گلگت بلتستان کی خواتین اور ثقافت


یوں لگتا ہے کہ گلگت بلتستان کی ثقافت شیشہ سے بھی نازک ہے۔ جب بھی گلگت بلتستان کی خواتین کسی سماجی سر گرمی مثلاً کھیل، موسیقی، شاعری وغیرہ میں حصہ لینے کی کوشش کرتی ہیں تو فوراً ثقافت کا پیالہ چور چور ہوتا ہے۔ ادھر خواتین کے لیے کوئی سرگرمی کا اعلان ہوتا ہے ادھر ثقافت کی بنیادیں ہلنے لگتی ہے۔ حال ہی میں گلگت میں خواتین کے لیے سپورٹس میلہ کا انعقاد کا اعلان ہوا تو ایک بار پھر بہت سوں کے ثقافت و ایمان کا جامہ تار تار ہونے لگا۔

اس سپورٹس میلہ کو روکنے کے لیے ثقافت اور ایمان بچاؤ تحریک زوروں پر ہے۔ اس کار خیر میں نہ صرف عام لوگ شامل ہیں بلکہ چند سیاستدان اور مسجد و منبر کے رکھوالے بھی شامل ہیں۔ اس تحریک کو دیکھ کر ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ آخر گلگت بلتستان ثقافت کیا ہے؟ خواتین سے ہی ثقافت کو خطرہ کیوں لاحق ہوتی ہے؟ کیا خواتین کی بھی کوئی ثقافت ہوتی ہے یا صرف مردوں کی ہوتی ہے؟ کیا گلگت بلتستان میں صرف ایک ثقافت ہے؟

ثقافت ایک پیچیدہ موضوع ہے۔ اس کا تعلق انسان کی زندگی اور معاشرہ سے ہے اور انسانی زندگی اور معاشرہ ارتقا پذیر ہے اس لیے ثقافت بھی کوئی جامد چیز نہیں ہے بلکہ یہ بھی معاشرہ کے ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ کوئی بھی ثقافت انسانوں کے ایک دوسرے سے اور اپنے ماحول سے ارتباط سے وجود میں آتی ہے اور ارتقا پاتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ مختلف ثقافتی سرگرمیوں کی انجام دہی مختلف طبقہ سے مخصوص کیا جاتا ہے اور اس اختصاص کی فیصلہ سازی میں طاقتور طبقہ اور اشرفیہ کا کردار بہت زیادہ ہوتا ہے۔

دنیا کے دوسرے حصوں کی طرح گلگت بلتستان کی تاریخ کو بھی قبائلی نظام سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ قبائلی اور پدر شاہی نظام کا تعلق بہت گہرا ہے۔ ایک قبائلی معاشرہ میں پدر شاہی اقدار کا اثر گہرا ہوتا ہے۔ قبائلی یا پدر شاہی نظام معاشرہ کو دو دائروں میں تقسیم کرتا ہے نجی دائرہ اور عوامی دائرہ۔ اس نظام میں خواتین کو عموماً نجی دائرہ میں محدود کیا جاتا ہے اور مرد عوامی دائرہ کا مالک ہوتا ہے۔ تمام اہم امور بشمول ثقافتی سرگرمیاں زیادہ تر عوامی دائرہ میں انجام پاتے ہیں اس لئے خواتین ثقافتی سرگرمیوں سے محروم ہونے کی وجہ سے اہم فیصلوں سے بھی دور ہوتے ہیں۔

اگر کوئی خاتون عوامی دائرہ میں قدم رکھنے کی کوشش کرتی ہے تو اس قدم کو حد سے تجاوز سمجھ بدکرداری قرار دیا گیا۔ یہی وجہ ہے گلگت بلتستان میں جب بھی خواتین کھیل، موسیقی، شاعری، رقص اور دیگر ثقافتی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی کوشش کرتی ہیں تو ان کو نہ صرف سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ بد کرداری کا طعنہ بھی سہنا پڑتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ گلگت بلتستان کی ثقافت مردوں کی ثقافت ہے تو بے جا نہیں ہو گا۔

گلگت بلتستان میں اگر رسمی تعلیم کی تارٰیخ مختصر ہے تو خواتین کی تعلیم کی تاریخ مختصر ترین ہے۔ رسمی تعلیم کے اجرا کے ساتھ لڑکیوں نے تعلیم حاصل کرنا شروع کیا۔ (یاد رکھا جائے کہ گلگت بلتستان میں مختلف وادیوں کی تعلیمی تاریخ و ارتقا بھی مختلف ہے۔ کچھ ضلعوں میں آج بچیوں کی تعلیم شرح بہتر ہے تو چند میں بہت ہی کم ہے۔ ) بہرحال بہت سارے دشواریوں کے باوجود آج گلگت بلتستان میں خواتین کی ایک بڑی تعداد اعلٰی تعلیم یافتہ ہے۔

یہ تعلیم یافتہ خواتین اب بہت سے شعبوں میں کام کر رہی ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کے مسائل کم ہو گئے بلکہ ان مسائل بڑھ گئے ہیں۔ چونکہ اب یہ خواتین نجی دائرہ سے نکل کر عوامی دائرہ میں داخل ہو چکی ہے۔ اور بہت سے مردوں کو یہ بات قابل قبول نہیں ہے کہ خواتین بھی عوامی دائرہ میں اب کا حصہ دار بنیں۔ اس لئے خواتین کی راہ میں ہر قسم کی رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوشش جاتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ آج جب بھی کوئی خاتون کسی غیر رسمی سرگرمی، مثلاً کھیل، موسیقی، شاعری، صحافت یا دوسرے شعبوں میں میں قدم رکھتی ہے تو بہت سوں کے قبائلی اور پدر شاہی نسیں بیدار ہوجاتی ہیں۔ ان کو خواتین پر اپنی اجارا داری خطرے میں نظر آتی ہے۔ ان کے پاس اب خواتین کو روکنے کے لیے کوئی اور چارہ باقی نہیں رہا ہے اس لیے مذہب اور ثقافت کا سہارا لیتے ہیں۔

گلگت بلتستان کی ثقافت کیا ہے؟ گلگت بلتستان بنیادی طور پر ایک کثیرالسانی، کثیر النسلی اور کثیرالمسلکی خطہ ہے۔ بالفاظ دیگر گلگت بلتستان ایک کثیر الثقافتی خطہ ہے۔ یہاں ثقافتیں ہیں نہ کہ ایک ثقافت۔ گلگت بلتستان کے ہر وادی کی ثقافتی ارتقا بھی مختلف طریقے سے ہوئی ہے۔ اس لیے خواتین کی معاشرے میں شمولیت کی ارتقا کا سفر بھی ہر وادی میں مختلف ہے۔ لہذا ایک ثقافت کے نام پر ایک مخصوص سوچ کو دوسروں پر تھوپنے سے گریز کرنے کی ضرورت ہے۔

آخر یہ کہ گلگت بلتستان میں خواتین کی وجود ایک حقیقت ہے۔ آج وہ نہ صرف تعلیم یافتہ ہے بلکہ اہلیت کے لحاظ سے بھی وہ مردوں سے کمتر نہیں ہے۔ لیکن ان کو اس سماجی اور معاشی لحاظ سے ناہموار معاشرہ میں مردوں کے مقابلے میں کئی گناہ زیادہ دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دنیا کی نسوانی تحریکوں کی تاریخ سے واضح ہوتی ہے کہ خواتین کی کوششوں اور قربانیوں سے ہی ان کو حقوق ملے ہیں۔ یہ راستہ آسان نہیں ہے۔ یہ ایک دشوار اور پر خطر راستہ ہے۔

گلگت بلتستان کی خواتین کو اب اٹھنا پڑے گا اور ان ثقافتی مجاہدین کو بتانا پڑے گا کہ جس طرح مردوں کی جسمانی صحت کے لیے کھیل اور تفریح ضروری ہے اسی طرح ان کو بھی جسمانی اور ذہنی طور پر صحت مند رہنے کے لیے کھیل اور تفریحی سرگرمی اہم ہے۔ اب ثقافت کے نام پر انھیں بے وقوف نہیں بنایا جاسکتا۔ گلگت بلتستان کی خواتین کو موجودہ یعنی مردوں کی ثقافت میں کچھ نہیں ہے اس لئے ان کو ایک نئی ثقافت تخلیق کرنا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments