قلی بابا اور سات چور: الیگزنڈر کوپرن کا ایک افسانہ


(اس کہانی کا پاکستان کے حالات حاضرہ یا سیاست دانوں اور حکمرانوں کے کردار سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر قارئین اس کے باوجود کوئی تعلق محسوس کریں تو یہ فقط ایک اتفاقی اور حادثاتی امر ہو گا۔ )

جولائی کی ایک شدید گرم سہ پہر میں لو کے تھپیڑے چل رہے تھے۔ سفیدی کیے مکانوں کی چمک سے آنکھیں چندھیا رہی تھیں۔ پتھریلی عمارتیں آگ اگل رہی تھیں۔ اڑیسہ کے اس قصبے کی سنسان سڑکوں پر کولتار موم کی طرح پگھل رہا تھا۔ ذرا فاصلے پر زرد دھوپ میں نہلایا ہوا بحیرہ اسود ہلدی سے بھرا پیالہ لگ رہا تھا۔

روس میں اقلیتوں کے خلاف فسادات روز کا معمول تھے۔ لیکن اب ان فسادات کی شدت یہودیوں کے خلاف نسل کشی کے پوگروم میں بدل چکی تھی۔

ایک چھوٹے سے تھیٹر کی لابی میں چند مقامی بیرسٹر اس قتل عام کے شکار یہودیوں کا دفاع کرنے کے لئے حکومت سے چھپ کر جمع ہوتے تھے۔

سارے دن کی تھکن کے بعد اب یہ بیرسٹرز آج کا کام ختم کرنے کے قریب تھے۔ گرمی سے سب کا برا حال تھا۔ اس کمیٹی کا چیئرمین ایک نوجوان ترقی پسند بیرسٹر تھا جو اس وقت صرف اجلاس کے ختم ہونے کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ وہ فوراً اپنی نئی سائکل پر گھر جانا چاہتا تھا تاکہ کپڑے بدل کر سمندر کے ٹھنڈے پانی میں غوطہ لگائے اور اس دم گھونٹنے والی گرمی سے تھوڑی سی پناہ پا سکے۔

”اور کوئی اہم کیس ہے جو میٹنگ ختم ہونے سے پہلے کمیٹی کی توجہ کا طالب ہو۔“
چیئرمین نے بڑی سنجیدگی سے اعلان کیا۔
”ہاں ہے۔ ٹھنڈے ٹھار شربت کا۔“

ایک اور نوجوان بیرسٹر نے اپنی طرف سے آہستہ سے کہا، لیکن اتنا آہستہ بھی نہیں کہ کوئی اور نہ سن سکے۔ ایک قہقہہ بلند ہوا۔ چیئرمین نے غصے سے بیرسٹر کی طرف دیکھا لیکن زیر لب مسکرائے بغیر نہ رہ سکا۔

اتنے میں اچانک باہر کچھ شور ہوا۔ دربان بھاگا ہوا آیا اور کہا کہ کچھ عجیب سے حلیے کے لوگ اندر آنا چاہتے ہیں۔

”اب کیا کیا جائے؟“
چیئرمین نے پوچھا۔
”بھاڑ میں جائیں یہ لوگ۔ میں تو بہت تھک گیا ہوں۔ کافی کام ہو چکا۔ بس اب باقی کل دیکھا جائے گا۔“
شربت کے خواہشمند بیرسٹر نے جواب دیا۔
”چلو خیر، ان کو بلا لو اندر۔ لیکن پہلے میرے لیے فرنچ پانی کی ایک بوتل لاؤ۔ یخ ٹھنڈی۔“
چیئرمین نے دربان کو حکم دیا۔

دروازہ کھلا۔ سات لوگ ایک قطار بنائے تھیٹر کی لابی میں داخل ہوئے۔ سب سے آگے ایک پر اعتماد ادھیڑ عمر کا شخص تھا۔ اس نے سلیٹی رنگ کا سوٹ پہنا ہوا تھا۔ سفید دھاریوں والی گلابی قمیص اور کوٹ کے کاج میں سرخ گلاب کا پھول۔ مونچھیں طرح دار فوجی انداز کی اور ناک پر بغیر فریم کی عینک۔ دائیں ہاتھ میں چاندی کے گول ہتھے والی آبنوسی چھڑی اور بائیں ہاتھ میں ایک نیلا ریشمی رومال۔

باقی چھہ نے لگتا تھا کہ کپڑے عجلت میں اپنے اوپر لادے ہوئے تھے اور ان کے خد و خال، ہاتھ پاؤں، سارا وجود ہی جیسے مارا ماری میں تھوپا گیا تھا۔ ایک کا چہرہ پتھر کے تراشے ہوئے رومن سینیٹر کا سا تھا جس نے چیتھڑوں کا ٹوگا پہنا ہوا تھا۔ دوسرے نے پتلون پر اسی کپڑے کی واسکٹ پہنی تھی۔ ٹائی بھی ساتھ، لیکن بغیر قمیص کے۔ کچھ کے چہروں پر جلی حروف میں لکھا تھا کہ وہ جرائم پیشہ عناصر سے تعلق رکھتے ہیں لیکن بلا کی خود اعتمادی جیسے انہیں یقین کامل ہو کہ وہ راہ راست پر ہیں اور باقی سب بھٹکے ہوئے۔

لیڈر نے کاؤنٹر کے قریب آ کر نیم سوالیہ انداز میں چیئرمین کی طرف دیکھا اور کہا۔
” مسٹر چیئرمین؟“

”ہاں میں ہی چیئرمین ہوں۔ کیا کام ہے؟ ہم آج کی میٹنگ ختم کرنے والے ہیں۔ جو کچھ بھی کہنا ہے جلدی سے کہو۔ ہمارے پاس بالکل وقت نہیں۔“

لیڈر نے بہت مدبرانہ انداز میں بیرسٹرز کی پوری کمیٹی کا جائزہ لیا اور پھر ایک منجھے ہوئے خطیب کی طرح بولنا شروع کیا۔

”حضرات، میرا نام قلی بابا ہے۔ وہ قلی نہیں جو سامان ڈھوتا ہے بلکہ یہ میرے پیدائشی نام قلاقوف کا مخفف ہے۔ مجھے اس وفد کے ممبران نے جمہوری طریقے سے اپنا سربراہ اور ترجمان منتخب کیا ہے۔ یہ وفد کارکوف۔ راسٹوف اور اڈیسہ کی متحدہ چوروں کی انجمن امداد باہمی کی نمائندگی کرتا ہے۔“

بیرسٹرز اپنی اپنی کرسیوں میں چونکے۔ کچھ نے پریشانی اور کنفیوژن میں پہلو بدلے۔ چیئرمین کی آنکھیں، جو چند لمحوں پہلے تھکی تھکی خمار آلود سی لگ رہی تھیں، اب پپوٹوں سے باہر نکلنے کے قریب تھیں۔

” انجمن امداد باہمی؟ کس کی انجمن امداد باہمی؟“
فرط حیرت سے چیئرمین نے پوچھا۔

”چوروں کی۔ حضور، چوروں کی انجمن امداد باہمی۔ نہ صرف اڑیسہ بلکہ پورے ریجن کی، کارکوف، راسٹوف اور اڈیسہ پر مشتمل انجمن۔ اور یہ خاکسار اس انجمن کا ایک ادنی کارکن ہے جس کو ان معزز ساتھیوں نے نمائندگی کا اعزاز بخشا ہے۔“

قلی بابا نے اپنے چھہ ساتھیوں کو ہاتھ کے ایک اشارے سے وسیع دائرے میں لپیٹتے ہوئے کہا۔
”بہت خوشی ہوئی آپ سے مل کر۔“
چیئرمین نے کچھ طنزیہ اور کچھ قلی بابا کے انداز تکلم سے متاثر ہو کر کہا۔

”شکریہ چیئرمین صاحب۔ یہ آپ کا حسن ظن ہے۔ تو میں یہ عرض کر رہا تھا کہ اگرچہ ہم چور ہیں لیکن اس بات پر شرمندہ نہیں بلکہ ہمیں اس پیشے پر ناز ہے۔ اس وفد میں مختلف محکموں سے ایک ایک نمائندہ شامل کیا گیا ہے۔ ہم اپنی درخواست اور مطالبات آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتے ہیں۔ “

” لیکن ہماری کمیٹی کا آپ کی چوروں کی انجمن سے کیا تعلق؟“
چیئرمین نے سوال کیا۔
”آپ کا سوال بجا ہے۔ میں ضرور اس کا تسلی بخش جواب دوں گا۔ بہت بہت شکریہ۔“

alexander kuprin

قلی بابا نے بیان جاری رکھتے ہوئے کہا۔

”جو معاملہ میں آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں وہ بہت صاف، شفاف اور مختصر ہے۔ مجھے احساس ہے کہ آپ کی میٹنگ کا وقت تقریباً ختم ہو چکا ہے اور 115 ڈگری میں سائے میں بھی بیٹھنا آسان نہیں۔ میں زیادہ سے زیادہ آپ کے سات منٹ لوں گا۔“

چوروں کے سردار نے ایک منٹ فی چور الاٹ کر کے اپنی بھاری سونے کی گھڑی میں وقت دیکھتے ہوئے کہا۔ چیئرمین نے اثبات میں سر ہلایا۔

”حضرات، آج کل اخباروں میں جو خبریں آ رہی ہیں انہیں پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ حالیہ قتل عام کی ذمہ داری پولیس، سیاست دانوں، غنڈوں، بدمعاشوں، لچوں اور لفنگوں پر ڈالنے کے علاوہ ہم جیسے معزز پیشہ ورانہ چوروں پر بھی ڈالی جا رہی ہے۔ شروع شروع میں ہم اس سراسر زیادتی اور نا انصافی پر خاموش رہے۔ لیکن کب تلک؟ برداشت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ ہم پر ایسے جرم کا الزام لگایا جا رہا ہے جس کے ہم نہ صرف مرتکب نہیں ہوئے بلکہ جس کی ہم نے ہمیشہ مخالفت کی۔

میں پورے وثوق سے یہ دعوٰی کرتا ہوں کہ یہ الزام حتمی طور پر لایعنی ہے، بہتان ہے۔ افترا ہے۔ یہ حقائق کے خلاف ہی نہیں، منطق کے خلاف بھی ہے۔ اگر آپ اجازت مرحمت فرمائیں تو میں اپنے موقف کو دلائل کی مدد سے چند لمحوں میں ثابت کر سکتا ہوں۔ ”

مقرر کی لفاظی عروج پر تھی۔ چیئرمین سے اجازت مرحمت ہوتے ہی اس نے دربان سے شربت کا ایک گلاس لانے کی فرمائش کی اور مدلل تقریر دوبارہ شروع کر دی۔

”نوازش، شکریہ چیئرمین صاحب۔ سب سے پہلے تو میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ جیسے ایک مشہور فلسفی نے کہا ہے کہ ملکیت کا وجود ہی سب سے بڑی ڈاکا زنی ہے۔ اور اس دلیل کو آج تک کوئی بڑے سے بڑا سرکاری مفکر یا کوئی مسٹنڈا پادری غلط ثابت کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ معزز حضرات، میں اپنے عالی منصب پیشے کے دفاع میں کوئی اخلاقی دلیل نہیں دوں گا، یا اس پیشے کی معاشرتی ضرورت پر بحث نہیں کروں گا۔ لیکن آپ پڑھے لکھے ہیں اور بہتر سمجھتے ہیں۔

فرض کیجیے کہ ایک لکھ پتی اپنے لاکھ روبل اور ساری جائیداد اپنے عیاش، بدمعاش، بے وقوف اور آکاش بیل کی طرح دوسروں کا خون چوس کر پروان چڑھنے والے بیٹے کے لئے چھوڑ کر مر جاتا ہے۔ اب آپ خود ہی سوچئے اس میں مزدور طبقے کے ایک لاکھ خاندان ایک لاکھ وقت کا کھانا کھا سکتے تھے۔ پیسے کی یہ ذخیرہ اندوزی، اور دولت کے یہ انبار، ایک ہاتھ میں جمع ہونا معاشرتی گناہ بھی ہے اور جرم بھی۔ ہم معاشرے میں دولت کی منصفانہ تقسیم کے حق میں ہی نہیں بلکہ اس مقصد کے حصول کی ایک اہم کڑی ہیں۔ یہ ہمارا پیشہ ہی ہے جو مستحق کو اس کا حق پہنچانے میں ریاست اور معاشرے کی مدد کرتا ہے۔

یہ کہیں نہیں لکھا کہ کسی کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ ان کامریڈ مزدوروں کے منہ سے لقمہ چھین کر اپنی تجوریاں بھرے۔ ہم دولت کی منصفانہ تقسیم میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں اور بے تحاشا دولت کے ذخیرہ اندوزوں سے مال متاع چرا کر حق بہ حقدار رسید، غریبوں میں ان کا حق تقسیم کر دیتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ تقسیم ہماری جیبوں سے ہو کر گزرتی ہے۔

ہمیں خدائے بزرگ و برتر سے پوری امید ہے کہ وہ دن ضرور آئے گا جب دولت کا تصور تک صفحہ ہستی سے نیست و نابود ہو جائے گا۔ تب، افسوس، صد افسوس، ہمارا پیشہ بھی اپنی طبعی موت مر جائے گا۔ لیکن انسانیت کی فلاح کے لئے ہم یہ قربانی دینے کے لئے تیار ہیں۔ تیار ہی نہیں بلکہ جام شہادت نوش کرنے کے لئے بے چین ہیں۔ لیکن اس وقت کے آنے تک ہم جو کر رہے ہیں اس لئے کرتے رہیں گے کہ یہ ہمارا معاشرتی فرض ہے۔ ”

اب مقرر خود اپنی تقریر کی آواز سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ دربان ایک طشتری میں اس کے لئے شربت کا گلاس لئے کھڑا تھا۔ اس نے شربت کی چند چسکیاں لیں اور پھر جیسے نشے کی سی کیفیت میں تقریر جاری رکھی۔

”تو حضرات، میں عرض کر رہا تھا کہ اقتصادی، معاشرتی اور روحانی پہلوؤں سے دیکھا جائے تو ہمارے پیشے کی اہمیت اور معقولیت آپ پر عیاں ہو جاتی ہے۔ ہمارا پیشہ کوئی تخریبی عمل نہیں۔ یہ اپنی ذات میں ایک بہت بڑا آرٹ ہے۔ اور اسے آرٹ برائے آرٹ بھی اور آرٹ برائے مقصد بھی زندہ رکھنے کی کوشش ہم سب کی ذمہ داری ہے۔“

” آرٹ؟“
چیئرمین کے منہ سے یہ لفظ آسانی سے نہیں نکل رہا تھا۔

”جی حضور، آرٹ۔ فنون لطیفہ کی ہر خاصیت چوری میں پائی جاتی ہے۔ یہ ایک پیشہ بھی ہے، سائنس بھی۔ اس میں الوہیت بھی ہے، تخیل کی پرواز بھی۔ اختراع بھی ہے اور تخلیق بھی۔ یہ وسیلہ روزگار بھی ہے اور ایک طویل مدت کی شاگردی بھی۔ صرف ایک عنصر کی کمی ہے اور وہ ہے پارسائی۔“

alexander kuprin

کچھ بیرسٹر ہونق ہو کر اسے دیکھ رہے تھے۔ کچھ کے جبڑے فرش کو چھونے کے قریب تھے۔

”میں آپ کا زیادہ وقت نہیں لوں گا۔ مجھے احساس ہے کہ کچھ لوگوں کے ذہن اس بات کو تسلیم کرنے میں تامل کا مظاہرہ کریں گے کہ چوری واقعی ایک باعزت پیشہ ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ خداوند تعالی نے مختلف لوگوں کو مختلف خصوصیات سے نوازا ہے۔ کچھ کو چابک دستی، چستی، چالاکی اور غیر معمولی ذہانت بخشی۔ یہ لوگ تاش کے پتوں سے اپنی روزی کماتے ہیں۔ جیب کتروں کو خدا نے سبک روی، پھرتی اور چالاکی بخشی۔ حاضر جوابی سونے پر سہاگا۔

اور کچھ کو تجوریاں کھولنے کا فن ودیعت کیا۔ ایسے لوگ بچپن ہی سے ہر قسم کی مشینوں میں دلچسپی رکھتے ہیں اور ریڈیو، سائیکلوں اور سلائی مشینوں کے پرزوں کو کھول کھول کر واپس جوڑتے رہتے ہیں۔ پھر وہ بھی ہیں جو خطرات سے کھیلنے کو اپنی زندگی کا مقصد سمجھتے ہیں۔ انہیں کسی دولت کا لالچ، کسی عہدے کی تمنا، اور کسی عورت کی محبت چوری جیسے پر خطر پیشے سے دور نہیں رکھ سکتی۔ وہ صرف دل کی تیز دھڑکنوں، خون کے جوار بھاٹوں اور سانس کے تیز زیر و بم کی خاطر زندہ رہتے ہیں۔

بلا خطر آرام کی زندگی ان کے لیے موت کا پیغام ہے۔ اکثر اشرافیہ نہایت بے دلی سے ان جرات مندانہ خصوصیات کو سراہتے ہوئے کہتے ہیں کہ کاش یہ چور اپنی ہنر مندی کسی مثبت کام کے لئے استعمال کرتے۔ لیکن یہ اشرافیہ صرف نام کے اشرافیہ ہیں۔ ان نکموں کو خدا نے صرف احسان فراموشی کے لیے پیدا کیا ہے۔ وہ قوم کو خدا کی ایسی مرغی سمجھتے ہیں جو صرف ان کی اشتہا کی تسکین کے لیے بنائی گئی ہے۔ وہ اس کی بوٹیاں کھاتے ہیں، شوربہ پیتے ہیں اور ہڈیاں عوام کے لئے چھوڑ کر ان پر احسان کرتے ہیں۔

معاف کیجئے میں جذبات کی رو میں بہہ کر موضوع سے کچھ ہٹ گیا۔ تو میں یہ عرض کر رہا تھا کہ خدا جب کسی کو غیر معمولی ذہانت سے نوازتا ہے تو ضروری نہیں کہ وہ گرجا کا منافق پادری ہی بنے۔ وہ ایک اعلی درجے کا چور بھی بن سکتا ہے جس کی وجہ سے معاشرہ فطری ارتقا اور ترقی کی منازل طے کرتا ہے۔ ہم قوانین فطرت کی پابندی کرتے ہوئے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں جس پر صرف ہم کو ہی نہیں پوری قوم کو فخر ہونا چاہیے۔

آخر میں صرف یہ کہہ کر بات کو ختم کروں گا کہ ہمارا پیشہ کوئی آسان کام نہیں۔ یہ جان جوکھوں کا کام ہے۔ اس کے لیے خاص ہنر اور قابلیت چاہیے۔ اس میں خون پسینہ ایک کرنا پڑتا ہے۔ سالہا سال کی شاگردی کرنی پڑتی ہے۔ تب کہیں جا کر ایک قابل چور کی تخلیق ہوتی ہے۔ لیکن آپ یہ نہ سمجھیں کہ میں صرف لفاظی کر رہا ہوں۔ میں اپنے دعووں کے ثبوت کا مظاہرہ کرنا چاہتا ہوں۔ آپ کی اجازت ہے؟ ”

” ضرور، ضرور۔“
چیئرمین نے عجلت میں جواب دیا۔
چوروں کا قائد اپنے گروہ کی طرف مڑا اور پکارا۔
” سوسئی اعظم، ذرا ان بیرسٹرز کے سامنے آؤ۔“

ایک گینڈا نما شخص جس کے بازو اس کے گھٹنوں کو چھو رہے تھے اور جس کو خدا نے پیشانی اور گردن جیسے بے مصرف جسمانی حصوں سے نوازنے کا تردد نہیں کیا تھا آگے بڑھا۔

”حضرات، یہ کوئی دیو یا عفریت نہیں ہے۔ نہایت رحم دل اور غیر معمولی صلاحیتوں کا مالک سوسی ہے جس کو ہم احترام اور تحسین کی وجہ سے سوسئی اعظم کہتے ہیں۔ دنیا کا کوئی تالہ یا تجوری ایسی نہیں ہو گی جس کو یہ چند لمحوں میں نہ کھول سکے۔ اچھا بتائیں یہ دروازہ مقفل ہے؟“

چوروں کا سردار پھر لچھے دار زبان استعمال کر رہا تھا۔
” ہاں۔ مضبوطی سے بند ہے۔“

چیئرمین نے دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جہاں ایک بڑا سا بورڈ لٹکا ہوا تھا جس پر لکھا تھا ’سٹیج۔ داخلہ منع ہے‘ ۔ ’

