اپنے وقار اور عزت نفس کی حفاظت کریں


دو اکتوبر بائیس کی رات پاکستانی کرکٹ ٹیم کو انگلینڈ کے ہاتھوں مار کھاتا دیکھا تو خیال آیا کہ عزت اور وقار کے موضوع پر لکھا جائے اور اس بات کو سمجھا جائے کہ شکست اور ناکامی میں بھی وقار اور عزت کا ساتھ ہونا کتنا اہم ہوتا ہے۔

”دی اولڈ مین اینڈ دی سی“ ناول ہم میں سے اکثر نے پڑھا ہو گا جس میں رائٹر ہیمنگ وے نے قارئین کے لئے بہت سارے پیغامات میں سے ایک پیغام یہ بھی دیا ہے کہ کسی بھی مقابلے یا کام میں جیت اسی کی ہوتی ہے جو کوشش کرتا ہے، کچھ لوگ جیت کر بھی ہار جاتے ہیں اور کچھ ناول کے بزرگ آدمی کی طرح ہار کر بھی جیت جاتے ہیں۔ انسان ناکامی کے لئے نہیں بنا، ضرورت اس بات کی ہے کہ ناکامی کے اصل مفہوم کو سمجھا جائے اور کامیابی کو پا لیا جائے۔ اصل شکست ہمت ہارنا یا کوشش کا نہ ہونا ہے۔

اتحاد بڑی طاقت ہے۔ جیت کو حاصل کرنے میں جیت سے زیادہ اہمیت جیتنے کے لئے محنت، کوشش، ٹیم ورک اور نیک نیتی کی ہوتی ہے۔ اس کرکٹ میچ پر ہر کسی کی اپنی رائے ہے، اب آپ جو مرضی کہہ لیں جوا کھیلا گیا یا تحفہ دیا گیا، حقیقت سے تو ہم بے خبر ہیں، لیکن اتنا ضرور جانتے ہیں کہ مقابلہ کر کے نہیں ہارا گیا اور بحیثیت پاکستانی، اپنی قدر و قیمت کو کم کیا گیا۔ اس کے باوجود پاکستانی قوم یہ سب جلد بھول جائے گی کیونکہ ہمیں پاکستان اور پاکستان سے وابستہ ہر چیز سے پیار ہے۔ ویسے بھی ورلڈ کپ سر پر ہے اور وہ بھی دیکھنا ضروری ہے۔

اگر ہم پاکستانی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو اس میں ہمیشہ سے تسلسل کا فقدان رہا ہے، ہم ہارنے پر آئیں تو گلی محلے کے بچوں سے بھی برا کھیلتے ہیں اور جیتیں تو ہم سے مضبوط کوئی نہیں نظر آتا ہے۔ بات صرف کپتان کے ہاتھوں دو کیچ کا چھوٹ جانا یا اس کی بیٹنگ میں ناکامی نہیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ شکست کا انداز باعزت نہیں تھا۔

آئیں اب وقار کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ یہ ہوتا کیا ہے۔ عزت کے معیار اور اپنے وجود کی قیمت کا ادراک دراصل وقار ہے جس کو قربان کرنا انسان سے زیادہ انسانیت کی تذلیل ہے۔

رمیز راجہ جو آج کل چیئرمین کرکٹ بورڈ ہیں، موجودہ کرکٹ ٹیم کی ہار کا جواز پیش کرتے نظر آئے۔ ان کا کہنا ہے کہ انگلینڈ کی ٹیم 17 سال کے طویل عرصے بعد دورے پر پاکستان آئی تھی تو یہ کیسے ممکن تھا کہ ہم انہیں خالی ہاتھ اور بغیر ٹرافی کے واپس بھیج دیتے، تشریح آپ خود کر لیں۔

اب کچھ بات کرتے ہیں عزت و وقار کی اقسام پر۔ پہلی قسم وہ ہے جو ہر انسان کا پیدائشی حق ہے اور زندگی کے ساتھ رہتا ہے، یہ انسان کے تمام حقوق کی بنیاد بھی ہے۔ کوئی ایسا کام جو اشرف المخلوقات ہوتے ہوئے انسان کی توہین کا باعث ہو، مناسب نہیں۔ ملکی وقار کی اہمیت سے انکار ہرگز ممکن نہیں، پاکستانی ہونے کے ناتے ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے ملک کی عزت اور وقار کا ہر صورت دفاع اور تحفظ کریں۔

مقام اور احترام کی ایک قسم وہ ہے جو کسی فرد کو میرٹ پر حاصل ہوتی ہے جس کی وجہ معاشرے میں اس کا مرتبہ ہے لیکن اس میں توازن اور برابری کا تصور نہیں ہوتا ہے۔ عزت کی اس قسم کا آنا اور جانا بھی لگا رہتا ہے۔ اس کی چھوٹی سی مثال ہے جو ہم اکثر کہتے ہیں کہ کرسی کو سلام، کرسی چلی جائے تو احترام بھی عموماً چلا جاتا ہے۔ عمل غیر مناسب لیکن ایک حقیقت ہے۔

عزت اور وقار کی ایک قسم وہ ہے جو اخلاقیات اور اعلیٰ کردار کی وجہ سے ہوتی ہے، کوئی غیر اخلاقی حرکت چند لمحات میں اسے چھین بھی لیتی ہے۔

خاندان کے نام اور مقام سے ملنے والی عزت میں بھی انسان کا کمال نہیں ہوتا ہے۔ بہت سے لوگ خود کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی اپنے خاندان کے نام کی وجہ سے عزت دار کہلاتے ہیں۔

باوقار انسان کی اصل خوبصورتی یہی ہے کہ وہ ہر انسان کے اس حق کا احترام کرتا ہے جو پیدائشی طور پر عزت اور احترام کی شکل میں اللہ نے عطا کیا ہے۔ بقول شاعر

بے ادب ہر جگہ ہے بے عزت
با ادب باوقار ہوتا ہے

عزت نفس پر بھی کچھ روشنی ڈال لیتے ہیں۔ یہ وقار اور عاجزی کا مجموعہ ہے۔ کوشش کریں کہ انا قریب نہ آئے کیونکہ جہاں انا پرستی ہے وہاں غرور ہے اور غرور ایسی برائی ہے جو عزت، وقار اور عاجزی کو انسان سے چھین لیتی ہے۔

اپنے وقار اور عزت نفس کی حفاظت ضرور کریں چاہے کسی بھی شعبے سے آپ کا تعلق ہے تاکہ سر اٹھا کر جی سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments