پنھل چانڈیو (سکرنڈ) میں ایم آر ڈی کے کارکنوں پر کیا بیتی؟
کراچی سے ڈھائی سو کلومیٹر دور واقع قومی شاہراہ پر گاڑیوں کی آمد رفت جاری ہے۔ سڑک پر گذشتہ 40 برس میں روڑی اور ڈامر کی کئی تہہیں ڈالی جا چکی ہیں، جنہوں نے یہاں گرنے والے لہو کو خود میں سمیٹ لیا ہے۔ اسی طرح وقت کی دھول نے اس دردناک واقعے پر بھی پردہ ڈال دیا ہے۔
سکرنڈ شہر کے باہر موجود گاؤں پنھل چانڈیو کے لوگوں اور پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے جنرل ضیاالحق کی آمریت کے خلاف قومی شاہراہ پر دھرنا دیا تھا۔ یہ واقعہ ہے انتیس ستمبر انیس سو تراسی کا۔ محمد فضل اس واقعے کے چشم دید گواہ ہیں جو خود بھی زخمی ہوگئے تھے۔
’قاضی احمد کی طرف سے فوج کی گاڑیاں آئیں اور سکرنڈ کی طرف سے پولیس کی۔ پولیس والے جو سندھی تھے انہوں نے بات کرنے کی کوشش کی، لیکن آرمی نے بغیر کسی اعلان یا بات کرنے کے اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی، جس میں ہمارے سولہ ساتھی ہلاک اور پچاس زخمی ہو گئے۔‘
محمد فضل بتاتے ہیں کہ مظاہرین میں سولہ اور سترہ سال کے بچے بھی شامل تھے، آرمی والوں نے لوگوں کے اوپر گاڑیاں چڑھا کر موڑ کاٹا، جس کے نتیجے میں کسی کی ٹانگیں ٹوٹ گئیں تو کسی کے بازو۔ بعد میں جس طرح بوریوں کو گاڑی میں پھینکا جاتا ہے اس طرح انسانوں کو اٹھا کر گاڑیوں میں پھینکا گیا۔
محمد پنھل چانڈیو کے ہاتھ اور ٹانگ میں اب بھی گولی کا نشان موجود ہے، ان کا دایاں ہاتھ اب ناکارہ ہو چکا ہے۔
محمد پنھل چالیس سال قبل رقم کیےگئے اس درد ناک باب کے صفحوں کو کھولتے ہوئے بتاتے ہیں کہ انہیں اور ان کے ساتھی کو گولی لگی۔ انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کا جھنڈا اٹھا رکھا تھا۔ ’میرے زخمی ساتھی نے کہا کہ پانی دو، میں نے کہا کہ پانی کہاں سے لا کر دوں چاروں طرف گولیاں چل رہی ہیں، میرے دوست نے وہاں میری جھولی میں دم توڑ دیا۔‘
’میں زخمی حالت میں جھاڑیوں کی طرف لنگڑا کر چلتا گیا، اور فوجیوں کی نظر سے چھپ کر بہتے ہوئے خون کے ساتھ کئی گھنٹوں کا سفر کر کے گاؤں پہنچا، جہاں ڈاکٹر منگوا کر علاج کیا گیا۔‘
واقعے کے چشم دید گواہوں کے مطابق زخمیوں اور لاشوں کو ایک ہی گاڑی میں ڈال کر پہلے فوج کے مقامی ہیڈکوارٹر اور بعد میں نوابشاہ ہسپتال منتقل کیا گیا، جہاں زخمیوں کو بیڈ کے ساتھ ہتھکڑیاں لگا کر باندھ دیا گیا۔
انور خاصخیلی کے بھائی اس واقعے میں ہلاک اور وہ خود زخمی ہوئے۔ ان کا کہنا ہے کہ زخمی حالت میں بھی تفتیش جاری رہی۔’
ان اسیروں کے اس عرصے میں بال اور داڑھیاں بڑھ گئیں، جبکہ نہانے کی بھی اجازت نہیں دی جاتی تھی۔ آخر دو ماہ بعد جیل بھیجا گیا۔
آم اور کیلے کے سرسبز باغات میں گھرے گاؤں پنھل چانڈیو کی معزز اور بزرگ شخصیت پنھل چانڈیو پاکستان پیپلز پارٹی کے ہمدرد اور ایم آر ڈی تحریک کے سربراہ غلام مصطفیٰ جتوئی کے دوست تھے اور احتجاج کا فیصلہ بھی انہوں نے کیا تھا۔
آج پنھل چانڈیو کے فرزند غلام قادر چانڈیو رکن سندھ اسمبلی ہیں، اس خونی واقعے کے وقت ان کی عمر پندرہ برس تھی۔’بابا کی آنکھوں پر انہوں نے پٹی باندھ دی ، جوتے پہننے نہیں دیے اور پیدل چلاتے رہے جس دوران ان کے پاؤں زخمی ہوگئے، انہیں مقامی فوجی ہیڈ کواٹر میں لے گئے‘۔
غلام قادر چانڈیو کے مطابق ان کے والد بتاتے تھے کہ ان پر دن رات تشدد ہوتا تھا، فوجیوں کو اس بات پر غصہ آتا تھا کہ بابا تشدد کے وقت اف تک نہیں کرتے وہ کہتے تھے کہ یہ بڈھا چیختا کیوں نہیں اسی ضد میں زیادہ تشدد کرتے تھے۔
جنرل ضیاالحق کی آمریت کے اس دور میں حکومت کے خلاف ہر احتجاج، تحریر اور تقریر بغاوت سمجھی جاتی تھی۔ پنھل چانڈیو سے گرفتار کارکنوں کو بھی فوجی عدالتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ محمد فضل بھی ان کارکنوں میں شامل تھے۔
محمد فضل کے مطابق ساتویں یا آٹھویں دن انہیں باہر نکالا جاتا اور گیارہ نمبر سمری عدالت میں پیشی ہوتی تھی، باہر نکلنے کے بعد انہیں پتہ نہیں ہوتا تھا کہ کہاں لیکر جا رہے ہیں کیونکہ آنکھیں باندھ کرکے پانچ پانچ لوگوں کو ہاتھ اور پیر میں کڑیاں لگاتے تھے اور بند گاڑی میں لے کر جاتے تھے جب اندر داخل ہوتے تو پتہ لگتا تھا کہ دفتر ہے اور فوجی میجر بیٹھا ہے۔
پنھل چانڈیو گاؤں کے مظاہرین پر فائرنگ کے واقعے نے ملک بھر میں اشتعال پھیلا دیا اور فوجی حکومت پریشان ہوگئی، محمد فضل کے مطابق فوجی جج کا رویہ سخت نہیں تھا اس کی پوری کوشش تھی کہ ہم ان کی جان چھوڑیں کیونکہ ہمارا بہت بڑا نقصان ہو چکا تھا۔
جمہوریت کی بحالی کی تحریک کا قیام تو 1981 میں ہوا تھا، لیکن اسی سال پی آئی اے کے طیارے کی ہائی جیکنگ کی وجہ سے اس پر منفی اثرات مرتب ہوئی۔ اس طیارے کی ہائی جیکنگ کی ذمہ داری الذوالفقار نامی عسکریت پسند گروہ نے لی تھی، جس کے بارے میں یہ تاثر عام تھا کہ اس کا سندھ میں زیادہ اثر ہے، جبکہ حکومت نے الذوالفقار کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے ظاہر کیا تھا۔
دو سال تک ایم آر ڈی کو منظم کیا گیا اور چودہ اگست 1983 کو سندھ بھر میں رضاکارانہ گرفتاریاں پیش کی گئیں۔ حسین بخش ناریجو ایم آر ڈی کے کنوینر رہے چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ لوگ اس قدر تیار بیٹھے ہیں، عوام کو جیسے ہی آواز ملی تو ایک ایسی منظم تحریک چلی جس کی مثال نہیں ملتی۔
شاہ عبدالطیف یونیورسٹی کے پروفیسر امیر علی چانڈیو نے سندھ میں ایم آر ڈی تحریک پر پی ایچ ڈی کی ہے، ان کا کہنا ہے کہ احتجاج تو دوسرے صوبوں میں بھی ہوا لیکن سندھ میں اس کی شدت اور ریاستی جبر زیادہ تھا۔
’جب جنرل ضیا نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور مارشل لا نافذ کیا تو سندھی خود کو پاکستان میں تنہا محسوس کرنے لگے وہ سمجھے رہے تھے کہ ان کے حقوق ان سے چھین لیےگئے ہیں، پنجاب میں صورتحال مختلف تھی کیونکہ وہ پھر بھی اقتدار میں تھے جو مارشل لا لگا اس میں بھی ان کے ہی لوگ حکمران تھے۔
سندھ میں دادو، خیرپور ناتھن شاہ، مورو، سکھر، لاڑکانہ میں بھی پرتشدد واقعات پیش آئے، غیر سرکاری اندازوں کے مطابق ان واقعات میں دو سو افراد ہلاک اور پانچ سو کے قریب زخمی ہوئے۔
ایم آر ڈی کے سابق کنوینر حسین بخش ناریجو کہتے کہ تشدد اور اسیری سے بھی لوگوں کے حوصلے پست نہیں ہوئے تھے، جو شخص پھول کا ہار پہن کر گرفتاری دیتا تھا پولیس اور فوج اسے پکڑ کر تشدد کرتی تھی بعض اوقات تو اسے کئی روز الٹا ٹانگ دیا جاتا، کچھ کو صحرا میں جاکر قید کرتے تھے۔ لیکن رہا ہونے کے بعد بھی وہ واپس گھر نہیں جاتے تھے اور دوبارہ جا کر گرفتاری دیتے تھے۔
اس تحریک میں سندھ کے وڈیروں، پیروں اور سرداروں نے بھی گرفتاریاں پیش کی اور وہ اگلی صف میں نظر آئے اس کی مثال نہ پہلے کبھی ملتی اور نہ کبھی اس کے بعد دیکھی گئی۔ غلام مصطفیٰ جتوئی کے خاندان کی خواتین تک نے دھرنے دیے اور مخدوم خاندان کے نوجوان گرفتار ہوئے۔
ایم آر ڈی کے سابق کنوینر حسین بخش ناریجو کا خیال ہے کہ لوگوں کا بہت بڑا دباؤ تھا اور ایک وجہ یہ بھی تھے کہ پاکستان پیپلز پارٹی ملک کی سب سے بڑی جماعت تھی اس میں وڈیرے شامل تھے پارٹی کی اعلیٰ قیادت کا حکم تھا اس کے علاوہ کئی رہنماؤں کو تو لوگوں نے آکر کہا کہ کہاں ہو باہر نکلو۔
سندھ میں بڑے پیمانے پر پرتشدد گرفتاریوں اور پرتشدد واقعات کے بعد ادیبوں اور شعرا نے بھی اپنا کردار ادا کیا اور فوج کے مظالم کے خلاف گیت بھی گائے جانے لگے۔ کراچی، حیدرآباد، خیرپور اور سکھر کی بڑی جیلیں سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں سے بھر گئیں۔ ضلعی جیلوں میں اسیروں کو رکھا گیا۔
سندھ میں ایسی کئی کہانیاں اب بھی موجود ہیں کہ عام شہری، کسان اور طالب علم کس طرح جمہوریت کی بحالی کا حصہ بن گئے، لیکن اخبارات پر سینسر شپ کی وجہ سے یہ کہانیاں سامنے نہیں آ سکیں، بعد میں میڈیا کو جب آزادی ملی تو اس نے ماضی کو بھول کر آگے بڑھانے ہی بہتر جانا۔نتیجے میں جمہوریت کی بحالی کے حقیقی ہیرو گمنام رہے۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).