” سوسئی اعظم، ذرا اپنا کمال دکھاؤ۔“
گینڈے نما انسان نے حقارت سے بند دروازے کی طرف دیکھا۔
” یہ خاک کمال ہے؟ یہ تو کچھ بھی نہیں۔“

یہ کہہ کر وہ گھٹنوں کے بل جھکا۔ جیب سے ایک چمکدار سا اوزار نکالا اور بڑے آرام سے تالے کے سوراخ کو کریدنا شروع کر دیا۔ کسی کمانی کے آہستہ سے چٹخنے کی آواز آئی اور ہاتھ کے ہلکے سے دباؤ سے دروازہ چوپٹ کھل گیا۔

”شکریہ سوسئی اعظم۔ اب تم اپنی جگہ واپس جا سکتے ہو۔“
”ایک منٹ، ایک منٹ، کیا سوسئی اعظم کے مظاہرے میں دروازہ بند کرنا بھی شامل ہے؟“

چیئرمین نے کچھ خفگی سے کہا۔ سوسی نے فوری طور پر سردار کی ابرو کی جنبش کا اشارہ پا کر اسی سرعت سے تالے اور دروازے کو دو بارہ بند کر دیا۔

”معزز بیرسٹرز صاحبان۔ اب مجھے اجازت دیجیے کہ اپنے وفد کے ایک اور فنکار کو آپ کی خدمت میں پیش کروں۔ یاشا جیب کتروں کا نمائندہ ہے اور تھیٹروں اور ریلوے سٹیشنوں میں جیبیں کترنے کے فن میں لاثانی ہے۔ ابھی ذرا کم عمر ہے اور اس کے باوجود ماہر فن ہے۔ لیکن اس سے پہلے کہ یاشا کچھ کہے میں پوچھنا چاہوں گا کہ آپ میں سے کوئی اپنے آپ کو اس دلچسپ تجربے کے لئے پیش کرنا چاہے گا؟“

بیرسٹر ابرامووچ اپنی کرسی سے اٹھ کر کاؤنٹر کے پاس آیا اور مصنوعی انکساری سے گویا ہوا۔
خاکسار حاضر ہے۔ جیسے دل چاہے کرشمہ سازی کریں۔ ”“

یاشا بیرسٹر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ اس کے بائیں بازو پر ایک ریشمی رنگ برنگا سکارف لٹکا ہوا تھا۔ وہ بیرسٹر سے مخاطب ہوا۔

”آپ بہت معزز دکھائی دیتے ہیں۔ فرض کیجئے آپ جیسا کوئی ارسٹوکریٹ تھیٹر سے ایک شو دیکھ کر نکلا ہے۔ اس نے آپ کی طرح تھری پیس سوٹ پہنا ہوا ہے۔ واسکٹ کی اس اندر والی جیب میں اس کی سونے کی گھڑی ہے۔“

یا شا نے ہلکے سے اس کی واسکٹ کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا۔

”اور اس کا بٹوا پتلون کی جیب میں ہے۔ اس کا سنہری سگریٹ کیس کوٹ کی دائیں اور لائیٹر بائیں جیب میں ہے۔ ایسا شخص ہمارے لیے نعمت خداوندی کے مترادف ہوتا ہے۔“

یاشا بھی لفاظی میں اپنے گروہ کے سرغنہ سے کم نہیں تھا۔ یہ کہہ کر یاشا مڑا اور اپنے ساتھیوں کے قریب پہنچنے والا ہی تھا کہ مقرر نے انتہائی آواز میں اسے پکارا اور ہاتھ کے اشارے سے بیرسٹر کی طرف مڑنے کو کہا۔ جب یاشا نے اس اشارے کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی تو اس کے لیڈر نے ڈانٹ کر کہا۔

” یاشا، واپس کرو۔“
یاشا غصے، خفگی اور مایوسی کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ پھر بیرسٹر کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا۔
” بیرسٹر صاحب آپ کی سونے کی گھڑی کہاں ہے؟“

بیرسٹر نے اضطراری طور پر واسکٹ کی اس جیب پر ہاتھ مارا جہاں وہ اپنی سونے کی قیمتی گھڑی رکھتا تھا۔ جیب خالی تھی۔

”بیرسٹر صاحب، جب میں دائیں ہاتھ سے آپ کو مختلف جیبوں کی جانب متوجہ کر رہا تھا اس وقت سکارف کے نیچے سے بائیں ہاتھ کی دو انگلیوں کی مدد سے میں آپ کی گھڑی نکال رہا تھا۔“

”لیکن تم نے یہ کیا کیسے؟“
بیرسٹر نے پوچھا۔
” چھوڑیں اس بات کو۔ یہ ہمارا کام ہے۔“

گھڑی واپس کر کے یاشا اپنے ساتھیوں میں شامل ہو گیا۔ چیئرمین کے چہرے سے لگ رہا تھا کہ وہ اس مظاہرے سے خاصا مرعوب ہوا ہے۔

”مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ ہم آپ کے فن کے قائل ہو گئے ہیں۔ ٹھیک ہے نا بیرسٹر ابرامووچ؟“
ابرامووچ نے کھسیانا سا ہو کر سر ہلا دیا۔
”لیکن بد قسمتی سے ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں۔ اب آپ اپنا مدعا بیان کریں۔ “
” جیسے آپ کا حکم۔“
یہ کہہ کر چوروں کے سرغنہ نے پھر سنجیدگی سے لیکن پر جوش انداز میں بولنا شروع کیا۔

”معزز بیرسٹر صاحبان۔ امید ہے کہ اب آپ کو یقین آ گیا ہو گا کہ ہمارا تعلق ایک باعزت پیشے سے ہے۔ ہم ایک ضابطہ اخلاق کی پیروی کرتے ہیں۔ ہم معاشرے کی فلاح و بہبود میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ باقی اور قابل احترام پیشوں کی طرح چوروں میں بھی کالی بھیڑیں ہوتی ہیں۔ ہمارے پیشے کو بھی ان نالی کے کیڑوں نے بدنام کیا ہوا ہے۔ لیکن اخباروں نے موقع غنیمت جان کر ایسے بدکردار لوگوں کو جو نہتی عورتوں پر حملے کرتے ہیں۔ جو بچوں کو اغوا کرتے ہیں۔ اور جو ہر قسم کا شرمناک جرم کرنے پر تیار ہوتے ہیں، ہمارے گروہ کے ساتھ جوڑنا شروع کر دیا ہے۔ ہم جیسے ایمان دار چوروں کے لیے یہ صورت حال ایک لمحہ فکریہ ہے۔ “

ایمان دار چوروں کا گھٹیا اور بے ایمان چوروں سے تقابل سن کر کچھ بیرسٹر ہنسی پر قابو نہ پا سکے۔ اس پر چوروں کے سردار نے انہیں تقریباً ڈانٹتے ہوئے کہا۔

”ٹھیک ہے آپ ہنس لیں۔ مگر یہ حقیقت ہے۔ اور جو سب سے تشویشناک بات ہے وہ یہ کہ حال ہی میں جو قتل عام ہوا ہے اور جس کے ازالے کے لئے آپ یہاں جمع ہوئے ہیں، اس کی ذمہ داری بھی ہم پر ڈالی جا رہی ہے۔ ہمارا موازنہ ان گرے ہوئے لوگوں سے کیا جا رہا ہے جن کی نہ کوئی اقدار ہیں اور نہ عزت نفس۔ ہمیں اس قتل عام کے الزام سے بھی زیادہ دکھ جس بات کا ہے وہ یہ کہ ہمیں ان لوگوں کی سطح پر لا کھڑا کر دیا گیا ہے۔

آپ بیرسٹر حضرات اس قتل عام کے خلاف شہادتیں جمع کر رہے ہیں۔ جب آپ سنتے ہیں کہ چوروں کی بھی ایک انجمن امداد باہمی ہے تو آپ کے لبوں پر مسکراہٹ کا آ جانا ایک فطری عمل معلوم ہوتا ہے۔ لیکن معزز سامعین، یہ ہماری بقا کا مسئلہ ہے۔ جب آپ کے اس فرقے کا قتل عام ہوتا ہے تو کیا ہمارا دل خون کے آنسو نہیں روتا؟ کیا ہمیں اپنی جانوں کے لالے نہیں پڑتے؟ کیا حکومت کے قازق غنڈوں کی زیادتیوں پر ہماری روحوں سے شعلے نہیں اٹھتے؟ کیا پولیس کے بدمعاش جب ہمیں گھوڑوں کے سموں تلے روندتے ہیں، ہماری ہڈیاں نہیں ٹوٹتیں؟

حضرات، ہم بھی اسی سرمستی سے اس حقیقی آزادی کا انتظار کر رہے ہیں جس کا آپ۔ ہم بھی اسی انقلاب کے متمنی ہیں جس کے آپ۔ ہم جانتے ہیں کہ اس فرسودہ نظام کے دن اب گنے چنے ہیں۔ سرکاری سکہ شاہی کی گرتی دیواروں کو بس ایک دھکا اور دینا ہے۔ ہم اس میں آپ کے ساتھ برابر کے شریک ہیں۔ اگر آپ کے پاس دماغ ہے تو ہمارے پاس دماغ کے ساتھ ساتھ سوسئی اعظم کی طرح جان پر کھیل جانے والے، شہادت کے متوالے جوان ہیں۔ یہ جوان انقلاب کے لیے ان حکومتی بدمعاشوں کی جان لے بھی سکتے ہیں اور اپنی جان قربان بھی کر سکتے ہیں۔ میری بس یہی التجا ہے کہ آپ ہم جیسے معتبر، نیک نیت اور دیانت دار چوروں کے خلاف رائے عامہ کو بھڑکانے کی جو کوشش ہو رہی ہے اس کو شکست دینے میں ہماری مدد کریں۔ بس۔ ”

تمام بیرسٹرز اس جذبات سے بھری تقریر سن کر بے انتہا متاثر ہوئے تھے۔ چیئرمین کاؤنٹر کے قریب آیا اور چوروں کے اس وفد کو مخاطب کر کے گویا ہوا۔

”آپ کی اس پر اثر تقریر نے ہمارے دل دہلا کر رکھ دیے ہیں۔ میں تمام موجود بیرسٹرز کی جانب سے آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے ہمیں خواب غفلت سے جگایا اور ہمیں احساس دلایا کہ چوروں کی انجمن امداد باہمی کس قدر معزز ادارہ ہے۔ ذاتی طور پر میں اجازت چاہوں گا کہ آپ سے ہاتھ ملا کر آپ کو خراج عقیدت پیش کروں۔“

دونوں قد آور شخصیتوں نے مصافحہ کیا اور ایک دوسرے کو توصیفی نظروں سے دیکھتے ہوئے دوبارہ ملنے کا وعدہ کیا۔ دونوں گروہ اب تھیٹر سے باہر نکل رہے تھے۔ ابھی چار بیرسٹرز کلوزٹ کے پاس اپنے کوٹ اور ہیٹ لینے کے لیے کھڑے تھے۔ ان میں ابرامووچ بھی شامل تھا جو یاشا کے سامنے قربانی کا بکرا بنا تھا۔ اس کو اپنا قیمتی اور نیا ہیٹ نہیں مل رہا تھا۔ جس کھونٹی پر اس نے ہیٹ ٹانگا تھا وہاں ایک گدلے سے رنگ کی اون کی گول ٹوپی لٹکی ہوئی تھی۔ بیرسٹر ابرامووچ ادھر ادھر دیکھ رہا تھا۔ اتنے میں ساتھ کے کمرے سے چوروں کی انجمن امداد باہمی کے سرغنہ کی گرج ناک آواز آئی،

”یاشا، بدمعاش، میں نے تمہیں کتنی بار سمجھایا ہے۔ اپنی ان بچگانہ حرکتوں سے باز آؤ۔ فوراً جاؤ اور معافی مانگو۔“

کمرے کا دروازہ کھلا، چوروں کا سرغنہ یاشا کو کان سے پکڑے ابرامووچ کے پاس آیا۔ یاشا کے ہاتھ میں ایک قیمتی اور نیا ہیٹ تھا جو اس نے بے دلی سے ابرامووچ کو تھما دیا۔ ابرامووچ نے گدلی سی ٹوپی یاشا کو واپس کی۔ چوروں کی انجمن امداد باہمی کے قائد نے چہرے پر ایک معنی خیز مسکراہٹ لئے بیرسٹرز کی کمیٹی کے ممبران اور ان کے چیئرمین کو دیکھا اور یاشا کے ساتھ سڑک کے پار منتظر اپنے وفد میں شامل ہو گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments