اغوا برائے تاوان: پولیس نے برطانوی نژاد پاکستانی باپ بیٹے کو بے رحم ’پٹھان گروپ‘ کے چنگل سے کیسے چھڑایا؟

محمد زبیر خان - صحافی


Getty Images

صوبہ پنجاب کے ضلع خوشاب کی پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ تین ہفتے قبل اغوا برائے تاوان کی واردات میں اغوا ہونے والے برطانوی شہریت کے حامل پاکستانی باپ (اسلم) اور بیٹے (عمیر) کو باحفاظت تاوان کی ادائیگی کیے بنا ہی بازیاب کروا لیا گیا ہے۔

(ان باپ بیٹے کی خواہش کے پیشِ نظر ان کی شناخت ظاہر نہیں کی جا رہی اور فرضی نام ’اسلم اور عمیر‘ استعمال کیے گئے ہیں)۔

پولیس کے مطابق تمام ملزمان کا تعلق صوبہ خیبر پختونخوا کے اضلاع مردان اور صوابی سے ہے۔ ملزمان نے مغویوں کی رہائی کے بدلے 35 کروڑ روپیہ تاوان طلب کیا تھا۔

سرگودھا پولیس کے پی آر او اظہر اکرم نے دونوں مغویوں کی باحفاظت بازیابی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ مغویوں کی باحفاظت بازیابی کو یقینی بنانے کے لیے خوشاب پولیس کے ڈی پی او اسد الرحمن نے حساس آپریشن کی خود نگرانی کی تھی۔

اغوا کا واقعہ کب اور کیسے ہوا؟

خوشاب کے تھانہ جوہر آباد میں 28 اگست کو درج مقدمہ میں کہا گیا کہ ’70 سالہ والد اپنے لے پالک 16 سالہ بیٹے کو اپنی کار پر جوہر آباد کے سکول میں چھوڑنے جا رہے تھے کہ راستے میں نامعلوم ملزماں نے دونوں کو روک کر اغوا کر لیا اور ان کی کار کو روڈ کنارے کھڑا کرکے فرار ہو گئے۔‘

تھانہ جوہر آباد پولیس کے ایس ایچ او کامران بخت کے مطابق ’اغوا کی واردات ہی بتانے کے لیے کافی تھی کہ یہ اغوا برائے تاوان کا وقوعہ ہے اور اس واردات کے پیچھے کوئی عام ملزمان نہیں بلکہ منظم گروپ لگ رہا تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’واردات سے ہمیں یہ سمجھ آرہی تھی کہ ملزمان نے مغویوں کی باقاعدہ ریکی کرکے ان کی نقل و حرکت کے بارے میں تمام معلومات اکھٹی کر رکھی تھیں۔‘

کامران بخت کے مطابق بظاہر ملزمان نے کوئی ثبوت نہیں چھوڑا تھا۔ واردات انتہائی مہارت اور پھرتی سے کی گئی تھی۔

وقوعہ کی اطلاع ملتے ہی تمام علاقے کی ناکہ بندی کروائی گئی مگر ملزماں پہلے ہی فرار ہو چکے تھے۔

تین ہفتے بعد مغوی بر آمد

کامران بخت بتاتے ہیں کہ ملزمان نے مغوی افراد کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کر رکھی تھیں۔

’انھیں یہ بھی پتا تھا کہ یہ برطانوی شہری ہیں جو پاکستان اور برطانیہ میں مشترکہ رہائش رکھتے ہیں۔ کبھی برطانیہ چلے جاتے ہیں اور کبھی اپنی ضرورت کے مطابق پاکستان میں رہائش رکھتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ملزمان کو یہ بھی پتا تھا کہ ’اسلم اور عمیر مئی کے ماہ میں برطانیہ سے واپس آئے تھے۔ وہ کیا کام کرتے ہیں اور ان کی کیا مصروفیت ہے اور ان کے اہل خانہ میں کون کون شامل ہے۔ ‘

ان کا کہنا تھا کہ اس واردات نے علاقے میں خوف و ہراس پیدا کر دیا تھا۔ ’چھوٹے سے علاقے میں ہر طرف اس اغوا کے چرچے تھے۔ ملزمان نے اغوا کے بعد ہی سے افغانستان کی موبائل سم سے کالیں کر کے مغویوں کے اہل خانہ سے 35 کروڑ روپیہ مانگ لیا تھا۔‘

کامران بخت کے مطابق ’اغوا کے پہلے 10 دن تک تو وہ افغانستان کی سم استعمال کرتے رہے تھے پھر اس کے بعد انھوں نے مغویوں کی سم کو استعمال کرنا شروع کر دیا تھا۔‘

’شاطر ملزمان اس سلسلے میں بھی بہت احتیاط سے کام کرتے تھے۔ اپنے ٹھکانے اور جہاں پر انھوں نے مغویوں کو رکھا ہوا تھا وہاں سے کم از کم 100 کلو میٹر دور جگہ تبدیل کر کے کال کرتے تھے اور کال کرنے کے بعد فون بند کر دیتے۔‘

یہ بھی پڑھیے

لاہور میں اغوا برائے تاوان کی واردات: ’بینکوں سے ادھار لیں یا بچے بیچیں، دس کروڑ چاہییں‘

لاہور میں اغوا ہونے والی لڑکی کو حاضر دماغی اور ٹیکنالوجی نے کیسے بچایا

اغوا برائے تاوان کی واردات جس میں پیسہ نہیں بٹ کوائن وصول کیا گیا

کامران بخت کہتے ہیں کہ ’اہل خانہ نے پولیس کی ہدایت پر پیسے کم کروانے کی کوشش کی مگر ملزماں انتہائی شاطر تھے انھوں نے اہل خانہ کو شدید ڈرایا اور دھمکانا شروع کردیا تھا۔ ملزماں نے اہل خانہ کے ساتھ نفیساتی کھیل شروع کردیا تھا۔ ملزماں ہر صورت چاہتے تھے کہ پیسے جلد از جلد وصول ہوجائیں مگر پولیس نے یہ ممکن بنایا کہ معاملہ کچھ تاخیر کا شکار ہو اور ملزمان تک پہنچا جائے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس کے لیے موقع پر لگے ہوئے سی ٹی وی کیمروں کا مکمل ڈیٹا اکھٹا کیا گیا۔ موقع کی ایک سے زائد وڈیوز دستیاب ہوئی تھیں۔ ان کی مدد سے ملزماں کے خاکے تیار کیے گے۔ ان خاکوں کی مدد سے جب ہم نے خارجی راستوں میں لگے کیمروں کی چھان بین کی تو پتا چل گیا کہ ملزماں خیبر پختونخو گئے ہیں۔

کامران بخت کہتے ہیں کہ اس کے ساتھ ساتھ جیو فینسگ کروائی گئی۔ ’ابتدائی طور پر اس جیو فینسگ میں پانچ لاکھ لوگوں کا ڈیٹا نکلا۔ اس ڈیٹا کی چھان بین کی گئی تو اس میں پانچ ہزار خیبر پختونخوا کے لوگوں کا ڈیٹا تھا۔ ہمیں پتا چل گیا تھا کہ ملزماں خیبر پختونخوا گئے ہیں۔ اس لیے اس ڈیٹا کی چھان بین شروع کردی گئی تھی۔‘

Getty Images

ملزماں صوابی،مردان اور نوشہرہ کے قریب سفر کرتے تھے

کامران بخت کہتے ہیں کہ پولیس کے تفیش کاروں نے ڈیٹا کی تفتیش شروع کر دی تھی لیکن ’یہ آسان کام نہیں تھا۔ کسی بھی ڈیٹا کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا تھا تاہم ایک نمبر کا جب کال ریکارڈ حاصل کیا گیا تو یہ کالیں اس ہی مقام پر تھیں جہاں پر واردات ہوئی تھی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے فی الفور اس نمبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرکے اس کی مکمل نگرانی شروع کر دی تھی۔ اس کے لیے پولیس کے اعلیٰ افسران اور کے پی پولیس کے علاوہ خفیہ اداروں کی مدد حاصل کر کے ان تک پہچنا ممکن بنایا تھا۔

ہمارے پاس سی ٹی وی میں موجود ڈیٹا بھی نشان دہی کر رہا تھا کہ ’ہمارا مطلوبہ ملزم یہ ہی ہے‘۔

کامران بخت کا کہنا تھا کہ جس نمبر کی مکمل نگرانی شروع کر دی گئی تھی وہ نمبر صوابی، مردان اور نوشہرہ کے قریب لگاتار سفر کرتا رہتا تھا۔

’مگر اب ہمارا کام آسان ہو چکا تھا۔ ملزماں ہماری نظروں میں آ گئے تھے، ہم نے ایک ایک کر کے تمام ملزماں کی شناخت کر لی تھی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ جب ہم نے تمام ملزماں کی شناخت کرلی تو پھر ہمارے لیے اس ٹھکانے، جہاں پر مغویوں کو رکھا گیا تھا، تک پہنچنا بھی مشکل نہیں رہا تھا۔

خوشاب پولیس نے ڈی پی او کی نگرانی میں کے پی پولیس کی مدد سے آپریشن کرتے ہوئے مغویوں کو باحفاظت بر آمد کروا لیا۔

’ملزماں بھی تقریباً ہماری گرفت میں ہیں۔ وہ کے پی کے مختلف ٹھکانوں پر موجود ہیں جہاں پر ان کی سخت ترین نگرانی ہو رہی ہے۔ ان کے پاس فرار کا کوئی موقع نہی ہے اور انھیں کسی بھی وقت گرفتار کیا جاسکتا ہے۔‘

اغوا

ملزمان کون ہیں؟

خوشاب پولیس کے مطابق ملزمان کو ’پٹھان گروپ‘ کا نام سے پکارا جاتا ہے جن کا تعلق صوابی، مردان، خیبر اور نوشہرہ سے ہے۔ اس گروپ کے کچھ لوگوں کو اغوا برائے تاوان کی واردات میں سزائیں بھی ہوئی ہیں۔ ایک ملزم کے بہت ہی قریبی عزیز کو سزائے موت بھی ہو چکی ہے۔

خوشاب پولیس کے مطابق ’ہماری اور کے پی پولیس کی ملزماں کے بارے میں ابتدائی تفتیش میں انکشاف ہوا ہے کہ ان ملزماں پر صرف صوابی میں اغوا برائے تاوان کے تین مقدمات درج ہیں جن میں یہ مطلوب ہیں۔‘

خوشاب پولیس کے مطابق ’صرف صوابی میں تھوڑے عرصے میں اغوا برائے تاوان کے 288 مقدمات درج ہوئے ہیں۔ اس گروپ کے ارکان ضلع خیبر تک پھیلے ہوئے ہیں اور ملزمان انتہائی بے رحم اور سفاک ہیں جو مغویوں پر بے رحمانہ تشدد کرنا حق سمجھتے ہیں۔‘

Getty Images

’بے رحمانہ سلوک اور تشدد کا نشانہ بنتے رہے‘

اسلم نی بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’جب اغوا کی واردات ہوئی تو ہمیں کچھ سمجھ ہی نہیں آیا۔ لمحوں میں مسلح لوگوں نے ہمیں کار سے اتارا، آنکھوں پر پٹی باندھی ساتھ میں تشدد کرتے اور قتل کی دھمکیاں دیتے ہوئے اپنی گاڑی میں لے گئے۔‘

’ہمیں نہیں پتا کہ وہ ہمیں کس گاڑی میں لے کر گئے تھے اور کہاں پر رکھا تھا۔ ہم لوگ کم از کم کئی گھنٹے کبھی زیادہ اور کبھی کم سپیڈ پر سفر کرتے رہے تھے۔ ہمیں کسی ایک مقام پر نہیں رکھا گیا بلکہ ہماری جگہ بار بار تبدیل کی جاتی تھی اور جس گھر یا کمرے میں رکھتے تھے وہ انتہائی گندا اور بدبو دار ہوتا تھا۔‘

اسلم کے مطابق ’وہ ہماری ویڈیو بناتے اور کہتے کہ ان وڈیوز میں اپنے اہل خانہ کو بتائیں کہ وہ ہمیں فی الفور پیسے دیں جتنے ہم مانگ رہے ہیں ورنہ قتل کر دیں گے۔ ہم نے اتنے دونوں میں ان لوگوں میں رحم نام کی کوئی چیز نہیں دیکھی، کھانا بھی ایسے دیتے تھے جیسے کہ ہم ان پر بدترین بوجھ ہوں۔‘

’تشدد مار پیٹ بھی چلتا رہتا تھا۔ اکثر اوقات تو رات کو بھی سونے نہیں دیتے تھے جب رات کو سونے نہیں دیتے تو اس کا مطلب ہوتا تھا کہ ٹھکانہ تبدیل کرنا ہے۔ ہمارے پاس کبھی ایک اور کبھی دو لوگ ہوتے تھے۔ یہ لوگ بھی تبدیل ہوتے رہتے تھے۔ اور وہ ہمیشہ پشتو میں بات کرتے تھے۔‘

ان کا کہنا تھا ’ان کے چنگل سے رہائی کے بعد ایسے محسوس ہورہا ہے کہ ہم دوبارہ زندگی کی طرف لوٹ آئے ہے۔ خدا دشمن کو بھی ایسے دن نہ دکھائے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32287 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments