یہ سکول ہیں یا پھانسی گھاٹ


”سکول وہ عمارت ہے جس کی چار دیواری کے اندر آپ کا آنے والا کل پایا جاتا ہے۔“ تعلیمی ادارے قوم کا اندرونہ زبان حال سے بیان کر دیتے ہیں۔ ان اداروں کی سنجیدگی، دیانت اور مہارت کل کی راہنما نسل کی خبر لاتی ہے تو لا پرواہی، بددیانتی اور غیر سنجیدگی قوم کے در دیوار پر اگنے والے خار دار ببول کو حتمیت کی ردا پہناتی ہے۔

تعلیمی ادارے ہی وہ نرسری ہیں جہاں سے کل کے سیاستدان، سپہ سالار، سپاہی منصف اور استاد پیدا ہوتے ہیں۔ جو آنے والے کل کی ضمانت بنتے ہیں۔ بحیثیت قوم کل کی سمت کیا ہو گی اس کی نشاندہی کرتے ہیں۔ آپ کہیں بھی چلے جائیں جتنے بھی بڑے مقام و مرتبہ پر فائز ہو جائیں تعلیمی ادارے میں گزارے ہوئے ایام کے نقش دل و دماغ پر ہمیشہ قائم رہتے ہیں۔

گورنمنٹ ہائی سکول چونڈہ کے بڑے دروازے سے داخل ہوتے ہی دائیں طرف سائیکل اسٹینڈ تھا۔ کبھی سائیکل پر سکول جاتے تو اسی جگہ سائیکل تالہ لگا کر کھڑی کرتے۔ چوکیدار ساری سائیکلوں کو ترتیب سے قطار میں کھڑا کر کے ان کے اندر سے ایک بڑی سی چین گزار کر باندھ دیتا۔ اب سائیکل چھٹی ہونے پر ہی مل سکتی تھی اس سے پہلے نہیں۔ اسی سائیکل اسٹینڈ کی لمبی سی دیوار پر سیاہی سے جلی حروف میں ایک عبارت لکھی تھی جو آج تیس سال گزرنے کے بعد بھی اسی طرح صاف لکھی نظر آتی ہے۔ تین چیزوں سے پرہیز۔ شیزان۔ شیطان۔ قادیان۔

یہ پھر بھی بھلا وقت تھا ابھی سر تن سے جدا کرنے کے نعرے مارکیٹ میں عام نہیں تھے۔ ابھی کاپیوں کتابوں کے کور پر نفرت انگیز مواد تحریر نہیں تھا۔ شرف انسانیت کا کچھ پاس ابھی باقی تھا۔ اختلاف مذہب و عقیدہ کے باوجود اکٹھے سفر کرنا ممکن تھا۔ ایک ہی کلاس میں احمدی، مسلم، غیر مسلم، عیسائی سب بیٹھ سکتے تھے۔ ہمارے ایک استاد احمدی تھے تو ایک عیسائی بھی تھے۔ سب کا احترام بطور استاد برابر تھا۔ ابھی مذہب و عقیدہ کی عینک ہر معصوم بچے کی ناک پر زبردستی ٹکائی نہیں گئی تھی۔

تاہم ایسی عینکوں کو تیار کرنے کی فیکٹریاں ضرور لگ چکی تھیں جو دھڑا دھڑ خام مال کو جنونیت کی تہ در تہ دبیز پرتیں چڑھا کر تیار کرنے میں دن رات مصروف تھیں۔ ”مرد مومن“ کے پتلے کو بیچ آسمان پھٹتے تو دیکھ چکے تھے لیکن اس کی راکھ آنے والی کتنی نسلوں کی بینائی اچک کر لے جائے گی اس کا اندازہ شاید ابھی نہیں لگایا گیا تھا۔ آج وہ جن پوری طرح معاشرے کو لپیٹ میں لئے ہوئے ہے۔ کوئی در دیوار اس سے محفوظ ہیں نہ قبرستان۔ مساجد محفوظ ہیں نہ سکول۔

کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ اپنے جس بچے کو حصول تعلیم کے لئے بھیج رہے ہیں جس پر آپ سرمایہ کاری کر رہے ہیں، جسے معاشرے میں عزت و آبرو سے زندگی گزارتے دیکھنے کے خواب پال رہے ہیں، جسے توقیر کے اعلٰی مراتب پر فائز ہونے کا تصور جمائے بیٹھے ہیں۔ وہ علم و معرفت کی معراج پانے یا اس طرف مائل ہونے، غور و فکر اور تدبر کی عادت ڈالنے، علمی میدان کا شہسوار بننے، تحقیقاتی میدانوں میں آگے بڑھنے، دلیل اور حسن خلق سے دوسروں کو قائل کرنے کے بجائے لوگوں کی گردنیں ماریں اور ان کی جان و مال و عزت و آبرو پر حملہ کرنے، کسی کو بھی کہیں بھی اپنی مرضی سے اختلاف رائے و مذہب و عقیدہ کی بنا پر از خود فیصلہ کر کے سر تن سے جدا کرنے والی خود کار مشین میں تبدیل ہو رہا ہے۔ ایسی درس گاہیں جن کے در دیوار پر انسانی لہو، جس کی حرمت قائم کی گئی تھی، کو ارزاں کرنے کے پیغامات جلی حروف میں تحریر ہوں وہاں سے کیسے معماران قوم برآمد ہوں گے اس کو سمجھنے کے لئے کسی افلاطون کی ضرورت تو نہیں ہے۔ ”سکول وہ عمارت ہے جس کی چار دیواری کے اندر آپ کا آنے والا کل پایا جاتا ہے۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments