جب گرین لینڈ کی ہزاروں خواتین کے اُن کی اجازت کے بغیر مانع حمل آپریشن کیے گئے

اینڈریئن مرے - بی بی سی نیوز


نایا لائی برتھ
نایا لائیبرتھ کی مرضی کے بغیر 13 برس کی عمر میں ان کا مانع حمل آپریشن کر دیا گیا تھا
’مجھے یاد ہے کہ سفید کوٹ پہنے وہ ایک ڈاکٹر یا نرس تھی۔ مجھے ٹانگوں کے درمیان میٹل (دھات)جیسی کوئی چیز محسوس ہوئی۔ وہ بہت خوفناک لمحہ تھا۔ میری جیسی بچی کے لیے وہ آلات بہت بڑے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے میرے جسم کے اندر چھریاں چلائی جا رہی ہوں۔‘

یہ الفاظ نایا لائیبرتھ کے ہیں جو مانع حمل کے اس سکینڈل کی ایک متاثرہ ہیں جس کی زد میں 60 اور 70 کی دہائیوں میں ہزاروں خواتین اور نوجوان لڑکیاں آئیں۔

ڈنمارک کے ڈاکٹروں کے ہاتھوں 1960 اور 1970 کے دوران گرین لینڈ کی ہزاروں خواتین کے اُن کی مرضی اور اجازت کے بغیر مانع حمل کے آپریشن کیے جا رہے تھے۔ اس عمل میں ’انٹرا یوٹرین ڈیوائس‘ یعنی آئی یو ڈی کا طریقہ اختیار کیا گیا۔

آئی یو ڈی مانع حمل کا ایک آلہ ہوتا ہے جسے کوائل بھی کہتے ہیں۔ اسے کوکھ یا بچہ دانی میں فٹ کر دیا جاتا ہے۔

ڈنمارک اور گرین لینڈ دونوں ہی ممالک نے اب اس معاملے میں تحقیقات کا اعلان کیا ہے جس میں دو برس لگ سکتے ہیں۔

’میں تب کنواری تھی‘

سنہ 1970 میں ایک ڈاکٹر نے نایا سے کہا کہ وہ سکول کی جانب سے کروائے جانے والے معمول کے طبی معائنے کے لیے ہسپتال جائیں اور ’کوائل‘ رکھوا لیں۔ نایا کے بقول اس وقت وہ محض 13 برس کی تھیں اور اس بارے میں کچھ نہیں جانتی تھیں۔

نایا اس وقت گرین لینڈ کے چھوٹے سے شہر مینتزوک میں رہتی تھیں جب ان کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا۔ انھوں نے بتایا ’مجھے کوئی اندازہ نہیں تھا کہ کوائل کیا ہوتی ہے کیونکہ ڈاکٹر نے مجھے اس بارے میں کچھ بتایا اور نہ ہی میری اجازت لی۔‘

انھوں نے کہا ’میں اتنی خوفزدہ تھی کہ میں نے اپنے والدین کو بھی اس بارے میں کچھ نہیں بتایا۔ میں کنواری تھی۔ میں نے کبھی کسی لڑکے کو کِس (بوسہ) بھی نہیں کیا تھا۔‘

نایا کی عمر اب ساٹھ برس سے زیادہ ہے اور اس سکینڈل کے حوالے سے آواز اٹھانے والی وہ پہلی خاتون ہیں۔

نایا نے بتایا کہ ان کے والدین سے اس بارے میں اجازت نہیں لی گئی تھی۔ ان کے علاوہ کلاس کی دیگر لڑکیوں کو بھی ہسپتال بھیجا گیا تھا لیکن ہر کوئی اس قدر صدمے میں تھا کہ کسی نے کسی سے اپنے اس تجربے کے بارے میں بات ہی نہیں کی۔

نایا نے اب فیس بک پر ایک گروپ کا پیج بنایا ہے تاکہ وہاں اس سکیندل سے متاثرہ خواتین ایک دوسرے سے رابطے میں آئیں اور اپنے اپنے تجربات شیئر کریں۔ اب تک ستر سے زائد خواتین یہ گروپ جوائن کر چکی ہیں۔

ہزاروں خواتین متاثر

گرین لینڈ ڈینمارک کے اندر ایک خود مختار ریاست ہے

گرین لینڈ ڈنمارک کے اندر ایک خود مختار ریاست ہے

ایک تازہ پوڈ کاسٹ میں سامنے آیا کہ 1960 سے 1970 کی دہائیوں کے درمیان تقریباً 4500 خواتین اور نوجوان لڑکیاں مانع حمل کے اس سکینڈل سے متاثر ہوئیں اور یہ سب کچھ ستر کی دہائی کے وسط تک جاری رہا۔

یہ واضح نہیں ہے کہ ان میں سے کتنے کیسز میں مانع حمل سے قبل ان خواتین کی اجازت لی گئی یا انھیں تفصیل سے بتایا گیا کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا تھا۔

متاثرین میں بارہ برس تک کی عمر کی لڑکیاں بھی شامل تھیں۔ ان میں سے متعدد کا کہنا ہے کہ انھیں تفصیل نہیں بتائی گئی تھی۔ چند خواتین جو کبھی ماں نہیں بن سکیں ان کا خیال ہے کہ ایسا کوائل کی وجہ سے ہوا۔

نایا نے بتایا ’مجھ سے بہت سی خواتین رابطہ کرتی ہیں۔ ان کی باتوں سے پتا لگتا ہے کہ جن لڑکیوں کی عمر اس وقت کم تھی انھیں اس کا زیادہ نقصان اٹھانا پڑا۔ یہ بہت افسوس کی بات ہے۔‘

ارنانگواک اس وقت 16 برس کی تھیں جب اُن کی بچہ دانی میں کوائل فٹ کر دیا گیا تھا۔ ان کی سرجری ڈنمارک میں ہوئی۔ وہ سنہ 1974 میں ایک ایسے بورڈنگ سکول میں پڑھتی تھیں جہاں زیادہ تر گرین لینڈ سے تعلق رکھنے والی لڑکیاں پڑھتی تھیں۔

انھوں نے کہا ’مجھے اس عمل سے پہلے کچھ بتایا گیا نہ ہی مجھے خود یہ پتا تھا کہ کوائل کیا ہوتی ہے۔‘

وہ سال میں ایک بار اپنے والدین سے ملنے گھر جایا کرتی تھیں۔ ارنانگواک بتاتی ہیں کہ وہ اس دوران کس قدر تکلیف میں تھیں۔ ایک برس بعد جب وہ گھر لوٹیں تب ان کی کوائل نکلوائی گئی۔ اس وقت وہ 17 برس کی تھیں۔

انھوں نے کہا ’اب مجھے لگتا ہے کہ مجھے اس وقت اپنے لیے فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں دیا گیا، اور یہ ناقابل قبول ہے۔ اگر یہ سب کچھ گرین لینڈ کے بجائے ڈنمارک کی خواتین کے ساتھ ہو رہا ہوتا تب بھی کیا لوگوں کا ردعمل ایسا ہی ہوتا؟‘

ارنانگواک پولسن

ارنانگواک پولسن کے بقول انھیں کوائل فٹ کیے جانے کے نتیجے میں شدید درد اور کرب سے گزرنا پڑا تھا

اس دور میں گرین لینڈ اور ڈنمارک دونوں ہی جگہ مانع حمل کے بارے میں بہت کم معلومات تھیں۔ لیکن اس دور میں اس سلسلے میں جو کچھ ہوا اس بارے میں رپورٹس کے منظر عام پر آنے کے بعد لوگ حیران ہیں۔

گرین لینڈ کی حکومت نے ہیلتھ پالیسیوں کا اختیار کوپن ہیگن سے سنہ 1992 میں اپنے ہاتھوں میں لے لیا تھا۔

اب دونوں حکومتوں کی جانب سے تشکیل دی گئی کمیٹی یہ جانچ کرے گی کہ 1960 سے 1991 کے درمیان ڈنمارک کے سکولوں میں گرین لینڈ کے بچوں کی تعلیم کے لیے جو ادارے تھے وہاں ان کے ساتھ کیا ہوا۔ اس کے علاوہ گرین لینڈ میں بھی اس دور کے مانع حمل کے کیسز کی جانچ کی جائے گی۔

گذشتہ جمعہ کو ایک بیان میں ڈنمارک کے وزیر صحت میگنس ہیونسکی نے کہا کہ جانچ میں یہ پتا لگایا جائے گا کہ کن فیصلوں کی بنیاد پر یہ طریقہ کار استعمال میں لائے گئے اور کس طرح مانع حمل کے معاملوں کو انجام دیا گیا۔

انھوں نے متعدد متاثرہ خواتین سے ملاقات کی اور اُن کے تجربات سُنے۔ انھوں نے کہا کہ ’وہ جس جسمانی اور ذہنی درد اور اذیت سے گزریں اسے آج بھی محسوس کیا جا سکتا ہے۔‘

مانع حمل کی وجہ

سنہ 1953 میں گرین لینڈ کو ڈنمارک کی خود مختار ریاست کا درجہ حاصل ہو گیا تھا۔ اس سے قبل گرین لینڈ ڈنمارک کا نوآبادیاتی علاقہ تھا۔

اس وقت ان علاقوں میں صحت اور طرز زندگی میں سدھار یا بہتری کے لیے بہت کچھ کیا جا رہا تھا۔ نتیجے میں لوگوں کے لمبی عمر تک زندہ رہنے اور نو زائیدہ بچوں کے زندہ بچنے کی شرح میں اضافہ ہونے لگا۔

کوپن ہیگن یونیورسٹی سے وابستہ تاریخ دان سورین روڈ کے مطابق ان کامیابیوں نے کچھ چیلینجز کو بھی جنم دیا۔

گرین لینڈ کی آبادی تیزی سے بڑھنے لگی اور 1970 تک تقریباً دگنی ہو گئی۔

روڈ کا خیال ہے کہ کوائل کے استعمال کو معاشی بوجھ کم کرنے کے لیے فروغ دیا گیا تھا۔ ساتھ ہی یہ نوآبادیاتی سوچ کا بھی اثر تھا۔

انھوں نے کہا کہ ’آبادی میں اضافے کو روکنے کے کچھ واضح فوائد ہیں۔ اس سے لوگوں کو گھر یا عوام کو فلاحی خدمات دینے کا بوجھ کم ہو جاتا ہے۔‘

اس کے علاوہ گرین لینڈ میں ’سنگل مدرز‘ یعنی اکیلی ماؤں کی تعداد بھی بڑھ رہی تھی جس کے نتیجے میں فیملی پلاننگ کی ضرورت اور بھی زیادہ محسوس کی جانے لگی۔

یہ بھی پڑھیے

ہر پاکستانی جوڑے کے ایک ’غیرارادی‘ بچے کی پیدائش: ’مانع حمل طریقہ اپنانا اسقاط حمل سے بہتر ہے‘

پاکستان میں مانع حمل ادویات کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کی حقیقت کیا ہے؟

کیا مانع حمل گولیوں کا استعمال خواتین میں کسی بیماری کا باعث بھی بن سکتا ہے؟

کونڈوم یا نس بندی، مانع حمل کا کون سا طریقہ کامیاب ہے؟

روڈ نے بتایا کہ اس وقت ڈاکٹروں نے کوائل کی کامیابی کے بارے میں بھی خوب لکھا۔ چند ہی برسوں میں پیدائش کی شرح آدھی ہو گئی۔

خواتین جو کبھی ماں نہیں بن سکیں

ڈاکتر کے ہاتھ میں آئی یو ڈی کوائل

جدید زمانے کے آئی یو ڈی سائز میں چھوٹی اور انگریزی کے حرف T جیسی لگتی ہے۔ ماضی میں وہ حرف S جیسی ہوتی تھی اور سائز میں بھی بہت بڑی

کٹرین جیکبسن اس وقت 12 برس کی تھیں جب ان کی بچہ دانی میں کوائل فٹ کر دی گئی۔ انھیں ایک رشتہ دار کی گرل فرینڈ ڈاکٹر کے پاس لے گئی تھی۔

تقریباً دو دہائی تک وہ اس کوائل کے ساتھ زندگی بسر کرتی رہیں۔ انھیں اس درمیان شدید درد اور مشکلات سے گزرنا پڑا۔ تیس برس کی عمر کے بعد ان کی بچہ دانی کو طبی مسائل کے سبب نکالنا پڑا۔

کٹرین نے بتایا ’مجھے یاد ہے کہ کوائل فٹ کیے جانے کے بعد میں اتنے شدید درد میں تھی کہ میں جا کر برف کے اوپر بیٹھ گئی۔‘

انھوں نے کہا ’اس سب نے میری زندگی کو بُری طرح متاثر کیا۔ میرے کبھی بچے نہیں ہو سکے۔ میں نے اس بارے میں کبھی کسی کو نہیں بتایا کیوں کہ مجھے لگتا تھا میں اکیلی ہی ایسی ہوں جس کے ساتھ یہ سب ہوا تھا۔‘

جدید زمانے کے آئی یو ڈی سائز میں چھوٹی اور انگریزی کے حرف T (ٹی) جیسی لگتی ہے۔ ماضی میں وہ حرف S (ایس) جیسی ہوتی تھی اور سائز میں بھی بہت بڑی۔

نوک کے کوین انگرڈ ہسپتال میں گائناکالوجسٹ ڈاکٹر آویاجا زیگسٹاڈ کے مطابق ’اگر کوئی عورت ماضی میں کبھی ماں نہیں بنی ہے تو اس کی بچہ دانی میں اس آلے کے سبب زیادہ بلیڈنگ (خون بہہ جانا)، زیادہ درد اور انفیکشن کا بھی زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔‘

سنہ 1990 اور 2000 کی دہائیوں میں ان کے پاس متعدد ایسی خواتین آئیں جنھیں ماں بننے میں مشکل ہو رہی تھی اور وہ یہ جانتی ہی نہیں تھیں کہ ان کی بچہ دانی میں کوائل فٹ تھی۔ اور ایسے معاملے اکثر سامنے آتے تھے۔

انھوں نے بتایا ’کچھ معاملوں میں ہم نے پایا کہ آئی یو ڈی ان خواتین میں فٹ کر دی گئی تھی جنھوں نے اسقاط حمل کروایا تھا، لیکن انھیں یہ نہیں بتایا گیا کہ ان کے اندر کوائل فٹ کی جا رہی ہے۔‘

گرین لینڈ کی انسانی حقوق کی کونسل کے مطابق اس سب کے ذریعے خاندانوں کی ذاتی زندگی اور اس سے منسلک ذاتی فیصلوں کے ان کے حق کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔

کونسل کے صدر نے کہا ’ہمیں اس بات کی تفتیش کرنی چاہیے کہ کیا یہ نسل کشی کا معاملہ تھا۔‘

گرین لینڈ کی وزیر صحت میمی کارلسن کا کہنا ہے کہ ’معاملے کی اصل وجہ تک پہنچنے کے لیے گرین لینڈ کو اس تفتیش میں شامل کرنا ضروری تھا۔‘

اس معاملے کے بعد ڈنمارک اور گرین لینڈ کے درمیان ماضی کے تعلقات اور اس میں گھرے متعدد دیگر تنازعات بھی ایک بار منظر عام پر آ گئے ہیں۔

مارچ میں ڈنمارک نے تین قبائلی افراد کو معاوضہ دیا جنھیں 1950 میں ایک سماجی تجربے کے دوران ان کے خاندانوں سے جدا کر دیا گیا تھا۔ وہ تجربہ بھی ناکام رہا تھا۔ ڈنمارک نے معاوضے کے ساتھ ان سے معافی بھی مانگی تھی۔

موسم گرما میں گرین لینڈ کی پارلیمان نے ایک علیحدہ کمیشن بنانے کے حق میں ووٹ دیا تھا جو 1953میں وہاں ڈنمارک کے نو آبادیاتی نظام کے بعد کے حالات کا جائزہ لے گی۔

مانع حمل کے معاملوں کی متاثرہ خواتین کو کونسلنگ کی پیشکش کی گئی ہے تاہم ارنانگوات کو امید ہے کہ انھیں ہرجانہ دیا جائے گا۔

وہ کہتی ہیں ’بہت سی خواتین ہیں جو اب کبھی ماں نہیں بن سکتیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32506 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments