چین میں کلوننگ سے برفانی بھیڑیے کی تخلیق


پچھلے ہفتے چین کی ایک کمپنی سائنو جین نے معدومیت سے دوچار آرکٹک بھیڑیے کو تخلیق کا اعلان کر کے انسانی تاریخ کا ایک نیا باب رقم کر لیا۔ بھیڑیے کی تخم ریزی کے لئے بیگل نسل کے کتے کو متبادل ماں کا درجہ دیا گیا اس عمل کو کلوننگ کہتے ہیں۔

کلوننگ کیا ہے؟

کلوننگ قدرتی بھی ہو سکتی ہے جیسے ہم شکل جڑواں بچوں کی پیدائش۔ مختلف بیکٹیریا ایک دوسرے کو کاپی کر کے کلون کالونیاں بنا لیتے ہیں جبکہ ہمارے آبا و اجداد ہزاروں سال سے پودوں کی شاخیں ایک دوسرے میں لگا کر سبزیوں اور پھلوں کی مختلف نسلیں وجود میں لاتے رہے ہیں لیکن باقاعدہ طور پر سائنسی انداز میں حیوانی کلوننگ کرنے کی تاریخ ذرا نئی ہے۔

خلیے، مرکزہ، ڈی این اے

میٹرک تک بیالوجی پڑھنے والے بچوں کو یہ بات سمجھا دی جاتی ہے کہ کسی بھی حیوانی یا نباتاتی جسم کا آخری یونٹ خلیہ یا سیل ہوتا ہے۔ خلیے کا ایک مرکزہ یعنی نیوکلیئس ہوتا ہے جسے ہم دماغ، دل، جگر سب کچھ کہہ سکتے ہیں لیکن اس کی سب سے اہم ذمہ داری اس پوشیدہ نقشے کی حفاظت کرنا ہوتا ہے جس میں اس حیوانی یا نباتاتی حیات کی ہزاروں لاکھوں سال کی تاریخ چھپی ہوئی ہوتی ہے۔ اس نقشے کی بالکل خالص شکل ڈی این اے کہلاتی ہے۔ مخصوص حافظہ رکھنے والے ڈی این اے کے گھنگریالے چھلے کو جینز کہا جاتا ہے۔ ان کا مسکن خلیے کا مرکزہ ہوتا ہے۔

کلوننگ کی اقسام

کلوننگ دو طرح سے کی جا سکتی ہے۔ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ مردانہ نطفہ اور زنانہ بیضہ کے ملاپ سے جیسے ہی حیات یعنی جنین کا ظہور ہو اس کے دو یا اس سے زیادہ ٹکڑے کر لیے جائیں اور انہیں ماں کے رحم میں واپس رکھ دیا جائے۔ یوں اس جاندار کے دو یا اس سے زیادہ بچے حاصل کرلئے جاتے ہیں دوسرے طریقہ میں جانور کے تولیدی خلیوں کو چھوڑ کر کسی بھی جسمانی خلیہ کا مرکزہ الگ کر لیا جاتا ہے اور پھر اس مرکزہ کو کسی دوسرے جانور کے انڈے میں رکھ لیا جاتا ہے جس کا مرکزہ نکال لیا گیا ہو۔ اس انڈے کو ٹیسٹ ٹیوب میں جنین بننے دیا جاتا ہے پھر اسے ایک مادہ جانور کے رحم میں کاشت کر دیا جاتا ہے۔ مقررہ مدت کے بعد وہ مادہ جانور ایک ایسے بچے کو جنم دیتی ہے جس کی جینیاتی بناوٹ اس جاندار کا عکاس ہوتا ہے جس سے جسمانی خلیہ حاصل کیا گیا تھا۔

کلوننگ اور ٹیسٹ ٹیوب بے بی میں فرق

ٹیسٹ ٹیوب بے بی یا لیبارٹری میں بار آوری کے دوران بیضہ اور نطفہ کا ملاپ کرایا جاتا ہے اور تین چار دن بعد ان جنین کو ماں کے رحم میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔ یہ بالکل فطری استقرار حمل کی طرح ہوتا ہے۔

امریکہ میں پیدا ہونے والے ایک سے دو فیصد بچے ٹیسٹ ٹیوب کی برکت سے ہوتے ہیں جبکہ برطانیہ میں یہ شرح تین فیصد ہے۔

اب تک کون سے جانور کلون کیے جا چکے ہیں۔

پچھلے پچاس برسوں میں کئی قسم کے جانور کلون کیے جا چکے ہیں۔ اس شعبہ میں سب سے بڑا کارنامہ سکاٹ لینڈ میں 1996 ء میں ڈولی نامی بھیڑ کی تخلیق تھا جس کے لئے جسمانی خلیہ ایک بالغ بھیڑ کے تھن سے لیا گیا تھا۔ اس کے دو سال بعد جاپان میں ماہرین نے ایک گائے کے آٹھ بچھڑے تخلیق کیے جن میں سے چار ہی زندہ بچ سکے۔ پالتو جانوروں کو کلوننگ سے ”دوبارہ زندہ“ کرنے کی پوری ایک صنعت وجود میں آ چکی ہے۔ اس سلسلہ میں 2001 ء میں پہلی مرتبہ ایک پالتو بلی کی کاپی کیٹ تیار کی گئی۔

اب بے تحاشا امیر افراد کو یہ سہولت میسر ہے کہ وہ اپنے چہیتے کے جسمانی خلیے اس کی زندگی میں محفوظ کرالیں اور جب وہ جہان فانی سے کوچ کر جائیں تو جینیاتی کمپنیوں سے رابطہ کر کے ان کے جینیاتی جڑواں ترشوالیں۔ اس طرح آرڈر پر بنائے گئے گھوڑے پر اسی ہزار ڈالر جبکہ کتے پر پچاس ہزار ڈالر اور بلی پر پینتیس چالیس ہزار خرچہ آ جاتا ہے۔ پاکستانی روپوں میں یہ کتنے بن جاتے ہیں اس کے لئے آپ آج ڈالر کا نرخ دیکھ لیجیے۔ دو کمپنیوں نے اس میدان میں بڑا نام کمایا ہے۔ ایک تو ٹیکساس امریکہ میں واقع وایاجین جس نے 2001 ء میں کاپی کیٹ بنائی تھی اور دوسری چینی کمپنی سائنوجین جس نے برفانی بھیڑیے کو تخلیق کیا ہے۔ اس کے دفاتر امریکہ سمیت کئی ممالک میں موجود ہیں۔

کلوننگ کس طرح مددگار ثابت ہو سکتی ہے؟

ہم ان جانوروں کی کاپیاں بنا سکتے ہیں جو طب یا زراعت میں اہمیت رکھتے ہیں۔ ڈولی کی خالق کمپنی نے ایک بھیڑ تخلیق کی تھی جس کے دودھ میں خون جمانے والے ایسے پروٹین شامل تھے جو ان لوگوں کے لئے کافی مفید ہو سکتے تھے جن میں اس پروٹین کا پیدائشی فقدان تھا۔

کلون شدہ جانور ان ادویات کی آزمائش کے لئے بالخصوص کارآمد ہوتے ہیں جن کے اثرات یکساں جینیاتی بناوٹ رکھنے والے جانداروں میں دیکھنا مقصود ہو۔

2008 ء میں امریکہ کے غذا اور ادویات کی انتظامیہ ایف ڈی اے نے کلون شدہ جانوروں کے دودھ اور گوشت کو انسانی تصرف کے لئے محفوظ قرار دیا۔ یاد رہے کہ کلوننگ ایک انتہائی مہنگا عمل ہے۔ کثرت سے اور سال کے بارہ مہینے دستیاب گوشت، دودھ، سبزیاں اور پھل کلون نہیں بلکہ جینیاتی ترمیم یا جینیٹک انجینئرنگ کا فیضان ہیں۔

کلوننگ کے نقصانات کیا ہیں؟

کلون بھیڑ ڈولی کی تخلیق کے دوران 276 کاوشیں اسی طرح ناکام ہوئیں جیسے حمل ضائع ہوجاتا ہے۔ ڈولی اپنی زندگی کی فقط چھ بہاریں دیکھ سکی جو بھیڑ کی اوسط زندگی کا بس نصف ہی تھی۔ لیکن یہ بھی یاد رہے کہ کاپی کیٹ نے نا صرف انیس برس کی ہنگامہ خیز زندگی گزاری جس کے دوران اس کی گود بھی ہری ہوئی۔

ان کلون شدہ جانوروں میں قوت مدافعت کی کمی ہوتی ہے، ان کے اعضائے رئیسہ جگر، دل، دماغ وغیرہ میں نقائص کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ یہ جلد بوڑھے ہو جاتے ہیں اور قبل از وقت خالق حقیقی سے جا ملتے ہیں۔

ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ ضروری نہیں ہوتا کہ من پسند پالتو جانوروں کی کاپیاں شکل و صورت اور عادات میں اپنے آنجہانی والدین کے ہوبہو ہوں۔

معالجاتی یا تھیراپیوٹک کلوننگ

اس میں کلوننگ کر کے ڈی این اے سے جنینی مادہ اخذ کیا جاتا ہے تاکہ سٹیم سیل کشید کر کے مختلف شدید قسم کی بیماریوں میں استعمال کیا جا سکے۔

کلوننگ اور اخلاقی سوالات

کلوننگ اور اخلاقیات پر ایک لاکھ جائز اعتراضات اٹھائے جا سکتے ہیں اور اٹھائے جانے چاہییں لیکن وہ اس مضمون کا موضوع نہیں۔ ہمارے لئے یہ جاننا بہت اہم ہے کہ جہاں ہمارے انتہائی اعلی تعلیم یافتہ احباب کی اکثریت کا شعور غیر سائنسی اور ماضی پرستانہ افکار کی مکمل گرفت میں ہے وہیں متجسس اور محقق انسان مسلسل اپنی قوت تخیل سے امکانات کی سرحدیں توڑتے ہوئے ناممکن کو ممکن بناتے جا رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments