بل کلنٹن اور عمران خان کا جھوٹ


امریکی صدر بل کلنٹن اپنے دور صدارت کے دوران ایک جوان اور خوبصورت لڑکی مونیکا لیونسکی سے عشق کر بیٹھے۔ مونیکا لیونسکی وائٹ ہاؤس میں انٹرن تھی اور اوول آفس میں اس کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔

اس اسکینڈل کی خبر میڈیا کو ملی اور پھر مقدمہ عدالت میں چلا جہاں بل کلنٹن نے بھری عدالت میں حلف لینے کے بعد جھوٹ بولا کہ میرے اور مونیکا لیونسکی کے درمیان کوئی جنسی تعلقات نہیں ہیں۔ بعد میں بل کلنٹن نے اقرار کیا کہ اس نے بھری عدالت میں جھوٹ بولا تھا اور مونیکا لیونسکی کے ساتھ وہ اوول آفس میں بوس و کنار کرتے تھے۔ شاید کچھ اور بھی۔

تاہم بل کلنٹن کے اس جھوٹ کا امریکا، اس کی معیشت، عوام کے مستقبل اور اس کی خارجہ پالیسی پر ذرہ برابر فرق نہیں پڑا۔ وہاں کے عوام حکمرانوں کی نجی زندگی سے زیادہ اس بات پر دھیان دیتے ہیں کہ ملک ترقی کرے، لوگوں کو روزگار ملے اور ملک میں استحکام ہو تاکہ لوگ پر سکون زندگی گزار سکیں۔

بل کلنٹن کی طرح کا جھوٹ اگر لیڈر بولے تو وہ قابل معافی ہوتے ہیں۔ وہ انفرادی سطح پر تو شاید قابل تنقید ہو سکتے ہیں لیکن ملک، معاشرے اور اجتماعی طور پر اس جھوٹ کا اثر، نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔

اسی طرح عمران خان کے سیتا وائٹ اسکینڈل کا واقعہ ہے۔ اگر سیتا وائٹ سے عمران خان کی کوئی بیٹی بھی ہیں تب بھی عمران خان پر یہ تنقید کہ ان کے مختلف لڑکیوں سے ناجائز تعلقات تھے، اس کا پاکستان کی سلامتی، معیشت، ترقی اور عوام کی خوشحالی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

لیکن عمران خان نے جس طرح امریکی سازش کا جھوٹا بیانیہ بنایا جس کی آڈیو بھی صاف سنی جا سکتی ہے جس میں وہ اور اعظم خان منصوبہ بنا رہے ہیں کہ کس طرح امریکی سازش کا نام لے کر پاکستان کے عوام کو گمراہ کیا جائے۔ اس جھوٹ بولنے کا نتیجہ پاکستان کے خراب امریکی تعلقات کے نتیجے میں نکلا۔ نقصان پاکستان کا ہوا۔

عمران خان کو جب یقین ہو گیا کہ اب حکومت نہیں بچنی تو انہوں نے جاتے جاتے وہ اقدامات کیے اور جھوٹ بولے جس سے پاکستان کی معیشت کو شدید نقصان ہوا اور پاکستان کے دیوالیہ ہونے تک بات جا پہنچی۔

عمران خان کی ہدایت پر آئی ایم ایف پروگرام کو روکنے کے لئے جس طرح شوکت ترین کی گفتگو منظر عام پر آئی ہے، میرے نزدیک عمران خان کی جگہ اگر کوئی سیاسی لیڈر ہوتا تو اب تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوتا۔ یہ چیز غداری کے زمرے میں آتی ہے۔

جھوٹ جب عادت بن جائے تو وہ فن کا روپ دھار لیتا ہے۔ عمران خان کا جھوٹ بولنے کا فن اب آرٹ میں تبدیل ہو چکا پے۔ ان کے جھوٹ بولنے کا آرٹ ایسا ہی ہے جیسا مصوری میں مائیکل اینجیلو یا موسیقی میں موزارٹ کا تھا۔ کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔

پھر انسان اقتدار کی ہوس میں اتنا گر جاتا ہے کہ وہ اپنے دین ایمان کو بھی بیچنا شروع کر دیتا ہے۔ کبھی وہ اپنے پیچھے کھڑے ہوئے لوگوں کے کہنے پر اسلام کی بات کرتا ہے، کبھی مذہبی لوگوں کے ووٹ کے لئے نبی کریم ﷺ سے اپنی محبت کا اظہار کرتا ہے تو کبھی ہیلی کاپٹر میں نماز پڑھتے ہوئے اپنی ویڈیو جاری کرتا ہے۔ یہ سارے کام تو ایک اچھا انسان دوسرے لوگوں سے چھپا کر کرتا ہے۔ لیکن اس لیڈر نے یہ ثابت کیا ہے کہ ”مذہب ہمارے ملک میں دل سے زیادہ ٹوپی اور داڑھی میں دکھائی دیتا ہے“ ۔

اپنے اقتدار کے لئے ضمیر اور ایمان بیچنا پڑے تو بیچو، یہی عمران خان نے کیا۔ ایسے کئی مالیاتی اسکینڈل ہیں جو عمران خان نے کیے ہیں لیکن تحریر کا دامن چھوٹا ہے۔ آپ کے اقتدار کی تاریخ میں عوام کو صرف جھوٹ، گمراہی اور آپ کی منافقت کے علاوہ کچھ نہیں ملا۔

لیکن اس ساری صورتحال میں پاکستان کہاں کھڑا ہے، اس کا جواب بہت ہی آسان ہے۔ پاکستان کے سابق آرمی چیفس، ججز اور بیوروکریٹس کن کن ملکوں میں رہائش پذیر ہیں؟ یہ سب ریٹائرمنٹ کے بعد کینیڈا، امریکہ، آسٹریلیا، انگلینڈ اور دوسرے یورپی ملکوں میں رہائش اختیار کر لیتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے ہاتھوں میں کبھی ملک کی باگ ڈور تھی۔ اگر پاکستان کا مستقبل تابناک ہوتا تو یہ لوگ یہیں رہنا پسند نہ کرتے؟

ان لوگوں کو معلوم ہے کہ آنے والے برسوں میں کیا ہونے والا ہے۔ پڑوسی ”مسلمان بھائی“ دھیرے دھیرے سوات، اسلام آباد اور کراچی میں پھیلتے جا رہے ہیں۔ افغانستان کی پاکستان کے خلاف کرکٹ جیت کا جشن کراچی میں جلوس کی شکل میں منایا جاتا ہے۔ کراچی کی پہاڑیوں پر، سہراب گوٹھ، نصرت بھٹو کالونی، الآصف اسکوائر، کٹی پہاڑی اور کراچی کے کئی اور علاقوں میں بسے یہ غیر مقامی افراد نہ بجلی کا بل دیتے ہیں نہ پانی کا۔ چوری ڈکیتی ان کا پیشہ ہے۔

کراچی کے ایک سیاسی لیڈر کے مطابق کے الیکٹرک والے بجلی کاٹنے جب ان غیر مقامی لوگوں کے علاقوں میں گئے تو شام کو پسینے میں شرابور واپس آئے۔ پوچھا بجلی کاٹ دی؟ کے الیکٹرک کا عملہ بولا ”ان لوگوں نے ہمیں اسلحہ کے زور پر گھیر لیا اور کہنے لگے کہ یہ کنڈے ڈھیلے ہو گئے ہیں۔ شام تک ہم ان کے سارے کنڈے ٹائٹ کر کے آئے ہیں۔

لوگ مجھے کہتے ہیں تم مسائل کا حل بھی بتایا کرو۔ میں ان سے کہتا ہوں کہ بین السطور میں مسائل کا حل بھی بتاتا ہوں جیسے کہ اس مضمون میں بھی میں نے عوام کو ان کے مسئلے کا حل بتا دیا ہے۔ دوبارہ لکھے دیتا ہوں، جس ملک میں اس کے آرمی چیف، سیادت دانوں کی فیملیز، ججز اور ٹاپ بیوروکریسی رہنا گوارا نہ کرے، اس کا مستقبل کیا ہو گا؟

لہذا اپنے بچوں کو تعلیم یافتہ بنائیں، آپ یا آپ کے بچے امیگریشن لیں اور کافروں کے ملک میں پر سکون اسلامی زندگی گزاریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments