مریم اورنگ زیب کی اصل طاقت


اسحٰق ڈار ایوان اقتدار میں واپس پہنچ چکے۔ایون فیلڈ ریفرنس منھ کے بل جا گرا جس کے نتیجے میں مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن صفدر بری ہو گئے۔ یہ مقدمات ایک ایسے دور کی یادگار ہیں جن میں نہ صرف ملک کے نظام انصاف کو بازیچہ ¿ اطفال بنا دیا گیا تھا۔ اب توقع کی جاتی چاہیے کہ یہ فیصلہ ملک میں ایک نئے اور صحت مند سیاسی دور کی بنیاد ثابت ہوگا اور اس واقعے سے سبق لیتے ہوئے آئندہ سیاسی مقاصد کے لیے نظام انصاف کو دا پر نہیں لگایا جائے گا۔

پاکستان میں جس دور میں یہ سب کچھ ہو رہا تھا، اس زمانے میں سیاست میں ایک ایسے ناپسندیدہ روّیے کو فروغ دیا گیا جس نے تہذیبی اقدار کا جنازہ نکال دیا۔لندن میں پی ٹی آئی کے بپھرے ہوئے مرد و زن کی مریم اورنگ زیب کے ساتھ بد سلوکی اسی طرز عمل کا تازہ نیز شرم ناک واقعہ ہے۔ اس نے ایک نظم کی یاد دلا دی۔استاذ الاساتذہ پروفیسر ڈاکٹر خورشید رضوی کی ایک نظم کی چند سطریں ہیں:

 ‘ دھند اچھی ہے

ہر ایک جبر سے آزاد ہے دھند

دھند میں ڈوبے ہوئے خار و گل اور سنگ و زجاج اچھے ہیں

 ایک ابہام میں تحلیل ہوئے جاتے ہیں منظر سارے

پردہ ذہن پہ کجلائے ہوئے شہر کی تصویر ہے دھند’

ڈاکٹر خورشید رضوی فقط شاعر نہیں، اس عہد میں عربی کے بے بدل عالم ہیں۔ قدیم و جدید ادب اور مختلف تہذیبوں پر ان کی نگاہ جیسی ہے، کم کسی کی ہوگی۔ جس زمانے میں مجنوں دیوار دبستان پہ لام الف لکھتا تھا، انھوں نے قبل از اسلام شاعری جیسے مشکل موضوع پر پی ایچ ڈی کیا۔ دن میں وہ کالج میں پڑھاتے، افسوس کہ یونیورسٹی بناتے ہوئے ہمارے اِس تاریخی( گورنمنٹ کالج سرگودھا) کا نام و نشان ہی مٹا دیاگیاورنہ یہ کالج ایسے تاریخی اداروں میں سے ایک تھا جس کے وجود سے نور کی ضیا پھوٹتی ہے۔

خیر ذکر ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب کا تھا۔ یونیورسٹی سے نکلتے تو ڈاکٹر وزیر آغا کے ہاں جا پہنچتے جہاں خوش گپی کے ساتھ ساتھ علم و تہذیب کی گتھیاں سلجھتیں۔ رات بھر وہ تحقیق کا کام کرتے جب پرانے کرم خوردہ اوراق میں سر جھکائے جھکائے طبیعت اوب جاتی تو دوربین اٹھا کر چھت پر جا نکلتے اور ستاروں کی آوارہ خرامی کا مطالعہ کر کے دل شاد کرتے۔ دھند والی نظم بھی اسی زمانے کی ہے۔

بہت لوگوں کو ہم نے پی ایچ ڈی کرتے دیکھا ہے ۔ لوگ عام طور پر خلجان کا شکار ہو جاتے ہیں لیکن ڈاکٹر صاحب کی بات مختلف ہے۔ تحقیق کے ساتھ ساتھ ان کی شاعری کا سفر بھی جاری رہا۔ یہ نظم ان کے دوسرے شعری مجموعے ‘ سرابوں کے صدف’ میں شامل ہے جس کی اشاعت میں بھی انھوں نے اسی قدر محنت سے کام لیا جیسی محنت سے وہ گورنمنٹ کالج میں پڑھایا کرتے تھے۔ اس کتاب کی اشاعت میری آنکھوں کے سامنے ہوئی ۔میں نے جس دلچسپی کے ساتھ انھیں اس مجموعے کی کتابت کراتے، کاپی جڑواتے اور سرورق تیار کراتے دیکھا، اس میں میرے لیے بہت سے سبق تھے۔ نہ صرف میرے لیے بلکہ گلستان پریس والے سید محمد حسن واسطی کے لیے بھی جو اس کتاب کے ناشر تھے۔ اس کتاب کی اشاعت کے تجربے نے انھیں ایک اچھا ناشر بنا دیا۔

بات دورجا نکلی۔ ذکر ان کی نظم کا تھا۔ یخ کر دینے والی سردیوں کے موسم میں یہ نظم کہتے ہوئے ان کے ذہن میں کیا تھا، یہ تذکرہ ہمیں اصل موضوع سے ہٹا دے گا۔ اصل میں کہنا یہ ہے کہ کم از کم چالیس برس پہلے کہی گئی یہ نظم ہمارے اِس عہد کی سچی تصویر پیش کرتی ہے۔ وہ جب کہتے ہیں:

‘ ایک ابہام میں تحلیل ہوئے جاتے ہیں منظر سارے

پردہ ذہن پہ کجلائے ہوئے شہر کی تصویر ہے دھند’

تو لندن کے کسی ریستوران اور ارد گرد گلیوں کے وہ مناظر آنکھوں میں گھوم جاتے ہیں جن میں پی ٹی آئی کے بپھرے ہوئے اوباش نوجوان ایک تنہا عورت یعنی مریم اورنگ زیب کو ہراساں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

 ان لوگوں نے مریم کا جس طرح گھیرا ؤ کر رکھا تھا، ان پر آوازیں کس رہے تھے، ان کی نقلیں اتار رہے تھے، یہ سب مناظر کسی ایسی فلم میں تو ہو سکتے ہیں جس میں فلم ساز کسی آبرو باختہ مجرم کی مکروہ ذہنیت کو بے نقاب کرنے کے لیے کوئی منظر فلمائے۔ حقیقت میں ایسا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ کوئی صحیح الدماغ ایسی حرکت کر ے۔ مریم اورنگ زیب کے ساتھ لندن میں جو کچھ ہوا، کم سے کم الفاظ میں اسے توہین اور اشتعال دلانے کی بدترین کوشش ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ ایسے مواقع پر ٹھنڈے سے ٹھنڈے مزاج کے لوگ بھی ردعمل کا شکار ہو کر کچھ نہ کچھ کہہ بیٹھتے ہیں لیکن شاباش ہے، اس خاتون پر جس نے خود پر قابو پائے رکھا۔ یہاں تک کہ چہرے کے تاثرات تک بگڑنے نہیں دیے۔ یہ خوبی حیرت انگیز اور بڑی نایاب ہے۔

 پی ٹی آئی کے لوگوں نے جب مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں مریم اورنگ زیب اور موجودہ حکومت کے جن زعما کا گھیرا کیا تھا، اس وقت سامنے آیا تھا کہ جب لوگ انھیں برا بھلا کہہ رہے تھے، اُس وقت وہ درود شریف پڑھ رہی تھیں اور حملہ آوروں کی ہدایت کے لیے دعا میں مصروف تھیں۔ کوئی شبہ نہیں کہ ایک کمزور انسان میں ایسی غیر معمولی اخلاقی توانائی درود پاک کی برکت ہی پیدا کر سکتی ہے۔

ان اوباشوں کے شرم ناک طرز عمل کے جواب میں مریم اورنگ زیب نے جس صبر اور برداشت کا مظاہرہ کیا ہے، اس سے ان کی تربیت بھی جھلکتی ہے۔ اچھی تربیت نے ان کے مزاج میں کیا خوبی پیدا کی ہے، اس کا ایک خوب صورت مظاہرہ میں نے ایوان صدر میں دیکھا۔ وفاقی کابینہ کے رکن کی حیثیت سے مرد زن اس ایوان میں حلف اٹھاتے ہی رہتے ہیں۔ روایت کے مطابق صدر مملکت حلف کے بعد وزرا کو مبارک دیتے ہیں اور تعلق کی نسبت سے کسی کے ساتھ مصافحہ کرتے ہیں اور کسی سے معانقہ۔ خواتین کا معاملہ مختلف ہوتا ہے۔ انھیں زبان سے مبارک باد پیش کی جاتی ہے اور وہ دایاں ہاتھ ماتھے تک لے جا کر آداب بجا لاتی ہیں۔ مریم اورنگ زیب نے مسلم لیگ کی گزشتہ حکومت کے دوران میں وزیر مملکت کی حیثیت سے حلف اٹھایا تو صدر ممنون حسین صاحب نے انھیں مبارک باد دی اور اپنی عادت کے مطابق نظریں جھکائے رکھیں۔ خواتین کے معاملے میں ان کا رویہ ایسا ہی تھا۔ ان کا خیال ہو گا کہ مریم سلام کرنے کے بعد اسٹیج سے اتر جائیں گی لیکن ایسا نہ ہوا۔ وہ سر جھکائے صدر صاحب کے سامنے کسی فرماں بردار بیٹی کی طرح کھڑی رہیں۔ یہ دیکھ کر صدر صاحب نے شفقت سے ان کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ مریم اورنگ زیب کی اس خوش گوار ادا نے حاضرین کو بھی متاثر کیا اور صدر ممنون حسین تو ان کے مستقبل قدردان بن گئے۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ مریم بہت سلیقے کی بچی ہے جو اپنے اچھے اخلاق کی وجہ سے زندگی کے ہر میدان میں کامیاب رہے گی۔ مریم اورنگ زیب کے ساتھ مسلسل بدسلوکی کے واقعات بعد کی باتیں ہیں۔ ایسے واقعات کے جواب میں ان کا طرز عمل ظاہر کرتا ہے کہ وہ ہماری سیاست کا ایک قابل قدر اضافہ ثابت ہوں گی۔سیاست میں بد سلوکی اور بدزبانی کا چلن دیکھ کر جو مایوسی ہوتی ہے، مریم جیسی جواں سال سیاست دانوں کے صبر برداشت کو دیکھ کر خوشی ہوتی ہے اور مایوسی امید میں بدل جاتی ہے۔ ڈاکٹر خورشید رضوی کی نظم کا اختتام بھی ایسی امید کا پیغام دیتا ہے:

ہاں مگر دھند کے اس پار چمکتا سورج

 تند خو شعلہ نفس ہونکتے مرکب پہ سوار

 اپنی ہیرے کی کنی ایسی انی لے کے بڑھا آتا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments