو کھانے میں سلو پوائزن ملا کر دیا گیا تھا جس کی وجہ سے اچانک ان کی اتنی طبیعت خراب ہوئی۔ اس وقت مریم نواز نے فرط جذبات میں کہا تھا کہ میں نواز شریف کو مرسی نہیں بننے دوں گی۔

محمد مرسی مصر کے صدر تھے۔ جن پر مصر کے موجودہ ڈکٹیٹر صدر السیسی نے درجنوں مقدمات درج کیے تھے۔ محمد مرسی ان مقدمات میں ہر دوسرے دن عدالتوں میں پیش ہوتے۔ اچانک ایک ان کو عدالتی کٹہرے میں ہاٹ اٹیک ہوا اور وہ وہاں ہی انتقال کر گئے۔ خیر وقت گزرتا رہا حالات بدلتے رہے، وقت کے فرعون باری باری منظر سے غائب ہوتے رہے اور نواز شریف ہر گزرتے دن کے ساتھ پھر مضبوط ہوتا رہا۔ جو اختیارات اور طاقت نواز شریف سے چھینی گئی وہ آہستہ آہستہ واپس لوٹ رہی ہے۔

نواز شریف کو گزشتہ چھ سال کے دوران دو بڑے صدمات کا سامنا کرنا پڑا، پہلے نمبر پر تو ان کی بیوی کلثوم نواز کا انتقال ہو گیا جو ہر دکھ اور مشکل کی گھڑی میں نواز شریف کا سہارا بنتی تھیں۔ پرویز مشرف کے دور میں جب نواز شریف، شہباز شریف اور حسین نواز کو گرفتار کر لیا گیا تو اس وقت مسلم لیگ (ن) کو بچانے اور اپنے پورے خاندان کو بچانے کے لئے میدان میں آئی۔ اگر اس وقت کلثوم نواز باہر نہ نکلتی تو شاید آج مسلم لیگ نون کا وجود بھی نہ ہوتا۔

شاید اللہ تعالیٰ نے نواز شریف کا امتحان تو لینا ہی تھا ساتھ کلثوم نواز کو بھی ہمت دے دی کہ وہ اپنے پردے کی پرواہ کیے بغیر میدان عمل میں آ گئی۔ کلثوم نواز نے جس دور میں سیاست کے میدان میں آئی اس دور میں عورتیں بہت کم سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیتی تھیں۔ کلثوم نوازنے ہمت نہ ہاری آخر کار اپنے مقصد میں کامیاب ہوئی۔ میاں نواز شریف کو دوسرا صدمہ اپنی والدہ کے انتقال کی صورت میں ملا جو ہر وقت ان کے لیے دعائیں کرتی تھیں۔

مریم نواز نے تو اپنی والدہ سے زیادہ کڑے امتحان سامنا کیا۔ 2016 سے شروع ہونے والا کڑا احتساب مریم نواز نے ایسے فیس کیا ایسا کڑا انتقامی احتساب پاکستان کی تاریخ میں کسی خاتون سیاستدان نے بھی نہیں کیا۔ نواز شریف کو پہلے ذہنی اذیت پہنچانے کے لئے مریم نواز کو لاہور ائر پورٹ پر والد کے سامنے گرفتار کیا پھر اڈیالہ جیل میں شفٹ کرنے کے بعد نواز شریف کے سیل سے دور کر دیا تاکہ نواز شریف کو پھر ذہنی اذیت دی جائے۔

بات یہاں تک نہ رکی جیل میں بھی مریم نواز کو مختلف حربوں سے ٹارچر کیا جاتا رہا۔ مریم نواز کے ساتھ اڈیالہ جیل میں جو سلوک کیا گیا وہ ناقابل بیاں ہے۔ ماضی کی تلخ یادیں جن کو میں کریدنا نہیں چاہتا۔ پھر تیسری بار لاہور کورٹ لکھپت جیل سے نواز شریف کے سامنے دوران ملاقات نیب نے مریم نواز کو گرفتار کیا۔ کیا آپ نے پہلے کبھی ایسا سنا کہ کسی قیدی سے ملاقات کرنے والے کو بھی ایسے گرفتار کیا گیا؟ یہ سب کچھ پاکستان میں ہو چکا ہے اور مریم نواز نے بغیر عورت کارڈ استعمال کیے سب کچھ خاموشی سے برداشت کیا۔

پھر نیب آفس میں مریم نواز کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ گزشتہ روز پبلک میں مریم نواز خود بتا چکی ہیں کہ ایک رات کو ان کے کمرے میں نیب کے 14 اہلکاروں نے چھاپہ مارا۔ ایک ادارے کے 14 اہلکاروں کا ایک خاتون قیدی کے سیل میں ایسے چھاپہ مارنے کا مقصد صرف ایک ہی تھا کہ مریم نواز کو ہراساں کیا جائے۔ نیب لاہور کے زیر حراست مریم نواز سے بار بار ایک ہی سوال کیا جاتا تھا کہ وہ سیاست اور ملک چھوڑ کیوں نہیں دیتی۔ آخر کار ایک دن تنگ آ کر مریم نواز نے نیب افسر سے پوچھا میرے سیاست چھوڑنے اور ملک چھوڑنے کا فائدہ؟

نیب افسر نے چٹکی بجا کر کہا آپ کے تمام کیسز ایسے ختم اور آپ باقی زندگی سکون سے لندن جاکر گزاریں۔ مریم نواز نے کہا تو میرے والد کے مقدمات؟ نیب افسر نے کہا وہ آپ کے کیسز سے بھی پہلے ختم ہو جائیں گے۔ مریم نواز نے کہا میں تو ایک معمولی سی کارکن ہوں میرے پارٹی اور ملک چھوڑنے پر اصرار کیوں کیا جا رہا ہے؟ نیب افسر نے کہا خان صاحب اصل میں خطرہ آپ کو ہی سمجھتے ہیں۔ میاں صاحب وزیر اعظم اب بن نہیں سکتے اور سب سے مقبول لیڈر آپ ہی ہیں۔

میری مانیں آپ سیاست چھوڑیں اور میاں صاحب کو لے کر لندن چلیں جائیں باقی زندگی سکون سے گزاریں۔ مریم نواز نے کہا اگر میں انکار کردوں تو ؟ نیب افسر نے کہا پھر باقی عمر جیل میں گزاریں گی۔ مریم نواز نے کہا پھر میری طرف سے انکار ہے۔ آج مریم نواز سیاسی آزمائش میں سرخرو ہو چکی ہیں۔ یہ سب باتیں پڑھنے میں بہت آسان لگ رہی ہوں گی لیکن جن حالات کا مریم نواز نے مقابلہ کیا وہ خود ہی شاید کبھی اپنی آب بیتی لکھیں گئیں تو بیان کر سکتی ہیں۔ نواز شریف اور مریم نواز کی سیاست ختم کرنے والے آج کہاں ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments