شیر قلی کی جڑواں جھیلیں


کوہ ہمالیہ اور کوہ قراقرم کے درمیان موجود سطح مرتفع دیوسائی کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ 3000 مربع کلومیٹر کے وسیع و عریض نیشنل پارک میں کئی ایک ایسی جھیلیں واقع ہیں جو تاحال دنیا کی نظروں سے اوجھل ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق دیوسائی میں کم و بیش 36 چھوٹی بڑی جھیلیں واقع ہیں جن میں سے زیادہ تر تاحال پردہ گمنامی میں ہیں۔

ہماری معلومات کے مطابق شیوسر جھیل کے عقب میں بھی چند گمنام جھیلیں واقع ہیں۔ انہی جھیلوں تک رسائی کا ہدف لے کر ہم نے ایک مرتبہ پھر دیوسائی کا راستہ پکڑا۔ 14 اگست 2022 ء کی شام کو ہم شیوسر جھیل پر پہنچے جہاں اپنے محترم بھائی دولت خان کی کیمپ سائٹ واقع ہے۔ ایک مناسب مقام پر اپنا خیمہ نصب کیا۔ ہمارا گروپ لیڈر نصر بھٹی تھا۔ ٹیم میں خاکسار (سید ذیشان اقبال) کے علاوہ تلمیذ تھا۔ مقامی دوستوں میں دولت خان بھائی کے ساتھ محترم فدا علی سلطانی اور ہمارے راہنما DNP کے اسلم بھائی شامل تھے۔

15 اگست 2022 ء کی صبح 8 : 00 بجے ناشتہ کیا۔ ضروری سامان ساتھ لیا جس میں ہماری برساتیاں، گرم جرسیاں، چائے کا مکمل سامان اور اپنا آزمودہ سٹوو شامل تھا۔ یہ سارا سامان دو بیگز میں ترتیب دیا۔ کیمپ سائٹ سے ہم نے اپنا سفر 9 بجے شروع کیا۔ شیوسر جھیل کے کناروں پر چلتے ہوئے ہم اس کے عقب میں آ نکلے۔ چند ڈھلوانیں پار کرنے کے بعد شیوسر جھیل نظروں سے اوجھل ہو گئی۔ ہم ایک ایسی وادی میں داخل ہوئے جس میں جابجا پانی بہہ رہا تھا۔

بعض مقامات پر دلدلی زمین تھی اور بعض مقامات پر اسفنج کی طرح جس پر پاؤں رکھنے سے زمین دبتی تھی۔ ہمارے دائیں طرف دیوسائی کی بلند ڈھلوانیں تھی اور بائیں طرف ایک کھلا لہردار میدان۔ یہ سارا علاقہ ریچھوں کا مسکن ہے۔ جگہ جگہ ہمیں ریچھوں کا تازہ گوبر نظر آیا۔ چند مقامات پر ریچھ نے زمین کھودی ہوئی تھی۔ شاید مارموٹ کے شکار کے لیے۔ اس علاقے میں مارموٹ بھی بے شمار ہیں۔ ہماری خبر پاکر سیٹیاں مارتے ہوئے بلوں میں جا گھستے۔

ہم دو پہاڑوں کے درمیان ایک درے کی طرف بڑھ رہے تھے۔ راستے میں ایک چھوٹی سی جھیل آئی۔ یہ آم کی شکل کی جھیل تھی لہٰذا فدا علی سلطانی نے اسے Mango Lake کا نام دیا۔ یہ جھیل ایک الپائن جھیل تھی۔ اس کی لمبائی کم و بیش 50 میٹر اور چوڑائی 30 میٹر کا احاطہ کیے ہوئے تھی۔ اس جھیل پر عکس بندی کے بعد ہم نے سفر جاری رکھا۔ اب سفر مسلسل بلندی مائل ہو چکا تھا۔ ہم دو گھنٹے کا سفر کر کے شیر قلی ٹاپ پر جا پہنچے جس کی بلندی 14400 فٹ ہے۔

شیر قلی ٹاپ سے دور سامنے جھیل کا ایک حصہ نظر آ رہا تھا۔ عقب میں شیوسر جھیل بھی دکھائی دے رہی تھی۔ ٹاپ پر ہم نے سفر معطل کیا۔ بادل گہرے ہوچکے تھے اور موسم ابر آلود ہو رہا تھا۔ بارش کسی بھی وقت شروع ہو سکتی تھی۔ ہم نے جلد از جلد جھیلوں پر پہنچنے کا فیصلہ کیا۔ اسی ارادے سے اٹھے اور چل پڑے۔

ٹاپ سے نیچے اترے۔ یہ سفر گھاس میں مستور ڈھلوانوں پر تھا۔ ہم جیسے ہی یہ اترائی اتر کر وادی میں پہنچے تو بارش شروع ہو گئی لیکن یہ ہلکی تھی۔ ہم نے برساتیاں اوڑھ لیں اور بغیر رکے سفر جاری رکھا۔ میدان پار کیا تو آخری ڈھلوان سامنے آ گئی۔ بارش کی وجہ سے راستے پر پھسلن پیدا ہو چکی تھی۔ ہمیں ایک مرتبہ پھر پتھروں اور چٹانوں پر چلنا پڑا۔ چٹانیں پہاڑ میں پیوست نہ تھیں۔ بعض پتھروں پر پاؤں رکھتے تو وہ لڑھکتے ہوئے عمیق وادی میں چلا جاتا۔

چٹانیں چڑھ کر اوپر پہنچے تو شیر قلی کی پہلی جھیل کے کناروں پر جا اترے۔ یہ جھیل کم و بیش 1000 میٹر لمبائی اور زیادہ سے زیادہ 600 میٹر چوڑائی پر محیط ہے۔ ہم بغیر رکے دوسری جھیل کی طرف چلے گئے۔ دوسری جھیل تک ہمیں صرف 5 منٹ کا وقت لگا۔ جھیلوں کے درمیان ایک مقام سے دونوں جھیلیں نظر آتی ہیں۔ دوسری جھیل کم و بیش 1200 میٹر لمبائی اور 800 میٹر چوڑائی کی حامل ہے۔

بڑی جھیل شیر قلی جھیل 1 کہلاتی ہے جس کی بلندی 14070 فٹ اور چھوٹی جھیل شیر قلی جھیل 2 کہلاتی ہے۔ اس جھیل کی بلندی 14060 فٹ ہے۔ جھیل 1 سے پانی خارج ہو کر جھیل 2 میں گرتا ہے اور جھیل 2 سے خارج ہو کر دونوں جھیلوں کا مشترکہ پانی سرسنگھڑی نالہ کہلاتا ہے۔ یہ ندی آگے چل کر ایک مقام پر کالا پانی ندی میں ضم ہوجاتی ہے۔

دیوسائی کا سب سے بڑا دیو یہاں کا انتہائی بے اعتبار اور لمحہ بہ لمحہ بدلتا ہوا موسم ہے۔ شیر قلی جھیل 2 پر موسم اپنے جوبن پر آ گیا۔ موسلادھار بارش کے ساتھ ہوا کے جھکڑ چلنے لگے۔ سردی ہماری ہڈیوں میں سرایت کرنے لگی۔ سفر کی تھکاوٹ بھی تھی۔ پیدل چلنے کی وجہ سے ناشتہ کبھی کا ہضم ہو چکا تھا۔ بدن شدت سے کچھ کھانے کو مانگ رہا تھا لیکن موسم کے تھپیڑوں اور تھکاوٹ کی وجہ سے ہاتھ ہلانے کی بھی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔

تلمیذ اور میں نے چائے بنانے کا ارادہ کیا۔ پہاڑ کے پہلو میں دو بلند چٹانوں کا انتخاب کیا۔ یہاں ہوا سے خاصی حد تک بچاؤ ممکن تھا۔ ایک برساتی کو کھول کر چٹانوں کے درمیان باندھا جس سے بارش سے بچاؤ ممکن ہو گیا۔ پتھروں کو ترتیب دے کر سٹوو کے لیے جگہ بنائی۔ سٹوو میں آگ جلائی تو اس کی حرارت سے بدن میں گرمائش پیدا ہوئی۔ اسی اثناء میں نصر بھٹی، دولت خان بھائی اور فدا علی بھائی بھی آ گئے۔ چائے کی تیاری دولت خان بھائی نے سنبھال لی۔ ہمارے سٹوو نے اس بلندی اور موسم میں بھی بہترین کام کیا اور جلد ہی ہم گرم گرم چائے کے گھونٹ حلق سے اتارنے لگے۔ بسکٹ، کیک رس اور دیگر اشیائے خورد نے بدن کو توانائی فراہم کی۔ یہ ہماری زندگی کی یادگار چائے تھی۔

چائے نوشی کے دوران بارش تھم گئی۔ ہم نے فوراً عکس بندی کی۔ نصر بھٹی نے ڈرون کیمرے کا استعمال کیا اور پھر واپسی کی راہ پکڑی۔ واپسی کے سفر میں بھی بارش نے آ لیا۔ ہم اسی برستی بارش میں واپس روانہ ہوئے۔ شیر قلی ٹاپ پر پہنچے تو بارش میں تیزی آ گئی۔ آگے سفر اترائی کا تھا لہٰذا ہم نے اپنے قدم تیز کیے۔ شیوسر جھیل کے قریب پہنچے تو نہ صرف بارش تھم گئی بلکہ بادل بھی منتشر ہو گئے۔

شیوسر جھیل پر حسب معمول سیاحوں کی ٹولیاں موجود تھیں۔ ہم ان کے درمیان سے گزرتے ہوئے کیمپ سائٹ پہنچے جہاں مقامی لوگوں اور دوستوں نے ہمارا استقبال کیا اور نئی جھیلوں پر پہنچنے کی مبارکباد دی۔ ہمارا یہ سفر ہر لحاظ سے شاندار اور کامیاب رہا۔ ہماری زندگی کی کتاب سیاحت کے باب کوہ نوردی میں دو نئی جھیلوں کا اضافہ ہوا۔ اور اس کے لیے ہم اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہیں۔ الحمد للہ ثم الحمد للہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).