کراچی میں لوٹ مار عروج پر، اسٹریٹ کرائم میں خطرناک اضافہ


چوبیس ستمبر کو ایک دوست نے بتایا کہ اس کے گھر کے قریب دو ڈاکو موٹر سائیکل سوار آئے اور ہمارے محلے کے لڑکے سے موبائل وغیرہ دینے کو کہا اس نے مزاحمت کی اس کے سر میں گولیاں مار کر قتل کر دیا۔ ان کے گھر والدین غم سے نڈھال ہو گئے اس بھائی کی دکھ بھری کہانی سن کر رات کو سو نہ سکا اور رات بھر یہ ہی سوچتا رہا کہ آخر یہ بھی کسی کی اولاد ہیں کیا والدین بھی ان کے ساتھ ملے ہوئے ہوتے ہیں کیا یہ اتنے فرعون بن جاتے ہیں کہ مادی چیزوں کے لیے ماؤں کے لخت جگر چھین کر پتہ نہیں کتنے گھروں کو برباد کرتے ہیں۔ کتنے بچوں کو یتیم اور ماؤں بہنوں کو بیوہ کرتے ہیں۔ آخر ان کی گرفت کب ممکن ہو گی۔ بس انہی سوچوں میں گم تھا کہ اگلے دن میرے اپنے ساتھ ہاتھ ہو گیا۔

25 ستمبر بروز اتوار کراچی کے معروف لکھاری پروفیسر جناب عثمان عامر کی عیادت کے لیے گئے۔ میرے ساتھ ایم فل اسکالر پروفیسر محمد یونس، نامزد وائس چیئرمین جنید عظیم، اور مشہور و معروف محقق محمد اویس تھے۔ جناب عثمان عامر کی عیادت کی۔ صدر اسلامک رائیٹرز صوبہ سندھ محمد سلیم سواتی، اور اسلامک رائیٹرز کی مرکزی قیادت کی طرف سے نیک تمناؤں کا پیغام پہنچانے کے بعد میرے باقی ہمسفر گاڑی لے کر خراماں خراماں بلدیہ ٹاؤن کی طرف روانہ ہو گئے۔

میں پاپوش نگر قبرستان کے سامنے والے سٹاپ (عبد اللہ کالج، اسٹیٹ بینک آف پاکستان) کی دیوار کے ساتھ سٹاپ پر جا کر کھڑا ہی ہوا تھا اپنا موبائل نکالا اور آن لائن گاڑی کی ایپلیکیشن کھول کر زوم کر رہا تھا کہ گاڑی کتنی قریب ہے۔ جھٹ مار کر موبائل فون کسی نے ہاتھ سے چھین لیا پہلے تو میں نے یہ سمجھا کہ شاید کوئی دوست ہو، لیکن جب اوپر دیکھا تو دو لڑکے بائیک پر فرار ہو چکے تھے۔ بس پھر میں تکتا رہ گیا۔ شام کا وقت تھا میں تو تھا ہی پیدل، لیکن کسی موٹر سائیکل گاڑی والے کی ہمت نہیں ہوئی کہ ان کو روکیں یا کوشش کریں۔

کراچی میں بڑے بڑے واقعات دیکھے سنے تھے لیکن میرے ساتھ پہلا ناخوشگوار واقعہ ہوا تھا۔ دوسروں کا درد پہلے بھی محسوس کرتے تھے، اور اس پر پہلے بھی کئی دفعہ اپنی تحریروں کے ذریعے حکومت وقت سے جرائم پیشہ افراد کو کنٹرول کرنے کی حکمت عملی بنانے، جدید ٹیکنالوجی سے گرفتاری کر کے ناقابل ضمانت وارنٹ اور سزائیں تجویز کی ہیں۔ لیکن سمجھ نہیں آتی کہ پولیس افسر نجی محفلوں اور بڑے بڑے ہوٹلز میں تقریبات میں سیلفیاں لینے میں مشغول ہیں، پولیس کی آدھی فوج بڑے بڑے وڈیروں، کھلاڑیوں اور وزیروں کے پروٹوکول کے ساتھ گھوم رہے ہوتے ہیں

رینجرز اسپیشل الاؤنس کے ساتھ شہر میں موجود ہے بڑے بڑے چوک چوراہوں میں ناکے لگائے ہوتے ہیں اور دو سپاہی چیک کرتے ہیں ایک ویڈیو بنا کر حکام بالا کو بھیج کر اپنی ڈیوٹی چمکا کر اپنی شفٹ مکمل کر کے دوسری شفٹ کو بھیج رہے ہیں۔ تمام اداروں کو ایک پیج پر اکٹھا کر کے جرائم پیشہ افراد کو گرفتار کرنا یقیناً صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ سب کنٹرول رومز کے ڈیٹا کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرنے میں ناکام نظر آ رہے ہیں۔ ایک دفعہ تو یہاں تک بھی کہہ دیا کہ پولیس ہمارے کنٹرول میں نہیں ہے تو بھائی پھر کس کے کنٹرول میں ہے؟

شہر قائد میں سٹریٹ کرائم کی وارداتیں نئی بات بھی نہیں، یہ جرائم ہمیشہ اس شہر کے لئے خوف کی علامت رہے ہیں۔ ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، اغواء برائے تاوان اور دیگر سنگین جرائم کے ساتھ ساتھ سٹریٹ کرائم بھی ایک ایسا جن ہے جو بے قابو ہو چکا ہے۔ شہر کے 7 اضلاع میں ایک ہزار سے زائد بڑے منشیات فروش اور جرائم کے مافیاز سرگرم ہیں۔ چند دن پہلے عبد اللہ شہزاد نامی ایک لڑکے نے بتایا کہ وہ اور اس کے چچا کورنگی سے ڈیفینس کی طرف آ رہے تھے کہ راستے میں تین سے چار ڈاکوؤں نے بائیک کو روکا ہمیں ہماری بائیک لے کر فرار ہو گئے مزید بتاتے ہوئے کہا کہ میرے چچا نے کہا کہ کل بائیک مل جائے گی میں نے بندے پہچان لیے اگلے دن وہ بائیک لے آئے۔ میں نے سوال کیا کہ آپ نے پھر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کیوں نہیں بتایا تو ان کے جوابات سے پتہ چلا کہ وہ بھی کوئی مافیا ہے جنہوں نے یہاں تک دھمکی دی کہ اگر کسی کو بتایا تو پھر تمھاری ڈیڈ باڈی ملے گی۔

ایسے مافیاز کی اور کئی کہانیاں ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ان میں شامل ہونے والے نئے لڑکے ان کو ڈھونڈ لیتے ہیں قانون نافذ کرنے والے ادارے اور پولیس ان مافیاز کو کیوں نہیں ڈھونڈ نکال سکتی۔ اور یہ کہانی صرف کراچی کی نہیں بلکہ باقی شہروں میں بھی اس سے ملتے جلتے حالات ہیں۔ یہ ناسور ایک قومی مسئلہ بنتا جا رہا ہے، جس کی کئی وجوہات ہیں جو انشاءاللہ تعالیٰ ایک اور تحریر میں اجاگر کرنے کی کوشش کروں گا لیکن جس طرح ملک کے معاشی و سیاسی مسائل اہم ہے، وہیں اس مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا بھی اہم ہے۔

دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں دیکھیں انتخابی منشور میں ہمیشہ نوجوانوں کی تعمیر و ترقی کے حوالے سے واضح پالیسیاں موجود ہوتی ہیں اور انھیں مجرمانہ سرگرمیوں سے دور رکھنا، اور خوشحال سرگرمیوں کے مواقع فراہم کرنے کے وعدے کیے جاتے ہیں، جو پورے بھی ہوتے ہیں۔ لہذا ہمارے حکمرانوں کو بھی نوجوانوں کی طرف ہنگامی بنیادوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ورنہ ہم اسٹریٹ کرائم کے بحران کو کبھی حل نہیں کر پائیں گے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments