فانی دنیا سے لڑتے ہم


بچپن میں بڑوں کو دیکھ کر ہمیشہ یہ خلش رہتی تھی کہ ہم چھوٹے کیوں ہیں؟ اور بڑے کب ہوں گے؟ اردو کے قاعدہ میں الف سے شروع کیا تو بس یہ جلدی ہوتی تھی کہ بڑی ”ے“ تک کب پہنچیں گے۔ بڑی ”ے“ کو عبور کرتے ہی سولہویں جماعت تک پہنچنے کا جنون سوار ہو گیا۔ اور پھر یوں ہوا کہ وقت کو پر لگے اور جب بڑے ہوئے تو اب خلش ہے کہ بچپن لوٹ آئے۔ وہی دن، وہی بے فکرے لمحے، وہی دوست، وہی عزیز و اقارب لوٹ آئیں۔
مگر گزرے زمانے تک پہنچنے کا راستہ بس تخیل ہی رہ جاتا ہے، اور اس تخیل کے ذریعے دماغ میں موجود یادوں کی لائبریری سے مخصوص لمحات کو بس کچھ لمحوں کے لئے تازہ کر سکتے ہیں۔ جیسا کپ میرے لئے والد محترم مرحوم کے ساتھ بیتے پل کہ جس میں وہ میرے مرحوم بھائی شہزاد مصطفی کو یاد کرتے ہوئے آبدیدہ ہو جایا کرتے تھے۔ میں ان سے ہمیشہ پوچھتا تھا کہ شہزاد بھائی جلدی کیوں چلے گئے تو ان کا ہمیشہ یہی جواب ہوتا تھا کہ یہ دنیا تو فانی ہے اور اس فانی دنیا میں ہر کسی نے ایک مقررہ وقت پر رب ذوالجلیل کے حضور پیش ہوجانا ہے۔ لیکن جو لوگ زیادہ اچھے ہوتے ہیں تو اللہ پاک انہیں جلد ہی اپنے پاس بلا لیتے ہیں۔
جب عقل و شعور کی منازل طے کی تو بچپن میں الجھی ہوئی، پیچیدہ لگنے والی باتیں حقیقت بن کر سامنے آنے لگیں۔ یہ دنیا تو واقعی سراب ہے جس میں ہزاروں خواہشوں، الجھنوں، خوابوں کو پورا کرنے کی دوڑ میں بھاگتے ہوئے اپنا بچپن، جوانی، ادھیڑ پنا پیچھے چھوڑ جاتے ہیں۔ اس دوڑ میں کئی لوگ ساتھ جڑتے ہیں کئی ساتھ چھوڑ جاتے ہیں تو کئی اگلی دنیا سدھار جاتے ہیں۔ ان ساتھ چھوڑ جانے والوں میں سے کچھ آپ کی یادوں پر وہ انمٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں کہ جو ساری زندگی کے لئے آپ کے ساتھ رہتے ہیں۔
میرے جیسے اور بھی توہم پرست ہوں گے جو مخصوص دنوں میں ساتھ جڑنے والے، ساتھ چھوڑنے والے اور دنیا سے کوچ کرنے والوں کا دوش ان دنوں کے سر لاد دیتے ہیں۔ ایسا میرے ساتھ بچپن سے ہے، میں نے ابو سے مرحوم بھائی کی وفات کا دن پوچھا اور فٹ سے اس دن کو اس المیہ کا قصور وار قرار دے دیا۔ والد صاحب کے دلیلوں سے سمجھانے کے باوجود میرے لئے وہ دن برا ہی رہا کہ جس نے میرے مرحوم والد سے وہ قیمتی چیز لے لی کہ جس کے چھن جانے کا دکھ انہیں اتنے سالوں کے بعد بھی جینے نہیں دیتا تھا۔
میڈیا میں آنے کے دن کو کوستے ہوئے لکھنے لکھانے سے بیزار دنوں میں جب ہمارے شہر کے ہر دلعزیز استاد اور باوصف شخصیت سجاد احمد صاحب کی وفات کی خبر ملی تو والد محترم مرحوم کی کہی گئی بات یاد آ گئی کہ اچھے لوگ تو جلدی چلے جاتے ہیں۔ آج لگا کہ واقعی سچ ہی تو کہتے تھے ابو کہ اچھے لوگ جلدی چلے جاتے ہیں۔ مار نہیں پیار کے زمانے سے پہلے جب اساتذہ کی موجودگی کا رعب اور خوف سوار ہوتا تھا۔ ایسے میں سجاد صاحب وہ خوشگوار ہوا کا جھونکا ثابت ہوتے تھے کہ جن کی شائستگی، نفاست، پیار نے پوری کلاس کو گرویدہ کر لیا تھا۔
وہ نفیس استاد کہ جن کے سکول چھوڑنے کے آخری دن بھی میں رویا تھا اور آج ان کے اس جہان چھوڑنے کے دن بھی یہ تحریر لکھتے ہوئے آنسو ضبط کے بندوں سے توڑتے ہوئے رواں ہیں۔
کم تنخواہ، تاخیر سے ادائیگی، نئی نوکریوں کے لیے سفارش نہ ہونے پر اہل نہ ہو پانے، سرکاری نوکری نہ ملنے کا غم، گھر سے دور ہونے کا افسوس جیسے درجنوں دکھ سینے سے لگائے بیٹھے آج والد محترم کی وہ بات یاد آئی کہ ہم تو اس فانی دنیا میں زندگی کی جنگ لڑنے آئے ہوئے ہیں، یونہی لڑتے لڑتے ایک دن زندگی کے انجام کو پہنچ جائیں گے۔
میرے مرحوم استاد سجاد احمد صاحب کے درجات کی بلندی کے لئے دعاؤں کی درخواست ہے۔ اس فانی دنیا میں بھاگتے ہوئے اپنے پیاروں اور عزیز و اقارب کا خیال رکھیں، کیا پتہ کس موڑ پر ساتھ چھوٹ جائے۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments